روس یوکرین جنگ کے عالمی معیشت پر اثرات

مغربی ممالک میں روس کے صدر پیوٹن پر زبردست تنقید ہو رہی ہے

مغربی ممالک میں روس کے صدر پیوٹن پر زبردست تنقید ہو رہی ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
روس اور یوکرین کے درمیان تاحال لڑائی جاری ہے اور جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششیں تاحال کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں' یوکرین کے مسئلے پر امریکا اور مغربی یورپ کی روس کے ساتھ آویزش اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔

مغربی ممالک میں روس کے صدر پیوٹن پر زبردست تنقید ہو رہی ہے جب کہ روس کے صدر بھی تمام تر مغربی مخالفت کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق روسی فوج نے یوکرین کے دوسرے بڑے شہرخارکیف میں رہائشی علاقے پر منگل کو دوسرے روز بھی راکٹ حملے جاری رکھے، بتایا گیا ہے کہ ان میزائل حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں، روسی فوج نے لوکل گورنمنٹ ہیڈکوارٹرز کو بھی نشانہ بنایا۔

ذرائع ابلاغ میں بتایا گیا ہے کہ رہائشی علاقوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی اور اس میں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ اطلاعات افسوسناک ہیں، بے گناہ شہریوں کا جنگ کا ایندھن بننا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔شہری آبادیوں پر حملے نہیں ہونے چاہییں۔ یوکرینی رہنماؤں نے اگلے روز یہ کہاہے کہ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق روسی فوج کا تقریباً 60 کلومیٹر طویل قافلہ دارالحکومت کیف کی جانب بڑھ رہا ہے۔

روس فوج کی اسٹریٹجی یہی لگتی ہے کہ وہ کیف پر قبضہ کرلے، اگر روس کی فوج نے کیف پر حملہ کیا یہاں بھاری جانی نقصان کا خدشہ ہے، یوکرین کے صدر بھی کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔ وہ امریکا اور دیگر ملکوں سے اسلحہ وغیرہ حاصل کرنے کے لیے اپیل کررہے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اوختیر میں ایک فوجی اڈے پر روسی فوج کی گولہ باری کے نتیجے میں ستر سے زائد یوکرینی فوجی مارے گئے ہیں۔

یوکرینی حکام کے مطابق روسی حملے کے بعد سے اب تک 530 سے زائد عام شہری بھی ہلاک ہو چکے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی نے شہری اہداف پر روسی حملوں کو جنگی جرم قراردیا۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغرب کو جھوٹ کا شہنشاہ قرار دیا اور کہا کہ امریکی سیاستدان اور صحافی مانتے ہیں کہ ان کے ملک میں جھوٹ کی بادشاہت قائم ہے۔

ادھر یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست منظور کر لی اور شمولیت کے لیے خصوصی طریقہ کار کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ایسے موقعے پر یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست منظور کرنے کا مطلب روس کو مزید غصہ دلانا ہے کیونکہ امریکا اور یورپی یونین کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی روس یوکرین پر حملہ کرنے پر مجبور ہوا حالانکہ دونوں ملک نسلی اور لسانی حوالے سے جڑے ہوئے ہیں۔

امریکا نے نیویارک میں اقوام متحدہ میں روسی مشن کے12ارکان کو7 مارچ تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ فیفا نے بھی روس پر فٹ بال کے عالمی ورلڈکپ میں شرکت پر پابندی لگادی ہے۔کینیڈا نے روسی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں۔اس سے پہلے فرانس روس کا مال بردار جہاز روک چکا ہے۔ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک یوکرین کی کمر ٹھونک رہے کہ وہ ڈٹ جائے ۔

اسے مال اوراسلحے سے مدد دی جا رہی ہے تاکہ وہ روسی افواج کی مزاحمت کرسکے، یہ صورتحال بہت خطرناک ہے ، اس سے جنگ طول پکڑ سکتی ہے جس کا یوکرین کا تو نقصان ہے ہی لیکن روس کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوگی کیونکہ اس پر پہلے ہی اقتصادی پابندیاں عائد ہوچکی ہیں، اگر یہ لڑائی طول پکڑتی ہے تو روس کے لیے اس جنگ کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں رہے گا۔


یوکرین تو مکمل طور پر برباد ہوجائے گا،امریکا اور اس کے مغربی اتحادی اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد روس کے ساتھ معاملات درست کرلیں گے اور اس کے بعد تباہ حال یوکرین ،تعمیر نو کے لیے عالمی بینک اور مغربی ممالک سے قرضے مانگے گا اور وہ تعمیر نو کے نام پر قرضے دے کر یوکرین کو اپنے مالی شکنجے میں کس لیں گے ۔

امریکا اور یورپین یونین نے روس پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں متعدد پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اب روس کو کسی طرح کے سافٹ ویئرز، آلات، کمپیوٹر، سیکیورٹی اپڈیٹس، لیزر اور سینسرز سمیت دیگر طرح کی چیزیں مہیا نہیں کی جا سکیں گی۔نئی پابندیوں کے تحت روس اپنی فوج کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سائبر سیکیورٹی سے متعلق چیزیں، مدد اور آلات حاصل کرنے سے بھی محروم ہو جائے گا۔ روس اور یوکرین کی قیادت کو ان پہلوؤں پر سوچنا چاہیے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کانگریس سے یوکرین کی امداد کے لیے6.4 ارب ڈالر کی فنڈنگ کی منظوری کی درخواست دی ہے۔ امریکی صدر نے کہا امریکیوں کو جوہری جنگ کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے یوکرین کو اینٹی ٹینک ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر فوجی سامان دینے کا اعلان کیا ہے۔آسٹریلوی وزیراعظم نے یوکرین کو 50 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یوکرین کی حکومت، افواج اور غیرسرکاری امدادی اداروں کو کرپٹوکرنسی کی صورت میں ایک کروڑ 37 لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم عطیہ کی گئی ہے جس میں سب سے زیادہ بٹ کوائن شامل ہیں۔ امریکا نے روس کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ روس پر اقتصادی پابندیوں نے آئل مارکیٹ میں ہلچل مچا دی، تیل کی قیمتیں 8 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ عالمی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 19سو ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی جب کہ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان دیکھا گیا۔

برطانوی برینٹ خام تیل کی فی بیرل قیمت میں تین اعشاریہ سترہ ڈالر کا اضافہ ہوا، برطانوی برینٹ خام تیل کی فی بیرل قیمت ایک سو ایک ڈالر سے تجاوز کر گئی۔امریکی ڈبلیو ٹی آئی خام تیل کی فی بیرل قیمت میں چار اعشاریہ 12 ڈالر کا اضافہ ہوا۔ امریکی ڈبلیو ٹی آئی خام تیل کی فی بیرل قیمت پچانوے اعشاریہ پچھتر ڈالر پر پہنچ گئی۔متحدہ عرب امارات میں تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔

11 فیصد اضافے کے بعد امارات میں پہلی بار ایک لیٹر فیول کی قیمت 3 درہم سے زائد ہوگئی۔پاکستان نے یوکرین بحران پرغیر جانبدار رہتے ہوئے بحث کے لیے بلائے گئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں حصہ نہیں لیا، سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے اس مسئلے پر کسی کی طرف داری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسلام آباد ایک پرامن اور مذاکراتی تصفیے کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔

جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس سے 100 سے زائد ممالک کے نمایندوں نے خطاب کیا۔پاکستان میں یوکرین کے سفیر مارکیان چیچک نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یوکرین میں موجود پاکستانی طلبہ محفوظ ہیں ان کے ہموار انخلا کو یقینی بنا رہے ہیں، امید ہے ایک روز پاکستان بھی روسی جارحیت کے خلاف اہم اقدامات کریگا۔گزشتہ برس جب پاکستان مشکل میں تھا یوکرین نے پاکستان کو1.3ملین ٹن گندم فراہم کی۔ یوکرین نے روس کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین آنے والے جنگجوؤں پر سے ویزا پابندی ختم کر دی۔ اسرائیل نے یوکرینی یہودیوں کے لیے شہریت کے قانون میں نرمی کر دی ہے۔

روس اور یوکرین بحران کے اثرات پاکستان پر بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں' یہ اثرات داخلی اور خارجی معاملات پر پڑیں گے۔روس یوکرین کے درمیان کشیدگی اور بعدازاں جنگ شروع ہونے سے گزشتہ ہفتے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں مندی کے بادل چھائے رہے، روس یوکرین جنگ شروع ہوتے ہی پاکستان میں کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمیتں مزید بڑھنے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافہ رپورٹ ہورہا ہے۔

اگر روس یوکرین جنگ کے معاملات نہ نمٹ سکے تو کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت مزید بڑھے گی جب کہ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔یہ صورتحال پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہے کیونکہ ملک کا متوسط طبقہ پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے۔بہتر ہے کہ روس اور یوکرین باہمی مسائل کو گولی کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ جنگ کا دائرہ کار مزید نہ پھیلے ورنہ پوری دنیا کی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
Load Next Story