سوشل میڈیا رولز 2021 آزادی اظہار رائے میں مددگار یا اس سے متصادم

سوشل میڈیا ففتھ جنریشن وار فیئر کا موثر ہتھیار بن چکا ہے جس پر ضوابط کا اطلاق لازم ہے

اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نئے سوشل میڈیا قوانین حکومت مخالفین کو دبانے کا ہتھیار نہ بن پائیں

گزشتہ برس اکتوبر 2021 میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن (ایم او آئی ٹی ٹی) نے سوشل میڈیا رولز 2021 کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ بظاہر تو ان ترمیم شدہ قوانین کے تحت پاکستانی صارفین آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل کریں گے اور قواعد پاکستانی صارفین اور سوشل میڈیا تنظیموں کے درمیان رابطے میں اہم کردار ادا کریں گے لیکن اس کے ذریعے منفی ہتھکنڈوں کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔

ان قوانین میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستانی قوانین اور سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کی پاسداری کرنے کا پا بند کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی منظوری کے ساتھ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ، 2016 (ایکٹ نمبر XL 2016) کے سیکشن 51 کے ساتھ پڑھنے والے سیکشن 37 کے ذیلی سیکشن (2) کے ذریعے دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے، ان قوانین کو موئثربنا دیا ہے. جس کی اہم دفعات درج ذیل ہیں:

٭ انتہا پسندی، دہشت گردی، نفرت انگیز تقریر، فحاشی اور پُرتشدد مواد کی براہ راست نشریات پر پابندی ہوگی۔
٭ سوشل میڈیا تنظیمیں پاکستان کے وقار اور سلامتی کے خلاف مواد ہٹانے کی پابند ہوں گی۔
٭ غیر اخلاقی اور فحش مواد کی تشہیر کرنا بھی جرم ہوگا۔
٭ سوشل میڈیا تنظیمیں اور سروس فراہم کرنے والے کمیونٹی گائیڈ لائن تیار کریں گے۔
٭ ہدایات صارفین کو مواد اپ لوڈ کرنے کے بارے میں آگاہ کریں گی۔
٭ کسی بھی شخص سے متعلق منفی مواد اپ لوڈ نہیں کیا جائے گا۔
٭ دوسروں کی رازداری سے متعلق مواد پر بھی پابندی ہوگی۔
٭ پاکستان کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کے برعکس مواد پر پابندی ہوگی۔
٭ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما اور اخلاقی تباہی سے متعلق مواد پر پابندی ہوگی۔
٭ تمام سوشل میڈیا تنظیمیں بشمول یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹیک ٹو، ٹویٹر، گوگل پلس قوانین کے پابند ہوں گے۔
٭ نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد، یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان میں جلد از جلد سوشل میڈیا دفاتر قائم کیے جائیں۔
٭ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کے لیے مجاز آفیسر کا تقرر کریں گی۔

اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) آن لائن رسائی کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے بر وقت کاروائی کرے گی۔نئے سوشل میڈیا رولز 2021 کے تحت، سوشل میڈیا کمپنیوں کو نوٹیفکیشن کے مطابق، ''غیر قانونی آن لائن مواد کو ہٹانے اور مسدود کرنے کے طریقہ کار، نگرانی اور حفاظت کے قوانین، 2021'' کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ (پیکا) 2016 کے تحت بنا دیا گیا ہے۔ نافذ ہونے کے تین ماہ کے اندر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ساتھ رجسٹر کرنا ہوگا۔

انہیں پاکستان میں مقیم ایک بااختیار تعمیل کنندہ افسر اور شکایت افسر کو بھی مقرر کرنا ہوگا۔ ان افسران کو سات دنوں کے اندر شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کسی بھی سروس فراہم کرنے والے یا سوشل میڈیا کمپنی کے خلاف کاروائی شروع کر سکتی ہے جو مواد تک رسائی کو ہٹانے یا بلاک کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے یا پی ٹی اے کی ہدایات کی روشنی میں مقررہ مدت کے اندر تعمیل نہیں کرتی۔

اس کے علاوہ ہر شخص یا تنظیم کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ ہرقسم کے مواد کا آن لائن اظہار کرے اور اسے نشر کرے جیسا کہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آرٹیکل 19 کے تحت ہے بشرطیکہ یہ درج بالا نکات سے متصادم نہ ہو۔

نئے قوانین کے مطابق، سروس فراہم کرنے والے اور سوشل میڈیا کمپنی ملک میں آن لائن انفارمیشن سسٹم کے ذریعے براہ راست سلسلے کو فوری طور پر بلاک کرنے کے لیے ایک طریقہ کار متعین کرے گی خاص طور پر جو دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر، فحش، تشدد پر اکسانے والا اور قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو۔ مزید برآں، کوئی بھی پریشان شہری، وزارت، ڈویژن، منسلک محکمہ، سب آرڈینیٹ آفس، صوبائی یا مقامی محکمہ یا دفتر، قانون نافذ کرنے والی یا انٹیلی جنس ایجنسی یا ریاست کی ملکیت یا کنٹرول والی کمپنی مواد کو روکنے یا ہٹانے کے لیے شکایت درج کروا سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کو کسی بھی آن لائن انفارمیشن سسٹم تک رسائی یا استعمال کے لیے کمیونٹی گائیڈلائنز شائع کرنا ہوں گی جو کہ اپنے صارفین کی رہنمائی کریں کہ وہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر کس طرح کسی بھی آن لائن مواد کی میزبانی، ڈسپلے، اپ لوڈ، ترمیم، شائع، ترسیل، اپ ڈیٹ یا شیئرکریں گے۔ اسی طرح انہیں کسی بھی تفتیشی اتھارٹی کی طرف سے درخواست کی گئی معلومات فراہم کرنا لازمی ہو گا۔ معلومات کرپٹڈ، پڑھنے کے قابل، اور قابل فہم فارمیٹ یا سادہ ورژن میں ہوسکتی ہیں۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کو ملک کے صارف ڈیٹا پرائیویسی اور ڈیٹا لوکلائزیشن پربھی عمل کرنا ہوگا۔

ترامیم کے مطابق عالمی سوشل میڈیا کمپنیوں کو تین ماہ کے اندر پی ٹی اے میں رجسٹرڈ ہونا پڑے گا

قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستانی قوانین اور سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کی پاسداری کرنی ہوگی۔مزید برآںسوشل میڈیا کمپنیوں اور سروس فراہم کرنے والوں کو کمیونٹی گائیڈلائن وضع کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ صارفین کو مواد اپ لوڈ کرنے کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔

ممنوعہ مواد کی فہرست میں، ''پاکستان کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کے خلاف مواد'' کے ساتھ ساتھ وہ مواد جو اخلاق کو ''تباہ'' کر سکتا ہے بھی شامل ہے۔

مزید یہ کہ قوانین فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک، ٹویٹر اور گوگل سمیت تمام سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس پر لاگو ہوں گے۔ نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں جلد از جلد اپنے دفاتر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر سروس فراہم کرنے والا یا سوشل میڈیا کمپنی مواد تک رسائی کو ہٹانے یا بلاک کرنے یا پی ٹی اے کی ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پی ٹی اے کارروائی شروع کر سکتی ہے۔

یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ نومبر 2020 میں منظور کیے گئے سوشل میڈیا قوانین کو و ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹس، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔کچھ کمپنیوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر قوانین میں ترمیم نہ کی گئی تو پاکستان میں اپنی سروس بند کردیں گی، یہ کہتے ہوئے کہ یہ قواعد و ضوابط ان کے لیے کام جاری رکھنا مشکل بنا دیں گے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ابتدا میں بنائے گئے قوانین کو اسلام آبا د ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست پر ایک سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ہائی کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ حکومت قواعد پر نظرثانی کے لیے تیار ہے۔

مارچ 2021میں حکومت نے متنازعہ سوشل میڈیا قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین وزارتی کمیٹی تشکیل دی۔کمیٹی نے قواعد اگست تک تیار کیے اور انہیں 23 ستمبر 2021 کو کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے معاملات سے منظور کیا گیا۔ بالآخر اس ترامیمی قوانین کا باقاعدہ نو ٹیفکیشن 14 اکتوبر 2021 کو جاری کر دیا گیا۔

ترامیم کے باوجود تازہ ترین قوانین کو بھی شدید ردعمل کا سامنا ہے۔ معترضین کا خیال ہے کہ تازہ مسودے میں بھی سب سے زیادہ پریشانی والی دفعات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

ایشیا انٹرنیٹ کولیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے کہا کہ ایشیا انٹرنیٹ کولیشن اور اس کی رکن کمپنیاں مجوزہ نظر ثانی سے مایوس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی مہینوں سے انڈسٹری کی جانب سے بار بار آراء کے باوجود، مسودے کے قوانین میں اب بھی کئی مسائل ہیں جیسے ڈیٹا لوکلائزیشن اور مقامی موجودگی کی ضروریات جو ملک کی ڈیجیٹل نمو اور ترقی کو متاثرکرتی ہے۔

متاثرہ شکایت کنندہ جو ایک فرد،سرکاری ایجنسی یا محکمہ ہو سکتا ہے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) میں شکایت درج کر سکتا ہے اور بعض صورتوں میں، شکایت کنندہ کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے گا تا کہ اس کے نتیجے میں اسے نقصان پہنچنے یا ہراساں یا بدنام کرنے کا احتمال نہ رہے۔

شکایت ملنے پر اتھارٹی کے پاس اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے 30 دن ہوں گے۔ جس کے بعد اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنی کو 48 گھنٹے دے گی لیکن ایمرجنسی کی صورت میں یہ دورانیہ صرف 12گھنٹے ہو گا۔ اگر سوشل کمپنی اس کی تعمیل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اسے 48 گھنٹوں کے اندر تحریری وضاحت دینا پڑے گی ورنہ اس کی خدمات معطل یا پورا آن لائن انفارمیشن سسٹم بلاک ہو جائے گا یا اسے 50 کروڑروپے تک جرمانہ ہو گا۔

نئے قوانین کے تحت، سوشل میڈیا کمپنیوں کو تفتیشی ایجنسی کو کوئی بھی معلومات، ڈیٹا اور مواد پڑھنے کے قابل اور قابل فہم شکل میں فراہم کرنا لازمی ہوگا۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی ضروری ہے کہ وہ ایک ایسا طریقہ کار ترتیب دیں جو براہ راست سلسلہ بندی کو فوری طور پر بلاک کرے، خاص طور پر اگر یہ دہشت گردی، نفرت انگیز تقریر، فحش مواد سے متعلق ہو یا قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو۔

نئے قوانین میں مزید حکم دیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں تین ماہ کے اندر پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹر ہوں اور پاکستان میں ایک دفتر قائم کریں، جو ترجیحی طور پر اسلام آباد میں واقع ہو۔ تاہم بین الاقوامی سوشل میڈیا کمپنیوں کی طرف سے کوئی خاص رد عمل یا بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اگرچہ کہ اس سے قبل جب حکومت نومبر 2020 میں ان قوانین کو لائی توایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے سخت الفاظ میں کہا کہ اگر یہ سوشل میڈیا قوانین برقرار رہے تو وہ پاکستان چھوڑ دیں گے۔

اس کے بعد قواعد کا دوسرا ورژن جاری کیا گیا اور بعد میں حکومت کی طرف سے ایک اور تیسرا ورژن جاری کیا گیا جس پربھی اے آئی سی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ستمبر میں، ''فریڈم آن دی نیٹ'' کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو آن لائن آزادی کے حوالے سے ناقص درجہ دیا گیا جس میں کہا گیا کہ ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو گرفتاریوں، قید اور جسمانی حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آئین پاکستان تمام شہریوں کو آزادی اظہار رائے کی مکمل اجازت دیتا ہے جس کی درج ذیل دفعات ہیں:


آئین پاکستان کی دفعہ 19:آزادی اظہار رائے

ہر شہری کو اظہار رائے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہو گا اور پریس کی آزادی ہو گی جو کہ اسلام کی شان یا سالمیت، سلامتی یا سلامتی کے مفاد میں قانون کی طرف سے عائد کسی بھی معقول پابندیوں سے مشروط ہو گی جیسے پاکستان یا اس کے کسی حصے کا دفاع، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات، یا توہین عدالت یا کسی جرم کا ارتکاب یااکسانا۔

آئین پاکستان کی دفعہ A19 :معلومات کا حق

'ہر شہری کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرے جو کہ قانون کی جانب سے عائد ضابطے اور معقول پابندیوں سے مشروط ہو۔

اگرچہ کہ درج بالا آئین پاکستان کی دفعہ 19اور A 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی تمام شہریوں کو حاصل ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی مواد یا مٹیریل سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا جائے جو کے ان پہلوںکے خلاف ہو جیسے کہ:

٭ ''اسلام کی عظمت''
٭ ''پاکستان کی سلامتی''
٭ ''پبلک آرڈر''، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آن لائن مواد میں کوئی ''جعلی یا غلط معلومات ہوں جو کہ پبلک آرڈر، پبلک ہیلتھ اور پبلک سیفٹی کے لیے خطرہ ہو''
٭ ''شائستگی اور اخلاقیات''
٭ ''پاکستان کی سالمیت اور دفاع''
اس کے با وجود سوشل میڈیا اس قدر مادر پدر آزاد نہ ہو کہ جو کوئی، جب چاہے، جو چاہے، کسی بھی قسم کا مواد اس پر ڈال دے۔ اگرچہ عالمی سطح پر کوئی ایسا قانونی منظم طریقہ موجود نہیں ہے جو سوشل میڈیا پر ڈالے گئے مواد کی حقیقت یا ضرورت کی اچھی طرح جانچ کرسکے ناہی کوئی ایسا قانون موجود ہے جو کسی فرد، ادارے یا تنظیم کو ایسا کرنے سے منع کرے یا جس سے صرف کوئی مخصوص مواد ہی اپلوڈ کیا جا سکے۔

سوشل میڈیا پانچویں نسل کی جنگ یا فیفتھ جنریشن وار (5GW) کا ایک موئثر ہتھیار ہے۔یہ وہ جنگ ہے جو بنیادی طور پر غیر متحرک فوجی کارروائی کے ذریعے کی جاتی ہے جیسے سوشل انجینئرنگ، غلط معلومات، سائبر حملوں کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت اور مکمل طور پر خود مختار نظام وغیرہ۔ 'پانچویں نسل کی جنگ' یا فیفتھ جنریشن وار کی اصطلاح سب سے پہلے 2003 میں رابرٹ سٹیل نے استعمال کی۔ڈینیل ایبٹ نے اسے ''معلومات اور فہم و ادراک '' کی جنگ قرار دیا ہے لیکن پانچویں نسل کی جنگ کی تعریف پر قطعی اتفاق نہیں ہے۔

الیکس پی شمڈ نے پانچویں نسل کی جنگ کو ''ہر جگہ میدان جنگ'' سے تعبیر کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس میں لازمی طور پر فوجی طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا، اس کے بجائے متحرک اور غیر متحرک قوت کا مرکب استعمال کرتے کیا جاتا ہے۔ اس میں ''سیاسی، معاشی اور تکنیکی تشدد '' روایتی جنگ سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کے کئی وجوہات ہیں۔

سوشل میڈیا فیفتھ جنریشن وار (5GW) کا ایک موئثر ہتھیار ہے۔یہ ایسی جنگ ہے جو غیر متحرک فوجی کارروائی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جیسے کسی ملک کے سماجی ڈھانچے کی بربادی، غلط معلومات پھیلا کر لوگوں کو گمراہ کرنا، سائبر حملوں کے ذریعے ریاست نظام میں رخنہ اندازی اور مصنوعی ذہانت( آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کو استعمال میں لاتے ہوئے ریاستی نظام پر حملے کرنا۔

اس وقت سوشل میڈیا کی پوری دنیا پر حکمرانی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی طاقت استعداد کار اور دائرہ کار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا گلوبل ولیج میں ایک مرکزی کردار واضع ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا ذاتی زندگیوں سے لے کر اجتماعی انسانی ذہن تک کو متاثر کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کا معاشیات، نفسیات سیاسیات غرض ہر شعبہ زندگی کے معاملات میں عمل دخل ہے۔

سوشل میڈیا معاشرے کے انفرادی، اجتماعی رجحانات، رائے، خیالات اور محسوسات تک کو بدلنے میں اہم کردار کا حامل بن چکا ہے۔ مختصر یہ کہ کسی معاشرے کی سوچ بدلنے میں ہتھیار کا کام کر سکتا ہے۔ یہ عالمی رائے ہموار کرنے عوامی رائے کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ غرض عالمی سطح پر حکومتوں کے عروج و زوال، صف بندیوں، اتحادوں اور ان سے علیحدگیوں میں اس کا عمل دخل ہے۔عالمی بیداری میں یہ اہم مقام حاصل کر چکا ہے اقوام عالم کو متحد یا منتشر کرنا اس کے بس میں ہے۔

سوشل میڈیا کو اب ترقی یافتہ کے ساتھ ترقی پزیر اقوام میں بھی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت یہ دونوں کے لئے ضروری بن چکا ہے۔مستقبل میں وہی اقوام ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گی جوسوشل میڈیا کا درست اور براہ راست استعمال کرنے کے قابل ہوں گے۔ اقوام کو متحد یا منتشر کرنا اس کی مٹھی میں ہے۔ یہ ایٹم بم سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہتھیار ہے۔ جتنی دیر میں سورج کی روشنی کرہ ارض تک نہیں پہنچتی اس سے کہیں زیادہ تیزی سے سوشل میڈیا دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔

یہاں اس بات کاذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انسان سے اظہار رائے کی آزادی چھیننا انسانی حقوق کے منافی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حقوق انسانی اور آزادی اظہار رائے کا تصور دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف ہے۔ مثال کے طور پر توہین مذہب اور پیغمبروں کے احترام کے بارے میں یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے حصوں میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ فرانس جن خاکوں کا دفاؑع کرتا رہا یورپ ہی کے ملک روس کے صدر ولادیمیر پوتین کا کہنا ہے توہین رسالت کو آزادی اظہار رائے قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری جانب یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسے با اثر حلقے موجود ہیں جن میں شامل لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں لیکن وہ یہاں یورپ اور امریکہ سے بڑھ کر شخصی آزادیاں چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ غیر جمہوری حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے یا پھر منتخب حکمران اپنی نااہلی اور بدعنوانی پر پر پردہ پر پردہ ڈالنے کے لیے بھی اسے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور اس مقصد کے لئے موافق قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے۔

اس بات کا احتمال بھی موجود رہتا ہے کہ حکومت مخالف جماعتوں اور ''نا پسندیدہ'' لوگوں سے متعلق معلومات جبراً حاصل کر لی جائیں۔ اس کا حقائق کو دبانے کے لئے استعمال کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار پائے گا۔ بعض حلقے اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر کچھ خاص قوانین کے تحت سزا اور جرمانے کرنا ان پر دباؤ ڈال کر حکومت مخالف لوگوں سے متعلق ذاتی مواد یا ریکارڈ حاصل کرنے کا حربہ بھی ہو سکتا ہے۔

اہم سوشل میڈیا کمپنی'' سے مراد پاکستان میں نصف ملین سے زائد صارفین والی کمپنی یا خاص طور پر فہرست میں شامل کمپنی ہے جس سے آن لائن مواد ہٹانے کی شکایت کی جا سکتی ہے۔ شکایت کنندہ کسی بھی آن لائن مواد کے خلاف دستیاب معلومات کا مکمل حوالہ دیتے ہوئے اتھارٹی کو مجوزہ شیڈول شدہ شکایت فارم کے ذریعے شکایت درج کرا سکتا ہے۔ جہاں شکایت کنندہ اس مجوزہ شیڈول شدہ شکایت فارم کے ذریعے شکایت درج کرانے سے قاصر ہواس صورت میں وہ تحریری طور پر کوئی دوسرا مناسب ذریعہ استعمال کر سکتا ہے اور اسے آن لائن مواد کو واضح طور پر بیان کرنا ہے جہاں یہ مواد موجود ہے اس کے علاوہ اس مواد کو ہٹانے یا آن لائن مواد تک رسائی کو روکنے کی وجوہات بھی بتانی ہو گیں۔

اتھارٹی مذکورہ شکایت کو رجسٹر کرے گی اور شکایت نمبر کو شکایت کنندہ تک پہنچایا جائے گا۔ علاوہ ازیں اتھارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ آن لائن مواد اور شکایت کنندہ کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے گا تا کہ کوئی اسے ہراساں یا بدنام نہ کرسکے۔علاوہ ازیں دائر شکایت کا اتھارٹی تیس (30) دنوں کے اندر فیصلہ کرے گی۔

آن لائن مواد کے خلاف اس شخص کو سنا جانے کا موقع فراہم کرنے کے بعد قابل اعتراض مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے اپنے فیصلے کی وجوہات لکھ کر آرڈر کریگی۔ مزید یہ کہ ایمرجنسی کی صورت میں اتھارٹی سروس فراہم کرنے والی سوشل میڈیا کمپنی یا اہم سوشل میڈیا کو 48 گھنٹوں کے بجائے 12 گھنٹوں کے اندر آن لائن مواد تک رسائی کو ہٹانے یا مسدود کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے اور یا پانچ سو ملین روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

اتھارٹی آن لائن مواد کو ہٹانے یا مسدود کرنے کی شکایات پر غور نہیں کرے گی جہاں:
٭ شکایت کنندہ ضروری معلومات فراہم کرنے یا متعلقہ معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
٭ دستاویزات، یو آر ایل/لنکس، ویڈیوز کے ساتھ ٹائم سٹیمپ یا جواب نہیں دیتا۔
٭ نوٹس یا یاد دہانیوں کے باوجود سماعت میں شرکت نہیں کرتا۔
٭ دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر شکایت کا فیصلہ کرنا ممکن ہے
٭ شکایت کا موضوع عدالت، ٹربیونل کے سامنے زیر سماعت ہے۔
٭ تحقیقات زیر التوا ہیں۔
٭ شکایت کا موضوع وہی ہے جو پہلے ہی اتھارٹی یا عدالت یا ٹربیونل کے ذریعہ نمٹا دیا گیا ہے۔
٭ شکایت کے حقائق اس نوعیت کے ہیں کہ اس کے اندارج کے لیے صحیح پوزیشن،دستاویزی اور زبانی دونوں کی تفصیلی جانچ کی ضرورت ہے۔
٭ ثبوت اور اس کی تشخیص، جس کے لیے مناسب فورم عدالت ہے۔
٭ شکایت ایک ایسے شخص کی طرف سے کی گئی ہے جو پریشان یا متاثر نہیں ہے۔
٭ نابالغ شخص کی صورت میں شکایت/درخواست کو ترجیح دی جائے۔
٭ شکایت گمنام یا مخفی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف تیس (30) دنوں کے اندر اتھارٹی کے سامنے نظرثانی کے لیے درخواست بھی دائر کی جا سکتی ہے۔اور اتھارٹی تیس (30) ورکنگ دنوں کے اندر نظرثانی کی درخواست کا تحریری طور پر فیصلہ کرے گی اور فریقین کو مطلع کیا جائے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ روایتی سرکاری میڈیا اور حکومت کے حمایت یافتہ نجی میڈیا ہاوسز حکومتی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ یہ صرف حکو متی کارناموں کا ذکر کرتے ہیں،ترقی کی تشہیر،حکومتی پالیسیوں کی کامیابی، ترقیاتی منصوبوں کا تسلسل، امن عامہ اور 'سب اچھا ہے' دکھایا اور سنایا جاتا ہے۔ سرکاری میڈیا پر عماماً حکومت پر تنقید کا تصور نہیں ہے۔ انہیں وجوہات کیے باعث پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں سوشل میڈیا کو مقبولیت اور پذیرائی مل رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر جہاں آزاد، غیر جانبدارانہ تجزیہ اور حقائق پیش کئے جاتے ہیں وہیں مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجہ حلقوں کے اپنے ذرائع بھی سرگرم رہتے ہیں جو اپنے نقطہ نظر کی تشہیر کے لئے ہر طرح کے جھوٹ اور غلط بیانی پر آمادہ رہتے ہیں۔ شرپسند عناصر حکومت مخالف، مذہب وقومیت کے خلاف جھوٹ، ڈس انفارمیشن،بدامنی و انتشار پر مبنی مواد ڈالتے ہیں لیکن اسی سوشل میڈیا کی بدولت جلد یا بدیر اس کی اصلیت آ شکار بھی ہو جا تی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اور سوشل میڈیا قوانین کے ذریعے حکمرانوں کو اپنی بدعنوانی،کرپشن اور بیڈ گورننس پر پردہ ڈالنے سے باز رکھنے کو یقینی بنانے کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے علاوہ سیاسی مخالفین اور نقادوں کے خلاف کسی بھی منفی کارروائی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

المیہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کی طرح پاکستان میں یہ چلن عام رہا ہے کہ ماضی میں مسند اقتدار پر بیٹھنے والے حکمران ہمیشہ ہی سے میڈیا کواپنے مفادات کے تحفظ، خودساختہ کارناموں کی تشہیر کرنے،اپنی بدعنوانیوں،بے ضابطگی اور لوٹ مار، اقربا پروری پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اسے اپنے اقتدار کو طول دینے اور مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے بڑی بیدردی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عوام الناس، عالمی اداروں اور حکومت مخالف قوتوں سے حقائق چھپانے بلکہ انہیں مسخ کرنے اپنی غلطیاں کی پردہ پوشی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اس صورتحال میں سوشل میڈیا ان پابندیوں اور مصلحتیوں سے نسبتاً آزاد ہوتا ہے اور اور بلا شبہ یہی اس کے مقبول ہونے اور عوامی پذیرائی حاصل کرنے کی بڑی وجہ ہے، اس کے علاوہ یہ عوام الناس کی آر اء اقوام عالم تک پہنچانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ عوام اور با اثر سنجیدہ حلقوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ حکومت ملکی سالمیت و بقا، مذہب اسلام اور دیگر حساس معاملات کو بنیاد بنا کر ان نئے سوشل میڈیا قوانین کواپنی کوتاہیوں کو طشت از بام ہونے سے بچانے اور سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے لیے استعمال نہ کرنے پائے۔

اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ حکومت اپنی مخالف سیاسی جماعتوں، دھڑو ں اور افراد سے متعلق کوئی بھی مواد یا معلومات مستقل ہٹا سکے گی یا انہیں سیاسی نقصان پہنچانے کے لیے ان سے متعلق مواد باآسانی حاصل کر سکے گی۔ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ معاشرے میں، خصوصا نوجوان نسل میں سوشل میڈیا لٹریسی عام کرنے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں تاکہ انہیں شعور اور آگاہی حاصل ہو اور وہ خود غلط اور درست کا انتخاب کر سکیں۔ انہیں یہ پتہ ہو کہ کس قسم کی سوشل میڈیا ایکٹیوٹی انہوں نے دیکھنی اور سمجھنی ہے اور کیا اپ لوڈ یا ڈاؤن لوڈ کرنا ہے تا کہ ان کا وقت ،سرمایہ،توانائی محفوظ رہے اور وہ اخلاقی تباہی سے بچ سکیں۔
Load Next Story