غربت اسلحہ کا خاتمہ اسٹریٹ کرائم کا حل
ہر ماہ کراچی میں کئی افراد اس طرح کی صورتحال میں جاں بحق ہوتے ہیں
اطہر متین ایک ہونہار طالب علم تھے، ایک کامیابی ٹی وی پروڈیوسر تھے۔ گزشتہ ہفتہ نارتھ ناظم آباد میں ایک مظلوم شخص کو لٹنے سے بچانے کی کوشش میں اپنی جان سے گئے۔ اطہر متین پہلے فرد نہیں جو اسٹریٹ کرائم کے دوران مزاحمت پر قتل کیے گئے۔ ہر ماہ کراچی میں کئی افراد اس طرح کی صورتحال میں جاں بحق ہوتے ہیں۔
اطہر متین ایک ملنسار صحافی تھے۔ کراچی کی صحافتی برادری نے اطہر کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے احتجاج شروع کردیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اطہر کے گھر گئے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ وزیر اطلاعات سعید غنی نے صحافی ایکشن کمیٹی سے وعدہ کیا کہ اطہر متین کے لواحقین کو حکومت معاوضہ ادا کرے گی۔ کراچی پولیس نے پندرہ دن بعد دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔
گزشتہ مہینہ پی ای سی ایچ ایس میں ایک نوجوان جس کی دو دن قبل شادی ہوئی تھی۔ اپنی ماں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ پر آیا تھا ، ظالم قاتل نے اس کے سینے میں گولیاں اتار دی تھیں۔ بعد میں پولیس حکام نے دعویٰ کیا کہ قاتل کراچی پولیس کا اہلکار تھا جس نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خودکشی کرلی تھی۔ وزیر اعلیٰ اس پولیس والے قاتل کی خودکشی کی خبر سن کر مطمئن ہوئے اور اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ شاید تحقیقات ہی پولیس کے دعویٰ کی توثیق کرتی۔
کراچی میں 1988سے رینجرز تعینات ہے۔ رینجرز کے سپرد امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا ہے۔ رینجرز مختلف وارداتوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے آپریشن منظم کرتے ہیں اور ملزمان کی گرفتاریوں کی خبریں اور تصاویر باقاعدگی سے ذرائع ابلاغ پر شائع اور نشر ہوتی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید لیکن مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو ان کی مستقبل میں ناکامیوں کے بارے میں آگہی کا فریضہ انجام دینے میں مصروف رہے۔ انھوں نے حقائق جانے بغیر صوبائی حکومت کو پیشکش کردی کہ رینجرز کے دستوں کو سندھ پولیس کی مدد کے لیے ہدایات دیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا مدعا ہے کہ اسٹریٹ کرائم اتنے زیادہ نہیں ہوتے جتنا پروپیگنڈا ہورہا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ گزشتہ ہفتہ کورنگی کاز وے پر رات کے وقت سو افراد کہاں سے آگئے جنھیں لوٹ لیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے وزراء کا ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی ، بے روزگاری نوجوانوں کو اسٹریٹ کرائم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ایران اور افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کے اثرات کراچی پر پڑے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اس مؤقف میں کئی حقائق کا اظہار ہوتا ہے۔
کراچی کے شہری علاقوں کی نمایندہ تنظیم متحدہ قومی موومنٹ اس صدی کے آغاز سے 2008 تک ان علاقوں کی بلاشرکت غیر مالک تھی۔ ان کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ غیر مقامی پولیس کے اہلکار جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں اور وہ اپنی ڈیوٹی کے علاقوں کے راستوں سے واقف نہیں ہوتے، اس بناء پر وہ جرائم خاص طور پر اسٹریٹ کرائمز کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کا بھی یہی مؤقف ہے کہ دیگر علاقوں سے آنے والے اسٹریٹ کرائم میں شامل ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں ایران، افغانستان، بنگلہ دیش اور برما کے لوگوں کی بڑی تعداد آباد ہے ، دیگر صوبوں سے آنے والے بھی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پولیس ہر سال ایسے کئی درجن گروہوں کا قلع قمع کرتی ہے جو دیگر علاقوں سے آکر کراچی میں وارداتیں کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ چوہتر برسوں سے کراچی میں آباد بہت سے افراد جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گزشتہ مہینہ کراچی کے علاقہ پی ای سی ایچ ایس کی معروف شاہراہ علامہ اقبال روڈ پر علی الصبح کئی افراد سڑک پر قائم ہوٹل میں چائے پراٹھے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ کئی نوجوان موٹر سائیکلوں پر آئے۔
ان افراد نے پستول دکھا کر ہوٹل میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے موبائل فون جمع کیے اور نہایت اطمینان سے چلے گئے۔ جو موبائل چوری کیے گئے، ان میں آئی فون بھی تھا۔ یہ چور شاید آئی فون کو بند کرنے کا طریقہ کار سے واقف نہیں تھے، یوں پولیس نے ایک گھنٹہ میں لائنز ایریا میں اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہونے والے ملزموں کو گرفتار کرلیا۔
کراچی کے جرائم پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے بھی یہ رائے دی ہے کہ انسانی جان اتنی ارزاں نہیں ہوتی کہ موبائل اور وولٹ کو بچانے کے لیے ضایع کردی جائے۔ ماہرین نفسیات کا مؤقف ہے کہ اسٹریٹ کرائم کرنے والے خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں ، وہ اس بناء پر گولی چلا دیتے ہیں ۔ ماہرین کی یہ رائے ہے کہ شہری موبائل اور چند سو روپوں کو بچانے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کو داؤ پر نہ لگائیں۔ دنیا کے دو جدید شہروں لندن اور ٹورنٹو کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو وہاں حقائق یوں آشکار ہوتے ہیں کہ پولیس کے اہلکار سڑکوں پر تعینات نظر نہیں آتے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی یعنی کلوز کیمروں اور مانیٹرنگ سسٹم سے سڑکوں کی نگرانی ہوتی ہے۔
اسلحہ قانونی یا غیر قانونی رکھنے والے کو چند ہفتوں میں سزا ہوجاتی ہے۔ یہ شہر کبھی جرائم کے شہر کہلاتے تھے مگر اب وہاں کے شہری سکون سے زندگی گزارتے ہیں۔ ٹورنٹو میں مقیم بشارت مرزا نے کینیڈا کی حکومتوں کی پالیسیوں کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے سب سے پہلے غربت کی شرح کم کرنے پر توجہ دی۔ نوجوانوں کو غربت سے نکال کر اور کھیلوں اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف کیا گیا تو جرائم کی شرح کم ہوگئی۔
کراچی ایک زمانہ میں دنیا کے پرامن شہروں کی فہرست میں شامل تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی پالیسیوں سے کراچی براہ راست متاثر ہوا۔ جنرل ضیاء الحق حکومت نے امریکا کے افغان پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔ اس پروجیکٹ کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ جنرلوں اور مولویوں کی زندگیوں میں انقلاب آگیا مگر نقصان یہ ہوا کہ کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔ کراچی میں اسلحہ کی بھرمار ہوگئی۔
کراچی کے مضافاتی علاقوں میں افغان مہاجرین کی بستیاں آباد ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق اور ان قریبی ساتھیوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لے پہلے شہر میں فرقہ وارانہ فسادات کرائے اور پھر شہر لسانی فسادات کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ اس زمانہ میں رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں نے اسلحہ کی اسمگلنگ کی سرپرستی کی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ایک وقت ایسا تھا کہ کراچی میں موٹر سائیکل کے مقابلہ میں کلاشنکوف ، یورپ اور اسرائیل کا تیار کردہ اسلحہ دستیاب ہوا۔ بعض مذہبی اور لسانی تنظیموں کے پاس تو اینٹی ایئر کرافٹ گن وغیرہ بھی آگئی تھیں۔
80ء کی دہائی سے ہر حکومت یہ اعلان کرتی رہی کہ اسلحہ کی فراہمی کو روک دیا جائے گا مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں کراچی آپریشن کے دوران اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر نے ایسی حکمت عملی تیار کی تھی کہ قبائلی علاقوں سے اسلحہ کراچی نہ پہنچے مگر اسلحہ کی فراہمی کو روکنے کی ذمے داری صرف سندھ حکومت پورا نہیں کرسکتی، باقی تینوں صوبوں اور وفاق بھی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں تو پھر یہ مشکل ہدف حاصل ہوسکے گا ۔
بشارت مرزا کی یہ بات انتہائی اہم ہے کہ حکومت غربت کے خاتمہ، نوجوانوں کو کھیل، موسیقی اور تعلیمی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے پر توجہ دے تو پھر اسٹریٹ کرائم میں کمی آئے گی اور انگریز دور کے اس قانون کو کہ ہر ضلع میں ایک سے پندرہ گریڈ تک کی آسامیوں پر اس ضلع کے ڈومیسائل یافتہ افراد کا تقرر کیا جائے تو عوام اور پولیس میں فاصلے ختم ہوجائیں گے۔
اطہر متین ایک ملنسار صحافی تھے۔ کراچی کی صحافتی برادری نے اطہر کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے احتجاج شروع کردیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اطہر کے گھر گئے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ وزیر اطلاعات سعید غنی نے صحافی ایکشن کمیٹی سے وعدہ کیا کہ اطہر متین کے لواحقین کو حکومت معاوضہ ادا کرے گی۔ کراچی پولیس نے پندرہ دن بعد دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔
گزشتہ مہینہ پی ای سی ایچ ایس میں ایک نوجوان جس کی دو دن قبل شادی ہوئی تھی۔ اپنی ماں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ پر آیا تھا ، ظالم قاتل نے اس کے سینے میں گولیاں اتار دی تھیں۔ بعد میں پولیس حکام نے دعویٰ کیا کہ قاتل کراچی پولیس کا اہلکار تھا جس نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خودکشی کرلی تھی۔ وزیر اعلیٰ اس پولیس والے قاتل کی خودکشی کی خبر سن کر مطمئن ہوئے اور اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ شاید تحقیقات ہی پولیس کے دعویٰ کی توثیق کرتی۔
کراچی میں 1988سے رینجرز تعینات ہے۔ رینجرز کے سپرد امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا ہے۔ رینجرز مختلف وارداتوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے آپریشن منظم کرتے ہیں اور ملزمان کی گرفتاریوں کی خبریں اور تصاویر باقاعدگی سے ذرائع ابلاغ پر شائع اور نشر ہوتی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید لیکن مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو ان کی مستقبل میں ناکامیوں کے بارے میں آگہی کا فریضہ انجام دینے میں مصروف رہے۔ انھوں نے حقائق جانے بغیر صوبائی حکومت کو پیشکش کردی کہ رینجرز کے دستوں کو سندھ پولیس کی مدد کے لیے ہدایات دیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا مدعا ہے کہ اسٹریٹ کرائم اتنے زیادہ نہیں ہوتے جتنا پروپیگنڈا ہورہا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ گزشتہ ہفتہ کورنگی کاز وے پر رات کے وقت سو افراد کہاں سے آگئے جنھیں لوٹ لیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے وزراء کا ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی ، بے روزگاری نوجوانوں کو اسٹریٹ کرائم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ایران اور افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کے اثرات کراچی پر پڑے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اس مؤقف میں کئی حقائق کا اظہار ہوتا ہے۔
کراچی کے شہری علاقوں کی نمایندہ تنظیم متحدہ قومی موومنٹ اس صدی کے آغاز سے 2008 تک ان علاقوں کی بلاشرکت غیر مالک تھی۔ ان کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ غیر مقامی پولیس کے اہلکار جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں اور وہ اپنی ڈیوٹی کے علاقوں کے راستوں سے واقف نہیں ہوتے، اس بناء پر وہ جرائم خاص طور پر اسٹریٹ کرائمز کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کراچی پولیس کے سربراہ کا بھی یہی مؤقف ہے کہ دیگر علاقوں سے آنے والے اسٹریٹ کرائم میں شامل ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں ایران، افغانستان، بنگلہ دیش اور برما کے لوگوں کی بڑی تعداد آباد ہے ، دیگر صوبوں سے آنے والے بھی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پولیس ہر سال ایسے کئی درجن گروہوں کا قلع قمع کرتی ہے جو دیگر علاقوں سے آکر کراچی میں وارداتیں کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ چوہتر برسوں سے کراچی میں آباد بہت سے افراد جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گزشتہ مہینہ کراچی کے علاقہ پی ای سی ایچ ایس کی معروف شاہراہ علامہ اقبال روڈ پر علی الصبح کئی افراد سڑک پر قائم ہوٹل میں چائے پراٹھے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ کئی نوجوان موٹر سائیکلوں پر آئے۔
ان افراد نے پستول دکھا کر ہوٹل میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے موبائل فون جمع کیے اور نہایت اطمینان سے چلے گئے۔ جو موبائل چوری کیے گئے، ان میں آئی فون بھی تھا۔ یہ چور شاید آئی فون کو بند کرنے کا طریقہ کار سے واقف نہیں تھے، یوں پولیس نے ایک گھنٹہ میں لائنز ایریا میں اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہونے والے ملزموں کو گرفتار کرلیا۔
کراچی کے جرائم پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے بھی یہ رائے دی ہے کہ انسانی جان اتنی ارزاں نہیں ہوتی کہ موبائل اور وولٹ کو بچانے کے لیے ضایع کردی جائے۔ ماہرین نفسیات کا مؤقف ہے کہ اسٹریٹ کرائم کرنے والے خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں ، وہ اس بناء پر گولی چلا دیتے ہیں ۔ ماہرین کی یہ رائے ہے کہ شہری موبائل اور چند سو روپوں کو بچانے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کو داؤ پر نہ لگائیں۔ دنیا کے دو جدید شہروں لندن اور ٹورنٹو کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو وہاں حقائق یوں آشکار ہوتے ہیں کہ پولیس کے اہلکار سڑکوں پر تعینات نظر نہیں آتے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی یعنی کلوز کیمروں اور مانیٹرنگ سسٹم سے سڑکوں کی نگرانی ہوتی ہے۔
اسلحہ قانونی یا غیر قانونی رکھنے والے کو چند ہفتوں میں سزا ہوجاتی ہے۔ یہ شہر کبھی جرائم کے شہر کہلاتے تھے مگر اب وہاں کے شہری سکون سے زندگی گزارتے ہیں۔ ٹورنٹو میں مقیم بشارت مرزا نے کینیڈا کی حکومتوں کی پالیسیوں کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے سب سے پہلے غربت کی شرح کم کرنے پر توجہ دی۔ نوجوانوں کو غربت سے نکال کر اور کھیلوں اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف کیا گیا تو جرائم کی شرح کم ہوگئی۔
کراچی ایک زمانہ میں دنیا کے پرامن شہروں کی فہرست میں شامل تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی پالیسیوں سے کراچی براہ راست متاثر ہوا۔ جنرل ضیاء الحق حکومت نے امریکا کے افغان پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔ اس پروجیکٹ کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ جنرلوں اور مولویوں کی زندگیوں میں انقلاب آگیا مگر نقصان یہ ہوا کہ کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔ کراچی میں اسلحہ کی بھرمار ہوگئی۔
کراچی کے مضافاتی علاقوں میں افغان مہاجرین کی بستیاں آباد ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق اور ان قریبی ساتھیوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لے پہلے شہر میں فرقہ وارانہ فسادات کرائے اور پھر شہر لسانی فسادات کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ اس زمانہ میں رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں نے اسلحہ کی اسمگلنگ کی سرپرستی کی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ایک وقت ایسا تھا کہ کراچی میں موٹر سائیکل کے مقابلہ میں کلاشنکوف ، یورپ اور اسرائیل کا تیار کردہ اسلحہ دستیاب ہوا۔ بعض مذہبی اور لسانی تنظیموں کے پاس تو اینٹی ایئر کرافٹ گن وغیرہ بھی آگئی تھیں۔
80ء کی دہائی سے ہر حکومت یہ اعلان کرتی رہی کہ اسلحہ کی فراہمی کو روک دیا جائے گا مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں کراچی آپریشن کے دوران اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر نے ایسی حکمت عملی تیار کی تھی کہ قبائلی علاقوں سے اسلحہ کراچی نہ پہنچے مگر اسلحہ کی فراہمی کو روکنے کی ذمے داری صرف سندھ حکومت پورا نہیں کرسکتی، باقی تینوں صوبوں اور وفاق بھی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں تو پھر یہ مشکل ہدف حاصل ہوسکے گا ۔
بشارت مرزا کی یہ بات انتہائی اہم ہے کہ حکومت غربت کے خاتمہ، نوجوانوں کو کھیل، موسیقی اور تعلیمی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے پر توجہ دے تو پھر اسٹریٹ کرائم میں کمی آئے گی اور انگریز دور کے اس قانون کو کہ ہر ضلع میں ایک سے پندرہ گریڈ تک کی آسامیوں پر اس ضلع کے ڈومیسائل یافتہ افراد کا تقرر کیا جائے تو عوام اور پولیس میں فاصلے ختم ہوجائیں گے۔