ماں بولی پنجابی سے بے توجہی

خطے میں کثیر المذاہب اور مختلف النسل لوگوں کی آبادی کے باوجود پنجابی زبان ایک مشترکہ اثاثہ رہی

کراچی:
نیو یارک میں ایک دکان کے بیرونی حصے میں کھڑے دو لوگوں کی یہ آپس کی گفتگو تھی مگر ان کی آوازسنتے ہی ہمارے پاؤں وہیں رک سے گئے۔ دونوں نے ایک اجنبی کو اپنی باتیں سنتے دیکھا تو چونک کر متوجہ ہوئے۔

ٹھیٹھ امریکن لہجے میں پوچھنے لگا، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ ہم نے مسکرا کر جواب دیا، مدد تو آپ کر چکے، اب تو آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوں۔ بہت دنوں بعد اپنی ماں بولی پنجابی سنی ہے۔ دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔ اچھا ، اگر یوں ہے تو پھر باہر کیوں کھڑے ہیں اندر آ جائیں۔

ماں بولی کی چاشنی ہی کچھ ایسی ہے، اسم بامسمیٰ، ماں کی طرح شفیق اور نرم، ماں کے دل کی طرح کشادہ اور ملائم۔ پنجابی اس خطے کی ایک قدیم زبان ہے۔ پنجابی زبان اس خطے میں صدیوں سے بولی جاتی رہی۔ اس خطے میں کثیر المذاہب اور مختلف النسل لوگوں کی آبادی کے باوجود پنجابی زبان ایک مشترکہ اثاثہ رہی۔

پنجابی کے نامور صوفی شعراء بابا فرید گنج شکر، بابا بلھے شاہ، شاہ حسین، سلطان باہو اور میاں محمد بخش کے کلام نے پنجابی زبان کو امر کر دیا۔ وارث شاہ کی ہیر، مولوی غلام رسول کی یوسف زلیخا سمیت بیسیوں قصے، رومانی داستانیں، مقامی لوک کہانیاں اور جنگی داستانیں پنجابی شاعری اور ادب کا بیش بہا خزینہ ہیں۔

پنجابی زبان کے ساتھ مگر ایک عجیب سانحہ ہو گیا، تقسیم ہند کے بعد پنجابی زبان پاکستانی پنجاب میں بولنے کی حد تک قائم ہے جب کہ مشرقی پنجاب میں پنجابی زبان تعلیم اور عدالتی نظم کا بطور مقامی زبان حصہ ہے۔ پنجابی زبان فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی ایک وسیع مارکیٹ پر حاوی ہے۔ میوزک اس قدر پاپولر اور دلنشین کہ بولی ووڈ میں پنجابی زبان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس کا وسیع میدان اس زبان کی ترقی اور مضبوطی کا باعث بن رہا ہے۔

مغربی پنجاب میں اردو بطور رابطہ زبان پروموٹ کی گئی۔ بوجوہ پنجابی زبان کو اس کا مقام اور حق نہ مل سکا۔ حیرت ہوتی ہے کہ لاہور سے چند کلومیٹر سرحد پار یہی زبان اپنی وسعت اور ہمہ جہتی میں مثالی ہے جب کہ ہمارے ہاں احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ کچھ عرصہ قبل انگریزی اسکول کی ایک بہت بڑی چین نے بچوں کو اسکول میں پنجابی بولنے سے منع کیا۔ پڑھے لکھے اور قدرے خوشحال پنجابی گھرانوں میں انگریزی ہی پہلی ترجیح ہے، اس کے بعد اردو، پنجابی بولنے سے گھر اور باہر اکثر گریز دیکھا ۔

اپنی ماں بولی سے گریز پائی کا نتیجہ سامنے ہے۔ پنجابی زبان کے صرف دو ٹی وی اور ایک آدھ ریڈیو چینل ہیں۔ ایک آدھ اخبار اور چند رسائل جن کی اشاعت بہت محدود، چند ایک اشاعتی ادارے ہیں جو پنجابی زبان کی کتابیں شایع کرتے ہیں جن کے پڑھنے والے محدود تر ہیں۔ زیادہ تر کتابیں فری میں دوست احباب میں تقسیم کر دینے کے سوا چارہ نہیں کہ شاذ ہی کوئی بک اسٹور پنجابی کتابیں رکھنے کا روادار ہے۔ پنجابی کیا اب بڑے بک اسٹور اردو کتابیں کم اور انگریزی کتابیں زیادہ رکھتے اور فروخت کرتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ پنجابی کی کتابوں کا گاہک ہی کوئی نہیں، اکا دکا کوئی سر پھرا ہو تو ہو ورنہ یہی تلخ حقیقت ہے۔

سرائیکی زبان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہے۔ خواجہ غلام فرید کے علاوہ جانباز جتوئی، اقبال سوکڑی، احمد خان طارق، شاکر شجاع آبادی سمیت سرائیکی زبان میں درجنوں بلند پایہ شاعر ہیں مگر ان میں سے معدودے چند ہی کا کلام ان کی شان کے مطابق شایع ہوا ۔ المیہ وہی ہے کہ کتاب چھاپنے کو کوئی تیار نہیں، چھپ جائے تو بیچنے کو دکان کا شیلف دستیاب نہیں۔

زبان کے جنونی عاشق کے علاوہ عام شخص پنجابی اور سرائیکی زبان پڑھنے کی عموماً مہارت نہیں رکھتا۔ دونوں زبانوں میں روانی سے پڑھنے کی روایت ضروری ہے مگر کیا کیجیے کہ جہاں اردو پڑھنے والے فخر سے کہیں، سوری میری اردو کمزور ہے پڑھ نہیں سکتا، وہاں ماں بولی پنجابی یا سرائیکی کون پڑھے۔ یوں نئی نسلیں ماں بولی کے عظیم تاریخی ورثے سے بھی محروم ہو رہی ہیں اور اپنی ثقافت کی شناخت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا اور یو ٹیوب کا کہ ان زبانوں کو اظہار کا موقع میسر ہو رہا ہے۔


پنجابی زبان کا آہنگ ہمیشہ ہی توانا اور معنی آفریں رہا ہے، چند مثالیں عصرِ حاضر کی زیرِ مطالعہ کتابوں سے، کرنل الیاس گجرات کے سپوت ہیں، ان کا مجموعہ کلام سوچاں ہتھ مہار ہے؛

ڈریاں نوں سمجھاوے کیہڑا
ڈرنا کیہ اے کجھ وی ناہیں

اِک دن ڈونگھی نیندر سونا
مرنا کیہ اے کجھ وی ناہیں

(خوفزدہ شخص کو کون سمجھائے کہ ڈر کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ موت کی حقیقت بھی یہی ہی کہ ایک دن گہری نیند سوجانا ہے)

کرنل الیاس کی زبانی زندگی کی تلخ حقیقت کا ایک اور نقشہ ملاحظہ ہو ؛

روٹی منگدا سالن منگدا
ڈِھڈ تندور اے بالن منگدا

دل دی سدھر ہور طرحاں دی
رانجھا ہیر سیا لن منگدا

( پاپی پیٹ کا تندوراپنا ایندھن روٹی اور سالن مانگتا ہے جب کہ دل رانجھا نے اور ہی خواہش پال رکھی ہے یعنی ہیر سیال کا طالب ہے )
Load Next Story