’’اسٹاپ وار‘‘ نعرے کی گونج

جنگ پر اقوام متحدہ میں قرارداد کے موقعے پر چین اور بھارت ووٹ دینے کے وقت غیر حاضر رہے

zb0322-2284142@gmail.com

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہوکہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر

ریاست کے داعی حکمران صرف ریاست کے اندر ہی عوام کا استحصال نہیں کرتے اور مظالم ڈھاتے بلکہ ریاست کے باہر بھی توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ریاستی سرحدوں کے ٹوٹنے کے خطرات سے ریاستی آلہ کار ہمہ وقت خوف زدہ رہتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا پہلے صرف 12 ریاستوں پر مشتمل تھی اور اب 54 تک پہنچ گئی ہے۔ جوبائیڈن نے اس قبضہ گیری پر مقامی آبادی سے معذرت کی ہے۔

چین کبھی ویتنام کے جزیروں، جنوبی چین کے جزیروں، لداخ اور ہندوستان کے تبت کے علاقوں اور شمال مغربی ہندوستان پر اپنا دعویٰ جتاتا ہے۔ برطانیہ کی اب بھی کینیڈا ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، مارشل آئی لینڈ سمیت 29 نوآبادیاں ہیں۔ فرانس، جرمنی اور ڈچ کی بھی نوآبادیاں ہیں۔

ہندوستان نے طاقت کے زور پر کشمیر ، ناگا لینڈ اور منی پور پر قبضہ جمایا ہوا ہے اور اسے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔ روس کریمیا ، یوکرین، چیچنیا اور انگوشیتا وغیرہ پر اپنا دعویٰ جتا رہا ہے۔ یوکرین پر حملہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ دنیا ایک تھی۔ یہ سرحدیں لکیریں ریاستیں آلہ کاروں نے کھینچی ہیں۔

ریاستی لکیریں اس سیارے میں پہلے کبھی نہیں تھیں بلکہ براعظموں کی حدود بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، زلزلوں کی ہلچل اور لاوا ابلنے سے زمین کی ساخت اور ہیئت میں تبدیلی آتی گئی اور مختلف خطے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔

خاص کر دوسری عالمی جنگ میں تو ریاستی لکیروں کی اتنی بھرمار کردی کہ افریقہ میں سیدھی لکیروں نے ہی ملکوں کو جدا کردیا۔ روس دنیا میں سب سے زیادہ گندم ، دوسرے نمبر پر ایندھن کا تیل اور گیس پیدا کرتا ہے۔ یہاں تو بے ریاستی خطہ بن جانا چاہیے۔ سب انسان برابری کی بنیاد پر باآسانی اپنی زندگی گزار سکتے ہیں جب کہ روس کی معاشی صورت حال عام لوگوں کی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کر رہی ہے۔ پوٹن سمیت سابق کمیونسٹ پارٹی کے سارے رہنما ارب پتی بن گئے ہیں۔ طبقاتی خلیج روس میں پاکستان اور ہندوستان سے زیادہ ہے۔


جب روس سوشلسٹ ریاست تھا تو لینن، ٹراٹسکی اور اسٹالن کا حکم چلتا تھا اور اب سرمایہ دارانہ روس میں پوتن کا حکم چلتا ہے جو کل تک کمیونسٹ پارٹی کا رہنما ہوا کرتا تھا۔ ادھر یوکرین سوویت یونین کا ہی حصہ تھا۔ روس اور یوکرین میں کمیونسٹوں کا راج تھا۔ اب ان کے انہدام کے بعد ماضی کے 70 سالہ نظریے اور سوشل ازم کا فلسفہ کہاں گیا ؟ روس تو ہے ہی حملہ آور لیکن یوکرین بھی کم نہیں۔ اس نے نیٹو کی رکنیت لینے کے لیے درخواست دی تھی۔

کل تک پولینڈ اور ویت نام بھی سوشلسٹ ممالک تھے لیکن آج پولینڈ اور ویتنام دونوں امریکا کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ کہاں گیا نظریہ اور امن عالم کا فلسفہ۔ جب کہ فرانس کے سیکڑوں کمیون سمیت دنیا بھر میں بے شمارکمیون خوش اسلوبی سے رواں دواں ہیں اور مزید نئے نئے کمیون تشکیل پا رہے ہیں۔ آج یوکرین پر روس کا یکطرفہ اور جارحانہ حملے کے خلاف دنیا بھر میں جنگ مخالف مظاہرے انارکسٹ سمیت بائیں بازو کے کارکنان کر رہے ہیں۔ ساری دنیا میں انارکسٹ اور انقلابی جنگ کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ Stop War کے نعرے سے دنیا گونج اٹھی ہے۔

یہ جنگجو جتنا بھی ادھم بازی کریں یا قتل و غارت گری اور تباہی کریں، کل خود تباہ ہو جائیں گے۔ دو عالمی جنگوں کے بعد تباہی اور اموات پوری دنیا میں ہوئیں سوائے امریکا کے۔ مگر سب سے زیادہ تباہی یورپ میں ہوئی اور یورپ میں ہی سب سے زیادہ روس میں ہوئی۔ بعد میں جرمنی اور جاپان میں۔ مگر یہ کتنی ستم ظریفی اور حیران کن بات ہے کہ روس یوکرین پر یکطرفہ حملہ آور ہے اور جرمنی و برطانیہ یوکرین کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ جنگ کو جنگ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جنگ خود ایک مسئلہ ہے، آگ اور خون آج دے گی، بھوک اور احتیاج کل دے گی۔

اس جنگ کے بعد دنیا بھر میں جو اثرات مرتب ہوں گے وہ بھیانک اور ناقابل تصور ہوں گے۔ اور یہ بھوک، افلاس سات ارب عوام پر نازل ہوگی۔ یہ درست ہے کہ جنگ جتنی بھیانک ہے اس سے زیادہ منافع بخش بھی ہے۔ اس لیے کہ جنگ کی تباہی کو بحال کرنے کے لیے پھر اسلحہ کی پیداوار کو بڑھایا جائے گا۔ تعمیرات کے لیے ٹھیکیداروں کی چاندی ہوگی۔ فوج اور عوام جنگ کے ایندھن بنیں گے۔

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے

اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے سیارے کی تباہی کہاں کی عقل مندی اور دانش ہے۔ دنیا ایک برادری میں بدل جائے تو یہ جھگڑے بھی نہیں ہوں گے۔ نہ ہتھیاروں کی پیداوار اور نہ سرحدوں کے پہرے دار ہوں گے۔ پھر ان کھربوں ڈالر کے اسلحوں کی پیداوار کے بجائے انسانوں کی ضروریات زندگی کی پیداوار ہوگی۔ پھر دنیا کے عوام اتنے خوشحال ہوں گے جس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

جنگ پر اقوام متحدہ میں قرارداد کے موقعے پر چین اور بھارت ووٹ دینے کے وقت غیر حاضر رہے۔ جب کہ یہ دونوں ممالک جوہری ہتھیار لیے بیٹھے ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں تو بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ انھیں تو جوہری ہتھیار سمیت سارے جنگی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا اعلان کردینا چاہیے تھا۔ روس کے خلاف امریکا نے ہی یوکرین کو بانس پر چڑھایا اور اب امریکا نے بانس کھینچ لیا ہے۔
Load Next Story