ایک نصیحت
نئے پرانے گانوں سے ایسا سماں باندھا کہ لوگ اش اش کر اٹھے
'دیکھو برا نہ منانا۔ آگے بڑھنا چاہتے ہو تو وہ کرنا جو میں کہتا ہوں'۔ عکسی مفتی نے کھنگورا بھرا۔ آرٹسٹ پر پیار بھری نگاہ ڈالی اور قہوے کی ایک چسکی لے کر لحظہ بھر کے لیے خاموش ہوئے ، پھر زبان کھولی۔ لیکن ٹھہریے یہ بات ایک پس منظر رکھتی ہے۔اصل میں ہوا یہ کہ ہمارے حلقہ احباب نثر کی روح رواں محترمہ نعیم فاطمہ علوی صاحبہ نے کہا کہ شہر میں رہتے رہتے جی اوب گیا ہے۔
ٹریفک کے شور نے طبیعت مکدر کر دی ہے۔ اس پر عدم اعتماد، ہو کر دیتا ہے اور نہ اس سے جان چھوٹتی ہے۔ کیوں نہ اس چخ چخ سے جان بچا کر کسی ویرانے میں جا نکلیں۔ یہ اسی ویرانے میں دھونی رمائے کی آرزو تھی کہ احباب شہر کے اس خوش باش جوڑے یعنی ڈاکٹر ایوب علوی اور نعیم فاطمہ علوی کی قیادت نکل کھڑے ہوئے۔
اس سے پہلے کہ کسی ویرانے میں جا نکلتے، راہ میں ایک اور جوڑا آکھڑا ہوا۔ یہ تھیں ہماری افسانہ نگار ڈاکٹر حمیرا اشفاق اور ان کے میاں قیصر عباس خان۔ حمیرا جدید زبان میں جدید عہد کے افسانے لکھتی ہیں لیکن جانے کیا طلسم کرتی ہیں کہ اس جدت سے بھی قدامت کی بے نام سی مہک آتی ہے مگر یہ تذکرہ ان کا نہیں قیصر عباس خان کا ہے۔ قیصر کی شہرت ڈیویلپمنٹل سیکٹر سے مخصوص ہے یا پھر وہ عالمی رفاحی اداروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کے لیے معروف ہیں۔ اس روز ان کا ایک نیا گن کھلا جب انھوں نے اپنے ویسٹ کوٹ کے بٹن کھول کر آنکھیں بند کیں اور تان لگائی ؎
تسی وی اچے تواڈی ذات وی اچی
تساں وچ اُچ دے راہندے
اسی ہاں قصوری ساڈی ذات قصوری
اساں وچ قصور دے راہند ے
بس کر ملاں ہک الف کافی
تے ہن اِن بِن ان بن اِن بِن کیا
جتھاں مینھ مہر والے وس گئے نی
اتھاں کنڑ کنڑ کنڑ کنڑ کنڑ کنڑ کیا
اس کے بعد آگے بڑھنے کا کیا سوال تھا۔ کسی نے واہ واہ کر کے داد دی تو کسی کی آنکھوں میں موتی تیرنے لگے۔ بس وہیں ڈیرا ڈال دیا۔ اس نوجوان جوڑے نے شہر کے جس کوچے میں بسیرا کر رکھا ہے، وہ کوئی ویرانہ نہیں، گلشن ہستی ہے جس میں پھول بوٹوں کی مہک، ندی نالوں کا شور اور پرندوں کا چہچہا یہاں آنے والوں کو حاضر و موجود سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ممکن ہے باغ بہشت بھی ایسی ہی بنائی گئی ہو۔ یہ اسی ماحول کا اثر تھا کہ محترمہ تحریم ظفر کی طبیعت خوب رواں ہوئی۔ بات بات پر انھوں نے لطیفے سنائے۔ ایسے کہ ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو آگئے۔
' وہ ایک سکھ تھا'۔ اپنی عادت کے مطابق انھوں نے طویل سر میں ہائے کہا اور بتایا کہ اس بے چارے پر ایک آفت ٹوٹ پڑی۔ شادی تو رچا لی لیکن صبح شام کپڑے دھونے پڑتے۔ اس مصیبت میں ایک ستم یہ ہوا کہ قدرت بھی اس کے مخالف کیمپ میں جا کھڑی ہوئی۔ جیسے ہی وہ دھوبی گھاٹ جماتا، بادل امنڈ گھمنڈ آتے۔ ایک روز موسم اچھا تھا۔ دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ سوچا کہ آج فضا سازگار ہے جیسے ہی صابن خریدنے بنئے کی دکان پر پہنچا، بادلوں نے بھی پھریری لی اور گرجنے لگے۔ یہ کیفیت دیکھ کر سردار صاحب نے سسکاری بھری اور آسمان کی طرف منھ اٹھا کر کہا :
ـ'واہگرو! میں صابن لینے تھوڑی آیا تھا، میرا ارادہ تو نمکو خریدنے کا تھا'۔
لطیفہ منفرد تھا، خوب ہنسے لیکن اس کے ساتھ ہی روس یاترا کے کچھ مناظر بھی آنکھوں میں گھوم گئے۔ کیا غضب ہوا کہ نمازیں بخشوانے کی آرزو میں روزوں کا بوجھ بھی اٹھانا اسی کو کہتے ہیں۔
یہ اسی ماحول کا اثر تھا سیالکوٹ سے محمد علی کاظمی اور ان کے کزن بھی کھچے چلے آئے۔انھوں نے نئے پرانے گانوں سے ایسا سماں باندھا کہ لوگ اش اش کر اٹھے۔ محمد علی کاظمی کو اللہ نے پرسوز آواز سے نوازا ہے۔ احباب ان کے فن سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ انھوں نے بھی ایسی محویت سے گایا کہ لگا محمد رفیع یہیں کہیں بیٹھے ہوں گے۔ سلمان باسط نے بتایا کہ محمد علی کاظمی کوئی پیشہ ور گلوکار تو ہرگز نہیں۔ وہ ایک عام انسان کی طرح محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں۔ یہ کہتے کہتے انھیں ایک اور خیال آیا۔ انھوں نے حضرت عکسی مفتی سے درخواست کی کہ سر، ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں اور ان کی راہ نمائی فرمائیں تاکہ ان کی منفرد آواز سے بھی اہل وطن لطف اندوز ہو سکیں۔
اصل میں یہی وہ سوال تھا جس کے کان میں پڑتے ہی مفتی صاحب نے ایک نظر اس سریلے پر ڈالی پھر کہا کہ برا نہ منانا، آگے بڑھنے کی خواہش ہے تو میری نصیحت کو پلے سے باندھ لینا، سکھی رہو گے اور نام کما گے۔ اس تمہید کے ساتھ عکسی مفتی صاحب نے اس گلوکار کو ایک ایسا مشورہ دیا جو صرف گلو کاروں کے لیے ہی کار آمد نہیں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اس میں سبق ہے۔
انھوں نے کہا کہ میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ نقالی سے بچو۔ وہ کبھی نہ گا جو پہلے کسی اور نے گا رکھا ہے۔ ہاں اگر گائیکی سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو اپنی زمین سے ناتا جوڑو اور اپنے ارد گرد کے گاؤں دیہات کی خاک چھانو۔ مفتی صاحب کہنے لگے کہ اپنے خطے کے گم شدہ گیتوں اور بولیوں کو سنو، ان کی طرز اور راگوں کو سمجھو اور انھیں آگے بڑھا۔ بس، یہی ایک راستہ ہے آگے بڑھنے کا۔محمد علی کاظمی نے یہ نصیحت کھلے کانوں کے ساتھ سنی، مفتی صاحب سے جھک کر ملے اور جانے کی اجازت چاہی۔ بس، یہی منظر تھا جسے دیکھا تو توجہ بھٹکی اور وہیں جا پہنچی جس سے بچ نکلنے کی آرزو میں ہم اس کنج میں پہنچے تھے۔
اِن دنوں ہم اس تجسس میں مبتلا ہیں کہ عدم اعتماد ہو گی یا نہیں ہوگی۔ یہ جو ہمارے یہاں عدم اعتماد کی ہوا چلی ہے، اس کے پیچھے سیاست بھی ضرور رہی ہو گی لیکن اس کا ایک اہم سبب سیاست سے بڑھ کر معیشت ہے۔ جو بزرگ معاشرے کی زندگی معاشرت میں پاتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے گن کچھ ایسے بدلے ہیں کہ معاشرت معاشرت نہیں رہی، اب اسے کچھ اور نام دینا مناسب ہو گا۔ ان سب باتوں کو ملا کر دیکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اصل میں ہم اپنی راہ سے کچھ ایسے بھٹکے ہیں کہ سب کچھ حتی کہ وجود تک خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔
یہ سب شاخسانہ ایسی آرزوں کا ہے جن کے دھارے میں عکسی مفتی کی نصیحت کے الٹ بہتے ہیں۔ کسی کا تخت الٹ کر اور کسی کا تخت بچھا کر ممکن ہے، کچھ دیر کے لیے عافیت محسوس ہوتی ہو لیکن پائیدار خوشی، بقول مفتی صاحب کے آگے بڑھنے کا راستہ سیدھے سے نکلتا ہے۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ میاں صاحب کو اس قسم کے راستوں پر چلنے میں تامل تھا۔
ٹریفک کے شور نے طبیعت مکدر کر دی ہے۔ اس پر عدم اعتماد، ہو کر دیتا ہے اور نہ اس سے جان چھوٹتی ہے۔ کیوں نہ اس چخ چخ سے جان بچا کر کسی ویرانے میں جا نکلیں۔ یہ اسی ویرانے میں دھونی رمائے کی آرزو تھی کہ احباب شہر کے اس خوش باش جوڑے یعنی ڈاکٹر ایوب علوی اور نعیم فاطمہ علوی کی قیادت نکل کھڑے ہوئے۔
اس سے پہلے کہ کسی ویرانے میں جا نکلتے، راہ میں ایک اور جوڑا آکھڑا ہوا۔ یہ تھیں ہماری افسانہ نگار ڈاکٹر حمیرا اشفاق اور ان کے میاں قیصر عباس خان۔ حمیرا جدید زبان میں جدید عہد کے افسانے لکھتی ہیں لیکن جانے کیا طلسم کرتی ہیں کہ اس جدت سے بھی قدامت کی بے نام سی مہک آتی ہے مگر یہ تذکرہ ان کا نہیں قیصر عباس خان کا ہے۔ قیصر کی شہرت ڈیویلپمنٹل سیکٹر سے مخصوص ہے یا پھر وہ عالمی رفاحی اداروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کے لیے معروف ہیں۔ اس روز ان کا ایک نیا گن کھلا جب انھوں نے اپنے ویسٹ کوٹ کے بٹن کھول کر آنکھیں بند کیں اور تان لگائی ؎
تسی وی اچے تواڈی ذات وی اچی
تساں وچ اُچ دے راہندے
اسی ہاں قصوری ساڈی ذات قصوری
اساں وچ قصور دے راہند ے
بس کر ملاں ہک الف کافی
تے ہن اِن بِن ان بن اِن بِن کیا
جتھاں مینھ مہر والے وس گئے نی
اتھاں کنڑ کنڑ کنڑ کنڑ کنڑ کنڑ کیا
اس کے بعد آگے بڑھنے کا کیا سوال تھا۔ کسی نے واہ واہ کر کے داد دی تو کسی کی آنکھوں میں موتی تیرنے لگے۔ بس وہیں ڈیرا ڈال دیا۔ اس نوجوان جوڑے نے شہر کے جس کوچے میں بسیرا کر رکھا ہے، وہ کوئی ویرانہ نہیں، گلشن ہستی ہے جس میں پھول بوٹوں کی مہک، ندی نالوں کا شور اور پرندوں کا چہچہا یہاں آنے والوں کو حاضر و موجود سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ممکن ہے باغ بہشت بھی ایسی ہی بنائی گئی ہو۔ یہ اسی ماحول کا اثر تھا کہ محترمہ تحریم ظفر کی طبیعت خوب رواں ہوئی۔ بات بات پر انھوں نے لطیفے سنائے۔ ایسے کہ ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو آگئے۔
' وہ ایک سکھ تھا'۔ اپنی عادت کے مطابق انھوں نے طویل سر میں ہائے کہا اور بتایا کہ اس بے چارے پر ایک آفت ٹوٹ پڑی۔ شادی تو رچا لی لیکن صبح شام کپڑے دھونے پڑتے۔ اس مصیبت میں ایک ستم یہ ہوا کہ قدرت بھی اس کے مخالف کیمپ میں جا کھڑی ہوئی۔ جیسے ہی وہ دھوبی گھاٹ جماتا، بادل امنڈ گھمنڈ آتے۔ ایک روز موسم اچھا تھا۔ دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ سوچا کہ آج فضا سازگار ہے جیسے ہی صابن خریدنے بنئے کی دکان پر پہنچا، بادلوں نے بھی پھریری لی اور گرجنے لگے۔ یہ کیفیت دیکھ کر سردار صاحب نے سسکاری بھری اور آسمان کی طرف منھ اٹھا کر کہا :
ـ'واہگرو! میں صابن لینے تھوڑی آیا تھا، میرا ارادہ تو نمکو خریدنے کا تھا'۔
لطیفہ منفرد تھا، خوب ہنسے لیکن اس کے ساتھ ہی روس یاترا کے کچھ مناظر بھی آنکھوں میں گھوم گئے۔ کیا غضب ہوا کہ نمازیں بخشوانے کی آرزو میں روزوں کا بوجھ بھی اٹھانا اسی کو کہتے ہیں۔
یہ اسی ماحول کا اثر تھا سیالکوٹ سے محمد علی کاظمی اور ان کے کزن بھی کھچے چلے آئے۔انھوں نے نئے پرانے گانوں سے ایسا سماں باندھا کہ لوگ اش اش کر اٹھے۔ محمد علی کاظمی کو اللہ نے پرسوز آواز سے نوازا ہے۔ احباب ان کے فن سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ انھوں نے بھی ایسی محویت سے گایا کہ لگا محمد رفیع یہیں کہیں بیٹھے ہوں گے۔ سلمان باسط نے بتایا کہ محمد علی کاظمی کوئی پیشہ ور گلوکار تو ہرگز نہیں۔ وہ ایک عام انسان کی طرح محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں۔ یہ کہتے کہتے انھیں ایک اور خیال آیا۔ انھوں نے حضرت عکسی مفتی سے درخواست کی کہ سر، ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں اور ان کی راہ نمائی فرمائیں تاکہ ان کی منفرد آواز سے بھی اہل وطن لطف اندوز ہو سکیں۔
اصل میں یہی وہ سوال تھا جس کے کان میں پڑتے ہی مفتی صاحب نے ایک نظر اس سریلے پر ڈالی پھر کہا کہ برا نہ منانا، آگے بڑھنے کی خواہش ہے تو میری نصیحت کو پلے سے باندھ لینا، سکھی رہو گے اور نام کما گے۔ اس تمہید کے ساتھ عکسی مفتی صاحب نے اس گلوکار کو ایک ایسا مشورہ دیا جو صرف گلو کاروں کے لیے ہی کار آمد نہیں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اس میں سبق ہے۔
انھوں نے کہا کہ میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ نقالی سے بچو۔ وہ کبھی نہ گا جو پہلے کسی اور نے گا رکھا ہے۔ ہاں اگر گائیکی سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو اپنی زمین سے ناتا جوڑو اور اپنے ارد گرد کے گاؤں دیہات کی خاک چھانو۔ مفتی صاحب کہنے لگے کہ اپنے خطے کے گم شدہ گیتوں اور بولیوں کو سنو، ان کی طرز اور راگوں کو سمجھو اور انھیں آگے بڑھا۔ بس، یہی ایک راستہ ہے آگے بڑھنے کا۔محمد علی کاظمی نے یہ نصیحت کھلے کانوں کے ساتھ سنی، مفتی صاحب سے جھک کر ملے اور جانے کی اجازت چاہی۔ بس، یہی منظر تھا جسے دیکھا تو توجہ بھٹکی اور وہیں جا پہنچی جس سے بچ نکلنے کی آرزو میں ہم اس کنج میں پہنچے تھے۔
اِن دنوں ہم اس تجسس میں مبتلا ہیں کہ عدم اعتماد ہو گی یا نہیں ہوگی۔ یہ جو ہمارے یہاں عدم اعتماد کی ہوا چلی ہے، اس کے پیچھے سیاست بھی ضرور رہی ہو گی لیکن اس کا ایک اہم سبب سیاست سے بڑھ کر معیشت ہے۔ جو بزرگ معاشرے کی زندگی معاشرت میں پاتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے گن کچھ ایسے بدلے ہیں کہ معاشرت معاشرت نہیں رہی، اب اسے کچھ اور نام دینا مناسب ہو گا۔ ان سب باتوں کو ملا کر دیکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اصل میں ہم اپنی راہ سے کچھ ایسے بھٹکے ہیں کہ سب کچھ حتی کہ وجود تک خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔
یہ سب شاخسانہ ایسی آرزوں کا ہے جن کے دھارے میں عکسی مفتی کی نصیحت کے الٹ بہتے ہیں۔ کسی کا تخت الٹ کر اور کسی کا تخت بچھا کر ممکن ہے، کچھ دیر کے لیے عافیت محسوس ہوتی ہو لیکن پائیدار خوشی، بقول مفتی صاحب کے آگے بڑھنے کا راستہ سیدھے سے نکلتا ہے۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ میاں صاحب کو اس قسم کے راستوں پر چلنے میں تامل تھا۔