ٹیکس کلچر
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایف بی آر نے ملکی تاریخ کا ریکارڈ ٹیکس جمع کیا ہے
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایف بی آر نے ملکی تاریخ کا ریکارڈ ٹیکس جمع کیا ہے، ہمارے پاس جتنے پیسے آئیں گے ، ہم غریبوں پر خرچ کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے بلاسود قرضوں کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو قوم اپنے نظریے سے ہٹتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتی ۔ ریاست کمزوروں کی ذمے دار ہے، ایف بی آر کی کارکردگی کے باعث پٹرول، ڈیزل اور بجلی پر سبسڈی دینے کے قابل ہوئے۔ وزیراعظم پاکستان قوم کا درد دل میں رکھتے ہیں اور اکثر و پیشتر قومی مسائل کی طرف نہ صرف توجہ مبذول کراتے رہتے ہیں ، بلکہ ان کا صائب حل بھی تجویز کرتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق ہماری معاشی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کی شرح 40سے 50فیصد ہے جب کہ پاکستان میں صرف 9سے 10فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ چوہتر برس سے ہم لوگوں کو ٹیکس دینے پر تیار نہیں کر سکے۔ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں بھی ناکام ہو چکی ہیں۔
صرف تنخواہ دار طبقہ سے جبری ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ تاجر اور سرمایہ دار کوئی بھی پورا ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ چند مخصوص طبقے امیر، پاکستان غریب ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے کڑوے اور سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جمہوری حکومت اپنے ووٹ بینک کے خوف سے اور آمر عوامی رد عمل کے خوف سے یہ فیصلے کرنے سے گھبراتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکسز اور محصولات کی ادائیگی اور وصولی کی صورتحال پریشان کن ہے، عام لوگوں کو تو چھوڑیں، جنھیں اس حوالے سے مثال بننا چاہیے، اُن کی صورتحال زیادہ افسوس ناک ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں صرف ٹیکس ڈائریکٹری کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اور اشرافیہ کے ارکان نے جو ٹیکس گوشوارے بھرے وہ اُن کے ظاہری اثاثوں اور دولت کی نسبت انتہائی کم تھے، جب سیاسی رہنما خود ٹیکس نہیں دیں گے اور جو دیں گے وہ بھی پورا ٹیکس نہیں دیں گے تو کیا دوسرے لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ریاست اور حکومت چلانے کے لیے ٹیکسز ادا کریںگے؟
پاکستان میں عملی طور پر ٹیکس کا نظام بھی بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ارکانِ پارلیمینٹ کی اکثریت امیر ہے، لیکن کئی ارکان ٹیکس ریٹرن فائل ہی نہیں کرتے ۔ دولت مند شہری، بابو کلاس، تاجر، اور زمیندار طبقہ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتا ہے۔
ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کی آڑ میں بھی ٹیکس بچایا جاتا ہے۔قبائلی وڈیرے اور گدی نشین بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ پاکستان جو ٹیکس جمع کرتا ہے اس کا سب سے زیادہ حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ حکومت کو باقی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں درمیانے درجے کے لاکھوں کاروباری ادارے اور افراد بھی نہ اپنی حقیقی آمدن ظاہر کرتے ہیں اور نہ ہی پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
منصوبہ بندی کا ایک اہم مقصد ملک میں یکساں معاشی ترقی ہوتا ہے تاکہ علاقائی تفاوت کم سے کم ہو۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی، تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں چند بڑے شہروں میں مرتکز ہو رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آبادی کا ایک کثیر سیلاب ہر سال بڑے شہروں کا رخ کرتا ہے۔ بڑے شہروں کا انفرا اسٹرکچر پہلے ہی ناکافی ہے۔
مسلسل انتقال آبادی نے شہروں کے انفرا اسٹرکچر کو مزید ناکافی بنا دیا ہے۔ شہروں میں محروم طبقات کی بستیاں پھیل رہی ہیں۔ بڑھتی آبادی نے پراپرٹی کے کاروبار کو پَر لگا دیے ہیں۔ حسنِ اتفاق کہ یہ شعبہ ٹیکس کی جھک جھک سے بے نیاز ہے۔ حکومتی ڈویلپمنٹ ادارے سرخ فیتے اور کرپشن کی زد میں ہیں۔ سو، شہروں کے آس پاس پرائیویٹ رہائشی آبادیوں کے بے ترتیب جنگل اگ رہے ہیں۔ لاہور میں راوی کنارے ایک نیا شہر بسایا جارہا ہے ، دوسری جانب پراپرٹی سر مایہ کاروں کا سرمایہ دو تین سالوں میں ڈبل ہو رہا ہے جب کہ متوسط اور غریب طبقات کے لیے ہاؤسنگ ہر گزرتے سال دسترس سے باہر ہو رہی ہے۔ اس اعتبار سے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں علاقائی تفاوت دور کرنے پر توجہ مفقود رہی۔
آبادی کے بڑھتے دباؤ اور توقعات کی موجودگی میں ان محدود وسائل اور پیچیدہ مسائل کے ساتھ بجٹ بنانا آسان نہیں۔ ٹیکس کلچر فروغ دینے اور معیشت میں ٹیکنالوجی کے سہارے بہتر ویلیو ایڈڈ سے قومی پیداوار میں سالانہ چھ سات فی صد اضافے سے چند سالوں میں معیشت ایک مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن فی الحال یوں لگ رہا ہے کہ بنیادی مسائل کا بھاری پتھر آسانی سے راستے سے ہٹنے والا نہیں۔ معیشت میں ایک بار پھر وسط اور طویل مدت پلاننگ کی ضرورت ہے۔
کوشش کی جانی چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں آنے والی سرمایہ کاری، موجود وسائل کے لیے مناسب ترجیحات اور کفایتی استعمال کے ساتھ ساتھ بہتر گورننس کو اپنا کر معیشت کو ایک بار پھر سے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے، پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی سالوں کے دوران مختلف النوع مسائل کا شکار رہی ہے۔ ان میں نمایاں ترین معیشت کی مایوس کن بڑھوتری یعنی low economic growth، مسلسل مالیاتی اور بجٹ خسارہ، زرمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر، ٹیکس نیٹ میں عدم اضافہ، حکومت کا اندرونی و بیرونی قرضوں پر بڑھتا انحصار اور برآمدات میں جمود جیسے بنیادی مسائل تھے۔
یہ مسائل نہ تو راتوں رات کسی ایک حکومت کے دور میں پیدا ہوئے اور نہ ہی راتوں رات کسی ایک حکومت کے دور میں حل ہو ں گے۔ ان میں سے بیشتر مسائل معیشت کے بنیادی ڈھانچے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اصلاح کے لیے دور رس اور تسلسل پر مبنی پالیسی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب زیادہ تر شعبے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں جن سے عام آدمی کو صبح شام واسطہ پڑتا ہے۔
ان شعبوں کی کارکردگی اور صوبائی حکومتوں کی گورننس کا بالواسطہ اثر قومی پیداوار اور شرح نمو پر پڑتا ہے۔ ان شعبوں میں زراعت، تعلیم، صحت، امن و امان اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبے شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس پالیسی اقدامات کا میدان جب کہ صوبوں کے پاس عملی کارگزاری کا اس سے بھی زیادہ بڑا میدان ہے لیکن عموماً بجٹ بحثوں میں توجہ فقط وفاقی بجٹ پر ہی رہتی ہے۔
ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ٹیکسوں کی وصولی کا شفاف نظام قائم کرنا بہت ضروری ہے مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ جس جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہے وہ اتنا بڑا ٹیکس چور ہے اور اسی وجہ سے ملک بے شمار مسائل کا شکار ہے ، دوسری اہم وجہ کرپٹ عناصر ہیں جنھوں نے اس ملک کو لوٹ کر نہ صرف کھایا ہے بلکہ ملک کی جڑوں کو بھی کمزور کردیا ہے اور ان عناصر کو پکڑنے کے لیے ضروری ہے کہ احتساب کا شفاف نظام بنایا جائے اور ہر شخص پوری ایمانداری کے ساتھ اس سلسلے میں کام کرے ، ذاتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ، چور اور کرپٹ عناصر کو اگر سزا ملے گی تب ہی دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کریں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ نئے چھوٹے ، بڑے منصوبے شروع کیے جائیں ، نئے کارخانے اور فیکٹریاں لگائی جائیں تاکہ روزگار کے مواقعے میں اضافہ ہو ۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں ایسا نظام وضع کیا جائے کہ جس سے بدعنوانی میں کمی ہو اور لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کریں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ٹیکس کلچر کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک نے ترقی کی ہے ۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ ایف بی آر نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو قوم اپنے نظریے سے ہٹتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتی ۔ ریاست کمزوروں کی ذمے دار ہے، ایف بی آر کی کارکردگی کے باعث پٹرول، ڈیزل اور بجلی پر سبسڈی دینے کے قابل ہوئے۔ وزیراعظم پاکستان قوم کا درد دل میں رکھتے ہیں اور اکثر و پیشتر قومی مسائل کی طرف نہ صرف توجہ مبذول کراتے رہتے ہیں ، بلکہ ان کا صائب حل بھی تجویز کرتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق ہماری معاشی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کی شرح 40سے 50فیصد ہے جب کہ پاکستان میں صرف 9سے 10فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ چوہتر برس سے ہم لوگوں کو ٹیکس دینے پر تیار نہیں کر سکے۔ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں بھی ناکام ہو چکی ہیں۔
صرف تنخواہ دار طبقہ سے جبری ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ تاجر اور سرمایہ دار کوئی بھی پورا ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ چند مخصوص طبقے امیر، پاکستان غریب ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے کڑوے اور سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جمہوری حکومت اپنے ووٹ بینک کے خوف سے اور آمر عوامی رد عمل کے خوف سے یہ فیصلے کرنے سے گھبراتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیکسز اور محصولات کی ادائیگی اور وصولی کی صورتحال پریشان کن ہے، عام لوگوں کو تو چھوڑیں، جنھیں اس حوالے سے مثال بننا چاہیے، اُن کی صورتحال زیادہ افسوس ناک ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں صرف ٹیکس ڈائریکٹری کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اور اشرافیہ کے ارکان نے جو ٹیکس گوشوارے بھرے وہ اُن کے ظاہری اثاثوں اور دولت کی نسبت انتہائی کم تھے، جب سیاسی رہنما خود ٹیکس نہیں دیں گے اور جو دیں گے وہ بھی پورا ٹیکس نہیں دیں گے تو کیا دوسرے لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ریاست اور حکومت چلانے کے لیے ٹیکسز ادا کریںگے؟
پاکستان میں عملی طور پر ٹیکس کا نظام بھی بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ارکانِ پارلیمینٹ کی اکثریت امیر ہے، لیکن کئی ارکان ٹیکس ریٹرن فائل ہی نہیں کرتے ۔ دولت مند شہری، بابو کلاس، تاجر، اور زمیندار طبقہ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتا ہے۔
ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کی آڑ میں بھی ٹیکس بچایا جاتا ہے۔قبائلی وڈیرے اور گدی نشین بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ پاکستان جو ٹیکس جمع کرتا ہے اس کا سب سے زیادہ حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ حکومت کو باقی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں درمیانے درجے کے لاکھوں کاروباری ادارے اور افراد بھی نہ اپنی حقیقی آمدن ظاہر کرتے ہیں اور نہ ہی پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
منصوبہ بندی کا ایک اہم مقصد ملک میں یکساں معاشی ترقی ہوتا ہے تاکہ علاقائی تفاوت کم سے کم ہو۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی، تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں چند بڑے شہروں میں مرتکز ہو رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آبادی کا ایک کثیر سیلاب ہر سال بڑے شہروں کا رخ کرتا ہے۔ بڑے شہروں کا انفرا اسٹرکچر پہلے ہی ناکافی ہے۔
مسلسل انتقال آبادی نے شہروں کے انفرا اسٹرکچر کو مزید ناکافی بنا دیا ہے۔ شہروں میں محروم طبقات کی بستیاں پھیل رہی ہیں۔ بڑھتی آبادی نے پراپرٹی کے کاروبار کو پَر لگا دیے ہیں۔ حسنِ اتفاق کہ یہ شعبہ ٹیکس کی جھک جھک سے بے نیاز ہے۔ حکومتی ڈویلپمنٹ ادارے سرخ فیتے اور کرپشن کی زد میں ہیں۔ سو، شہروں کے آس پاس پرائیویٹ رہائشی آبادیوں کے بے ترتیب جنگل اگ رہے ہیں۔ لاہور میں راوی کنارے ایک نیا شہر بسایا جارہا ہے ، دوسری جانب پراپرٹی سر مایہ کاروں کا سرمایہ دو تین سالوں میں ڈبل ہو رہا ہے جب کہ متوسط اور غریب طبقات کے لیے ہاؤسنگ ہر گزرتے سال دسترس سے باہر ہو رہی ہے۔ اس اعتبار سے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں علاقائی تفاوت دور کرنے پر توجہ مفقود رہی۔
آبادی کے بڑھتے دباؤ اور توقعات کی موجودگی میں ان محدود وسائل اور پیچیدہ مسائل کے ساتھ بجٹ بنانا آسان نہیں۔ ٹیکس کلچر فروغ دینے اور معیشت میں ٹیکنالوجی کے سہارے بہتر ویلیو ایڈڈ سے قومی پیداوار میں سالانہ چھ سات فی صد اضافے سے چند سالوں میں معیشت ایک مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن فی الحال یوں لگ رہا ہے کہ بنیادی مسائل کا بھاری پتھر آسانی سے راستے سے ہٹنے والا نہیں۔ معیشت میں ایک بار پھر وسط اور طویل مدت پلاننگ کی ضرورت ہے۔
کوشش کی جانی چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں آنے والی سرمایہ کاری، موجود وسائل کے لیے مناسب ترجیحات اور کفایتی استعمال کے ساتھ ساتھ بہتر گورننس کو اپنا کر معیشت کو ایک بار پھر سے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے، پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی سالوں کے دوران مختلف النوع مسائل کا شکار رہی ہے۔ ان میں نمایاں ترین معیشت کی مایوس کن بڑھوتری یعنی low economic growth، مسلسل مالیاتی اور بجٹ خسارہ، زرمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر، ٹیکس نیٹ میں عدم اضافہ، حکومت کا اندرونی و بیرونی قرضوں پر بڑھتا انحصار اور برآمدات میں جمود جیسے بنیادی مسائل تھے۔
یہ مسائل نہ تو راتوں رات کسی ایک حکومت کے دور میں پیدا ہوئے اور نہ ہی راتوں رات کسی ایک حکومت کے دور میں حل ہو ں گے۔ ان میں سے بیشتر مسائل معیشت کے بنیادی ڈھانچے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اصلاح کے لیے دور رس اور تسلسل پر مبنی پالیسی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب زیادہ تر شعبے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں جن سے عام آدمی کو صبح شام واسطہ پڑتا ہے۔
ان شعبوں کی کارکردگی اور صوبائی حکومتوں کی گورننس کا بالواسطہ اثر قومی پیداوار اور شرح نمو پر پڑتا ہے۔ ان شعبوں میں زراعت، تعلیم، صحت، امن و امان اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبے شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس پالیسی اقدامات کا میدان جب کہ صوبوں کے پاس عملی کارگزاری کا اس سے بھی زیادہ بڑا میدان ہے لیکن عموماً بجٹ بحثوں میں توجہ فقط وفاقی بجٹ پر ہی رہتی ہے۔
ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ٹیکسوں کی وصولی کا شفاف نظام قائم کرنا بہت ضروری ہے مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ جس جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہے وہ اتنا بڑا ٹیکس چور ہے اور اسی وجہ سے ملک بے شمار مسائل کا شکار ہے ، دوسری اہم وجہ کرپٹ عناصر ہیں جنھوں نے اس ملک کو لوٹ کر نہ صرف کھایا ہے بلکہ ملک کی جڑوں کو بھی کمزور کردیا ہے اور ان عناصر کو پکڑنے کے لیے ضروری ہے کہ احتساب کا شفاف نظام بنایا جائے اور ہر شخص پوری ایمانداری کے ساتھ اس سلسلے میں کام کرے ، ذاتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ، چور اور کرپٹ عناصر کو اگر سزا ملے گی تب ہی دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کریں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ نئے چھوٹے ، بڑے منصوبے شروع کیے جائیں ، نئے کارخانے اور فیکٹریاں لگائی جائیں تاکہ روزگار کے مواقعے میں اضافہ ہو ۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں ایسا نظام وضع کیا جائے کہ جس سے بدعنوانی میں کمی ہو اور لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کریں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ٹیکس کلچر کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک نے ترقی کی ہے ۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ ایف بی آر نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔