سب سے پہلے عوام …

عوام کا مطلب ملک کا عام شہری جو آبادی کا 99 فیصد ہے، وہ چاہتا ہے اس کی اپنے گھر میں عزت جان و مال محفوظ ہو

پاکستان میں نعروں کی تاریخ بہت پرانی ہے ، ذوالفقار علی بھٹو نے نعرہ لگایا ''روٹی کپڑا اور مکان'' پرویز مشرف نے ایک نعرہ دیا تھا ''سب سے پہلے پاکستان'' نواز شریف نے کہا '' قرض اتارو ، ملک سنوارو۔'' عوام کو روٹی کپڑا اور مکان تو نہیں ملا البتہ خواص نے خوب موجیں اڑائیں۔

اسی طرح ملک سنوارنے اور قرض اتارنے کے لیے عوام نے بہت قربانیاں دیں ، مگر نہ قرض ہی اتر سکا نہ ملک سنورسکا۔ عوام ہمیشہ دھوکا ہی کھاتے رہے اور خواص موجیں اڑاتے رہے۔ آج تک کسی لیڈر نے اپنی جاگیر یا لاکھوں ایکڑ زمینوں میں سے غریب عوام کوکچھ دیا نا کسی نے اپنا محل کسی کالج یا یونیورسٹی کے لیے وقف کیا۔کون ایسا لیڈر گزرا ہے جس نے اپنی دولت ملک کا قرض اتارنے کے لیے ملک کے خزانہ میں جمع کرائی ہو اور اب گھبرانا نہیں کہہ کر عوام کو ادھ موا کردیا گیا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ عوام کا مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ عوام کا مطلب ملک کا عام شہری جو آبادی کا 99 فیصد ہے، وہ چاہتا ہے اس کی اپنے گھر میں عزت جان و مال محفوظ ہو ، اس کے گھر میں بجلی پانی اور گیس اس کی ضرورت کے مطابق مل رہی ہو۔ اس کو اس کی صلاحیت کے مطابق ملازمت، روز گار اور کاروبار کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔ اس کو اپنے روزگار کی جگہ پر جانے کے لیے معقول سواری کا انتظام ہو۔ اس کے بچوں کو تعلیم کے یکساں مواقعے میسر ہوں ، اگر وہ بیمار ہو تو اس کا با عزت علاج بالکل اسی طرح ہو جیسے ہمارے وزیر، مشیر اور سرکاری اہلکاروں کا ہوتا ہے۔

ایسا صرف اس طرح ہی ممکن ہے کہ اقتدار کو نچلی سے نچلی سطح پر منتقل کردیا جائے۔ پرویز مشرف سے لاکھ اختلاف کے باوجود اس کے بلدیاتی نظام پر توجہ دینے سے عوامی سطح پر لوگوں اپنے مسائل کے حل کرانے کا موقع ملا تھا ، مگر اس نظام کو بعد کے حکمرانوں نے چلنے نہیں دیا۔ اس کو مزید بہتر بنانے کے بجائے اس کو بد سے بدتر بنادیا۔ عوام کو جب پتہ چلے گا کہ ان پر عائد کیا گیا ٹیکس ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا رہا ہے تو ٹیکس دینے میں تساہل نہیں کریں گے۔ احتجاج کا موجودہ طریقہ کار نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہے، اسے یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

احتجاج جس کے خلاف کیا جاتا ہے وہ تو اپنے گھر میں عیش سے رہ رہا ہوتا ہے اور سڑکوں پر نکل کر سڑکوں کو بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے سے صرف عام آدمی پریشان ہوتا ہے۔ کسی کو کام پر جانے یا کام سے تھکے واپس گھر آنے میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کا اندازہ کسی اور کو نہیں ہوسکتا۔ احتجاج کرنے والوں کو کسی بھی صورت میں عوام کو تکلیف دینے کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

احتجاج ریکارڈ کرانے کے اور بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں ، جیسے ٹریفک روکے بغیر سڑک کے کنارے دونوں طرف فٹ پاتھ پر کارکنوں کی ایک لمبی چین بنادی جائے اس پر مطالبات لکھے کارڈ ہاتھ میں ہوں۔ ہمارے شہر کراچی بلکہ پورے ملک میں محکموں میں ایک دوسرے سے بالکل بھی کوآرڈینیشن نہیں ہے، ایک محکمہ سڑک بناکر نکلتا ہے دوسرے محکمہ کو اپنا کام یاد آجاتا ہے۔ عوام کی تکلیف کا کسی کو احساس ہی نہیں ہے۔ کراچی میں اپنی رہائشی سوسائٹی میں چشم دید واقعہ بتاتا ہوں۔


مجھے یقین ہے کہ پورے کراچی بلکہ پورے پاکستان میں بھی ایسا ہوتا ہوگا۔ سوسائٹی کے رہائشیوں کو برسہا برس سے پانی سیوریج اور سڑکوں کے مسائل کا سامنا تھا.تیز بارشوں میں یہاں کے رہائشی کئی کئی دن گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں ، گھروں میں پانی آجاتا ہے، سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں، یہ وہ علاقہ ہے جسے ٹیکس لینے کے لیے A کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔ کسی کو عوام کی تکلیف کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا۔

گزشتہ سال کچھ سڑکیں اور سیوریج کی لائنیں ڈالی گئیں وہ بھی الیکشن نزدیک ہونے کی وجہ سے کچھ مقابلہ سا ہوا کچھ کام سندھ حکومت کی طرف سے کچھ وفاقی حکومت کے فنڈ سے ذرا بہتر کام ہوا۔ عوام نے کچھ سکون کا سانس لیا تھا۔ رہائشیوں نے مہمانوں کو اپنے گھر بلانا شروع کیا ، ورنہ تو پہلے کسی کو اپنے علاقے میں بلاتے شرم آتی تھی ،کہنا پڑتا تھا ، انھیں پتھروں پہ چل کے آسکو تو آؤ... میرے گھر کی راہ میں کوئی سڑک ہموار نہیں۔ ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے سوئی گیس والوں کو اپنی لائنیں تبدیلی کا خیال آگیا اور پوری سوسائٹی کی نئی سڑکوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔

عوام کی تکلیف کا ذرہ برابر احساس نہیں... بہت کہا کہ ایک ایک بلاک کو مکمل طور پر بنا کر دوسرے بلاکس میں کام شروع کیا جائے مگر نہیں ، صبح گھر سے گاڑی نکالیں شام کو گھر میں گاڑی نہیں لاسکتے کہ سڑک کھدی ہوئی ہے، دوسری طرف بجلی والوں نے بھی مین روڈ کو بھاری مشینری سے کھود دیا ہے، صبح بچوں کو اسکول پہنچانے اور اسکولوں کے آگے بچوں کو اتارنے میں جو کوفت ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف متاثرہ عوام کو ہی ہو سکتا ہے۔

ایک دفعہ مدینہ منورہ میں اپنے بیٹے کے گھر رہائش پذیر تھا کہ رات کے وقت دیکھا گھر کے باہر کچھ بھاری گاڑیوں کا شور ہے نکل کر دیکھا سڑک کی کھدائی ہو رہی تھی، پیچھے دوسری ٹیم اس میں پائپ بچھانے کا کام کر رہی ہے. اس کے پیچھے دوسری مشین اس کھدائی کو بند کر اس کی کارپٹنگ کررہی ہے۔ صبح کو دیکھا تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ راتوں رات اتنا بڑا کام ہوگیا کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلا، یہ ہوتا ہے عوام کی تکلیف کا احساس۔

کہنے کو وہاں پر بادشاہت ہے لیکن عوام کو ہماری طرح کی جمہوری حکومت میں ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ عدالتی نظام اتنا پیچیدہ و تکلیف دہ اور صبر آزما ہے کہ نسلیں بدل جاتی ہیں ، ججوں کے تبادلے یا ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے اور فیصلے نہیں ہو پاتے۔ موجودہ نظام میں وکلا کی مہربانی سے عوام کے لیے فیصلے کچھ خواص کے لیے فیصلے کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں، اگر عوام کو سہولت دینا چاہیں تو کوئی مشکل کام نہیں۔

قانونی طور پر ہر ہر عدالت کو پابند کردیا جائے کہ 15 دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں اس عدالت میں آنے والے ہر کیس کا فیصلہ کرنا لازمی ہو۔ اس کے بعد متاثرین کو اپیل کا حق اوپر کی عدالت میں جانے کا ہو ، وہاں بھی زیادہ سے زیادہ ایک ماہ۔ اس طرح موجودہ نظام میں لوئر کورٹ سے سیشن کورٹ پھر ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ یوں زیادہ سے زیادہ 4 ماہ میں مظلوم کو انصاف اور ظالم کو سزا مل جائے۔ یہ سارا عمل بالکل مفت ہو، جھوٹا کیس کرنے والے کے لیے سزا مقرر ہونی چاہیے۔ عدالتوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ابتدائی عدالت بلدیاتی کورٹ یا مساجد میں قاضی عدالت کا نظام متعارف کرایا جاسکتا ہے۔

پولیس پہلے اپنے علاقے کی بڑی مسجد میں قائم عدالت میں ملزم کو امام مسجد جس نے عالم دین اور مفتی کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہو اس کے سامنے پیش کرے.اور اس پر لگائے الزامات ثابت کرے۔ منصف ملزم کو صفائی کا موقع دے کر فیصلہ دے، یہ سب ثبوت اور گواہیاں 15 دن میں مکمل ہوجائیں۔ آدھے سے زیادہ کیس تو مسجد اور حلفیہ بیان پر یہیں پر ختم ہو جائیں گے، اگر کوئی سمجھے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تو اوپر کی عدالت میں جاسکتا ہے۔
Load Next Story