وزیراعظم کا دورہ روسسماجی و معاشی ترقی میں دیرپا تعلقات کا عزم
یوکرین تنازع کسی کے مفاد میں نہیں، فریقین کو بات چیت سے مسائل حل کرنا ہونگے، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارخیال
وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ روس اور موجودہ عالمی صورتحال کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سابق سفراء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
عبدالباسط
(سابق سفیر برائے بھارت)
وزیراعظم کا دورہ روس دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تعلقات کی بحالی کیلئے اچھی پیشرفت ہے، یہ دورہ کس قدر کامیاب رہا اس کے ثمرات تو آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہوں گے لیکن فی الوقت یہ بہت بڑی پیشرفت ہے کہ وزیراعظم نے ایک ایسے موقع پر روس کا دورہ کیا جب وہاں ہمسایہ ملک کے ساتھ تنازعہ بھی شروع ہوا ہے۔
اگرچہ ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی بحالی کیلئے کوششیں ہوئی، انہی کوششوں کے نتیجے میں سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011ء میں روس کا دورہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس دورے کا دوبارہ فالو اپ نہیں کیا گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ روس اس خطے کا اہم اور معاشی و دفاعی طور پر مستحکم و طاقتور ملک ہے، روس کے ساتھ تعلقات کی بہتری ہمارے مفاد میں ہے ، میرے خیال میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہتر سے بہتر ہونے چاہئے، اگرچہ دونوں طرف ہی کچھ حدود و قیود ہیں مگر اس کے باوجود اس دورے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
دورے کے دوران سٹیم پائپ لائن کا معاہدہ بھی نہیں ہوسکا البتہ بہت سارے امور پر گفتگو ضرور ہوئی ہے جو اس دورے کی بہت بڑی کامیابی ہے، اب اس دورہ سے دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تعلقات کی راہیں کھل چکی ہے جو مستقبل کی سمت کا تعین کرے گا۔اب ہمارے لئے اہم یہ ہے کہ روسی صدر ولادمیر پیوٹن کب پاکستان کا دورہ کرتے ہیں۔روس یوکرین تنازعہ اتنا اہم نہیں جتنا میڈیا میں اچھالا جارہا ہے، یہ سارا معاملہ نیٹو کی وجہ سے ہے۔میں سمجھتاہوں کہ نیٹو کو اب ختم ہوجانا چاہئے، نیٹو اب امن کی علامت کے بجائے دنیا میں عدم استحکام کی علامت بن چکا ہے۔
جاوید حسن
(سابق سفیر برائے جرمنی)
وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس تاریخی نوعیت کا ہے۔یہ دورہ بہت پہلے ہی طے ہوچکا تھا، وزیراعظم کی بیجنگ میں ونٹر اولمپکس کے دوران روسی صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد وزیراعظم کا دورہ روس یقینی ہوا۔
وزیراعظم کا دورہ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کا شاخصانہ ہے، پاکستان نے برملا کہا ہے کہ پاکستان کسی کیمپ یا بلاک یا کولڈ وار کا حصہ نہیں بنے گا بلکہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے کردار ادا کرے گا۔وزیراعظم کا جس انداز میں روس میں استقبال ہوا اور جو پروٹوکول دیا گیا وہ شاندار تھا ، خاص طور پر صدر پیوٹن اور وزیراعظم عمران خان کی ون آن ون ملاقات بہت دیر تک جاری رہی جس میں بہت سارے دو طرفہ امور پر بات چیت ہوئی ہے، جو دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تعلقات کی بحالی و مستقبل کیلئے بہت اہم ہے، امید ہے کہ مستقبل میں روسی صدر بھی پاکستان کا دورہ کرے گا۔ اب روسی عوام میں پاکستانی بیانیہ کی پزیرائی ہورہی ہے۔
جہاں تک وزیراعظم کے دورے کی ٹائمنگ کی بات ہے تو یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ روس و یوکرین کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اس کے پیچھے مغربی و نیٹو ممالک ہیں کیونکہ نیٹو ممالک روس و چین کو اپنا حریف اور اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ سوویٹ یونین ٹوٹنے کے بعد نیٹو کے وجود کا کوئی جواز نہیں رہتا تھا مگر اسے قائم رکھا گیا۔
آج بھی انہی طاقتور ممالک نے اپنے مفادات کے خاطر دنیا کے کئی ممالک کو تباہ و برباد کیا۔آج بھی مغربی ممالک روس کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ماضی کے مقابلے میں روس اب دفاعی و معاشی طور پر طاقتور ہوچکے ہیں، روس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مغربی ممالک کی تمام سازشوں کو برداشت کیا اور پوری توجہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر صرف کی۔آج روس اس پوزیشن پر ہے کہ وہ کسی کی دھمکی میں آنے کے بجائے اسے جواب دے سکتا ہے۔
روس نے اب مغربی دنیا کو جواب دیدیا ہے کہ بس اب بہت ہوچکا۔ دنیا کے حالات اس وقت تیزی سے بدل رہے ہیں،یہ صدی یوروایشیاٹک ممالک کی ہے اور پاکستان اس خطے کا اہم ملک ہے اور پاکستان کو اس خطے کا زپرسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ہمیں اس صدی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ماضی میں مغربی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر رہے، اب بھی ہم نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ تعلقات خراب ہوں۔ہم نے امریکی مفادات کیلئے بہت ساری قربانیاں دی ہیں، بہت سارے نقصانات و دکھ سہے ہیں مگر اب مزید ڈو مور کا سلسلہ نہیں چلے گا۔امریکا ایک طرف کہتا ہے کہ پاکستان ہمارا اہم اتحادی ہے مگر دوسری طرف ہندوستان کو سٹرٹیجک پارٹنر بنایاہوا ہے جو امریکا کی شہ پر اس خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے۔
آصف درانی
(سابق سفیر برائے ایران و افغانستان)
وزیراعظم کا دورہ روس انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس دورے کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔اگرچہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا مگر روس و یوکرین کے مابین جاری حالیہ کشیدگی کے باعث صورتحال ضرور تبدیل ہوئی لیکن اس کے باوجود اس دورے کا ہونا بہت ضروری تھا کیونکہ اس دورے کا روس یوکرین کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تھا، جس طرح روس کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں یوکرین کے ساتھ بھی ہمارے اچھے تعلقات ہیں، دونوں ہی ہمارے دوست ملک ہیں۔ ہمارا روس یوکرین تنازعہ میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
یہ دو ملکوں کے مابین دوطرفہ تعلقات کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم تھا جس کو کسی صورت روس یوکرین تنازعہ کی نذر نہیں ہونا چاہئے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سطح کا کوئی بھی دورہ ہمیشہ کامیاب دورہ ہی ہوتا ہے۔اگرچہ 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے دورہ روس کے بعد 2012ء میں صدر پیوٹن کا دورہ پاکستان شیڈول تھا لیکن بدقسمتی سے ڈنمارک سفارتخانہ حملہ اور مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے باعث صدر پیوٹن کا دورہ پاکستان منسوخ ہوا تھا۔اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین وزراء خارجہ سطح کے دورے ہوتے رہے ہیں، ملٹری دورے بھی ہوتے رہے ہیں ، دونوں ملکوں کے مابین ملٹری و دفاعی معاہدے ہورہے ہیں۔
میرے خیال میں یہ کامیاب دورہ تھا اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمجوشی آئے گی۔امید ہے کہ اس دورے کے بعد اب دونوں ممالک کے مابین اہم معاہدے ہوں گے اور اس بات کی بھی امید ہے کہ صدرپیوٹن بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ جہاں تک پاک امریکا تعلقات کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعددونوں کے مابین تعلقات میں گرمجوشی آئی مگر اب افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے، ان میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس یہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے اور یہ ہی ہونے چاہئیں ۔
ڈاکٹر جمیل احمد خان
(سابق سفیر برائے متحدہ عرب امارات)
دنیا کے تبدیل ہوتے جیو پولیٹیکل منظر نامے کو مد نظر رکھ کر اگر وزیراعظم کے دورہ روس کو دیکھا جائے تو یہ دورہ انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے، مغرب کی نظر سے اس دورے کو دیکھا جائے تو بھی اس دورہ سے روس و چین بلاک میں پاکستان کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔اس دورے میں کوئی ایسی لغزش پیش نہیں آئی کہ جس میں کہا جائے کہ ہم نے روسی حملے کی حمایت یا طرفداری کی ہو بلکہ اس کے برعکس ، وزیراعظم نے دورہ کے دوران روس و یوکرین کشیدگی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس مسئلے کاواحد حل مذاکرات ہے۔
امریکا یا اس کے حواری یہ نہیں کہ سکتے وہاں جاکر عمران خان نے کوئی ایسی بات کی ہو جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔مجموعی طور پر پاکستان کی نظر سے اگر اس دورے کو دیکھا جائے تو یہ ایک کامیاب دورہ تھا، یہ پاکستان کا روس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کومزید مضبوط ومستحکم کرے گاجس کے ثمرات ہمیں ٹیکنالوجی، ٹریڈ، و سٹریم پائپ لائن کی صورت میں ملے گا اور یہ دورہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین تعلقات و راوبط کو فروغ دینے کیلئے مفید ثابت ہوگا۔
عبدالباسط
(سابق سفیر برائے بھارت)
وزیراعظم کا دورہ روس دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تعلقات کی بحالی کیلئے اچھی پیشرفت ہے، یہ دورہ کس قدر کامیاب رہا اس کے ثمرات تو آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہوں گے لیکن فی الوقت یہ بہت بڑی پیشرفت ہے کہ وزیراعظم نے ایک ایسے موقع پر روس کا دورہ کیا جب وہاں ہمسایہ ملک کے ساتھ تنازعہ بھی شروع ہوا ہے۔
اگرچہ ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی بحالی کیلئے کوششیں ہوئی، انہی کوششوں کے نتیجے میں سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011ء میں روس کا دورہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس دورے کا دوبارہ فالو اپ نہیں کیا گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ روس اس خطے کا اہم اور معاشی و دفاعی طور پر مستحکم و طاقتور ملک ہے، روس کے ساتھ تعلقات کی بہتری ہمارے مفاد میں ہے ، میرے خیال میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہتر سے بہتر ہونے چاہئے، اگرچہ دونوں طرف ہی کچھ حدود و قیود ہیں مگر اس کے باوجود اس دورے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
دورے کے دوران سٹیم پائپ لائن کا معاہدہ بھی نہیں ہوسکا البتہ بہت سارے امور پر گفتگو ضرور ہوئی ہے جو اس دورے کی بہت بڑی کامیابی ہے، اب اس دورہ سے دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تعلقات کی راہیں کھل چکی ہے جو مستقبل کی سمت کا تعین کرے گا۔اب ہمارے لئے اہم یہ ہے کہ روسی صدر ولادمیر پیوٹن کب پاکستان کا دورہ کرتے ہیں۔روس یوکرین تنازعہ اتنا اہم نہیں جتنا میڈیا میں اچھالا جارہا ہے، یہ سارا معاملہ نیٹو کی وجہ سے ہے۔میں سمجھتاہوں کہ نیٹو کو اب ختم ہوجانا چاہئے، نیٹو اب امن کی علامت کے بجائے دنیا میں عدم استحکام کی علامت بن چکا ہے۔
جاوید حسن
(سابق سفیر برائے جرمنی)
وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس تاریخی نوعیت کا ہے۔یہ دورہ بہت پہلے ہی طے ہوچکا تھا، وزیراعظم کی بیجنگ میں ونٹر اولمپکس کے دوران روسی صدر پیوٹن سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد وزیراعظم کا دورہ روس یقینی ہوا۔
وزیراعظم کا دورہ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کا شاخصانہ ہے، پاکستان نے برملا کہا ہے کہ پاکستان کسی کیمپ یا بلاک یا کولڈ وار کا حصہ نہیں بنے گا بلکہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے کردار ادا کرے گا۔وزیراعظم کا جس انداز میں روس میں استقبال ہوا اور جو پروٹوکول دیا گیا وہ شاندار تھا ، خاص طور پر صدر پیوٹن اور وزیراعظم عمران خان کی ون آن ون ملاقات بہت دیر تک جاری رہی جس میں بہت سارے دو طرفہ امور پر بات چیت ہوئی ہے، جو دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تعلقات کی بحالی و مستقبل کیلئے بہت اہم ہے، امید ہے کہ مستقبل میں روسی صدر بھی پاکستان کا دورہ کرے گا۔ اب روسی عوام میں پاکستانی بیانیہ کی پزیرائی ہورہی ہے۔
جہاں تک وزیراعظم کے دورے کی ٹائمنگ کی بات ہے تو یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ روس و یوکرین کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اس کے پیچھے مغربی و نیٹو ممالک ہیں کیونکہ نیٹو ممالک روس و چین کو اپنا حریف اور اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ سوویٹ یونین ٹوٹنے کے بعد نیٹو کے وجود کا کوئی جواز نہیں رہتا تھا مگر اسے قائم رکھا گیا۔
آج بھی انہی طاقتور ممالک نے اپنے مفادات کے خاطر دنیا کے کئی ممالک کو تباہ و برباد کیا۔آج بھی مغربی ممالک روس کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ماضی کے مقابلے میں روس اب دفاعی و معاشی طور پر طاقتور ہوچکے ہیں، روس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مغربی ممالک کی تمام سازشوں کو برداشت کیا اور پوری توجہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر صرف کی۔آج روس اس پوزیشن پر ہے کہ وہ کسی کی دھمکی میں آنے کے بجائے اسے جواب دے سکتا ہے۔
روس نے اب مغربی دنیا کو جواب دیدیا ہے کہ بس اب بہت ہوچکا۔ دنیا کے حالات اس وقت تیزی سے بدل رہے ہیں،یہ صدی یوروایشیاٹک ممالک کی ہے اور پاکستان اس خطے کا اہم ملک ہے اور پاکستان کو اس خطے کا زپرسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ہمیں اس صدی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ماضی میں مغربی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر رہے، اب بھی ہم نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ تعلقات خراب ہوں۔ہم نے امریکی مفادات کیلئے بہت ساری قربانیاں دی ہیں، بہت سارے نقصانات و دکھ سہے ہیں مگر اب مزید ڈو مور کا سلسلہ نہیں چلے گا۔امریکا ایک طرف کہتا ہے کہ پاکستان ہمارا اہم اتحادی ہے مگر دوسری طرف ہندوستان کو سٹرٹیجک پارٹنر بنایاہوا ہے جو امریکا کی شہ پر اس خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے۔
آصف درانی
(سابق سفیر برائے ایران و افغانستان)
وزیراعظم کا دورہ روس انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس دورے کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔اگرچہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا مگر روس و یوکرین کے مابین جاری حالیہ کشیدگی کے باعث صورتحال ضرور تبدیل ہوئی لیکن اس کے باوجود اس دورے کا ہونا بہت ضروری تھا کیونکہ اس دورے کا روس یوکرین کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تھا، جس طرح روس کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں یوکرین کے ساتھ بھی ہمارے اچھے تعلقات ہیں، دونوں ہی ہمارے دوست ملک ہیں۔ ہمارا روس یوکرین تنازعہ میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
یہ دو ملکوں کے مابین دوطرفہ تعلقات کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم تھا جس کو کسی صورت روس یوکرین تنازعہ کی نذر نہیں ہونا چاہئے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سطح کا کوئی بھی دورہ ہمیشہ کامیاب دورہ ہی ہوتا ہے۔اگرچہ 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے دورہ روس کے بعد 2012ء میں صدر پیوٹن کا دورہ پاکستان شیڈول تھا لیکن بدقسمتی سے ڈنمارک سفارتخانہ حملہ اور مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے باعث صدر پیوٹن کا دورہ پاکستان منسوخ ہوا تھا۔اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین وزراء خارجہ سطح کے دورے ہوتے رہے ہیں، ملٹری دورے بھی ہوتے رہے ہیں ، دونوں ملکوں کے مابین ملٹری و دفاعی معاہدے ہورہے ہیں۔
میرے خیال میں یہ کامیاب دورہ تھا اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمجوشی آئے گی۔امید ہے کہ اس دورے کے بعد اب دونوں ممالک کے مابین اہم معاہدے ہوں گے اور اس بات کی بھی امید ہے کہ صدرپیوٹن بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ جہاں تک پاک امریکا تعلقات کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعددونوں کے مابین تعلقات میں گرمجوشی آئی مگر اب افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے، ان میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس یہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے اور یہ ہی ہونے چاہئیں ۔
ڈاکٹر جمیل احمد خان
(سابق سفیر برائے متحدہ عرب امارات)
دنیا کے تبدیل ہوتے جیو پولیٹیکل منظر نامے کو مد نظر رکھ کر اگر وزیراعظم کے دورہ روس کو دیکھا جائے تو یہ دورہ انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے، مغرب کی نظر سے اس دورے کو دیکھا جائے تو بھی اس دورہ سے روس و چین بلاک میں پاکستان کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔اس دورے میں کوئی ایسی لغزش پیش نہیں آئی کہ جس میں کہا جائے کہ ہم نے روسی حملے کی حمایت یا طرفداری کی ہو بلکہ اس کے برعکس ، وزیراعظم نے دورہ کے دوران روس و یوکرین کشیدگی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس مسئلے کاواحد حل مذاکرات ہے۔
امریکا یا اس کے حواری یہ نہیں کہ سکتے وہاں جاکر عمران خان نے کوئی ایسی بات کی ہو جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔مجموعی طور پر پاکستان کی نظر سے اگر اس دورے کو دیکھا جائے تو یہ ایک کامیاب دورہ تھا، یہ پاکستان کا روس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کومزید مضبوط ومستحکم کرے گاجس کے ثمرات ہمیں ٹیکنالوجی، ٹریڈ، و سٹریم پائپ لائن کی صورت میں ملے گا اور یہ دورہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین تعلقات و راوبط کو فروغ دینے کیلئے مفید ثابت ہوگا۔