چلیں حلیفوں کا خیال تو آیا
حکومتی اتحادیوں کواپوزیشن کااحسان ماننا چاہیے کہ تحریک عدم اعتمادکے خوف سے وزیراعظم کواپنے بھولے ہوئے حلیف یادآگئے ہیں
حکومت کو ساڑھے تین سال بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے مطالبے پر اپنے حلیفوں کو وعدے کے مطابق مزید وزارتیں دینے کا خیال آ ہی گیا ہے اور وزیر اعظم مکمل وزارتوں کے بجائے حلیفوں کو وزیر مملکت کے عہدے دینے پر تیار ہوگئے ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں 26 مکمل وزیر 6وزیر مملکت اور لاتعداد مشیر اور معاون خصوصی رکھے ہوئے ہیں جن میں (ق) لیگ کو دو، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی اے این پی کو ایک ایک مکمل وزارت دے رکھی ہے اور کوئی ایک اہم وزارت کسی حلیف کے پاس نہیں۔ وزیر اعظم کی کوئی مجبوری ہے کہ انھیں ایک وزارت شیخ رشید کو دینا پڑی۔
وزیر اعظم مونس الٰہی کو بھی وزیر بنانا نہیں چاہتے تھے مگر اپنی وفاقی اور پنجاب حکومت بچانے کی خاطر (ق) لیگ کے دباؤ میں آنا پڑا اور تین سال بعد مونس الٰہی کو وزیر بنانا پڑا۔ مونس الٰہی نے تو پہلے کہا تھا کہ جب میں وزیر اعظم کو پسند نہیں ہوں تو کیوں وزیر بنوں مگر پھر وہ اپنا کہا بھول گئے اور (ق) لیگ کی مفاداتی سیاست کے اصول کے تحت پانی کے وزیر بن گئے۔
کسی حکومتی حلیف کو وزیر مملکت نہیں بنایا گیا اور اب حلیفوں کو آفر دی گئی ہے مگر ایم کیو ایم کے عامر خان نے وزیر مملکت کا عہدہ لینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت ہمیں دی گئی آئی ٹی کی وزارت بھی واپس لے لے کیوں کہ اس بوجھ سے ہماری ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کو پتا ہے کہ وزیر اعظم ان کا وزیر ہٹائیں گے نہیں تو ایم کیو ایم خود وزارت کیوں نہیں چھوڑ دیتی؟ ایم کیو ایم تو فیصل سبزواری کو بھی وزیر بنوانا چاہتی تھی مگر وزیر اعظم دوسروں کی طرح ایم کیو ایم سے بھی ٹال مٹول کرتے رہے کیونکہ ان کی مجبوری دیگر حلیف نہیں صرف (ق) لیگ ہے۔
بی اے این پی نے تو مزید وفاقی وزارتیں مانگی ہیں جب کہ حکومت میں تو پہلے ہی پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر اعظم کے ذاتی دوست بھرے پڑے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اپنے چار حلیفوں کے باعث بنی تھی، نہ جانے کون سی مجبوری میں صرف ایک نشست والے شیخ رشید احمد کو ریلوے کے بعد داخلہ جیسی وزارت بھی دے رکھی ہے اور انھیں ٹاپ ٹین وزیروں میں بھی شامل کیا جب کہ باقی کوئی اتحادی ٹاپ ٹین میں شامل نہیں کیا گیا۔
ایم کیو ایم حکومت کی سات قومی نشستیں رکھنے والی بڑی اتحادی ہے جب کہ (ق) لیگ اور باپ کے پاس پانچ پانچ اور جی ڈی اے کی قومی اسمبلی میں تین نشستیں ہیں۔ جمہوری وطن پارٹی کے صرف ایک ووٹ کے لیے بگٹی کے پوتے کو حکومت میں شامل کیا گیا۔ بی این پی مینگل واحد حکومتی اتحادی تھی جس نے وزارت نہیں لی تھی مگر وزیر اعظم نے ان سے کیا گیا معاہدہ قابل عمل نہ سمجھا تو اختر مینگل نے حکومت کی حمایت ترک کردی تھی۔ ایم کیو ایم سے بھی معاہدہ کیا گیا تھا مگر حکومت نے عمل نہیں کیا مگر ایم کیو ایم ایک غیر اہم وزارت بھی خود چھوڑنا نہیں چاہتی۔
برطانیہ میں ایک مخلوط حکومت اتحادیوں کی حمایت سے بنی تھی اور ایک نشست والا شخص وزیر اعظم بنا تھا اور اس حکومت نے اپنی مدت پوری کی تھی۔ دنیا کی دیگر اتحادی حکومتوں میں حلیفوں کی مدد سے خود کو منتخب کرایا، پھر دوبارہ ان سے اعتماد کا ووٹ بھی لیا تھا مگر مسلم لیگ (ق) کے سوا کوئی بھی حلیف وزیر اعظم کو دباؤ میں نہ لا سکا کیونکہ پنجاب کے باعث (ق) لیگ کی اہمیت ہے جب کہ سندھ کے دونوں حلیف اور بلوچستان کی باپ پارٹی کو وزیر اعظم نے کبھی اہمیت نہیں دی۔
نہ ان سے وزارتوں کا وعدہ پورا کیا جس کے بعد اب جب اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کیا ہے تو وزیر اعظم کو ساڑھے تین سال بعد اپنے حلیف یاد آگئے ہیں اور اب انھیں وزرائے مملکت کے عہدے بھی دیے جا رہے ہیں جس سے ایم کیو ایم تو انکاری ہے مگر (ق) لیگ پھر بھی تیسری وزارت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس کی سیاست ہی مفادات کے حصول کے لیے ہے۔
باپ کو بلوچستان میں دو وفاقی وزارتیں ملنا چاہئیں تھیں کیونکہ ان کے پاس سات سینیٹر بھی ہیں اور ان کی بلوچستان کی حکومت بھی پی ٹی آئی کے طفیل نہیں بنی تھی مگر پھر بھی باپ نے پی ٹی آئی کو صوبائی وزارتیں دے رکھی ہیں مگر پی ٹی آئی کو باپ کا خیال نہیں ہے۔
حکومتی اتحادیوں کو اپوزیشن کا احسان ماننا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کے خوف سے وزیر اعظم کو اپنے بھولے ہوئے حلیف یاد آگئے ہیں اور اب انھیں وزرائے مملکت کے عہدے اور ترقیاتی فنڈ دیے جانے کا قوی امکان ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں 26 مکمل وزیر 6وزیر مملکت اور لاتعداد مشیر اور معاون خصوصی رکھے ہوئے ہیں جن میں (ق) لیگ کو دو، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی اے این پی کو ایک ایک مکمل وزارت دے رکھی ہے اور کوئی ایک اہم وزارت کسی حلیف کے پاس نہیں۔ وزیر اعظم کی کوئی مجبوری ہے کہ انھیں ایک وزارت شیخ رشید کو دینا پڑی۔
وزیر اعظم مونس الٰہی کو بھی وزیر بنانا نہیں چاہتے تھے مگر اپنی وفاقی اور پنجاب حکومت بچانے کی خاطر (ق) لیگ کے دباؤ میں آنا پڑا اور تین سال بعد مونس الٰہی کو وزیر بنانا پڑا۔ مونس الٰہی نے تو پہلے کہا تھا کہ جب میں وزیر اعظم کو پسند نہیں ہوں تو کیوں وزیر بنوں مگر پھر وہ اپنا کہا بھول گئے اور (ق) لیگ کی مفاداتی سیاست کے اصول کے تحت پانی کے وزیر بن گئے۔
کسی حکومتی حلیف کو وزیر مملکت نہیں بنایا گیا اور اب حلیفوں کو آفر دی گئی ہے مگر ایم کیو ایم کے عامر خان نے وزیر مملکت کا عہدہ لینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت ہمیں دی گئی آئی ٹی کی وزارت بھی واپس لے لے کیوں کہ اس بوجھ سے ہماری ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کو پتا ہے کہ وزیر اعظم ان کا وزیر ہٹائیں گے نہیں تو ایم کیو ایم خود وزارت کیوں نہیں چھوڑ دیتی؟ ایم کیو ایم تو فیصل سبزواری کو بھی وزیر بنوانا چاہتی تھی مگر وزیر اعظم دوسروں کی طرح ایم کیو ایم سے بھی ٹال مٹول کرتے رہے کیونکہ ان کی مجبوری دیگر حلیف نہیں صرف (ق) لیگ ہے۔
بی اے این پی نے تو مزید وفاقی وزارتیں مانگی ہیں جب کہ حکومت میں تو پہلے ہی پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر اعظم کے ذاتی دوست بھرے پڑے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اپنے چار حلیفوں کے باعث بنی تھی، نہ جانے کون سی مجبوری میں صرف ایک نشست والے شیخ رشید احمد کو ریلوے کے بعد داخلہ جیسی وزارت بھی دے رکھی ہے اور انھیں ٹاپ ٹین وزیروں میں بھی شامل کیا جب کہ باقی کوئی اتحادی ٹاپ ٹین میں شامل نہیں کیا گیا۔
ایم کیو ایم حکومت کی سات قومی نشستیں رکھنے والی بڑی اتحادی ہے جب کہ (ق) لیگ اور باپ کے پاس پانچ پانچ اور جی ڈی اے کی قومی اسمبلی میں تین نشستیں ہیں۔ جمہوری وطن پارٹی کے صرف ایک ووٹ کے لیے بگٹی کے پوتے کو حکومت میں شامل کیا گیا۔ بی این پی مینگل واحد حکومتی اتحادی تھی جس نے وزارت نہیں لی تھی مگر وزیر اعظم نے ان سے کیا گیا معاہدہ قابل عمل نہ سمجھا تو اختر مینگل نے حکومت کی حمایت ترک کردی تھی۔ ایم کیو ایم سے بھی معاہدہ کیا گیا تھا مگر حکومت نے عمل نہیں کیا مگر ایم کیو ایم ایک غیر اہم وزارت بھی خود چھوڑنا نہیں چاہتی۔
برطانیہ میں ایک مخلوط حکومت اتحادیوں کی حمایت سے بنی تھی اور ایک نشست والا شخص وزیر اعظم بنا تھا اور اس حکومت نے اپنی مدت پوری کی تھی۔ دنیا کی دیگر اتحادی حکومتوں میں حلیفوں کی مدد سے خود کو منتخب کرایا، پھر دوبارہ ان سے اعتماد کا ووٹ بھی لیا تھا مگر مسلم لیگ (ق) کے سوا کوئی بھی حلیف وزیر اعظم کو دباؤ میں نہ لا سکا کیونکہ پنجاب کے باعث (ق) لیگ کی اہمیت ہے جب کہ سندھ کے دونوں حلیف اور بلوچستان کی باپ پارٹی کو وزیر اعظم نے کبھی اہمیت نہیں دی۔
نہ ان سے وزارتوں کا وعدہ پورا کیا جس کے بعد اب جب اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کیا ہے تو وزیر اعظم کو ساڑھے تین سال بعد اپنے حلیف یاد آگئے ہیں اور اب انھیں وزرائے مملکت کے عہدے بھی دیے جا رہے ہیں جس سے ایم کیو ایم تو انکاری ہے مگر (ق) لیگ پھر بھی تیسری وزارت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ اس کی سیاست ہی مفادات کے حصول کے لیے ہے۔
باپ کو بلوچستان میں دو وفاقی وزارتیں ملنا چاہئیں تھیں کیونکہ ان کے پاس سات سینیٹر بھی ہیں اور ان کی بلوچستان کی حکومت بھی پی ٹی آئی کے طفیل نہیں بنی تھی مگر پھر بھی باپ نے پی ٹی آئی کو صوبائی وزارتیں دے رکھی ہیں مگر پی ٹی آئی کو باپ کا خیال نہیں ہے۔
حکومتی اتحادیوں کو اپوزیشن کا احسان ماننا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کے خوف سے وزیر اعظم کو اپنے بھولے ہوئے حلیف یاد آگئے ہیں اور اب انھیں وزرائے مملکت کے عہدے اور ترقیاتی فنڈ دیے جانے کا قوی امکان ہے۔