اعتماد اور عدم اعتماد
دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا یقین کتنا پختہ ثابت ہوتا ہے
قومی سیاست میں اس وقت ہلچل مچی ہوئی ہے ، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے اس طرح مدمقابل ہیں کہ فتح صرف ان ہی کو حاصل ہوگی ، دوسرے فریق کو ہر صورت شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
حکومت کو یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جو خطروں سے کھیلنے والے کھلاڑی ہیں، اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اپوزیشن کے ان کے خلاف تمام حربے ناکام ہوں گے، تحریک عدم اعتماد اول تو پیش نہیں ہوگی، اپوزیشن ہزارہا جتن کے باوجود نمبرگیم کی بازی ہار جائے گی، اگر اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر بھی دی گئی تو حکومت کے اتحادی اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیں گے اور نہ ہی پی ٹی آئی کا کوئی رکن ٹوٹ کر اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے کر اپوزیشن کے ایجنڈے کا حصہ بنے گا۔
حکومت کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ کراچی سے شروع ہونے والا بلاول بھٹو کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے کے بعد کسی دھرنے کی صورت میں تبدیل نہیں ہوگا بلکہ ایک جلسہ کرکے بلاول بھٹو خالی ہاتھ لوٹ جائیں گے اور حکومت کو پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ سے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اسی طرح حکومت کو یہ بھی یقین ہے کہ پنجاب میں گہرا اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعت (ن) لیگ بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو سر توڑ کوششیں کر رہی ہے وہ سب رائیگاں جائیں گی۔ عشروں بعد (ن) لیگ کے شہباز شریف کی (ق) لیگ کے چوہدری برادران کے گھر آمد سے کوئی '' بریک تھرو '' نہیں ہوگا۔ (ق) لیگ حکومت کی اتحادی ہے قدم سے قدم ملا کر کھڑی رہے گی اور اپوزیشن کے کسی جھانسے میں نہیں آئے گی۔
حکومت کو اس بات کا بھی یقین اور بھرپور اعتماد ہے کہ ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ آج بھی اس کے ساتھ ہے اور اس کا '' دست شفقت '' پلٹ کر اپوزیشن کی طرف نہیں جائے گا۔ اس کی آشیرباد حکومت کو حاصل رہے گی۔
چوں کہ اپوزیشن مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو حکومت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوامی سطح پر بھرپور طریقے سے حکومت مخالف مہم چلانے کے لیے کوشاں ہے لہٰذا حکومت نے اس مہم جوئی کا جواب دینے کے لیے ایک ریلیف کا اعلان کرنا ضروری سمجھا۔ گزشتہ پیرکو وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 10 روپے فی لیٹر اور بجلی کی قیمتوں میں 5 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا ہے۔
احساس پروگرام کے تحت پہلے ہر غریب خاندان کو 12 ہزار روپے ماہانہ ملا کرتے تھے جو بڑھا کر 14 ہزار کر دیے گئے ہیں۔ انٹرن شپ کے لیے نوجوانوں کو 30 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے بقول آیندہ بجٹ تک بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک اب مشکل صورت حال سے نکل آیا ہے، معیشت مستحکم ہو رہی ہے، انھوں نے حسب عادت سابقہ حکومتوں کو ہدف تنقید بنایا اور مہنگائی کی موجودہ شرح میں مسلسل اضافے کا سبب بھی سابقہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی کو قرار دیتے ہوئے عوام سے اپیل بھی کی کہ وہ آیندہ انتخابات میں ایسے لوگوں کو ووٹ نہ دیں جن کے اثاثے اور پیسہ ملک سے باہر ہو۔
وزیر اعظم نے فیک نیوز روکنے کے حوالے سے جاری پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے بارے میں سامنے آنے والے صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کے ردعمل پر کہا کہ اس قانون کا مقصد سوشل میڈیا پر غلط خبروں کی روک تھام ہے۔ جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس آرڈیننس کی کسی بھی جانب سے پذیرائی نہیں کی جا رہی ہے۔
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی تنظیموں سے لے کر چاروں صوبوں کی بار کونسلوں تک اور اپوزیشن سے لے کر صاحب فہم حلقوں تک سب اس آرڈیننس کو اظہار رائے کی آزادی کے منافی قرار دے رہے ہیں ، اسی نسبت سے اسے صوبائی کورٹس میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے بھی میڈیا کی آواز کو دبانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے لیکن سوائے تنقید اور ناکامی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ حکومت کو یہ سچائی تسلیم کرلینی چاہیے۔
ادھر اپوزیشن بھی اپنے کارڈ ترتیب دے رہی ہے۔ آج کی سیاست کے بڑے کھلاڑی آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن ملاقاتوں پر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں، (ق) لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان سے لے کر جہانگیر ترین گروپ تک ہر ایک کے دروازے پر دستک دی جا رہی ہے، مشاورت ہو رہی ہے، جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے ۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبر پورے کرنے کے لیے بھاگ دوڑ ہو رہی ہے۔
پی پی پی اور (ن) لیگ دونوں ایک دوسرے کی شدید مخالف سیاسی جماعتیں ہیں۔ انتخابی میدان میں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے ، لیکن حیرت انگیز طور پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ باہر سے پراعتماد نظر آنے والی دونوں سیاسی جماعتیں اندر سے ایک دوسرے پر عدم اعتماد رکھتی ہیں۔ پھر یہ عمران خان کے خلاف پراعتماد کیوں اور کیسے ہیں؟
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ساڑھے تین سال تک دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سارا زور لگانے کے باوجود حکومت گرانے میں ناکام رہیں تو اس کی وجہ حکومت اور طاقتور حلقوں کا ایک پیج پر ہونا تھا۔ اب یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ''امپائر'' نے اشاروں اشاروں میں اپنے ''نیوٹرل'' ہونے کا یقین دلا دیا ہے لہٰذا اب انھیں یقین ہے کہ وہ ''جوڑ توڑ'' کی سیاست سے حکومتی اتحادیوں کو اپنے حق میں ووٹ دینے کے لیے قائل کرلیں گے نہ صرف یہ بلکہ بعض حکومتی ناراض ارکان اسمبلی بھی، جو خان صاحب سے نالاں ہیں، ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکتی ہے اور عمران خان کو وقت سے پہلے وہ گھر بھیجنے کا اپنا دعویٰ اور وعدہ پورا کرسکتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا یقین کتنا پختہ ثابت ہوتا ہے اور اپوزیشن کا عدم اعتماد کی کامیابی کا دعویٰ کتنا سچا ثابت ہوتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف اعتماد اور عدم اعتماد کے درمیان دوراہے پر کھڑے ہیں۔
حکومت کو یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جو خطروں سے کھیلنے والے کھلاڑی ہیں، اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اپوزیشن کے ان کے خلاف تمام حربے ناکام ہوں گے، تحریک عدم اعتماد اول تو پیش نہیں ہوگی، اپوزیشن ہزارہا جتن کے باوجود نمبرگیم کی بازی ہار جائے گی، اگر اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر بھی دی گئی تو حکومت کے اتحادی اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیں گے اور نہ ہی پی ٹی آئی کا کوئی رکن ٹوٹ کر اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے کر اپوزیشن کے ایجنڈے کا حصہ بنے گا۔
حکومت کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ کراچی سے شروع ہونے والا بلاول بھٹو کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے کے بعد کسی دھرنے کی صورت میں تبدیل نہیں ہوگا بلکہ ایک جلسہ کرکے بلاول بھٹو خالی ہاتھ لوٹ جائیں گے اور حکومت کو پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ سے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اسی طرح حکومت کو یہ بھی یقین ہے کہ پنجاب میں گہرا اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعت (ن) لیگ بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو سر توڑ کوششیں کر رہی ہے وہ سب رائیگاں جائیں گی۔ عشروں بعد (ن) لیگ کے شہباز شریف کی (ق) لیگ کے چوہدری برادران کے گھر آمد سے کوئی '' بریک تھرو '' نہیں ہوگا۔ (ق) لیگ حکومت کی اتحادی ہے قدم سے قدم ملا کر کھڑی رہے گی اور اپوزیشن کے کسی جھانسے میں نہیں آئے گی۔
حکومت کو اس بات کا بھی یقین اور بھرپور اعتماد ہے کہ ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ آج بھی اس کے ساتھ ہے اور اس کا '' دست شفقت '' پلٹ کر اپوزیشن کی طرف نہیں جائے گا۔ اس کی آشیرباد حکومت کو حاصل رہے گی۔
چوں کہ اپوزیشن مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو حکومت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوامی سطح پر بھرپور طریقے سے حکومت مخالف مہم چلانے کے لیے کوشاں ہے لہٰذا حکومت نے اس مہم جوئی کا جواب دینے کے لیے ایک ریلیف کا اعلان کرنا ضروری سمجھا۔ گزشتہ پیرکو وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 10 روپے فی لیٹر اور بجلی کی قیمتوں میں 5 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا ہے۔
احساس پروگرام کے تحت پہلے ہر غریب خاندان کو 12 ہزار روپے ماہانہ ملا کرتے تھے جو بڑھا کر 14 ہزار کر دیے گئے ہیں۔ انٹرن شپ کے لیے نوجوانوں کو 30 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے بقول آیندہ بجٹ تک بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک اب مشکل صورت حال سے نکل آیا ہے، معیشت مستحکم ہو رہی ہے، انھوں نے حسب عادت سابقہ حکومتوں کو ہدف تنقید بنایا اور مہنگائی کی موجودہ شرح میں مسلسل اضافے کا سبب بھی سابقہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی کو قرار دیتے ہوئے عوام سے اپیل بھی کی کہ وہ آیندہ انتخابات میں ایسے لوگوں کو ووٹ نہ دیں جن کے اثاثے اور پیسہ ملک سے باہر ہو۔
وزیر اعظم نے فیک نیوز روکنے کے حوالے سے جاری پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے بارے میں سامنے آنے والے صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کے ردعمل پر کہا کہ اس قانون کا مقصد سوشل میڈیا پر غلط خبروں کی روک تھام ہے۔ جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس آرڈیننس کی کسی بھی جانب سے پذیرائی نہیں کی جا رہی ہے۔
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی تنظیموں سے لے کر چاروں صوبوں کی بار کونسلوں تک اور اپوزیشن سے لے کر صاحب فہم حلقوں تک سب اس آرڈیننس کو اظہار رائے کی آزادی کے منافی قرار دے رہے ہیں ، اسی نسبت سے اسے صوبائی کورٹس میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے بھی میڈیا کی آواز کو دبانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے لیکن سوائے تنقید اور ناکامی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ حکومت کو یہ سچائی تسلیم کرلینی چاہیے۔
ادھر اپوزیشن بھی اپنے کارڈ ترتیب دے رہی ہے۔ آج کی سیاست کے بڑے کھلاڑی آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن ملاقاتوں پر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں، (ق) لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان سے لے کر جہانگیر ترین گروپ تک ہر ایک کے دروازے پر دستک دی جا رہی ہے، مشاورت ہو رہی ہے، جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے ۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبر پورے کرنے کے لیے بھاگ دوڑ ہو رہی ہے۔
پی پی پی اور (ن) لیگ دونوں ایک دوسرے کی شدید مخالف سیاسی جماعتیں ہیں۔ انتخابی میدان میں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے ، لیکن حیرت انگیز طور پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ باہر سے پراعتماد نظر آنے والی دونوں سیاسی جماعتیں اندر سے ایک دوسرے پر عدم اعتماد رکھتی ہیں۔ پھر یہ عمران خان کے خلاف پراعتماد کیوں اور کیسے ہیں؟
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ساڑھے تین سال تک دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سارا زور لگانے کے باوجود حکومت گرانے میں ناکام رہیں تو اس کی وجہ حکومت اور طاقتور حلقوں کا ایک پیج پر ہونا تھا۔ اب یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ''امپائر'' نے اشاروں اشاروں میں اپنے ''نیوٹرل'' ہونے کا یقین دلا دیا ہے لہٰذا اب انھیں یقین ہے کہ وہ ''جوڑ توڑ'' کی سیاست سے حکومتی اتحادیوں کو اپنے حق میں ووٹ دینے کے لیے قائل کرلیں گے نہ صرف یہ بلکہ بعض حکومتی ناراض ارکان اسمبلی بھی، جو خان صاحب سے نالاں ہیں، ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکتی ہے اور عمران خان کو وقت سے پہلے وہ گھر بھیجنے کا اپنا دعویٰ اور وعدہ پورا کرسکتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا یقین کتنا پختہ ثابت ہوتا ہے اور اپوزیشن کا عدم اعتماد کی کامیابی کا دعویٰ کتنا سچا ثابت ہوتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے خلاف اعتماد اور عدم اعتماد کے درمیان دوراہے پر کھڑے ہیں۔