انصاف کے دیوتا
آج کیاہوتاہے،جج کیسے مقررہوتے ہیں؟ اوروہ پھر کیاکرتے ہیں؟یہ ہرکسی کوپتہ ہے
ISLAMABAD:
کوئی مانے یا نہ مانے سمجھے یانہ سمجھے سنے یا نہ سنے لیکن ''ریاست مدینہ'' لانچ ہوچکی ہے اورٹو پراگرس بھی ہے یاکم سے کم حکومت کی حد تک یا دوسرے الفاظ میں سرکاری طور پر تو ہم ریاست مدینہ میں رہ رہے ہیں اورہرطرف،صادقوں اورامینوں کی صداقت اورامانت کادوردورہ ہے ۔
ایسے میں اب یہ بھی لازم ہے اور ریاست مدینہ کی خاص خوبی ہے کہ ایک عام آدمی خلیفہ وقت پرسوال کھڑاکرسکے اورپچھتر سال پہلے کے اس قانون کو منسوخ کیاجائے کہ ''مقدس ہستیوں'' پر سوال کھڑا کرنا جرم ہے۔ یہ بحث تو ہم نہیں چھیڑیں گے کہ ''مقدس ہستیوں'' پر انگلی اٹھاناکیوں ممنوع قراردیا گیا، کیا اس کے پیچھے جرم چھپانے کی سوچ تو کارفرما نہیں تھی یا امکانی طورپر اگر ''مقدس ہستیاں''غلطی یاجرم کا ارتکاب کریں تو انھیں قانونی کور پہلے سے فراہم ہو اور ان کی حیثیت بالا دست کی ہو جائے۔
یہ ساری تمہید ہم نے ایک مکتوب کے لیے باندھی ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور متکوب بھیجنے والاعدل وانصاف گزیدہ ہے اور اس نے یہ سوال اٹھایاہے کہ ایسی مقدس ہستیاں خواہ کچھ بھی کریں، قانون انصاف اورعدل کا خون کریں ان پر انگلی اٹھاناجرم ہے ؟
جس مکتوب کا ہم ذکرکررہے ہیں وہ کراچی کے ایک معروف صحافی اورکالم نگارشیخ معظم خان مندوخیل ہے ،یہ کراچی کے اخباروں میں لکھتے ہیں اوران کے کالموں کے مجموعے ''ازخودنوٹس'' کے نام سے چھپ چکے ہیں،کچھ کتابوں کے بھی مصنف ہیں ،اس مکتوب میں بے شماراخباروں ،اتھارٹیوں اورلیڈروں کابھی ذکر ہے اوراس میں ان کی اپنی روداداورفریاد بیان کی گئی ہے اوران کے ساتھ ہونے والے ایک دردناک واقعے کاذکر کیاگیاہے۔لکھتے ہیں۔
بیس دن پہلے میرے بچوں کے ساتھ دہشت گردی اورڈکیتی کاواقعہ ہوگیا ،ڈائریکٹ سر پر گولی ماری گئی اورنولاکھ لوٹے گئے،ایف آئی آردرج کرا دی ،اب ظاہرسی بات ہے، قاتل جو وکیل کرتے، وکیل کو بھاری فیس دیتے اورمجرم چھوٹ جاتا۔
آگے کچھ ایسے فقرے ہیں جنھیں ہم نقل نہیں کر سکتے کیوں کہ آگے وہی ''توہین'' کی دیوار کھڑی ہے اورہمارے نظام عدل وانصاف اور انصاف داروں پر بہت سارے سوال کھڑے ہوگئے ہیں،اس سے آگے لکھتے ہیں۔
آج میں وطن کے محافظوں سے اپیل کرتاہوں کہ آپ نے حلف اٹھایاہے پاکستان اوربائیس کروڑ عوام کادفاع کرنا۔ہمیں باہرکے دشمن سے کوئی خطرہ نہیں اوراگر ہوبھی توہمیں آپ کی صلاحیتوں پریقین ہے لیکن عوام کوزیادہ خطرہ اندر کے ''دشمن'' سے ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ خاص لوگوں یا منصب داروں اور انصاف داروں کے بارے میں کہاگیاہے کہ اگر نظام انصاف سے منسلک لوگوں کی انکوائری ہوئی تو اتنی ناجائزدولت برآمد ہوجائے گی کہ پاکستان کا پچاس فی صد قرضہ اداہوجائے گا۔
خط بہت طویل ہے اورسارا زورنظام انصاف کی خرابیوں،رشوت خوریوں اورقانون فروشوں پرہے، لہجے اورالفاظ کواگرنرم سے نرم کردیاجائے توبھی خلاصہ کلام یہ ہے کہ قانون نظام انصاف اورفیصلوں کے بارے میں وہ سب کچھ ہے جو تقریباًہرکسی کے دل میں ہے لیکن منہ پر توہین کی مہریں ہیں۔لیکن اب جب کہ ریاست کو ریاست مدینہ ہونے کادعویٰ ہے اور حکمرانوں کو صادق وامین ہونے کا۔ تو ریاست مدینہ کا نظام احتساب بھی ہونا چاہیے اوراس نظام احتساب میں ایک عام آدمی کے پوچھنے پرخلیفہ وقت کوبھی جواب دینا پڑتا ہے کہ اس کے جسم پر ''دوچادروں'' جتنا لباس کیوں ہے جس میں خلیفہ اپنے بیٹے کوبھی جرم ثابت ہونے پرخوددرے لگاتاہے جس میں خلیفہ بننے پرخوشی نہیں منائی جاتی بلکہ رویاجاتاہے اوریہ ریاست مدینہ کی بھی نہیں بلکہ یزیدکے بعد ریاست دمشق کی بات ہے۔
حضرت عمربن عبدالعزیزکوجب پتہ چلاکہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے انھیں اپناجانشین نامزدکیا ہے تو وہ رونے لگے ،پوچھنے پرفرمایا اب تک تو میرے اوپر صرف اپنی ذمے داری تھی لیکن اب اگر دوردجلہ کے کنارے کسی کتے پر بھی ظلم ہوگا تو اس کی بھی ذمے داری مجھ پرہوگی۔
سیدھی سی بات ہے کہ جہاں اختیاروہاں ذمے داری بھی،جہاں ذمے داری وہاں اختیاربھی۔
لیکن ہمارے موجودہ نظام میں اختیاروالوں کو ذمے داری سے بالاترسمجھاجاتاہے۔ریاست کا باشندہ کوئی بھی ہوعام آدمی ہوکسان ہومزدورہوحاکم ہو وزیرہوصدرہوجج ہو یاجرنیل ۔اسے فرشتوں کی صف میں نہیںکھڑاکیاجاسکتا۔یہ ایسے معاشروں میں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مقدس ہوکر کسی بھی محاسبہ یامواخذہ سے بالاتر ہوجاتے ہیں یاکردیے جاتے ہیں۔
نظام انصاف ہی سے ایک مثال دینا چاہتا ہوں، دوست محمدکامل ایک بڑے پائے کے شاعر،ادیب اورمحقق ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پائے کے وکیل بھی تھے ہم سب کوان سے عقیدت تھی ،قلندر مومند نے تویہاں تک کہاتھا۔
داکامل ہم نشینی برکتی کڑم
تجربے مے پہ غزل کے روایات شی
یعنی مجھ کوکامل کی ہم نشینی نے برکت بخشی ہے چنانچہ میرے تجربے غزل میں روایات ہوجاتے ہیں۔
ایک دن میں اپنے گاؤں بلکہ رشتے داروں کاایک مقدمہ قتل ان کے پاس لے گیا تو فرمایاکہ میں تو فوجداری کیس نہیں لیتاصرف دیوانی کیس لیتا ہوں، کیوں کہ فوجداری میں اگرمیں نے کسی مجرم کوبچایایاکسی بے گناہ کوپھانسی چڑھایاتو اس کی تلافی ممکن نہیں مگردیوانی مقدمات میں مال و جائیداد کے معاملات ہوتے ہیں اگرغلطی ہوبھی جاتی ہے تواس کی تلافی بھی ہوسکتی ہے اوراگرنہیں بھی ہوئی توزیادہ سے زیادہ مال کانقصان ہوگا چنانچہ ان کو کئی مرتبہ جج بننے کی پیش کش ہوئی لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا۔
لیکن آج کیاہوتاہے،جج کیسے مقررہوتے ہیں؟ اوروہ پھر کیاکرتے ہیں؟یہ ہرکسی کوپتہ ہے اورشیخ معظم خان مندوخیل نے اپنے مکتوب میں یہی رونا رویاہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے سمجھے یانہ سمجھے سنے یا نہ سنے لیکن ''ریاست مدینہ'' لانچ ہوچکی ہے اورٹو پراگرس بھی ہے یاکم سے کم حکومت کی حد تک یا دوسرے الفاظ میں سرکاری طور پر تو ہم ریاست مدینہ میں رہ رہے ہیں اورہرطرف،صادقوں اورامینوں کی صداقت اورامانت کادوردورہ ہے ۔
ایسے میں اب یہ بھی لازم ہے اور ریاست مدینہ کی خاص خوبی ہے کہ ایک عام آدمی خلیفہ وقت پرسوال کھڑاکرسکے اورپچھتر سال پہلے کے اس قانون کو منسوخ کیاجائے کہ ''مقدس ہستیوں'' پر سوال کھڑا کرنا جرم ہے۔ یہ بحث تو ہم نہیں چھیڑیں گے کہ ''مقدس ہستیوں'' پر انگلی اٹھاناکیوں ممنوع قراردیا گیا، کیا اس کے پیچھے جرم چھپانے کی سوچ تو کارفرما نہیں تھی یا امکانی طورپر اگر ''مقدس ہستیاں''غلطی یاجرم کا ارتکاب کریں تو انھیں قانونی کور پہلے سے فراہم ہو اور ان کی حیثیت بالا دست کی ہو جائے۔
یہ ساری تمہید ہم نے ایک مکتوب کے لیے باندھی ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور متکوب بھیجنے والاعدل وانصاف گزیدہ ہے اور اس نے یہ سوال اٹھایاہے کہ ایسی مقدس ہستیاں خواہ کچھ بھی کریں، قانون انصاف اورعدل کا خون کریں ان پر انگلی اٹھاناجرم ہے ؟
جس مکتوب کا ہم ذکرکررہے ہیں وہ کراچی کے ایک معروف صحافی اورکالم نگارشیخ معظم خان مندوخیل ہے ،یہ کراچی کے اخباروں میں لکھتے ہیں اوران کے کالموں کے مجموعے ''ازخودنوٹس'' کے نام سے چھپ چکے ہیں،کچھ کتابوں کے بھی مصنف ہیں ،اس مکتوب میں بے شماراخباروں ،اتھارٹیوں اورلیڈروں کابھی ذکر ہے اوراس میں ان کی اپنی روداداورفریاد بیان کی گئی ہے اوران کے ساتھ ہونے والے ایک دردناک واقعے کاذکر کیاگیاہے۔لکھتے ہیں۔
بیس دن پہلے میرے بچوں کے ساتھ دہشت گردی اورڈکیتی کاواقعہ ہوگیا ،ڈائریکٹ سر پر گولی ماری گئی اورنولاکھ لوٹے گئے،ایف آئی آردرج کرا دی ،اب ظاہرسی بات ہے، قاتل جو وکیل کرتے، وکیل کو بھاری فیس دیتے اورمجرم چھوٹ جاتا۔
آگے کچھ ایسے فقرے ہیں جنھیں ہم نقل نہیں کر سکتے کیوں کہ آگے وہی ''توہین'' کی دیوار کھڑی ہے اورہمارے نظام عدل وانصاف اور انصاف داروں پر بہت سارے سوال کھڑے ہوگئے ہیں،اس سے آگے لکھتے ہیں۔
آج میں وطن کے محافظوں سے اپیل کرتاہوں کہ آپ نے حلف اٹھایاہے پاکستان اوربائیس کروڑ عوام کادفاع کرنا۔ہمیں باہرکے دشمن سے کوئی خطرہ نہیں اوراگر ہوبھی توہمیں آپ کی صلاحیتوں پریقین ہے لیکن عوام کوزیادہ خطرہ اندر کے ''دشمن'' سے ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ خاص لوگوں یا منصب داروں اور انصاف داروں کے بارے میں کہاگیاہے کہ اگر نظام انصاف سے منسلک لوگوں کی انکوائری ہوئی تو اتنی ناجائزدولت برآمد ہوجائے گی کہ پاکستان کا پچاس فی صد قرضہ اداہوجائے گا۔
خط بہت طویل ہے اورسارا زورنظام انصاف کی خرابیوں،رشوت خوریوں اورقانون فروشوں پرہے، لہجے اورالفاظ کواگرنرم سے نرم کردیاجائے توبھی خلاصہ کلام یہ ہے کہ قانون نظام انصاف اورفیصلوں کے بارے میں وہ سب کچھ ہے جو تقریباًہرکسی کے دل میں ہے لیکن منہ پر توہین کی مہریں ہیں۔لیکن اب جب کہ ریاست کو ریاست مدینہ ہونے کادعویٰ ہے اور حکمرانوں کو صادق وامین ہونے کا۔ تو ریاست مدینہ کا نظام احتساب بھی ہونا چاہیے اوراس نظام احتساب میں ایک عام آدمی کے پوچھنے پرخلیفہ وقت کوبھی جواب دینا پڑتا ہے کہ اس کے جسم پر ''دوچادروں'' جتنا لباس کیوں ہے جس میں خلیفہ اپنے بیٹے کوبھی جرم ثابت ہونے پرخوددرے لگاتاہے جس میں خلیفہ بننے پرخوشی نہیں منائی جاتی بلکہ رویاجاتاہے اوریہ ریاست مدینہ کی بھی نہیں بلکہ یزیدکے بعد ریاست دمشق کی بات ہے۔
حضرت عمربن عبدالعزیزکوجب پتہ چلاکہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے انھیں اپناجانشین نامزدکیا ہے تو وہ رونے لگے ،پوچھنے پرفرمایا اب تک تو میرے اوپر صرف اپنی ذمے داری تھی لیکن اب اگر دوردجلہ کے کنارے کسی کتے پر بھی ظلم ہوگا تو اس کی بھی ذمے داری مجھ پرہوگی۔
سیدھی سی بات ہے کہ جہاں اختیاروہاں ذمے داری بھی،جہاں ذمے داری وہاں اختیاربھی۔
لیکن ہمارے موجودہ نظام میں اختیاروالوں کو ذمے داری سے بالاترسمجھاجاتاہے۔ریاست کا باشندہ کوئی بھی ہوعام آدمی ہوکسان ہومزدورہوحاکم ہو وزیرہوصدرہوجج ہو یاجرنیل ۔اسے فرشتوں کی صف میں نہیںکھڑاکیاجاسکتا۔یہ ایسے معاشروں میں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مقدس ہوکر کسی بھی محاسبہ یامواخذہ سے بالاتر ہوجاتے ہیں یاکردیے جاتے ہیں۔
نظام انصاف ہی سے ایک مثال دینا چاہتا ہوں، دوست محمدکامل ایک بڑے پائے کے شاعر،ادیب اورمحقق ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پائے کے وکیل بھی تھے ہم سب کوان سے عقیدت تھی ،قلندر مومند نے تویہاں تک کہاتھا۔
داکامل ہم نشینی برکتی کڑم
تجربے مے پہ غزل کے روایات شی
یعنی مجھ کوکامل کی ہم نشینی نے برکت بخشی ہے چنانچہ میرے تجربے غزل میں روایات ہوجاتے ہیں۔
ایک دن میں اپنے گاؤں بلکہ رشتے داروں کاایک مقدمہ قتل ان کے پاس لے گیا تو فرمایاکہ میں تو فوجداری کیس نہیں لیتاصرف دیوانی کیس لیتا ہوں، کیوں کہ فوجداری میں اگرمیں نے کسی مجرم کوبچایایاکسی بے گناہ کوپھانسی چڑھایاتو اس کی تلافی ممکن نہیں مگردیوانی مقدمات میں مال و جائیداد کے معاملات ہوتے ہیں اگرغلطی ہوبھی جاتی ہے تواس کی تلافی بھی ہوسکتی ہے اوراگرنہیں بھی ہوئی توزیادہ سے زیادہ مال کانقصان ہوگا چنانچہ ان کو کئی مرتبہ جج بننے کی پیش کش ہوئی لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا۔
لیکن آج کیاہوتاہے،جج کیسے مقررہوتے ہیں؟ اوروہ پھر کیاکرتے ہیں؟یہ ہرکسی کوپتہ ہے اورشیخ معظم خان مندوخیل نے اپنے مکتوب میں یہی رونا رویاہے۔