حکومتی دیوار اور عدم اعتماد کا دھکا

اپوزیشن حکومتی دیوار کو عدم اعتماد کی تحریک سے گرانے کی کوشش میں ہے

تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی پر اپوزیشن جماعتوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (فوٹو: فائل)

لاہور:
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف تحریک میں تیزی لانا شروع کردی ہے۔ پیپلزپارٹی نے کراچی سے حکومت کے خلاف مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ بلاول بھٹو کراچی سے مارچ لے کر اسلام آباد کی طرف چل نکلے ہیں۔ وہ 8 سے 10 دنوں میں طویل سفر کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں گے۔

پیپلزپارٹی کا مارچ اسلام آباد میں ایک جلسے پر ختم ہوگا یا بلاول بھٹو پڑاؤ ڈالیں گے، پیپلزپارٹی نے ابھی یہ واضح نہیں کیا ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق ہوچکی ہیں کہ حکومت کو اب چلتا کیا جائے لیکن حکومت کے خلاف تحریک کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں۔ مسلم لیگ ن وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی خواہش مند ہے جبکہ پیپلزپارٹی نے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے حکومت کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

دونوں جماعتیں پنجاب میں بھی سیاسی ماحول بدلنے کےلیے تیار ہیں لیکن تخت لاہور کس کے حصے میں آئے گا اس پر بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے پنجاب کی وزرات اعلیٰ کی نشست ق لیگ کو دینے کی تجویز پیش کی جبکہ مسلم لیگ نواز نے اس تجویز سے اختلاف کیا ہے۔

آئندہ انتخابات میں ایک سال کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اگلے سال 2023 اگست میں حکومتی مدت پوری ہوجائے گی۔ اب اتنے کم عرصے میں اگر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو شراکت اقتدار کا کیا فارمولہ ہوگا اس پر بھی اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق نہیں ہوا۔ اس ساری صورتحال میں اہم کردار جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا ہے، جو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کو ایک رائے پر متفق کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بظاہر اپوزیشن کی تمام جماعتیں حکومت کے خلاف طبل جنگ بجانے کےلیے تیار ہیں لیکن حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اتفاق نہیں۔

مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس بات کا اعلان کیا جارہا ہے کہ کسی بھی وقت تحریک عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے۔ اور یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ پیپلزپارٹی کے مارچ کے دوران ہی یا مارچ کے فوراً بعد تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور حکومت نے اپنے اتحادی ارکان اسمبلی کو اسلام آباد میں ہی رہنے کی ہدایت کی ہے۔ اپوزیشن حکومت کے خلاف نبردآزما ہے تو حکومت بھی خاموش نہیں ہے۔ حکومت نے بھی حالات کا مقابلہ کرنے کےلیے کمر کس لی ہے۔


اپوزیشن اگر تحریک عدم اعتماد پیش کرتی ہے تو قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن دیکھی جائے، 342 کے ایوان میں ایک نشست پی ٹی آئی کے خیال زمان کے انتقال سے خالی ہے۔ اس وقت 341 میں سے حکومتی جماعت تحریک انصاف کو اتحادی جماعتوں سمیت 179 کی حمایت حاصل ہے، جس میں تحریک انصاف کے اپنے 155 ارکان شامل ہیں۔ باقی جماعتوں میں ایم کیو ایم 7، مسلم لیگ ق 5، بلوچستان عوامی پارٹی 5، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ ایک، جے ڈبلیو پی ایک، آزاد دو ارکان شامل ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس وقت 162 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ جس میں مسلم لیگ ن کے 84، پیپلزپارٹی کے 56، ایم ایم اے کے 15، بی این پی کے 4، اے این پی ایک، اور آزاد دو ارکان شامل ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن ارکان کی تعداد میں 17 کا فرق ہے۔ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کےلیے حکومتی اتحادیوں کو توڑنے کے ساتھ تحریک انصاف کے ارکان کی حمایت بھی درکار ہوگی۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک انصاف کے وہ ارکان جو حکومت سے کسی نہ کسی وجہ سے ناراض ہیں، ان سے بھی حمایت کےلیے رابطے کیے جارہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کے وہ ارکان اسمبلی جو چار سال کے دوران حکومتی مراعات سے محروم رہے یا حکومتی پالیسیوں سے ناراض ہیں، اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کی جانب سے ان سے رابطے کیے گئے ہیں اور انہوں نے مشاورت کےلیے وقت مانگا ہے۔ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کےلیے ابھی بہت محنت کرنا ہوگی۔ اگر پہلے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق ہوتا ہے تو یہ اپوزیشن کی غلطی ہوگی۔ پھر یہ تحریک ناکامی پر آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ اپوزیشن کو کامیابی کےلیے براہ راست وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانی ہوگی۔

ایک سال قبل اگر سینیٹ کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتار اور بظاہر یہ نشست اپوزیشن کےلیے جیتنا انتہائی مشکل تھا لیکن اس وقت پیپلزپارٹی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت کو شکست دے دی۔ اس وقت سینیٹ الیکشن سے قبل حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو 181 ارکان اور اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو 160 ارکان کی حمایت حاصل تھی لیکن انتخابات کے دن نتائج الٹ گئے۔ سید یوسف رضا گیلانی پانچ ووٹوں کی سبقت سے سینیٹر بن گئے اور حکومتی امیدوار اکثریت حاصل ہونے کے باوجود کامیاب نہ ہوسکے۔ اگلے دن سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر حکومت کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ سینیٹ میں اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت ہے لیکن قانونی سازی میں اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت وقت کا مقابلہ اپوزیشن جماعتوں کےلیے ہمیشہ مشکل رہا ہے، جب تک درپردہ قوتوں کی آشیرباد حاصل نہ ہو۔ ماضی میں چند مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ 58 (2) بی کا سہارا لیتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والے وزیراعظم نواز شریف بھی اپنی مدت حکومت مکمل نہ کرسکے۔ اس صورتحال میں اب اہم کردار درپردہ قوتوں کا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا کھیل اب عددی برتری پر ہے۔ جب تک اپوزیشن مطلوبہ عدد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی عدم اعتماد کی تحریک لانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ عدم اعتماد تحریک کی ناکامی پر اپوزیشن جماعتوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور یہ ناکامی اپوزیشن تحریک کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ 27 مارچ کو پی ڈی ایم نے بھی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اپوزیشن حکومت کو وقت سے قبل گھر بھیجنے کی تیاری میں ہے۔ اپوزیشن حکومتی دیوار کو عدم اعتماد کی تحریک سے گرانے کی کوشش میں ہے لیکن حالات کے تناظر میں حکومت کے وقت سے قبل رخصت ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story