تیرے دریا کو کسی روز…اترجانا ہے
یہ جو ’’کل ‘‘ہے یہ ہمیشہ ’’کل‘‘ہی رہے گی اورکبھی ’’آج‘‘ نہیں ہوگی
BRAZIL/SAU PAULO:
پوری بات یوں ہوئی کہ ...
تیرے دریاکو کسی روزاترجاناہے
اتنابے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جاناہے
اورساراپرابلم یہی ہے کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو واپس لوٹ کے ''گھر''بھی جاناہوگا۔ روسی ادیب لیوٹالسٹائی کا بڑا مشہورافسانہ ہے کہ ایک دن بادشاہ نے خوش ہوکر ایک شخص سے کہا ، مانگ کیا مانگتا ہے۔اس شخص نے کہا بہت سی زمین۔بادشاہ نے اسے ایک گھوڑا دے کرکہا کہ چل پڑاورجتنی زمین تم نے غروب آفتاب تک گھیرلی وہ تمہاری۔لیکن شرط یہ ہے کہ صرف سورج کے غروب ہونے تک تجھے واپس اسی جگہ آنا بھی ہے جہاں سے چلے ہو۔
اس شخص نے گھوڑے کودوڑانا شروع کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ بڑادائرہ گھیرسکے ،چلتارہادوڑتارہا،دائرہ وسیع کرتارہا اورسورج کو دیکھ کرکہتارہاکہ ابھی سورج غروب ہونے میں کافی دیرہے، تھوڑا سااورآگے بڑھ کر کچھ اورزمین گھیرلوں پھر دائرہ بناتے ہوئے مڑجاؤں گا حتیٰ کہ اس نے زمین کے بہت بڑے حصے کوگھیرا،پھر ٹرن لیا اورکوشش یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ زمین کے گرد دائرہ کھینچ سکے۔
سورج ڈھلنے تک گھوڑا تیزچل رہاتھا پھر تھک گیا تو قدم قدم چلنے لگا اوپرسے یہ چابک برساتارہا، آخرکار بیچارا گھوڑا گرگیا، اورپھر اٹھ نہ سکا اب اس نے خوددوڑنا شروع کیاکہ شام سے پہلے مطلوبہ ہدف پر پہنچ سکے پہلے دوڑتارہاپھر قدم قدم چلتارہا،آخر کارچلنے کے لائق نہیں رہا اوراب سینے اورگھٹنوں کے بل چلنے لگا لیکن نشان ابھی دورتھا کہ سورج غروب ہوگیا اوراس کے ساتھ ہی خود بھی غروب ہوگیا،بیچارے کی سانس ہدف کی طرف حسرت سے تکتے تکتے نکل گئی۔بادشاہ نے وہیں دفن کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا احمق تھا،اسے اصل میں بس اتنی ہی زمین چاہیے تھی جتنی میں دفن ہوگیا۔
اس بات کو لے کراپنے ہاں طلوع وغروب ہونے والی حکومتوں، سربراہوں اوربڑی بڑی شخصیات کا خیال قائم کریں ہرایک کو یہ گمان تھا کہ میں دائرہ مکمل کروں گا۔
اللہ رے چشم یار کی معجزبیاناں
ہراک کویہ گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
ہمارے محلے میں ایک نوجوان بدمعاش ابھرا یہاں وہاں غنڈہ گردی کرکے نام کمانے لگا سیاست، تجارت، زراعت ہرمعاملے میں ٹانگ ڈال کر اپنا سکہ جمانے لگا۔ ہم نے ایک روزاس سے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے ہوتم سے پہلے کتنے آئے اوراس وادی پرخار میں کام آگئے۔
بازآجاؤ اس راستے پر چل کرخود کومت گنواؤ لیکن اس نے کہاوہ بیوقوف تھے، میراانجام ان جیسا نہیں ہوگا لیکن ایک دن اس کادریا بھی اترگیا اور ایک نئے بدمعاش اوراپنے ساتھی کے ہاتھ سے ''لوٹ'' کے گھر پہنچ گیا،صرف پچپن سال کی عمر میں۔ کہ سپیرے کی موت سانپ کے ڈسنے سے ہی ہوتی ہے جب کہ ہرسپیراسمجھتاہے کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔پورے پچھترسال ہوگئے کتنے سپیرے آئے اپنے ''بین'' کے جلوے دکھا کرچلے گئے۔
کتنے پروانے چلے، رازیہ پانے کے لیے
شمع جلنے کے لیے ہے کہ جلانے کے لیے
ہمارے اس گلشن میں بھی کتنے آئے اورطرح طرح کی بولیاں بول کراڑگئے، کسی نے اس ملک کو جنت الفردوس بنانے کے ''وعدے'' بیچے،کسی نے روٹی، کپڑا، مکان چھیننے والوں کوساتھ ملاکر روٹی، کپڑا، مکان کی قوالیاں گائیں،ترقی وخوشحالی کے نغمے آلاپے ،پھر کسی نے عالم اسلام کاقلعہ بنایا، جہاد کامرکز بنایا لیکن ''باغ'' تو باغبان کا تھا اورہے یہ سارے طوطے اپنی ''میاں مٹھو'' الاپ کرچلے گئے۔
بیچارے ہمارے یہ موجودہ نجات دہندہ بھی اپنی ہی کررہے ہیں ہمارے موجودہ ریاست مدینہ کے امیربھی یہ دعویٰ لے کر آئے تھے کہ نوے دن میں سب کچھ ٹھیک کردیں گے اورکردیا، ٹھیک۔
مخلص ہی سہی، بے شک کچھ دوسروں سے مختلف بھی ہیں اوربڑے اچھے ارادے لے کرآئے تھے لیکن یہ بھول گئے تھے کہ ''کان نمک'' میں جا رہے ہیں توسوسال کی خرابیاں نوے دن میں کوئی ''جن'' ہی ٹھیک کرسکتا ہے اور وہ بھی ان ''پرانے اوزاروں'' کے ساتھ جوخود ہی ساری خرابیوں کی جڑہیں۔بیچارے نے سوچاتھا کہ جب میں ''ہوجا'' کہہ دوں گا تو سب کچھ ہوجائے گا۔
اس موقع پرہمیں اپنا ایک عزیزیوسف خان یادآجاتاہے، بچپن ہی سے اس کے دماغ میں کوئی دھماکا ہواتھاجس کی وجہ سے کھسک گیاتھا،کبھی کچھ، کبھی کچھ کرتارہتاتھا،کبھی مزاروں میں پڑارہتا تھا، کبھی کسی کام کابیڑااٹھالیتا،قصے تو اس کے بہت ہیں لیکن ایک مرتبہ ہم نے ایک سڑک پرچلتے ہوئے دیکھا توپوچھا ،یوسف خان کہاجارہے ہو۔ تو بولا، آگے امان کوٹ گاؤں میں ایک خان کو ٹریکٹر ڈرائیورکی ضرورت ہے اس کے پاس جارہاہوں۔
ہمیںمعلوم تھا کہ اسے ٹریکٹرتوکیاسائیکل چلانا بھی نہیں آتاہے۔پوچھا مگرتم ٹریکٹرچلاؤگے کیسے؟ بولاجیسے سب چلاتے ہیں۔کہا مگراس کے لیے ڈرائیوری سیکھناپڑتی ہے۔ بولااس میں سیکھنے کی کیابات ہے، سیٹ پر بیٹ جاؤں گا تو چلنا شروع ہوجائے گا۔ تم اتنا بھی نہیں جانتے ،وہ کوئی جانورتونہیں مشینری ہے کہ خود بخود چلتی ہے۔
یہی غلط فہمی بہت سے لوگوں کو ہوجاتی ہے کہ خود بخود یہ ہوجائے گا ،حضرت کو بھی یہی غلط فہمی تھی اوراب بھی ہے اورہمیشہ رہے گی اوربہت سوں کو ہوتی رہے گی۔ ہرسپیرا سمجھتا ہے کہ میری''بین'' دوسروں سے زیادہ سریلی ہے، بجاؤں گا تو سانپ سیدھا ہوجائے گاحالاں کہ سانپ کاٹیڑا پن ہی اس کی طاقت ہے،ٹیڑھا پن نکل جائے گا تو انچ بھی ہل نہیں پائے گا۔
سب کچھ ہوجائے گا لوگ سدھرجائیں گے ادارے ٹھیک ہوجائیں گے ،ساری خرابیاں دور ہوجائیں گی یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔ مگر کیسے؟ فیض صاحب نے بھی کہاتھا کہ ہم دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ،کیاانھوں نے دیکھا۔ یہ جو ''کل ''ہے یہ ہمیشہ ''کل''ہی رہے گی اورکبھی ''آج'' نہیں ہوگی۔
پوری بات یوں ہوئی کہ ...
تیرے دریاکو کسی روزاترجاناہے
اتنابے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جاناہے
اورساراپرابلم یہی ہے کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو واپس لوٹ کے ''گھر''بھی جاناہوگا۔ روسی ادیب لیوٹالسٹائی کا بڑا مشہورافسانہ ہے کہ ایک دن بادشاہ نے خوش ہوکر ایک شخص سے کہا ، مانگ کیا مانگتا ہے۔اس شخص نے کہا بہت سی زمین۔بادشاہ نے اسے ایک گھوڑا دے کرکہا کہ چل پڑاورجتنی زمین تم نے غروب آفتاب تک گھیرلی وہ تمہاری۔لیکن شرط یہ ہے کہ صرف سورج کے غروب ہونے تک تجھے واپس اسی جگہ آنا بھی ہے جہاں سے چلے ہو۔
اس شخص نے گھوڑے کودوڑانا شروع کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ بڑادائرہ گھیرسکے ،چلتارہادوڑتارہا،دائرہ وسیع کرتارہا اورسورج کو دیکھ کرکہتارہاکہ ابھی سورج غروب ہونے میں کافی دیرہے، تھوڑا سااورآگے بڑھ کر کچھ اورزمین گھیرلوں پھر دائرہ بناتے ہوئے مڑجاؤں گا حتیٰ کہ اس نے زمین کے بہت بڑے حصے کوگھیرا،پھر ٹرن لیا اورکوشش یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ زمین کے گرد دائرہ کھینچ سکے۔
سورج ڈھلنے تک گھوڑا تیزچل رہاتھا پھر تھک گیا تو قدم قدم چلنے لگا اوپرسے یہ چابک برساتارہا، آخرکار بیچارا گھوڑا گرگیا، اورپھر اٹھ نہ سکا اب اس نے خوددوڑنا شروع کیاکہ شام سے پہلے مطلوبہ ہدف پر پہنچ سکے پہلے دوڑتارہاپھر قدم قدم چلتارہا،آخر کارچلنے کے لائق نہیں رہا اوراب سینے اورگھٹنوں کے بل چلنے لگا لیکن نشان ابھی دورتھا کہ سورج غروب ہوگیا اوراس کے ساتھ ہی خود بھی غروب ہوگیا،بیچارے کی سانس ہدف کی طرف حسرت سے تکتے تکتے نکل گئی۔بادشاہ نے وہیں دفن کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا احمق تھا،اسے اصل میں بس اتنی ہی زمین چاہیے تھی جتنی میں دفن ہوگیا۔
اس بات کو لے کراپنے ہاں طلوع وغروب ہونے والی حکومتوں، سربراہوں اوربڑی بڑی شخصیات کا خیال قائم کریں ہرایک کو یہ گمان تھا کہ میں دائرہ مکمل کروں گا۔
اللہ رے چشم یار کی معجزبیاناں
ہراک کویہ گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
ہمارے محلے میں ایک نوجوان بدمعاش ابھرا یہاں وہاں غنڈہ گردی کرکے نام کمانے لگا سیاست، تجارت، زراعت ہرمعاملے میں ٹانگ ڈال کر اپنا سکہ جمانے لگا۔ ہم نے ایک روزاس سے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے ہوتم سے پہلے کتنے آئے اوراس وادی پرخار میں کام آگئے۔
بازآجاؤ اس راستے پر چل کرخود کومت گنواؤ لیکن اس نے کہاوہ بیوقوف تھے، میراانجام ان جیسا نہیں ہوگا لیکن ایک دن اس کادریا بھی اترگیا اور ایک نئے بدمعاش اوراپنے ساتھی کے ہاتھ سے ''لوٹ'' کے گھر پہنچ گیا،صرف پچپن سال کی عمر میں۔ کہ سپیرے کی موت سانپ کے ڈسنے سے ہی ہوتی ہے جب کہ ہرسپیراسمجھتاہے کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔پورے پچھترسال ہوگئے کتنے سپیرے آئے اپنے ''بین'' کے جلوے دکھا کرچلے گئے۔
کتنے پروانے چلے، رازیہ پانے کے لیے
شمع جلنے کے لیے ہے کہ جلانے کے لیے
ہمارے اس گلشن میں بھی کتنے آئے اورطرح طرح کی بولیاں بول کراڑگئے، کسی نے اس ملک کو جنت الفردوس بنانے کے ''وعدے'' بیچے،کسی نے روٹی، کپڑا، مکان چھیننے والوں کوساتھ ملاکر روٹی، کپڑا، مکان کی قوالیاں گائیں،ترقی وخوشحالی کے نغمے آلاپے ،پھر کسی نے عالم اسلام کاقلعہ بنایا، جہاد کامرکز بنایا لیکن ''باغ'' تو باغبان کا تھا اورہے یہ سارے طوطے اپنی ''میاں مٹھو'' الاپ کرچلے گئے۔
بیچارے ہمارے یہ موجودہ نجات دہندہ بھی اپنی ہی کررہے ہیں ہمارے موجودہ ریاست مدینہ کے امیربھی یہ دعویٰ لے کر آئے تھے کہ نوے دن میں سب کچھ ٹھیک کردیں گے اورکردیا، ٹھیک۔
مخلص ہی سہی، بے شک کچھ دوسروں سے مختلف بھی ہیں اوربڑے اچھے ارادے لے کرآئے تھے لیکن یہ بھول گئے تھے کہ ''کان نمک'' میں جا رہے ہیں توسوسال کی خرابیاں نوے دن میں کوئی ''جن'' ہی ٹھیک کرسکتا ہے اور وہ بھی ان ''پرانے اوزاروں'' کے ساتھ جوخود ہی ساری خرابیوں کی جڑہیں۔بیچارے نے سوچاتھا کہ جب میں ''ہوجا'' کہہ دوں گا تو سب کچھ ہوجائے گا۔
اس موقع پرہمیں اپنا ایک عزیزیوسف خان یادآجاتاہے، بچپن ہی سے اس کے دماغ میں کوئی دھماکا ہواتھاجس کی وجہ سے کھسک گیاتھا،کبھی کچھ، کبھی کچھ کرتارہتاتھا،کبھی مزاروں میں پڑارہتا تھا، کبھی کسی کام کابیڑااٹھالیتا،قصے تو اس کے بہت ہیں لیکن ایک مرتبہ ہم نے ایک سڑک پرچلتے ہوئے دیکھا توپوچھا ،یوسف خان کہاجارہے ہو۔ تو بولا، آگے امان کوٹ گاؤں میں ایک خان کو ٹریکٹر ڈرائیورکی ضرورت ہے اس کے پاس جارہاہوں۔
ہمیںمعلوم تھا کہ اسے ٹریکٹرتوکیاسائیکل چلانا بھی نہیں آتاہے۔پوچھا مگرتم ٹریکٹرچلاؤگے کیسے؟ بولاجیسے سب چلاتے ہیں۔کہا مگراس کے لیے ڈرائیوری سیکھناپڑتی ہے۔ بولااس میں سیکھنے کی کیابات ہے، سیٹ پر بیٹ جاؤں گا تو چلنا شروع ہوجائے گا۔ تم اتنا بھی نہیں جانتے ،وہ کوئی جانورتونہیں مشینری ہے کہ خود بخود چلتی ہے۔
یہی غلط فہمی بہت سے لوگوں کو ہوجاتی ہے کہ خود بخود یہ ہوجائے گا ،حضرت کو بھی یہی غلط فہمی تھی اوراب بھی ہے اورہمیشہ رہے گی اوربہت سوں کو ہوتی رہے گی۔ ہرسپیرا سمجھتا ہے کہ میری''بین'' دوسروں سے زیادہ سریلی ہے، بجاؤں گا تو سانپ سیدھا ہوجائے گاحالاں کہ سانپ کاٹیڑا پن ہی اس کی طاقت ہے،ٹیڑھا پن نکل جائے گا تو انچ بھی ہل نہیں پائے گا۔
سب کچھ ہوجائے گا لوگ سدھرجائیں گے ادارے ٹھیک ہوجائیں گے ،ساری خرابیاں دور ہوجائیں گی یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔ مگر کیسے؟ فیض صاحب نے بھی کہاتھا کہ ہم دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ،کیاانھوں نے دیکھا۔ یہ جو ''کل ''ہے یہ ہمیشہ ''کل''ہی رہے گی اورکبھی ''آج'' نہیں ہوگی۔