معاشرے میں تشدد کا بڑھتا ہوا خوفناک رجحان
اس کی وجہ مذہبی انتہا پسندی نہیں بلکہ بڑھتا ہوا ہیجان، ذہنی دبائو اور اضطراب ہے
سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کا قتل پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے پہلے بھی توہین رسالتؐ کے الزام میں کئی افراد کو مختلف واقعات میں موت کر کے گھاٹ اُ تارا گیا ہے۔
سری لنکن منیجر کے قتل کی دھول ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ میاں چنوں میں ایک فاتر العقل فرد کو لوگوں کے ایک ہجوم نے اسی الزام میں قتل کر دیا ۔ 33 افراد کو نامزد اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا۔
اگر ان واقعات کی ویڈیو دیکھی جائے تو ایک بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ پورے ہجوم پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے، ان کا ہیجان اور اضطراب ان کے چہروں سے صاف نظر آ تا ہے ۔ سری لنکن منیجر کے قتل کے بعد پوری حکومت اور ریاست کو سری لنکا کے ساتھ پوری دنیا سے اس واقعہ کے معا فی ما نگنی پڑی، معذرت اور معافی کا یہ سلسلہ خاصا عرصہ جاری رہا مگر ظاہر ہے کہ اس واقعہ کی تلافی نہیں ہو سکتی۔
اس قسم کے واقعات کے تسلسل سے پوری دنیا میں یہ تا ثر اُبھرا ہے کہ پا کستانی عوام مذ ہبی جنونی ہے ، جب توہین مذ ہب کے الزام میں سینکڑوںافراد مِل کر ایک فرد کو قتل کر رہے ہوتے ہیں تو بیرونی میڈیا میں ان افراد کے جنونی چہروں کو خاص طور پر دکھا یا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل جب سوات میں اسلامی نظام کی آ ڑ میں خواتین کو کوڑے مارے گئے تو اس وقت بھی عالمی میڈیا میں ان واقعات کو خاصی ترویج دی گئی ۔
مذ ہب اسلام کے بارے میں ایک عجیب سا تا ثر اُبھر رہا ہے ۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ پا کستانی حکومتوں اور مذ ہبی اجارہ داروں نے اقوام عالم کوکبھی بھی بھرپور طریقے سے باور کرانے کی کو شش نہیں کی ،کہ یہ رویّے اسلام کی تصویر نہیں ہیں بلکہ یہ پُر تشدد رویّے اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہیں اور عوام کے اس قسم کے ہیجانی اور اضطرابی رویّوں کا تعلق مذ ہبی جنونیت سے نہیں بلکہ مخدوش مستقبل اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہونے کی وجہ سے ہے ۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ممالک میں اسلامو فوبیا کے حوالے سے ہر فورم پر بات کی اور اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی ۔
ظاہر ہے کوئی بھی حکومت اس بات کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی عوام کو ایک بہتر زندگی نہیں د ے سکے۔ لوگوں کے ہیجان اور جنون کی اصل وجہ سا منے لانے سے حکومتوں کی اپنی ساکھ پر ضرب پڑتی ہے، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ غیریقینی صورتحال معاشی مسائل اور ہر معاملے میں عدم تحفظ کے احساس نے تقریباً 85 فیصد بالغ عوام کے روّیے غیر متوازن ہیں، لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے، عام افراد بیبسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ پورا معاشرہ ایک گھٹن کا شکار ہے مگر یہ گھٹن پر یشر ککر کی ما نند ہے اور کسی نہ کسی وقت یہ پریشر ککر پھٹ بھی جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی تین گُنا زیادہ ہو چکی ہے، یوٹیلٹی بِلوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے مگر ملازمت پیشہ افراد کی آ مدنی میں خاظر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ کاروباری حضرات اور ہُنرمند افراد کو تو اِتنا اثر نہیں پڑا کیو نکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ وہ بھی اپنے ذرائع آ مدنی میں اضافہ کر لیتے ہیں مگر ملازمت پیشہ افراد پِس کر رہ گئے ہیں ۔
مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہے اس نے اِن افراد کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، وہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی ان کا گزارہ نہیں ہو رہا ، اگلے ماہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ مزید مسائل بڑ ھیں گے۔
اس سے اگلے ماہ ان مسائل میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا ،اس پر مستزاد یہ کہ ملازمتوں کا تحفظ بھی اب حاصل نہیں ۔ فیکٹریوں اور کارخانے والے بھی ملازمین کو مستقل بنیادوں پر رکھنے کی بجائے کنٹر یکٹ پر رکھ رہے ہیں کیونکہ مستقل ملازمین کو رِ یٹائرڈ یا فارغ کرتے ہو ئے رقم دینی پڑ تی تھی۔ حکومت نے اس مسئلے پر توجہ ہی نہیں دی ۔ بلکہ ایکسپورٹ میںاضافہ کرنے کیلئے فیکٹری مالکان اور کارخانہ داروں کو خاص مراعات دی گئی ہیں مگر انھیں اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ اپنے منافع کا کچھ حصہ اپنے ورکروں پر بھی خرچ کریں ۔
عجیب سی غیریقینی صورتحال ہے ، زیادہ تر مزدور پیشہ طبقہ کرائے کے گھروں میں رہتا ہے ۔ مالکان نے کرایوں میں بھی ہوش رُبّا اضافہ کر رکھا ہے ، اگر کوئی مجبوری کا اظہار کرے تو بذریعہ طاقت مکان خالی کرا لیا جاتا ہے ، کرائے کا مکان ڈھونڈنا اور بدلنا ایک ایسا عذاب ہے کہ جِسے صرف کرائے دار ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ مزید بّراں یہ کہ پاکستانی عوام کا '' لائف سٹائل '' آ مدنی سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ عام لوگ بھی موٹر سائیکلوں اور کاروں کے مالک بن چکے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ انھیں چلانے کیلئے پیٹرول بھی ڈلوانا پڑتا ہے۔ سادہ ناشتے اور خوراک کا تصور بھی ناپید ہو چکا ہے ، ہر فرد کے ہاتھ میں مہنگے سے مہنگا موبائل فون نظر آ تا ہے ، جب کوئی فرد ایک دفعہ تعیشات کی زندگی کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر اس کا واپس پلٹنا ناممکن ہوتا ہے یعنی پہلی والی زندگی کی جانب جانا ممکن نہیں ہوتا ۔
عدم برداشت کے لاتعداد واقعات کے بعد بھی اہل اقتدار واختیار نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ عوام کے اس روّیے کی وجہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے ؟ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا کرنا چاہیے؟
موجودہ حکومت بھی یہ جا ننے کی کوشش نہیں کر رہی کہ آ خر عوام میں ہیجانی کیفیت کیوں طاری ہو رہی ہے ۔ حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے ترجمان عوام کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ہر مسئلے سے بّری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔ عوام کے مسا ئل میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ ہر فرد اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل سے ہی پریشان ہو چکا ہے ، تفکرات اور خوف کے سائے گہرے ہو رہے ہیں ، ہر حکومت الیکشن سے پہلے عوام کو سنہرے خواب دکھاتی ہے پھر اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی ذمہ داری سا بقہ حکومتوںپر ڈال دیتی ہے ۔
اس وقت عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا ۔ پٹرول کی قیمت میں آ ئے دن اضافہ ہو تا جا رہا ہے ، پٹرول کے ساتھ ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے ، ہمارے ملک کی 75 فیصد آبادی اپنی بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے تھک چکی ہے ۔ عوام کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔
مایوسی کی دُھند اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ کوئی بھی معمولی واقعہ پٹرول کو تیلی لگانے کا سبب بن سکتا ہے ۔ اہل اقتدار و اختیار کو شائد اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ ہم اس وقت آ تش ِفشاں کے دہا نے پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے ۔ اس وقت پاکستان کے جو بڑے مسائل ہیں ان کے متعلق عوام کو اعتماد میں لینا پڑے گا ۔ حکومتوں کو یہ وطیرہ ترک کرنا پڑے گا کہ ہر صبح عوام کو ایک اچھے مستقبل کی خوشخبری سُنا کر شام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جاتا ہے ، اور اسی طریقے سے اپنے اقتدار کا وقت پورا کیا جاتا ہے ۔
ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ، دو کروڑ بچے اسکول سے باہر
ورلڈ لیبر آرگنائزیشن نے رپورٹ جا ری کی ہے کہ '' پا کستان میں 5 سال سے لیکر15سال تک کے ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور اسی عمر کے دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں یعنی وہ تعلیم حاصل نہیں کر رہے '' اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ اگر چائیلڈ لیبر کرنے والے بچوں کے گھر کے حالات دیکھے جا ئیں تو واضح ہو گا کہ گھر کا خرچ چلا نے کے لئے ان گھرانوں کے پاس اس کے علاوہ کچھ چارہ ہی نہیں ہے ۔
بچپن انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، کیونکہ اسی عمر میں دماغ کے کمپیوٹر میں پہلی دفعہ جو '' فیڈ '' ہو جاتا ہے پھر اُسے بعد میں '' ڈیلیٹ '' کر نا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، بچوں کے احساسات اور جذبات کو انتہائی اہمیت دینے کی ضرورت ہو تی ہے۔
ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لئے پوری حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنا کردار ادا کرے ، مگر وطن عزیز میں بہت ہی کم افراد اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بچوں کی ذہنی نشوونما اور مثبت شخصیت بنانے کیلئے کونسا ماحول در کار ہے اور اس معاملے میں معاشرے کی ذ مہ داریاں کیا ہیں۔ جن بچوں کو چا ئیلڈ لیبر کا شکار بنایا جاتا ہے ، ان کے ذہن کی نشوونما محدود ہو جاتی ہے ، یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو یہ اپنی اولاد کی بھی تر بیت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔
اسی طرح جو بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں ان کا '' آ ئی کیو لیول'' بھی محدود ہو جا تا ہے ۔ دو کروڑ بچے اسکو لوں سے باہر ہیں اس بات سے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، مستزاد یہ کہ جو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا '' آ ئی کیو لیول '' بڑھانے اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر نے کیلئے وہ طر یقے اختیار نہیں کئے گئے کہ جو اس وقت بیرونی ممالک میں اپنائے گئے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل فِکر نے بھی اس بات کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
بڑھتی ہوئی جہالت اور چائیلڈ لیبر کی وجہ سے معاشرے میں ھٹ دھرمی ، ضد ، عدم برداشت ، عدم روداری اور دوسرے منفی رحجا نات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، پوری قوم کو جہا لت اور چا ئیلڈ لیبر کے خلاف جہاد کرنا پڑ ے گا ، اس وقت ملک کی ایک بڑ ی آ بادی کی سو چنے سمجھنے کی صلاحیت بہت محدود ہو چکی ہے ۔
منفی روّ یوں کو مثبت بنانے کا حل
موجودہ حکومت اگر پاکستان کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتی ہے تو اُ سے فی الوقت پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی لگانی پڑے گی ، سڑکیں پُل بنانا ابھی اتنا اہم نہیں جتنا قوم کو تعلیم یا فتہ بنانا ہے، سارا زور اور سر مایہ تعلیم پر لگا نا پڑے گا ۔ نصاب ایسا ہونا چاہیے کہ بچوں کے ذہین پر بوجھ نہ پڑ ے ان کا ذہن آہستہ آہستہ کھلتا جائے ۔
جن ممالک کی زبان انگریزی ہے وہاں بچوں پر دوہرا ذہنی بوجھ نہیں ہوتا ، پاکستان جیسے ممالک میں جب انگریزی میں کچھ سکھانے اور سمجھانے کی کو شش کی جاتی ہے تو بچوں کو اصل بات کی سمجھ آ تی ہے نہ اُ ن کا ذہن کُھلتا ہے ، اس کے ساتھ ملک کے تمام اساتذہ کو از سر نو اس بات کی تر بیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کے رجحانات اور ذ ہنی صلاحیتوں کو خود جانچ سکیں اور اس کے مطابق ہر بچے پر انفرادی توجہ دے سکیں ۔
بچوں کی شخصیت میں نکھار لا سکیں اور ان کے اندر موجود منفی رجحانات ختم کر سکیں ۔ اساتذہ کو اس بات کی بھی تربیت دی جائے کہ اگر کسی گھر کا ماحول ناخواندہ ہو تو اس گھر کے بچوں کی تعلیم و تربیت کس انداز میں ہو گی ، یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے کہ جس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت موثر تعلیم و تر بیت ہی عدم برداشت جیسے منفی روّیوں کو ختم کر سکتی ہے ۔
طبقاتی تفریق میں اضافہ بھی نفرت کا سبب بن رہا ہے
موجودہ حکومت تواتر سے ایسے اعدادوشمار پیش کر رہی ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے ، تعمیراتی شعبہ بہت ترقی کر رہا ہے ، لوگوں کا معیار زندگی بہت بلند ہو چکا ہے ، پا کستان کی امپورٹ میں بہت اضافہ ہو چکا ہے مگر حکومت یہ اعداد وشمار پیش کرنے سے قاصر ہے کہ دُودھ اور شہد کی بہنے والی ان نہروں سے کتنے فیصد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ جبکہ مسائل کا شکار یہ طبقہ ملکی اور معاشی ترقی کے یہ اعداد و شمار سنتا ہے تو انھیں اپنی محرومیوں کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے ۔
لوگ سوچتے ہیں کہ ملک میں اس قدر خوشحالی آ چکی ہے کہ لو گ نئی گاڑیاں بھی خرید رہے ہیں دوسری مصنوعات بھی خرید رہے ہیں مگر ان کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے، گھر والوں کے لئے دوائی نہیں خرید سکتے ۔ بلکہ وہ یہ مشکل زندگی گزارنے کے لئے مجبور ہیں اور یہ سمجھ کر زندگی گزار رہے ہیں کہ اس دردناک زندگی کا ایک پل اور ختم ہوا ،ان کے دِلوں میں نفرت کا ایک جوار بھاٹا پیدا ہو جاتا ہے ۔ ان کی مایوسی میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔
حکومت عوام کو بتائے کہ اُنکے دکھوں کا مداوا کیا ہے؟
آ ئی ایم ایف نے بتایا ہے کہ پاکستان کی درآمدات 52 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، 2024ء میں درآ مدات 75 ارب ڈالر تک پہنچ جا ئیں گی جبکہ برآمدات صرف 30 ارب ڈالر ہیں ، جو 2024ء میں 35 ارب ڈالر تک پہنچ سکیں گی۔ غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانی جو زر مبادلہ بھیج رہے ہیںاور اگر عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضہ مل بھی جائے تو بہر حال یہ خسارہ پورا نہیں ہو سکتا ، عوام سے مزید ٹیکس حاصل کر کے بھی قرضوں کی قسطیں پوری نہیں ہو سکتی ہیں ۔ امپورٹ کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر کہاں سے آئیں گے عوام یہ تمام باتیں سوچ سوچ کر ایک ہیجان اور اضطراب کا شکا رہے ، لوگوں کو اپنے اچھے مستقبل کی کوئی اُمید نہیں رہ گئی ۔
عام لوگ بڑھتے ہو ئے اخراجات سے انتہائی پریشان ہیں اور ان کو اس کا کوئی حل بھی نظر نہیں آ رہا ۔ اس صورتحال میں یہی سب کچھ ہونا ہے کہ جو ہو رہا ہے ، پوری دنیا کے سامنے پا کستان کی ایک خوفناک تصویر جا رہی ہے اور سیاستدانوں کو ٖصرف اپنے اقتدار کی فِکر ہے ، حکومت کم از کم عوام کو یہ بتا ئے کہ وہ ان کے محفوظ مستقبل کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے ، وزیر خزانہ خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور گردشی قرضے میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ کورونا اور عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کا کوئی حل نہیں بتایا جا رہا، پھر عوام کی ڈپریشن اور کرپشن کیسے ختم ہو گی ۔
پاکستانی گھروں کے اندر بھی یہی روّیے نظر آ تے ہیں
انتہا سے بڑھتی ہو ئی مہنگائی ،یوٹیلٹی بِلز اور مکا نوں کے کرایوں نے گھریلو خواتین کے اعصاب پر بُر ا اثر ڈالا ہے ۔ وطن ِ عزیز کی81 فیصد خواتین بے بسی اور کسمپرسی کی زندہ تصویر نظر آتی ہیں جبکہ گھریلو بجٹ خواتین بناتی ہیں اور وہ اپنے شوہروں کی آمدنی اور کمائی بھی جانتی ہیں، ان کے پا س اس کا کوئی دوسرا حل بھی نہیںہوتا ۔ مگر جیسے ہی وہ اپنے شوہروں کو خرچ یا کوئی ایکسٹرا خرچ بتاتی ہیں تو شوہروں کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے گھر میں بھی لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ، اور مرد جب باہر جاتے ہیں تو وہ انتہائی کوفت اور جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ بغیر کسی بات ہر ایک سے اُلجھتے رہتے ہیں ۔
اب ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کو یہ حقیقت ماننی پڑے گی اور اس بات کی ذمہ داری بھی لینی پڑے گی کہ عوام کے ہیجان ، اضطراب اور منفی روّیوں کی اصل وجہ کیا ہے اور مل کر ایسی پا لیسیاں بنانا پڑیں گی کہ جس سے پوری قوم کو ذ ہنی اطمینان اور آسودگی حاصل ہو اور وہ بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکل آ ئیں وگرنہ کسی بھی وقت معمولی واقعہ بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔
جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے ا نتہائی تاسف سے کہا کہ پوری قوم بے کسی اور بے بسی کے عالم میں ہے بلکہ سکتے کے عالم میں ہے۔ ہر طرف گھپ اندھیرے بڑھتے جا رہے ہیں اس وقت صرف پی ٹی آئی کی حکومت اور ایک ادارے کو ایک '' پیچ '' پر نہیں بلکہ تمام سیا سی پا رٹیوں ، اداروں اور عوام کو ایک '' پیچ'' پر ہونا چاہیے !!!
سری لنکن منیجر کے قتل کی دھول ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ میاں چنوں میں ایک فاتر العقل فرد کو لوگوں کے ایک ہجوم نے اسی الزام میں قتل کر دیا ۔ 33 افراد کو نامزد اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا۔
اگر ان واقعات کی ویڈیو دیکھی جائے تو ایک بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ پورے ہجوم پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے، ان کا ہیجان اور اضطراب ان کے چہروں سے صاف نظر آ تا ہے ۔ سری لنکن منیجر کے قتل کے بعد پوری حکومت اور ریاست کو سری لنکا کے ساتھ پوری دنیا سے اس واقعہ کے معا فی ما نگنی پڑی، معذرت اور معافی کا یہ سلسلہ خاصا عرصہ جاری رہا مگر ظاہر ہے کہ اس واقعہ کی تلافی نہیں ہو سکتی۔
اس قسم کے واقعات کے تسلسل سے پوری دنیا میں یہ تا ثر اُبھرا ہے کہ پا کستانی عوام مذ ہبی جنونی ہے ، جب توہین مذ ہب کے الزام میں سینکڑوںافراد مِل کر ایک فرد کو قتل کر رہے ہوتے ہیں تو بیرونی میڈیا میں ان افراد کے جنونی چہروں کو خاص طور پر دکھا یا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل جب سوات میں اسلامی نظام کی آ ڑ میں خواتین کو کوڑے مارے گئے تو اس وقت بھی عالمی میڈیا میں ان واقعات کو خاصی ترویج دی گئی ۔
مذ ہب اسلام کے بارے میں ایک عجیب سا تا ثر اُبھر رہا ہے ۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ پا کستانی حکومتوں اور مذ ہبی اجارہ داروں نے اقوام عالم کوکبھی بھی بھرپور طریقے سے باور کرانے کی کو شش نہیں کی ،کہ یہ رویّے اسلام کی تصویر نہیں ہیں بلکہ یہ پُر تشدد رویّے اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہیں اور عوام کے اس قسم کے ہیجانی اور اضطرابی رویّوں کا تعلق مذ ہبی جنونیت سے نہیں بلکہ مخدوش مستقبل اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہونے کی وجہ سے ہے ۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ممالک میں اسلامو فوبیا کے حوالے سے ہر فورم پر بات کی اور اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی ۔
ظاہر ہے کوئی بھی حکومت اس بات کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی عوام کو ایک بہتر زندگی نہیں د ے سکے۔ لوگوں کے ہیجان اور جنون کی اصل وجہ سا منے لانے سے حکومتوں کی اپنی ساکھ پر ضرب پڑتی ہے، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ غیریقینی صورتحال معاشی مسائل اور ہر معاملے میں عدم تحفظ کے احساس نے تقریباً 85 فیصد بالغ عوام کے روّیے غیر متوازن ہیں، لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے، عام افراد بیبسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ پورا معاشرہ ایک گھٹن کا شکار ہے مگر یہ گھٹن پر یشر ککر کی ما نند ہے اور کسی نہ کسی وقت یہ پریشر ککر پھٹ بھی جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی تین گُنا زیادہ ہو چکی ہے، یوٹیلٹی بِلوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے مگر ملازمت پیشہ افراد کی آ مدنی میں خاظر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ کاروباری حضرات اور ہُنرمند افراد کو تو اِتنا اثر نہیں پڑا کیو نکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ وہ بھی اپنے ذرائع آ مدنی میں اضافہ کر لیتے ہیں مگر ملازمت پیشہ افراد پِس کر رہ گئے ہیں ۔
مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہے اس نے اِن افراد کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، وہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی ان کا گزارہ نہیں ہو رہا ، اگلے ماہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ مزید مسائل بڑ ھیں گے۔
اس سے اگلے ماہ ان مسائل میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا ،اس پر مستزاد یہ کہ ملازمتوں کا تحفظ بھی اب حاصل نہیں ۔ فیکٹریوں اور کارخانے والے بھی ملازمین کو مستقل بنیادوں پر رکھنے کی بجائے کنٹر یکٹ پر رکھ رہے ہیں کیونکہ مستقل ملازمین کو رِ یٹائرڈ یا فارغ کرتے ہو ئے رقم دینی پڑ تی تھی۔ حکومت نے اس مسئلے پر توجہ ہی نہیں دی ۔ بلکہ ایکسپورٹ میںاضافہ کرنے کیلئے فیکٹری مالکان اور کارخانہ داروں کو خاص مراعات دی گئی ہیں مگر انھیں اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ اپنے منافع کا کچھ حصہ اپنے ورکروں پر بھی خرچ کریں ۔
عجیب سی غیریقینی صورتحال ہے ، زیادہ تر مزدور پیشہ طبقہ کرائے کے گھروں میں رہتا ہے ۔ مالکان نے کرایوں میں بھی ہوش رُبّا اضافہ کر رکھا ہے ، اگر کوئی مجبوری کا اظہار کرے تو بذریعہ طاقت مکان خالی کرا لیا جاتا ہے ، کرائے کا مکان ڈھونڈنا اور بدلنا ایک ایسا عذاب ہے کہ جِسے صرف کرائے دار ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ مزید بّراں یہ کہ پاکستانی عوام کا '' لائف سٹائل '' آ مدنی سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ عام لوگ بھی موٹر سائیکلوں اور کاروں کے مالک بن چکے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ انھیں چلانے کیلئے پیٹرول بھی ڈلوانا پڑتا ہے۔ سادہ ناشتے اور خوراک کا تصور بھی ناپید ہو چکا ہے ، ہر فرد کے ہاتھ میں مہنگے سے مہنگا موبائل فون نظر آ تا ہے ، جب کوئی فرد ایک دفعہ تعیشات کی زندگی کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر اس کا واپس پلٹنا ناممکن ہوتا ہے یعنی پہلی والی زندگی کی جانب جانا ممکن نہیں ہوتا ۔
عدم برداشت کے لاتعداد واقعات کے بعد بھی اہل اقتدار واختیار نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ عوام کے اس روّیے کی وجہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے ؟ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا کرنا چاہیے؟
موجودہ حکومت بھی یہ جا ننے کی کوشش نہیں کر رہی کہ آ خر عوام میں ہیجانی کیفیت کیوں طاری ہو رہی ہے ۔ حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے ترجمان عوام کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ہر مسئلے سے بّری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔ عوام کے مسا ئل میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ ہر فرد اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل سے ہی پریشان ہو چکا ہے ، تفکرات اور خوف کے سائے گہرے ہو رہے ہیں ، ہر حکومت الیکشن سے پہلے عوام کو سنہرے خواب دکھاتی ہے پھر اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی ذمہ داری سا بقہ حکومتوںپر ڈال دیتی ہے ۔
اس وقت عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا ۔ پٹرول کی قیمت میں آ ئے دن اضافہ ہو تا جا رہا ہے ، پٹرول کے ساتھ ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے ، ہمارے ملک کی 75 فیصد آبادی اپنی بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے تھک چکی ہے ۔ عوام کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔
مایوسی کی دُھند اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ کوئی بھی معمولی واقعہ پٹرول کو تیلی لگانے کا سبب بن سکتا ہے ۔ اہل اقتدار و اختیار کو شائد اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ ہم اس وقت آ تش ِفشاں کے دہا نے پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے ۔ اس وقت پاکستان کے جو بڑے مسائل ہیں ان کے متعلق عوام کو اعتماد میں لینا پڑے گا ۔ حکومتوں کو یہ وطیرہ ترک کرنا پڑے گا کہ ہر صبح عوام کو ایک اچھے مستقبل کی خوشخبری سُنا کر شام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جاتا ہے ، اور اسی طریقے سے اپنے اقتدار کا وقت پورا کیا جاتا ہے ۔
ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ، دو کروڑ بچے اسکول سے باہر
ورلڈ لیبر آرگنائزیشن نے رپورٹ جا ری کی ہے کہ '' پا کستان میں 5 سال سے لیکر15سال تک کے ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور اسی عمر کے دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں یعنی وہ تعلیم حاصل نہیں کر رہے '' اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ اگر چائیلڈ لیبر کرنے والے بچوں کے گھر کے حالات دیکھے جا ئیں تو واضح ہو گا کہ گھر کا خرچ چلا نے کے لئے ان گھرانوں کے پاس اس کے علاوہ کچھ چارہ ہی نہیں ہے ۔
بچپن انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، کیونکہ اسی عمر میں دماغ کے کمپیوٹر میں پہلی دفعہ جو '' فیڈ '' ہو جاتا ہے پھر اُسے بعد میں '' ڈیلیٹ '' کر نا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، بچوں کے احساسات اور جذبات کو انتہائی اہمیت دینے کی ضرورت ہو تی ہے۔
ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لئے پوری حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنا کردار ادا کرے ، مگر وطن عزیز میں بہت ہی کم افراد اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بچوں کی ذہنی نشوونما اور مثبت شخصیت بنانے کیلئے کونسا ماحول در کار ہے اور اس معاملے میں معاشرے کی ذ مہ داریاں کیا ہیں۔ جن بچوں کو چا ئیلڈ لیبر کا شکار بنایا جاتا ہے ، ان کے ذہن کی نشوونما محدود ہو جاتی ہے ، یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو یہ اپنی اولاد کی بھی تر بیت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔
اسی طرح جو بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں ان کا '' آ ئی کیو لیول'' بھی محدود ہو جا تا ہے ۔ دو کروڑ بچے اسکو لوں سے باہر ہیں اس بات سے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، مستزاد یہ کہ جو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا '' آ ئی کیو لیول '' بڑھانے اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر نے کیلئے وہ طر یقے اختیار نہیں کئے گئے کہ جو اس وقت بیرونی ممالک میں اپنائے گئے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل فِکر نے بھی اس بات کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
بڑھتی ہوئی جہالت اور چائیلڈ لیبر کی وجہ سے معاشرے میں ھٹ دھرمی ، ضد ، عدم برداشت ، عدم روداری اور دوسرے منفی رحجا نات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، پوری قوم کو جہا لت اور چا ئیلڈ لیبر کے خلاف جہاد کرنا پڑ ے گا ، اس وقت ملک کی ایک بڑ ی آ بادی کی سو چنے سمجھنے کی صلاحیت بہت محدود ہو چکی ہے ۔
منفی روّ یوں کو مثبت بنانے کا حل
موجودہ حکومت اگر پاکستان کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتی ہے تو اُ سے فی الوقت پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی لگانی پڑے گی ، سڑکیں پُل بنانا ابھی اتنا اہم نہیں جتنا قوم کو تعلیم یا فتہ بنانا ہے، سارا زور اور سر مایہ تعلیم پر لگا نا پڑے گا ۔ نصاب ایسا ہونا چاہیے کہ بچوں کے ذہین پر بوجھ نہ پڑ ے ان کا ذہن آہستہ آہستہ کھلتا جائے ۔
جن ممالک کی زبان انگریزی ہے وہاں بچوں پر دوہرا ذہنی بوجھ نہیں ہوتا ، پاکستان جیسے ممالک میں جب انگریزی میں کچھ سکھانے اور سمجھانے کی کو شش کی جاتی ہے تو بچوں کو اصل بات کی سمجھ آ تی ہے نہ اُ ن کا ذہن کُھلتا ہے ، اس کے ساتھ ملک کے تمام اساتذہ کو از سر نو اس بات کی تر بیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کے رجحانات اور ذ ہنی صلاحیتوں کو خود جانچ سکیں اور اس کے مطابق ہر بچے پر انفرادی توجہ دے سکیں ۔
بچوں کی شخصیت میں نکھار لا سکیں اور ان کے اندر موجود منفی رجحانات ختم کر سکیں ۔ اساتذہ کو اس بات کی بھی تربیت دی جائے کہ اگر کسی گھر کا ماحول ناخواندہ ہو تو اس گھر کے بچوں کی تعلیم و تربیت کس انداز میں ہو گی ، یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے کہ جس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت موثر تعلیم و تر بیت ہی عدم برداشت جیسے منفی روّیوں کو ختم کر سکتی ہے ۔
طبقاتی تفریق میں اضافہ بھی نفرت کا سبب بن رہا ہے
موجودہ حکومت تواتر سے ایسے اعدادوشمار پیش کر رہی ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے ، تعمیراتی شعبہ بہت ترقی کر رہا ہے ، لوگوں کا معیار زندگی بہت بلند ہو چکا ہے ، پا کستان کی امپورٹ میں بہت اضافہ ہو چکا ہے مگر حکومت یہ اعداد وشمار پیش کرنے سے قاصر ہے کہ دُودھ اور شہد کی بہنے والی ان نہروں سے کتنے فیصد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ جبکہ مسائل کا شکار یہ طبقہ ملکی اور معاشی ترقی کے یہ اعداد و شمار سنتا ہے تو انھیں اپنی محرومیوں کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے ۔
لوگ سوچتے ہیں کہ ملک میں اس قدر خوشحالی آ چکی ہے کہ لو گ نئی گاڑیاں بھی خرید رہے ہیں دوسری مصنوعات بھی خرید رہے ہیں مگر ان کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے، گھر والوں کے لئے دوائی نہیں خرید سکتے ۔ بلکہ وہ یہ مشکل زندگی گزارنے کے لئے مجبور ہیں اور یہ سمجھ کر زندگی گزار رہے ہیں کہ اس دردناک زندگی کا ایک پل اور ختم ہوا ،ان کے دِلوں میں نفرت کا ایک جوار بھاٹا پیدا ہو جاتا ہے ۔ ان کی مایوسی میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔
حکومت عوام کو بتائے کہ اُنکے دکھوں کا مداوا کیا ہے؟
آ ئی ایم ایف نے بتایا ہے کہ پاکستان کی درآمدات 52 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، 2024ء میں درآ مدات 75 ارب ڈالر تک پہنچ جا ئیں گی جبکہ برآمدات صرف 30 ارب ڈالر ہیں ، جو 2024ء میں 35 ارب ڈالر تک پہنچ سکیں گی۔ غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانی جو زر مبادلہ بھیج رہے ہیںاور اگر عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضہ مل بھی جائے تو بہر حال یہ خسارہ پورا نہیں ہو سکتا ، عوام سے مزید ٹیکس حاصل کر کے بھی قرضوں کی قسطیں پوری نہیں ہو سکتی ہیں ۔ امپورٹ کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر کہاں سے آئیں گے عوام یہ تمام باتیں سوچ سوچ کر ایک ہیجان اور اضطراب کا شکا رہے ، لوگوں کو اپنے اچھے مستقبل کی کوئی اُمید نہیں رہ گئی ۔
عام لوگ بڑھتے ہو ئے اخراجات سے انتہائی پریشان ہیں اور ان کو اس کا کوئی حل بھی نظر نہیں آ رہا ۔ اس صورتحال میں یہی سب کچھ ہونا ہے کہ جو ہو رہا ہے ، پوری دنیا کے سامنے پا کستان کی ایک خوفناک تصویر جا رہی ہے اور سیاستدانوں کو ٖصرف اپنے اقتدار کی فِکر ہے ، حکومت کم از کم عوام کو یہ بتا ئے کہ وہ ان کے محفوظ مستقبل کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے ، وزیر خزانہ خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور گردشی قرضے میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ کورونا اور عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کا کوئی حل نہیں بتایا جا رہا، پھر عوام کی ڈپریشن اور کرپشن کیسے ختم ہو گی ۔
پاکستانی گھروں کے اندر بھی یہی روّیے نظر آ تے ہیں
انتہا سے بڑھتی ہو ئی مہنگائی ،یوٹیلٹی بِلز اور مکا نوں کے کرایوں نے گھریلو خواتین کے اعصاب پر بُر ا اثر ڈالا ہے ۔ وطن ِ عزیز کی81 فیصد خواتین بے بسی اور کسمپرسی کی زندہ تصویر نظر آتی ہیں جبکہ گھریلو بجٹ خواتین بناتی ہیں اور وہ اپنے شوہروں کی آمدنی اور کمائی بھی جانتی ہیں، ان کے پا س اس کا کوئی دوسرا حل بھی نہیںہوتا ۔ مگر جیسے ہی وہ اپنے شوہروں کو خرچ یا کوئی ایکسٹرا خرچ بتاتی ہیں تو شوہروں کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے گھر میں بھی لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ، اور مرد جب باہر جاتے ہیں تو وہ انتہائی کوفت اور جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ بغیر کسی بات ہر ایک سے اُلجھتے رہتے ہیں ۔
اب ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کو یہ حقیقت ماننی پڑے گی اور اس بات کی ذمہ داری بھی لینی پڑے گی کہ عوام کے ہیجان ، اضطراب اور منفی روّیوں کی اصل وجہ کیا ہے اور مل کر ایسی پا لیسیاں بنانا پڑیں گی کہ جس سے پوری قوم کو ذ ہنی اطمینان اور آسودگی حاصل ہو اور وہ بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکل آ ئیں وگرنہ کسی بھی وقت معمولی واقعہ بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔
جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے ا نتہائی تاسف سے کہا کہ پوری قوم بے کسی اور بے بسی کے عالم میں ہے بلکہ سکتے کے عالم میں ہے۔ ہر طرف گھپ اندھیرے بڑھتے جا رہے ہیں اس وقت صرف پی ٹی آئی کی حکومت اور ایک ادارے کو ایک '' پیچ '' پر نہیں بلکہ تمام سیا سی پا رٹیوں ، اداروں اور عوام کو ایک '' پیچ'' پر ہونا چاہیے !!!