روس یوکرین تنازع امن کی راہ نکالی جائے
سیکیورٹی کونسل میں جب تک ویٹو کے حامل ممالک اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے،کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں کیا جا سکے گا
NEW DELHI:
یوکرین پر حملے کے تیسرے روزروسی افواج کیف میں داخل ہو گئیں اور شہر کی گلیوں میں لڑائی جاری ہے،ایسے وقت میں امریکا نے یوکرینی صدر کو ملک سے نکلنے کی پیش کش کی جسے یوکرینی صدرنے مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ '' میں دارالحکومت ہی میں رہوں گا، کیونکہ لڑائی یہاں ہو رہی ہے۔ مجھے گولہ بارود کی ضرورت ہے، سواری کی نہیں۔''
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین یو این سی ایچ آرکے سربراہ فلیپو گرانڈی نے کہا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران یوکرین سے 50 ہزار سے زائد افراد ہمسائیہ ممالک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں جب کہ ایک لاکھ شہری بے گھر ہوگئے ہیں۔روسی حملے کو پسپا کرنے کی جدوجہد کے لیے امریکی صدر نے یوکرین کی فوجی امداد کے لیے 350ملین ڈالر جاری کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
دوسری جانب، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین پر حملہ روکنے کی قرارداد کو روس نے ویٹو کر دیا۔سیکیورٹی کونسل کے 15میں سے 11 ممبران نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات نے قرارداد میں حصہ نہیں لیا۔امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے روس پر نئی سخت پابندیوں کا اطلاق کر دیا ہے۔ روس پر عائد کی جانے والی پابندیاں شدید اور تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں اور اس کے روس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے ۔
یادش بخیر ! ا مریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کرتے ہوئے کسی کی پرواہ نہیں کی تھی، اب روس اسی راستے پر گامزن نظر آتا ہے۔ عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دنیا کا امن تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔روس اور یوکرین کے درمیان تصادم نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ عالمی معیشت کو متوازن رکھنے میں روس کا کلیدی کردار ہے۔
روس میں تیل کی قیمتوں کا تعین روس کی مشاورت اور مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔روس کے پاس 107بلین بیرل کے قریب تیل کے ذخائر دستیاب ہیں۔امریکا کی خواہش ہے کہ اہل یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو روس کے بغیر پوری کرنے کا چارہ کریں۔موجودہ حالات میں روس سے زیادہ سستی گیس دوسرا کوئی ملک فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔امریکی درآمدات کے لیے چین اور یورپ پر انحصار کرتا ہے،اگر یورپ کو گیس کر سپلائی بند ہوجاتی ہے تو یورپ کی صنعتی پیداوار کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شروع ہوچکی ہے، اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے ، حکومت کے لیے یہ فیصلہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوگا کہ ہم مشرق کا ساتھ دیں گے یا پھر مغرب کا ؟ پاکستان میں روپیہ مزید سستا اور بے توقیر ہو سکتا ہے۔
پاکستانی روپے کی قدر میں آئی ایم ایف سے قرضے کی وصولی کے بعد بہتری پیدا ہوئی تھی۔آئرن'اسٹیل کی قیمتوں میں اضافے کے خاصے امکانات ہیں۔ایل این جی اور پٹرول کی قیمتوں میں ناقابل برداشت ممکن ہے جس کے براہ راست منفی اثرات ملکی معیشت پر پڑھیں گے،اگر حالات میں کشیدگی اسی طرح جاری رہی تو پٹرول کی فی بیرل قیمت 110 ڈالر فی بیرل سے بڑھ جائے گی،جس کا مطلب ہے پاکستان میں پٹرول مزید مہنگا ہو سکتا ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کا عالمی اقتصادی معاملات میں کیا عمل دخل ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے' پاکستانی معیشت پر اس کے منفی اثرات اس قدر کیوں ہیں۔یوکرین مشرقی یورپ کا ایک انتہائی اہم ملک ہے اور روس کے پڑوس میں واقع ہے۔پاکستان اندرون ملک گندم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یو کرین سے گندم در آمد کرتا ہے۔
پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم کیوں درآمد کرتا ہے یہ پریشان کن موضوع ہے۔حکومت کو اس بارے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔اگر تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو پاکستان نے 1991 کو یوکرین کی آزاد حیثیت کو قبول کرلیا تھااور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ 2018 سے تعلقات میں گرم جوشی کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے اب تعلقات روایتی سفارت کاری سے بڑھ کر عوامی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
یوکرین اور روس کشیدگی کے عالمی سطح پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں،اس تنازعہ کی وجہ سے عالمی خام تیل کی مارکیٹ میں بھونچال آگیا ہے۔ قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں ، اگر جنگ مزید جاری رہتی ہے تو یورپ کو روس کی گیس نہیں ملے گی۔ اس سلسلے میں یورپ نے متبادل ذرایع سے گیس حاصل کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ دراصل مغربی طاقتوں اپنی دانست میں روس کا پتہ ہمیشہ کے لیے کاٹنے کی تیاری مکمل کی ہے اور اب گھمسان کا رن پڑنے والا ہے،کیونکہ روس بھی اتنی آسانی سے سرنگوں نہیں ہوگا۔ وہ بھی اپنا پورا زور لگا رہا ہے۔
امریکا اور یورپ روس کو وِلن بنا کر پیش کررہے ہیں کہ وہ جارحیت کا ارتکاب کرکے اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک یوکرین کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یوکرین کا بحران امریکا اور مغربی یورپ کا پیدا کردہ ہے۔ جب سوویت یونین نے مشرقی جرمنی اورمغربی جرمنی کے اتحاد کو تسلیم کیا تھا تو اس وقت مغربی یورپ کے رہنمائوں نے ماسکو کو یقین دلایا تھا کہ نیٹوکے فوجی اتحاد کو مشرق کی طرف توسیع نہیں دی جائے گی لیکن اِس زبانی یقین دہانی پر عمل نہیں کیا گیا۔
دراصل امریکا نے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے لیے آٹھ سال مسلسل کوشش کی ہے اور گزشتہ ماہ امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ اعلان کیا کہ اب یوکرین کے پاس فیصلے کا اختیار ہے کہ وہ کب نیٹو میں شامل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی یوکرین نیٹو میں شامل ہو گا، فوراً امریکا وہاں اپنے میزائل نصب کر دے گا، بالکل ویسے ہی جیسے روس نے1962 میں کیوبا میں اپنے میزائل نصب کیے تھے۔ تاریخ کے اوراق پلٹائے جائیں تو اکتوبر 1962 کے تقریباً ساٹھ سال بعد کوئی امریکی صدر ایک بار پھر اُسی لہجے میں بولا ہے۔
حالات بالکل ویسے ہی ہیں۔ اس وقت امریکا نے سوویت یونین کو نشانے پر رکھنے کے لیے اٹلی اور ترکی میں میزائل نصب کیے تو جوابی طور پر سوویت یونین نے کیوبا کے صدر فیدل کاسترو کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے امریکا کے پڑوس میں واقع کیوبا کی سرزمین پر روسی میزائل نصب کرنے کی منظوری دے دی۔ اُس وقت بھی مذاکرات کے دوران کشیدگی اس سطح پر جا پہنچی تھی کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی مذاکرات کے آخری روز، پوری رات ٹیلی ویژن پر امریکی عوام کو جنگ کے لیے تیار کرتے رہے۔
اب ساٹھ سال بعد ایک بار پھر کسی امریکی صدر کے منہ سے ایسے ہی فقرے سنائی دیے ہیں۔ یہ فقرے زیادہ خطرناک اس لیے بھی ہیں کہ اس دفعہ محاذ جنگ امریکا کے پڑوس میں نہیں، بلکہ اس سے ہزاروں میل دُور، روس کے پڑوس میں سجا ہے اور امریکا نے ہمیشہ اس جنگ کو روکنے کی کوشش کی ہے جو اس کی سرزمین کے آس پاس لڑی جانی ہو۔ ورنہ اپنی سرزمین سے دُور تو وہ ہر جنگ میں خود کودتا ہے، بلکہ خود اسٹیج تیارکرواکے تماشا لگاتا ہے۔
روس کے ہمسائے صرف یوکرین ہی نہیںBelarus میں بھی ایسی حکومت لانے کی کوشش کی گئی جو ماسکو کے بجائے مغرب نواز ہو۔ چند ہفتے پہلے مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وسط ایشیا میں واقع قازقستان میں بھی شورش برپا کروائی۔ مگر Kremlin نے اپنی افواج وہاں بھیج کر فساد پر قابو پانے میں قازقستان کی مدد کی۔ اس وقت امریکا اور یورپ چاروں طرف سے روس پر حملہ آورہیں۔
خود روس کے اندر مختلف گروہوں کے ذریعے صدر پیوٹن کے خلاف تحریک چلوانے کی کوشش کی گئی، تاکہ ماسکو میں ایسی حکومت بن جائے جو امریکا اور مغربی یورپ کے بلاک میں شامل ہو اور چین کا مقابلہ کرے۔ اس وقت یوکرین زمینی اور سمندری طور پر روسی افواج کے گھیرے میں آ چکا ہے، صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ یوکرین جو کئی صدیاں روس کا حصہ رہا ہے، وہ نیٹو کا حصہ بن جائے، جس دن ایسا کیا گیا، یہ ہمارے لیے اعلانِ جنگ ہو گا۔
اس حوالے سے مغرب بھی واشگاف الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ اگر روس کی طرف سے یوکرائن کی علاقائی سا لمیت اور خودمختاری کی مزید خلاف ورزیاں ہوئیں تو اتحادی اس کے خلاف تیزی کے ساتھ اور بہت سخت مشترکہ پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے امریکا نے تو کہا ہے کہ ایسی پابندیاں عائد کریں گے جس سے روس مکمل طور پر اپاہج ہوجائے گا۔ جن میں ممکنہ طور پر ایل این جی کی فروخت بھی شامل ہے۔
روس یورپی ممالک کو ایل این جی فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور پابندی کی صورت میں مغربی ممالک میں توانائی کا بحران پیدا ہوجائے گا جس کے لیے امریکا نے قطر سے مدد مانگ لی ہے، دوسری جانب روس نے بھی ممکنہ پابندی کی صورت میں ہونے والے مالی نقصان سے بچنے کے لیے چین کا دورہ کیا اور چینی صدر کے ساتھ اربوں ڈالر کے ایل این کی فروخت کا معاہدہ کیا تھا۔
روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے ، یہ بات واضح ہے کہ سیکیورٹی کونسل میں جب تک ویٹو کے حامل ممالک اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے،کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں کیا جا سکے گا۔ غیرجانبدار ممالک کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور پہلے مرحلے میں جنگ بندی پر فریقین کو راضی کریں ، عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے اگر جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں تو یہ عمل انسانیت کے حق میں بہتر ہو گا۔
یوکرین پر حملے کے تیسرے روزروسی افواج کیف میں داخل ہو گئیں اور شہر کی گلیوں میں لڑائی جاری ہے،ایسے وقت میں امریکا نے یوکرینی صدر کو ملک سے نکلنے کی پیش کش کی جسے یوکرینی صدرنے مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ '' میں دارالحکومت ہی میں رہوں گا، کیونکہ لڑائی یہاں ہو رہی ہے۔ مجھے گولہ بارود کی ضرورت ہے، سواری کی نہیں۔''
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین یو این سی ایچ آرکے سربراہ فلیپو گرانڈی نے کہا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران یوکرین سے 50 ہزار سے زائد افراد ہمسائیہ ممالک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں جب کہ ایک لاکھ شہری بے گھر ہوگئے ہیں۔روسی حملے کو پسپا کرنے کی جدوجہد کے لیے امریکی صدر نے یوکرین کی فوجی امداد کے لیے 350ملین ڈالر جاری کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
دوسری جانب، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین پر حملہ روکنے کی قرارداد کو روس نے ویٹو کر دیا۔سیکیورٹی کونسل کے 15میں سے 11 ممبران نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات نے قرارداد میں حصہ نہیں لیا۔امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے روس پر نئی سخت پابندیوں کا اطلاق کر دیا ہے۔ روس پر عائد کی جانے والی پابندیاں شدید اور تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں اور اس کے روس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے ۔
یادش بخیر ! ا مریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کرتے ہوئے کسی کی پرواہ نہیں کی تھی، اب روس اسی راستے پر گامزن نظر آتا ہے۔ عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دنیا کا امن تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔روس اور یوکرین کے درمیان تصادم نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ہم اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ عالمی معیشت کو متوازن رکھنے میں روس کا کلیدی کردار ہے۔
روس میں تیل کی قیمتوں کا تعین روس کی مشاورت اور مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔روس کے پاس 107بلین بیرل کے قریب تیل کے ذخائر دستیاب ہیں۔امریکا کی خواہش ہے کہ اہل یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو روس کے بغیر پوری کرنے کا چارہ کریں۔موجودہ حالات میں روس سے زیادہ سستی گیس دوسرا کوئی ملک فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔امریکی درآمدات کے لیے چین اور یورپ پر انحصار کرتا ہے،اگر یورپ کو گیس کر سپلائی بند ہوجاتی ہے تو یورپ کی صنعتی پیداوار کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شروع ہوچکی ہے، اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے ، حکومت کے لیے یہ فیصلہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوگا کہ ہم مشرق کا ساتھ دیں گے یا پھر مغرب کا ؟ پاکستان میں روپیہ مزید سستا اور بے توقیر ہو سکتا ہے۔
پاکستانی روپے کی قدر میں آئی ایم ایف سے قرضے کی وصولی کے بعد بہتری پیدا ہوئی تھی۔آئرن'اسٹیل کی قیمتوں میں اضافے کے خاصے امکانات ہیں۔ایل این جی اور پٹرول کی قیمتوں میں ناقابل برداشت ممکن ہے جس کے براہ راست منفی اثرات ملکی معیشت پر پڑھیں گے،اگر حالات میں کشیدگی اسی طرح جاری رہی تو پٹرول کی فی بیرل قیمت 110 ڈالر فی بیرل سے بڑھ جائے گی،جس کا مطلب ہے پاکستان میں پٹرول مزید مہنگا ہو سکتا ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کا عالمی اقتصادی معاملات میں کیا عمل دخل ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے' پاکستانی معیشت پر اس کے منفی اثرات اس قدر کیوں ہیں۔یوکرین مشرقی یورپ کا ایک انتہائی اہم ملک ہے اور روس کے پڑوس میں واقع ہے۔پاکستان اندرون ملک گندم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یو کرین سے گندم در آمد کرتا ہے۔
پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم کیوں درآمد کرتا ہے یہ پریشان کن موضوع ہے۔حکومت کو اس بارے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔اگر تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو پاکستان نے 1991 کو یوکرین کی آزاد حیثیت کو قبول کرلیا تھااور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ 2018 سے تعلقات میں گرم جوشی کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے اب تعلقات روایتی سفارت کاری سے بڑھ کر عوامی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
یوکرین اور روس کشیدگی کے عالمی سطح پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں،اس تنازعہ کی وجہ سے عالمی خام تیل کی مارکیٹ میں بھونچال آگیا ہے۔ قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں ، اگر جنگ مزید جاری رہتی ہے تو یورپ کو روس کی گیس نہیں ملے گی۔ اس سلسلے میں یورپ نے متبادل ذرایع سے گیس حاصل کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ دراصل مغربی طاقتوں اپنی دانست میں روس کا پتہ ہمیشہ کے لیے کاٹنے کی تیاری مکمل کی ہے اور اب گھمسان کا رن پڑنے والا ہے،کیونکہ روس بھی اتنی آسانی سے سرنگوں نہیں ہوگا۔ وہ بھی اپنا پورا زور لگا رہا ہے۔
امریکا اور یورپ روس کو وِلن بنا کر پیش کررہے ہیں کہ وہ جارحیت کا ارتکاب کرکے اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک یوکرین کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یوکرین کا بحران امریکا اور مغربی یورپ کا پیدا کردہ ہے۔ جب سوویت یونین نے مشرقی جرمنی اورمغربی جرمنی کے اتحاد کو تسلیم کیا تھا تو اس وقت مغربی یورپ کے رہنمائوں نے ماسکو کو یقین دلایا تھا کہ نیٹوکے فوجی اتحاد کو مشرق کی طرف توسیع نہیں دی جائے گی لیکن اِس زبانی یقین دہانی پر عمل نہیں کیا گیا۔
دراصل امریکا نے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے لیے آٹھ سال مسلسل کوشش کی ہے اور گزشتہ ماہ امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ اعلان کیا کہ اب یوکرین کے پاس فیصلے کا اختیار ہے کہ وہ کب نیٹو میں شامل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی یوکرین نیٹو میں شامل ہو گا، فوراً امریکا وہاں اپنے میزائل نصب کر دے گا، بالکل ویسے ہی جیسے روس نے1962 میں کیوبا میں اپنے میزائل نصب کیے تھے۔ تاریخ کے اوراق پلٹائے جائیں تو اکتوبر 1962 کے تقریباً ساٹھ سال بعد کوئی امریکی صدر ایک بار پھر اُسی لہجے میں بولا ہے۔
حالات بالکل ویسے ہی ہیں۔ اس وقت امریکا نے سوویت یونین کو نشانے پر رکھنے کے لیے اٹلی اور ترکی میں میزائل نصب کیے تو جوابی طور پر سوویت یونین نے کیوبا کے صدر فیدل کاسترو کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے امریکا کے پڑوس میں واقع کیوبا کی سرزمین پر روسی میزائل نصب کرنے کی منظوری دے دی۔ اُس وقت بھی مذاکرات کے دوران کشیدگی اس سطح پر جا پہنچی تھی کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی مذاکرات کے آخری روز، پوری رات ٹیلی ویژن پر امریکی عوام کو جنگ کے لیے تیار کرتے رہے۔
اب ساٹھ سال بعد ایک بار پھر کسی امریکی صدر کے منہ سے ایسے ہی فقرے سنائی دیے ہیں۔ یہ فقرے زیادہ خطرناک اس لیے بھی ہیں کہ اس دفعہ محاذ جنگ امریکا کے پڑوس میں نہیں، بلکہ اس سے ہزاروں میل دُور، روس کے پڑوس میں سجا ہے اور امریکا نے ہمیشہ اس جنگ کو روکنے کی کوشش کی ہے جو اس کی سرزمین کے آس پاس لڑی جانی ہو۔ ورنہ اپنی سرزمین سے دُور تو وہ ہر جنگ میں خود کودتا ہے، بلکہ خود اسٹیج تیارکرواکے تماشا لگاتا ہے۔
روس کے ہمسائے صرف یوکرین ہی نہیںBelarus میں بھی ایسی حکومت لانے کی کوشش کی گئی جو ماسکو کے بجائے مغرب نواز ہو۔ چند ہفتے پہلے مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وسط ایشیا میں واقع قازقستان میں بھی شورش برپا کروائی۔ مگر Kremlin نے اپنی افواج وہاں بھیج کر فساد پر قابو پانے میں قازقستان کی مدد کی۔ اس وقت امریکا اور یورپ چاروں طرف سے روس پر حملہ آورہیں۔
خود روس کے اندر مختلف گروہوں کے ذریعے صدر پیوٹن کے خلاف تحریک چلوانے کی کوشش کی گئی، تاکہ ماسکو میں ایسی حکومت بن جائے جو امریکا اور مغربی یورپ کے بلاک میں شامل ہو اور چین کا مقابلہ کرے۔ اس وقت یوکرین زمینی اور سمندری طور پر روسی افواج کے گھیرے میں آ چکا ہے، صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ یوکرین جو کئی صدیاں روس کا حصہ رہا ہے، وہ نیٹو کا حصہ بن جائے، جس دن ایسا کیا گیا، یہ ہمارے لیے اعلانِ جنگ ہو گا۔
اس حوالے سے مغرب بھی واشگاف الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ اگر روس کی طرف سے یوکرائن کی علاقائی سا لمیت اور خودمختاری کی مزید خلاف ورزیاں ہوئیں تو اتحادی اس کے خلاف تیزی کے ساتھ اور بہت سخت مشترکہ پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حوالے سے امریکا نے تو کہا ہے کہ ایسی پابندیاں عائد کریں گے جس سے روس مکمل طور پر اپاہج ہوجائے گا۔ جن میں ممکنہ طور پر ایل این جی کی فروخت بھی شامل ہے۔
روس یورپی ممالک کو ایل این جی فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور پابندی کی صورت میں مغربی ممالک میں توانائی کا بحران پیدا ہوجائے گا جس کے لیے امریکا نے قطر سے مدد مانگ لی ہے، دوسری جانب روس نے بھی ممکنہ پابندی کی صورت میں ہونے والے مالی نقصان سے بچنے کے لیے چین کا دورہ کیا اور چینی صدر کے ساتھ اربوں ڈالر کے ایل این کی فروخت کا معاہدہ کیا تھا۔
روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے ، یہ بات واضح ہے کہ سیکیورٹی کونسل میں جب تک ویٹو کے حامل ممالک اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے،کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں کیا جا سکے گا۔ غیرجانبدار ممالک کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور پہلے مرحلے میں جنگ بندی پر فریقین کو راضی کریں ، عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے اگر جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں تو یہ عمل انسانیت کے حق میں بہتر ہو گا۔