ہماری بہادر عورتیں پہلا حصہ
برصغیر کو برطانوی استعمار سے آزادی دلانے کی جو تحریک چلی تھی اس میں عورتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا
دنیا کے ہر ملک کی عورتوں نے اپنے بنیادی انسانی، سیاسی، معاشی و سماجی حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ آج بھی وہ بہت سے حقوق سے محروم ہیں اورانھیں زندگی کے کئی شعبوں میں مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔
برصغیر کو برطانوی استعمار سے آزادی دلانے کی جو تحریک چلی تھی اس میں عورتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ آزادی کے بعد پاکستان میں بدقسمتی سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے عوام کا ہرحصہ اپنے حقوق سے محروم رہا اور آج بھی ہے۔ تاہم ، عورتیں دہرے عذاب کا شکار ہیں۔ انسانی و جمہوری حقوق سے محروم ہونے کے ساتھ انھیں معاشرے میں امتیازی رویے اور سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اس تناظر میں جو عورتیں آگے بڑھ کر عملی جدوجہد کرتی ہیں ، ان کی ہمت اور شعور کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ میں ماضی میں ان عورتوں کے بارے میں تواتر سے لکھتی رہی ہوں جنھوں نے آزادی سے قبل کے ہندوستان اور آزادی کے بعد وجود میں آنے والے پاکستان میں عورتوں کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بے مثال کردار ادا کیا۔ اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مخالفانہ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس کے تناظر میں یہ خیال ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ان عورتوں کی یاد تازہ کی جائے جنھوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے ایسی جدوجہد کی تھی جو آج ہمارے لیے ایک مثال اور مشعل راہ ہے۔
آج سے دو دن بعد 8 مارچ کو دنیا میں عورتوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ شروع میں اسے محنت کش عورتوں کے عالمی دن کا نام دیا گیا تھا جو سوشلسٹ ملکوں میں بہت دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ سوشلسٹ نظام کی رخصتی کے بعد اس دن کا رنگ بھی بدل گیا۔ امریکا میں 1909سے اس دن کا آغازہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1977 میں 8 مارچ کو اقوا م متحدہ کی طرف سے عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
ماضی میں جھانک کر دیکھیے تو اٹھارہویں صدی میں انقلاب فرانس کے موقع پر عورتوں نے اپنے بچوں کی بھوک سے مشتعل ہوکر ان ہنگاموں میںحصہ لیا جنھیں '' روٹی فسادات '' کا نام دیا گیا۔ انقلاب کے بارے میں ایسی پینٹنگز ملتی ہیں جن میں فاقہ زدہ عورتیں ہاتھوں میں لاٹھیاں، ڈنڈے اور پیڑوں کی شاخیں اٹھائے احتجاج کررہی ہیں اور ساتھ ہی ایک توپ کو بھی گھسیٹتی ہوئی شاہی محل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ان روٹی فسادات کو روٹی بغاوت کا نام بھی دیاگیا ، لیکن انقلاب فرانس کامیاب ہوا تو عورتیں اس کے ثمرات سے محروم رہیں۔
برصغیر میں تحریکِ حقوق نسواں کی بنیاد گزاروں میں ایک بڑا نام بیگم عطیہ فیضی کا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں مسلمان عورتوں کی تعلیم کے لیے اپنی سی بھرپورکوشش کی۔ 1890 میں پردہ ترک کیا اور عورتوں کے لیے مساوی حقوق اور مساوی مواقع کی آواز بلند کی ، وہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں لیکن ہمارے یہاں ثابت یہ کیا جاتا ہے کہ عطیہ فیضی ایک حسین اور محفل آراء خاتون تھیں۔
عطیہ 1877میں استنبول میں پیدا ہوئیں۔ باپ بہت مال دار تاجر اور سلطنت عثمانیہ اور یمن میں ہندوستان کے سفیر تھے۔ لڑکیوں کی لڑکوں کی طرح پرورش کی۔ ان کے خاندان کی لڑکیاں 1880 سے انگلستان میں تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ عطیہ فیضی کی نانی پڑھی لکھی خاتون تھیں ، ان کی والدہ امیر النساء بیگم نے ایک ناول '' نادربیان '' لکھا۔ عطیہ ہندوستان کی پہلی مسلمان لڑکی تھیں جسے سرکاری وظیفہ ملا کہ وہ لندن جاکر تعلیم حاصل کریں۔ 1906 کا یہی وہ سفر تھا جس کا روزنامچہ عطیہ فیضی نے پابندی سے لکھا جو لاہور سے چھپنے والے ماہنامے '' تہذیب نسواں '' میں باقاعدگی سے شایع ہوتا رہا۔
ہندوستان کی مسلم عورت کی آزادی عطیہ کو اس قدرعزیز تھی کہ 1926 کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں جب عورتوں کو شریک ہونے کی اجازت نہ ملی تو عطیہ اور ان کی بڑی بہن زہرہ اگلے برس بمبئی سے دلی گئیں اورکانفرنس کے پنڈال میں پہنچیں۔ جب انھیں روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسٹیج پر بے پردہ نمودار ہوئیں اور اپنی تقریر سے ہنگامہ برپا کردیا جس کے بعد عورتوں نے اس اجلاس میں پوری طرح شرکت کی۔
عطیہ ہندوستان کی عورت کے لیے جو خواب دیکھ رہی تھیں۔ ان ہی کو آنکھوں میں بسائے ہوئے وہ پاکستان اس لیے آئیں کہ مالبار ہلز پر رہنے والے ان کے پڑوسی محمد علی جناح کا اصرار تھا کہ انھیں پاکستان آکر مسلمان عورت کی ترقی کے لیے اور فنون لطیفہ کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان آنے کے فیصلے کی جتنی بھاری قیمت عطیہ ، ان کے شوہر اور ان کی بہن ہرہائی نس نازلی جنجیرہ نے ادا کی ، وہ ان کے تصور میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ وہ پاکستان پہنچیں تو 70 برس کی ہوچکی تھیں لیکن ذہنی اورجسمانی طور پر توانا اور مستعد تھیں۔
انھیں کراچی میں ایک گھر دیا گیا جسے انھوں نے علمی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا۔ لیکن یہ سلسلہ آخرکار ختم ہوا۔ انھیں ، ان کے شوہر راحمین اور بہن ہرہائی نس جنجیرہ کو ان کے گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ وہ اس پر ناجائز طورسے قابض ہیں۔ یہ لوگ پہلے ایک اچھے ہوٹل میںمنتقل ہوئے۔ فرنیچر بکا ، زیور اور لباس فروخت ہونے لگے۔ غربت نے ان امیروں پر اپنے پَر پھیلائے۔ بیماریوں نے گھر دیکھ لیا۔
پہلے 1964میں ان کے شوہر اور اپنے وقت کے مشہور مصورفیضی راحمین رخصت ہوئے۔ اس کے بعد یہ نوبت آئی کہ مولانا ماہر القادری نے اپنے رسالے ''فاران'' میں لکھا کہ ''میں نے عطیہ بیگم کو بمبئی کے ایک پرانے دوست سے پچاس روپے مانگتے دیکھا تو ان آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ صاحب انھیں خاموشی سے سو روپے نذر کرکے اٹھ گئے۔''
وہ ہاتھ جس نے20 کی دہائی میں علامہ شبلی نعمانی کو ''سیرت النبیؐ'' کی اشاعت کے لیے ہزاروں روپے دلوائے تھے ، وہ ہاتھ 60 کی دہائی میں پچاس روپے کے لیے کس طرح دراز ہوا ہوگا۔ زندگی آخری دن انھیں ایک ایسے ہوٹل میں گزارنے پڑے جہاں بعض لوگوں کے مطابق کال گرلز کا آنا جانا رہتا تھا۔ 90 برس کی عطیہ نے 1967 کے کراچی میں آنکھیں موند لیں۔
اس وقت مجھے ریاست بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کی خودنوشت یاد آئی۔ بھوپال برٹش راج کی ایک نہایت اہم ریاست تھی۔ وہاں جو قوانین لاگو تھے ان کے مطابق شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کی صورت میں اولاد باپ کے پاس رہتی تھی۔ ان کی پرورش کسی لڑکی کے بجائے لڑکوں کی طرح ہوئی تھی۔ وہ گھڑ سواری کرتیں، اسکواش کھیلتیں ، 100 میل سے اوپر کی رفتار سے گاڑیاں دوڑاتیں اور ہر وہ کام کرتیں جن کے بارے میں اس زمانے کی اور ان کے خاندان کی لڑکیاں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
ان کی شادی اپنے رشتے کے ایک بھائی سے ہوئی جو عمر میں ان سے بڑے تھے اور اسی لیے وہ شادی کے بعد بھی انھیں، دادا بھائی کہتی رہیں۔ شادی سے پہلے ان کے دادا بھائی سے اچھے تعلقات تھے لیکن دادا بھائی جب ان کے شوہر بنے تو انھیں اندازہ ہوا کہ وہ کسی پنجرے میں بند کردی گئی ہیں۔ چند مہینوں کے اندر ہی میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوئے اور اس حد کو پہنچے کہ وہ اپنے شوہر کی ریاست چھوڑ کر اپنے والد نواب صاحب بھوپال کے پاس چلی آئیں اور وہیں وہ ایک بیٹے کی ماں بنیں۔
انھیں معلوم تھا کہ قانون ان کے ساتھ نہیں اور ان کے شوہر جب چاہیں گے ان کا بیٹا اُن سے چھین لیں گے۔ آخر کار انھوں نے جان پر کھیل جانے کا فیصلہ کیا۔ آدھی رات کو گاڑی تن تنہا چلاتی ہوئی وہ 100 میل دور اپنے شوہر کی ریاست پہنچیں۔ وہاں محل میں پہنچ کر وہ سیدھی اپنے شوہر کی خوابگاہ میں گئیں۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے تو شہزادی عابدہ سلطان نے کہا '' میں یہاں اکیلی آئی ہوں تاکہ تم پر ایک دفعہ، ہمیشہ کے لیے واضح کردوں کہ میں اپنے بیٹے سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی۔ میں مرنے کو اس پر ترجیح دوں گی۔ اس لیے تمہیں ایک بہترین موقع دیتی ہوں کہ تم مجھے قتل کردو اور کہہ دو کہ یہ سب کچھ خود میری وجہ سے ہوا۔''
شہزادی عابدہ سلطان نے لکھا ہے کہ اس وقت میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے اپنا ریوالور نکال کر دادا بھائی کی گود میں پھینک دیا اور بولی '' ہتھیار میرا ہے اور بھرا ہوا ہے اسے استعمال کرو اور مجھے قتل کرو، نہیں تو میں تمہیں قتل کردوں گی۔'' آخر کار جان کے خوف سے ان کے شوہر اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوئے۔ (جاری ہے)
برصغیر کو برطانوی استعمار سے آزادی دلانے کی جو تحریک چلی تھی اس میں عورتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ آزادی کے بعد پاکستان میں بدقسمتی سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے عوام کا ہرحصہ اپنے حقوق سے محروم رہا اور آج بھی ہے۔ تاہم ، عورتیں دہرے عذاب کا شکار ہیں۔ انسانی و جمہوری حقوق سے محروم ہونے کے ساتھ انھیں معاشرے میں امتیازی رویے اور سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اس تناظر میں جو عورتیں آگے بڑھ کر عملی جدوجہد کرتی ہیں ، ان کی ہمت اور شعور کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ میں ماضی میں ان عورتوں کے بارے میں تواتر سے لکھتی رہی ہوں جنھوں نے آزادی سے قبل کے ہندوستان اور آزادی کے بعد وجود میں آنے والے پاکستان میں عورتوں کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بے مثال کردار ادا کیا۔ اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مخالفانہ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس کے تناظر میں یہ خیال ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ان عورتوں کی یاد تازہ کی جائے جنھوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے ایسی جدوجہد کی تھی جو آج ہمارے لیے ایک مثال اور مشعل راہ ہے۔
آج سے دو دن بعد 8 مارچ کو دنیا میں عورتوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ شروع میں اسے محنت کش عورتوں کے عالمی دن کا نام دیا گیا تھا جو سوشلسٹ ملکوں میں بہت دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ سوشلسٹ نظام کی رخصتی کے بعد اس دن کا رنگ بھی بدل گیا۔ امریکا میں 1909سے اس دن کا آغازہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1977 میں 8 مارچ کو اقوا م متحدہ کی طرف سے عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
ماضی میں جھانک کر دیکھیے تو اٹھارہویں صدی میں انقلاب فرانس کے موقع پر عورتوں نے اپنے بچوں کی بھوک سے مشتعل ہوکر ان ہنگاموں میںحصہ لیا جنھیں '' روٹی فسادات '' کا نام دیا گیا۔ انقلاب کے بارے میں ایسی پینٹنگز ملتی ہیں جن میں فاقہ زدہ عورتیں ہاتھوں میں لاٹھیاں، ڈنڈے اور پیڑوں کی شاخیں اٹھائے احتجاج کررہی ہیں اور ساتھ ہی ایک توپ کو بھی گھسیٹتی ہوئی شاہی محل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ان روٹی فسادات کو روٹی بغاوت کا نام بھی دیاگیا ، لیکن انقلاب فرانس کامیاب ہوا تو عورتیں اس کے ثمرات سے محروم رہیں۔
برصغیر میں تحریکِ حقوق نسواں کی بنیاد گزاروں میں ایک بڑا نام بیگم عطیہ فیضی کا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں مسلمان عورتوں کی تعلیم کے لیے اپنی سی بھرپورکوشش کی۔ 1890 میں پردہ ترک کیا اور عورتوں کے لیے مساوی حقوق اور مساوی مواقع کی آواز بلند کی ، وہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں لیکن ہمارے یہاں ثابت یہ کیا جاتا ہے کہ عطیہ فیضی ایک حسین اور محفل آراء خاتون تھیں۔
عطیہ 1877میں استنبول میں پیدا ہوئیں۔ باپ بہت مال دار تاجر اور سلطنت عثمانیہ اور یمن میں ہندوستان کے سفیر تھے۔ لڑکیوں کی لڑکوں کی طرح پرورش کی۔ ان کے خاندان کی لڑکیاں 1880 سے انگلستان میں تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ عطیہ فیضی کی نانی پڑھی لکھی خاتون تھیں ، ان کی والدہ امیر النساء بیگم نے ایک ناول '' نادربیان '' لکھا۔ عطیہ ہندوستان کی پہلی مسلمان لڑکی تھیں جسے سرکاری وظیفہ ملا کہ وہ لندن جاکر تعلیم حاصل کریں۔ 1906 کا یہی وہ سفر تھا جس کا روزنامچہ عطیہ فیضی نے پابندی سے لکھا جو لاہور سے چھپنے والے ماہنامے '' تہذیب نسواں '' میں باقاعدگی سے شایع ہوتا رہا۔
ہندوستان کی مسلم عورت کی آزادی عطیہ کو اس قدرعزیز تھی کہ 1926 کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں جب عورتوں کو شریک ہونے کی اجازت نہ ملی تو عطیہ اور ان کی بڑی بہن زہرہ اگلے برس بمبئی سے دلی گئیں اورکانفرنس کے پنڈال میں پہنچیں۔ جب انھیں روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسٹیج پر بے پردہ نمودار ہوئیں اور اپنی تقریر سے ہنگامہ برپا کردیا جس کے بعد عورتوں نے اس اجلاس میں پوری طرح شرکت کی۔
عطیہ ہندوستان کی عورت کے لیے جو خواب دیکھ رہی تھیں۔ ان ہی کو آنکھوں میں بسائے ہوئے وہ پاکستان اس لیے آئیں کہ مالبار ہلز پر رہنے والے ان کے پڑوسی محمد علی جناح کا اصرار تھا کہ انھیں پاکستان آکر مسلمان عورت کی ترقی کے لیے اور فنون لطیفہ کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان آنے کے فیصلے کی جتنی بھاری قیمت عطیہ ، ان کے شوہر اور ان کی بہن ہرہائی نس نازلی جنجیرہ نے ادا کی ، وہ ان کے تصور میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ وہ پاکستان پہنچیں تو 70 برس کی ہوچکی تھیں لیکن ذہنی اورجسمانی طور پر توانا اور مستعد تھیں۔
انھیں کراچی میں ایک گھر دیا گیا جسے انھوں نے علمی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا۔ لیکن یہ سلسلہ آخرکار ختم ہوا۔ انھیں ، ان کے شوہر راحمین اور بہن ہرہائی نس جنجیرہ کو ان کے گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ وہ اس پر ناجائز طورسے قابض ہیں۔ یہ لوگ پہلے ایک اچھے ہوٹل میںمنتقل ہوئے۔ فرنیچر بکا ، زیور اور لباس فروخت ہونے لگے۔ غربت نے ان امیروں پر اپنے پَر پھیلائے۔ بیماریوں نے گھر دیکھ لیا۔
پہلے 1964میں ان کے شوہر اور اپنے وقت کے مشہور مصورفیضی راحمین رخصت ہوئے۔ اس کے بعد یہ نوبت آئی کہ مولانا ماہر القادری نے اپنے رسالے ''فاران'' میں لکھا کہ ''میں نے عطیہ بیگم کو بمبئی کے ایک پرانے دوست سے پچاس روپے مانگتے دیکھا تو ان آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ صاحب انھیں خاموشی سے سو روپے نذر کرکے اٹھ گئے۔''
وہ ہاتھ جس نے20 کی دہائی میں علامہ شبلی نعمانی کو ''سیرت النبیؐ'' کی اشاعت کے لیے ہزاروں روپے دلوائے تھے ، وہ ہاتھ 60 کی دہائی میں پچاس روپے کے لیے کس طرح دراز ہوا ہوگا۔ زندگی آخری دن انھیں ایک ایسے ہوٹل میں گزارنے پڑے جہاں بعض لوگوں کے مطابق کال گرلز کا آنا جانا رہتا تھا۔ 90 برس کی عطیہ نے 1967 کے کراچی میں آنکھیں موند لیں۔
اس وقت مجھے ریاست بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کی خودنوشت یاد آئی۔ بھوپال برٹش راج کی ایک نہایت اہم ریاست تھی۔ وہاں جو قوانین لاگو تھے ان کے مطابق شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کی صورت میں اولاد باپ کے پاس رہتی تھی۔ ان کی پرورش کسی لڑکی کے بجائے لڑکوں کی طرح ہوئی تھی۔ وہ گھڑ سواری کرتیں، اسکواش کھیلتیں ، 100 میل سے اوپر کی رفتار سے گاڑیاں دوڑاتیں اور ہر وہ کام کرتیں جن کے بارے میں اس زمانے کی اور ان کے خاندان کی لڑکیاں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
ان کی شادی اپنے رشتے کے ایک بھائی سے ہوئی جو عمر میں ان سے بڑے تھے اور اسی لیے وہ شادی کے بعد بھی انھیں، دادا بھائی کہتی رہیں۔ شادی سے پہلے ان کے دادا بھائی سے اچھے تعلقات تھے لیکن دادا بھائی جب ان کے شوہر بنے تو انھیں اندازہ ہوا کہ وہ کسی پنجرے میں بند کردی گئی ہیں۔ چند مہینوں کے اندر ہی میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوئے اور اس حد کو پہنچے کہ وہ اپنے شوہر کی ریاست چھوڑ کر اپنے والد نواب صاحب بھوپال کے پاس چلی آئیں اور وہیں وہ ایک بیٹے کی ماں بنیں۔
انھیں معلوم تھا کہ قانون ان کے ساتھ نہیں اور ان کے شوہر جب چاہیں گے ان کا بیٹا اُن سے چھین لیں گے۔ آخر کار انھوں نے جان پر کھیل جانے کا فیصلہ کیا۔ آدھی رات کو گاڑی تن تنہا چلاتی ہوئی وہ 100 میل دور اپنے شوہر کی ریاست پہنچیں۔ وہاں محل میں پہنچ کر وہ سیدھی اپنے شوہر کی خوابگاہ میں گئیں۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے تو شہزادی عابدہ سلطان نے کہا '' میں یہاں اکیلی آئی ہوں تاکہ تم پر ایک دفعہ، ہمیشہ کے لیے واضح کردوں کہ میں اپنے بیٹے سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی۔ میں مرنے کو اس پر ترجیح دوں گی۔ اس لیے تمہیں ایک بہترین موقع دیتی ہوں کہ تم مجھے قتل کردو اور کہہ دو کہ یہ سب کچھ خود میری وجہ سے ہوا۔''
شہزادی عابدہ سلطان نے لکھا ہے کہ اس وقت میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے اپنا ریوالور نکال کر دادا بھائی کی گود میں پھینک دیا اور بولی '' ہتھیار میرا ہے اور بھرا ہوا ہے اسے استعمال کرو اور مجھے قتل کرو، نہیں تو میں تمہیں قتل کردوں گی۔'' آخر کار جان کے خوف سے ان کے شوہر اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوئے۔ (جاری ہے)