لاپتا افراد کی بازیابی شروع کی تو گورنر عشرت العباد نے روک دیا جسٹس ر حاذق الخیری

جسٹس افتخار چوہدری کی تحریک سے عدلیہ کو بہت نقصان ہوا، سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت

آصف زرداری کی رہائی روکنے کے لیے اسحق خان نے راتوں رات آرڈیننس جاری کیا،

SARGODHA:
وکالت ایس ایم لا کالج میں درس وتدریس جج 'سندھ ہائی کورٹ' صوبائی محتسب سندھ رکن 'اسلامی نظریاتی کونسل' اور پھر 'چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت، یہ چھے عدد تو خالصتاً جسٹس (ر) حاذق الخیری کی زندگی کے اہم حوالے ہیں اس کے باوجود بھی زیادتی ہوگی کہ اگر ان کے علمی وادبی خانوادے کا تذکرہ نہ کیا جائے، اور یہ نہ دُہرایا جائے کہ وہ اردو ادب میں 'مصورِ غم' کے نام سے شہرت پانے والے 90 تصانیف کے مصنف علامہ راشد الخیری (1868 تا 1936) کے ہونہار پوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "دادا کی وفات کے وقت چار سال کا تھا، لیکن مجھے وہ یاد ہیں"۔

یقیناً ہماری صحافتی زندگی میں یہ ایک بڑا اعزاز تھا کہ ہم برصغیر کی اہم شخصیت علامہ راشد الخیری کے گھرانے میں پہنچے تھے اور طے شدہ وقت کے لیے جسٹس (ر) حاذق الخیری کے مہمان خانے میں اُن کے روبرو تھے

انھوں نے بتایا کہ وہ برصغیر کے بٹوارے کے ہنگام میں اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، ہم نے اُن سے دلّی کے پاکستان میں شامل ہونے کے تاثر کی بابت دریافت کرتے ہوئے پوچھا کہ کون سے علاقے پاکستان میں شامل ہونے کا خیال تھا؟ تو انھوں نے بتایا کہ دلّی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان تو وہاں بننا تھا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ پنجاب میں اگرچہ 'یونینسٹ پارٹی' کی حکومت تھی، لیکن مسلمان اکثریت میں تھے، بس انھی علاقوں میں پاکستان کو بننا تھا۔ اگر دلّی پاکستان میں شامل ہوتا، تو ہم یہاں کیوں آتے؟'

"کیا یہ تصور تھا کہ وہاں سے ہجرت کرنی پڑے گی یا پھر یہ خیال تھا کہ وہیں رہیں گے؟" ہم نے بٹوارے سے قبل کے حالات پر مزید استفسار کیا، تو انھوں نے بتایا کہ 'یہ تصور نہیں تھا بلکہ یہ خیال تھا کہ سب پر امن طریقے سے رہیں گے، یہ تو کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ ایسے فسادات اور ہجرت ہوگی۔ توقع تھی کہ بہ آسانی نقل مکانی ہو جائے گی اور پھر آمدورفت بھی رہے گی۔ کشیدگی کا خدشہ تھا، لیکن ایسے فساد کا سوچا بھی نہ تھا کہ کسی مسلمان اور ہندو تک کو نہ بخشا جائے گا۔ اس سے پہلے نوا کھلی، کلکتہ اور بہار میں بڑے فساد ہوئے تھے۔ انگریزوں نے اپنے آپ کو بالکل الگ کر لیا تھا کہ انھیں لڑنے مرنے دو۔ اگر وہ چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے۔'

"سات اگست 1947ءکو دلّی سے کراچی روانہ ہوتے ہوئے قائداعظم نے وہاں کے مسلمانوں کو ہندوستان کا وفادار رہنے کے لیے کہا؟"

ہم نے تاریخ کے پَنوں سے ایک اہم 'سوالیہ نشان' اُن کے گوش گزار کیا، تو حاذق الخیری کا کہنا تھا کہ "ظاہر ہے سات کروڑ پاکستان کی آبادی تھی، چار کروڑ مسلمان ہندوستان میں تھے، وہ تو نہیں آسکتے تھے، انھیں وہاں رہنا ہی تھا، اس لیے حکومت ہند سے وفاداری لازمی تھی۔"

ہم نے پوچھا کہ پاکستان کی اکثر تحریک تو انھی علاقوں میں چلی، جو پاکستان میں شامل ہی نہیں ہوئے؟ جس پر انھوں نے ہماری تائید کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ پاکستان کی تحریک ان علاقوں میں رہی ہے، جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے۔ تاہم یہ بنگال میں بہت زور شور سے چلی، بنگال اگر اس تحریک میں شریک نہیں ہوتا، تو شاید پاکستان نہ بنتا۔ بنگال کا وزیراعلیٰ مسلسل مسلمان ہی بنتا تھا، چاہے مولوی فضل الحق ہوں، خواجہ ناظم الدین یا حسین شہید سہروردی۔ دوسرا صوبہ سندھ تھا، جس نے 1937-38ءمیں پاکستان کے حق میں بات کی۔ 1945ءکے انتخابات میں پنجاب 'آل انڈیا مسلم لیگ' کی حمایت میں آیا اور پھر وہاں مسلم لیگی حکومت بنی۔"

وہ 'یونینسٹ پارٹی شامل ہوگئی؟' ہم نے ایک ٹکڑا لگایا، تو انھوں نے کہا:

"ظاہر ہے، جواہر لال نہرو کا پروگرام سوشلسٹ انڈیا کا تھا، وہاں جاگیر داری اور زمیں داری وغیرہ نہیں ہوتی، پنجاب میں بڑے بڑے وڈیرے اور جاگیر دار تھے، وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایک ہندوستان رہا، تو ہمارا نظام ہی ختم ہو جائے گا، اس لیے ان کے مفاد میں یہی تھا کہ مسلم لیگ کی حمایت کرو، پھر یہ بھی تھا کہ 'رجحان' بدل چکا تھا، یوپی اور دوسرے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، حالاں کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ ہندوستان کے شہری رہیں گے!"

حاذق الخیری بتاتے ہیں کہ دلی سے جو مہاجرین کراچی آئے تھے، ان کے لیے جیکب لائن میں الگ سے ایک اسکول تھا، انھوں نے وہاں سے ہائر سیکینڈری کیا، پھر ایس ایم کالج، ایس ایم لا کالج، کے بعد اُس وقت 'بوہرہ پیر' میں واقع 'جامعہ کراچی' سے سیاسیات میں ایم اے کیا، اور ساتھ ساتھ قانون کی تعلیم حاصل کی۔

ہم نے پوچھا کہ 'قانون' کی طرف کیوں کر راغب ہوئے؟ تو انھوں نے کہا کہ قائداعظم کی وجہ سے، کیوں کہ وہ ان کے بڑے مداح ہیں۔ جنھوں نے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی یا مسلمانوں کا ملک کہیے بنایا، آج جس کی آبادی 40 کروڑ ہوتی افسوس یہ دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔'

'تحریک پاکستان میں سب سے زیادہ حصہ لیا اور اکثریت میں ہونے کے باوجود وہ الگ ہوگئے؟' ہم نے گفتگو میں اپنا سوالیہ فقرہ جوڑا تو وہ گویا ہوئے "اس ملک کی بدقسمتی رہی کہ 54 فی صد ہونے کے باوجود 1956ءکے دستور میں بنگالیوں نے مغربی پاکستان کے برابر برابر کی نمائندگی کو قبول کیا، اس سے زیادہ بڑی قربانی کیا ہو سکتی تھی۔ 1958ءمیں انتخابات ہونے والے تھے، ملک میں کوئی ایسے غیر معمولی حالات نہ تھے کہ مارشل لا لگایا جاتا اور ملک کے دستور کو ختم کیا جاتا۔ اسکندر مرزا نے اپنی سازشوں سے اس آئین کو ختم کیا، مارشل لا آیا، وہ ملک کی بدقسمتی تھی!"

"ان (اسکندر مرزا) کے ساتھ اور بھی تو تھے؟" ہم نے مکالمے کو مزید آگے بڑھایا، تو انھوں نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ "ظاہر ہے، وہ اکیلے نہیں تھے، اور بھی لوگ تھے ان کے ساتھ مارشل لا آیا، کراچی دارالحکومت ختم کیا گیا، یہ سب بالا ہی بالا ہو رہا تھا، عوام کی مرضی نہیں تھی! دارالحکومت کی تبدیلی کی بنگال اجازت دے دیتا؟ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں سے پھر سارا سلسلہ شروع ہوا" انھوں نے کچھ توقف کیا، پھر کہنے لگے "چلیے میں سیاسی آدمی نہیں ہوں اور آپ بات کریں"

انھوں نے جلدی سے اپنی بات سمیٹی اور دوبارہ ہماری جانب متوجہ ہوئے، تو ہم نے وکالت کی شروعات کے استفسار سے اپنے سوالات دوبارہ جوڑے
انھوں نے بتایا کہ 1958ءسے وکالت شروع کی، پھر 1961ءسے ایس ایم لا کالج میں پڑھانے بھی لگا، 1981ءتا 1988ءوہاں کا پرنسپل رہا، پھر 1988ءتا 1993ءہائی کورٹ کا جج رہا۔ 1999ءسے چار سال 'محتسب سندھ' رہا۔ پھر دو سال 'اسلامی نظریاتی کونسل' کا رکن رہا، جہاں ڈاکٹر منظور احمد اور جاوید احمد غامدی جیسی شخصیات کا ساتھ رہا۔ پھر 'وفاقی شرعی عدالت' کا چیف جسٹس (2006ءتا 2009ئ) رہا۔

ہم نے بطور جج سندھ ہائی کورٹ، تجربات دریافت کیے، تو انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ چیف جسٹس کے حکم پر حیدر آباد جیل کا معائنہ کرنے گیا۔ غالباً 1992ءکی بات ہے۔ غوث محمد صاحب رجسٹرار وغیرہ تھے، بعد میں جج ہوگئے تھے، مجھے سندھی نہیں آتی تھی، میں نے ان سے کہا کہ آپ وہاں بتاتے دیجیے کہ ہائی کورٹ کے جج آئے ہیں، جو بھی شکایات ہوں وہ بتا دیں۔ میرے ساتھ عملے کے لوگ تھے، میں نے ان سے کہا کہ آپ ادھر باہر ہی بیٹھیے، وہ بولے کہ آپ پر کوئی حملہ نہ کر دے، میں نے کہا، نہیں، بس دو تین آدمی ساتھ ہیں، کافی ہے۔ تو وہاں کوئی 70 سال کا ایک بوڑھا میرے پیروں میں گر کر رونے لگا، پتا چلا کہ وہ سندھی میں کہہ رہا تھا کہ ہمیں سات سال پہلے عدالت میں پیش کیا گیا، اس کے بعد سے آج تک پیش نہیں ہوا۔ میں نے سپریٹنڈنٹ کو بلایا۔ اسی وقت انکوائری کی، تو 700 سے زائد ایسے قیدیوں کی فہرست تیار ہوگئی، جنھیں صرف ایک بار عدالت لے کر گئے اور گذشتہ پانچ سال اور اس سے زائد عرصے سے پیش ہی نہیں کیا۔ میں نے یہ فہرست چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کو پیش کر دی۔"

ہائی کورٹ کے زمانے کا ایک اور اہم واقعہ ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ "اُس زمانے میں آصف زرداری کی رہائی کی درخواست جسٹس مامون قاضی اور میری عدالت میں آئی کہ دو سال تک جب کسی کیس میں فیصلہ نہ ہو تو ملزم ضمانت کا حق دار ہوتا ہے۔ دوسری طرف غلام اسحق خان نے راتوں رات ایک آرڈیننس جاری کر دیا اور اس شق کو جس کے تحت یہ ضمانت مانگی گئی تھی، اسے ہی صفحہ ¿ ہستی سے مٹا دیا، تاکہ آصف زرداری رہا نہ ہوں، لیکن ہم نے یہ کہا کہ یہ آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے، انھیں ضمانت دی جائے۔ ہم نے تو حکم دے دیا، پھر وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ گئے، وہاں انھوں نے 'حکم امتناع ' لے لیا۔"

وہ صدر مملکت کے خلاف فیصلہ دینے پر کسی بھی قسم کے دباﺅ کی نفی کرتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ 'وفاقی شرعی عدالت' کچھ 'اضافی' سی نہیں لگتی، کہ جب سپریم کورٹ موجود ہے، اور آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا؟'

جس پر سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس (ر) حاذق الخیری نے کہا کہ 'اسلامی نظریاتی کونسل' کے تحت اس کا کام آئین کے مطابق تجویز دینا ہے کہ کوئی قانون، اسلام کے مطابق ہے یا نہیں ہے۔ حکومت کرے نہ کرے یہ اس کا کام ہے۔ یہ مشاورتی مجلس ہے، جب کہ 'وفاقی شرعی عدالت' کا فیصلہ ہوتا ہے، مشورہ نہیں ہوتا۔ جسے پھر سپریم کورٹ بھی مانتی ہے۔ صرف سپریم کورٹ کی شریعت بنچ ہے، وہ اس کو 'سیٹسفائیڈ' کر سکتے ہیں۔ اسی لیے کوئی بھی معاملہ جو متنازع بن جائے، وہ پھر 'وفاقی شرعی عدالت' میں پیش کیا جاتا ہے، جیسے ایک بڑا کیس، جو میں نے ڈیل کیا، وہ 'اعضا کی پیوند کاری' کا تھا۔

جب ایک آرڈیننس کے تحت انسانی اعضا کی خریدو فروخت جرم قرار پائی، تو سوسائٹی آف سرجنز (اسلام آباد) نے اس کو چیلنج کر دیا، کہ یہ آرڈیننس اسلام کے منافی ہے، کیوں کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔ اس کی سماعت، کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں ہوئی۔ اُس وقت فائز عیسیٰ اِس آرڈیننس کی موافقت میں پیش ہوئے کہ ڈاکٹر اور ان کے ایجنٹ غریبوں کے اعضا نکال کر آگے فروخت کرتے ہیں، غریب افراد اپنی بچیوں کی شادی، اور قرضوں کی ادائی کے لیے اپنے اعضا بیچتے ہیں۔ بہت سے ویسے بھی نکال لیے جاتے تھے، 15 سے 20 لا کھ میں فروخت ہوتا ہے۔

ہم نے کہا جان بچائی ٹھیک ہے، لیکن اس پر منافع خوری غلط ہے! اعضا دینے ہیں، رضاکارانہ طور پر عطیہ دیجیےِ۔ کسی انسان کا ایک گردہ نکلنے کے بعد طبی طور پر وہ اتنا فعال نہیں ہوتا، اس کی نگہ داشت ہوتی ہے، ورنہ اس کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ بہت طویل فیصلہ تھا، جس میں ہم نے آرڈیننس کو درست قرار دیا تھا۔

اسی طرح قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف رکھنے کے حوالے سے ایک درخواست آئی، میں نے کہا جب اللہ پر قسم کھالی، تو اس سے بڑی قسم اور کیا ہو سکتی ہے۔ تم عیسائیوں اور ہندوﺅں کی طرح چاہتے ہو کہ کتاب پر ہاتھ رکھ کر کریں،، ہم تو اللہ پر قسم اٹھا رہے ہیں۔"

ملکی تاریخ میں کسی بھی جج کی پہلی گرفتاری کے حوالے سے اپنے دورِ وکالت کا ایک واقعہ مذکور کرتے ہوئے جسٹس (ر) حاذق الخیری کہتے ہیں کہ "1973ءمیں ڈسٹرکٹ جج سانگھڑ ایس ایم اویس کو گرفتار کر لیا گیا، میں اس زمانے میں ہائی کورٹ بار کا سیکریٹری تھا، ایک تہلکہ مچ گیا کہ 'سِٹنگ جج' کو گرفتار کرلیا، یہ اپنی نوعیت کا سب سے پہلا واقعہ تھا۔ میں نے ہائی کورٹ اور 'کراچی بار' کی مشترکہ میٹنگ بلا کر اس کی مذمت کی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے بلا کر کہا کہ یہ کیسے کر سکتے ہیں۔

ہم نے کہا ہم بار کے لوگ خود مختار ہیں۔ آپ اپنا کام کریں ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ وہ کہنے لگے مجھ سے پوچھتے تو، میں نے کہا کہ میں آپ سے کیوں پوچھتا؟ یہ ہائی کورٹ بار کا معاملہ ہے، ہم نے وہ کیا جو 'بار' کو کرنا چاہیے۔ آپ نے کچھ نہیں کیا، لیکن ہم تو کریں گے۔ مجھے حیرت ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کی اتنی بڑی تحریک چلائی گئی، مگر ایس ایم اویس کی گرفتاری کا کہیں کسی نے بھی کوئی ذکر تک نہیں کیا۔"
ہماری گفتگو میں پرویز مشرف کے زمانے کا تذکرہ آیا کہ چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اور دیگر نے تو 'عبوری آئین' پر حلف لینے کے بہ جائے استعفا دیا تو؟


تو میں نے حلف کیوں لیا؟ انھوں نے جلدی سے ہمارا سوال مکمل کیا، پھر کہنے لگے کہ "ہمارا وفاقی شرعی عدالت کا حلف تو آئین پر نہیں تھا۔ میں تو استعفا دینے جا رہا تھا، ججوں کی میٹنگ ہوئی، جسٹس فدا نے کہا کہ ہم نے تو دستور کے بہ جائے قرآن سنت پر فیصلے کرنے کا حلف اٹھایا ہے، اس لیے پھر میں مستعفی نہیں ہوا۔"

وہ کہتے ہیں کہ "جسٹس افتخار چوہدری کی تحریک سے عدلیہ کا بڑا نقصان ہوا، پانچ سینئر ترین جج چلے گئے اور نیچے کے جج اوپر آگئے، خود افتخار چوہدری کے بیٹے نے کروڑوں روپے بنائے، لیکن وہ کہتے کہ مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا کیا کر رہا ہے۔'

ہم نے آج کے عدالتی نظام کی خرابی دریافت کرنی چاہی، تو انھوں نے کہا میں اس پر کوئی بات نہیں کرنا کروں گا۔ ہم نے پوچھا کیا یہ نظام پہلے سے بہتر ہوا؟ تو کہنے لگے کہ بس ویسے ہی چل رہا ہے، بہرحال اُس وقت پانچ ججوں کے استعفے سے بہت نقصان ہوا۔

مختلف کلیدی عہدوں پر فائز رہنے والے جسٹس (ر) حاذق الخیری بطور 'صوبائی محتسب' اپنے کام کو زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج تو محتسب، محتسب نہیں، بلکہ حکومت کا ایک ڈیپارٹمنٹ ہے! میں نے بطور محتسب ٹاﺅن پلاننگ، روڈ ایکسیڈنٹ، کوڑا کرکٹ، حیدرآباد میں آلودہ پانی کے علاوہ شہر میں قبرستان وغیرہ جیسے اہم مسائل پر سیمینار کرائے۔ اس کے علاوہ پانچ چھے سال تک کراچی کی پرانی سبزی منڈی کا کیس چل رہا تھا، حکومت نے نئی سبزی منڈی کی جگہ لے رکھی تھی، لیکن لوگ جانے کو تیار نہ تھے۔

سپریم کورٹ نے یہ معاملہ ہمیں دیا۔ وہاں لسانی اور فرقہ وارانہ گروہوں سے لے کر منشیات اور عصمت فروشی تک کے مافیا متحرک تھے، میں نے چار ماہ تک روزانہ سنا، اور پھر فیصلہ دیا۔ ایک سال کے اندر سبزی منڈی منتقل کر دی گئی۔ اسی طرح نجی اسکولوں کی فیس کا معاملہ حل کرنے کے لیے کئی سو نجی اسکولوں کو رجسٹریشن کا حکم دیا، لیکن گورنر سندھ محمد میاں سومرو نیا قانون لے آئے، جس کے تحت نجی اسکول ایک سال میں دوسری بار فیس نہیں بڑھا سکتے تھے، جب کہ پچھلے قانون میں فیس کا تعین حکومت کرتی تھی۔"

صوبائی محتسب میں سیاسی مداخلت کا ایک اور واقعہ انھوں نے یوں سنایا: "لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے میں نے اپنے ساتھ کے 20، 25 پولیس اہل کار لے کر چھاپے مارے اور 15،20 افراد بازیاب بھی کرائے۔ یہ سیاسی اور غیر سیاسی دونوں ہوتے تھے، جنھیں پولیس بند کر کے رکھتی اور کہتی تھی کہ ہمارے پاس نہیں، لیکن پھر 'آئی جی' کی اپیل پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشر ت العباد نے یہ سارا کام رکوا دیا!"

حاذق الخیری نے 'این ای ڈی' یونیورسٹی میں ایک طالب علم کے فیل ہونے کے مسئلہ بھی مذکور کیا، جسے مبینہ طور پر ٹیچر نے کہا تھا کہ جب تک میں ہوں، پاس نہیں کروں گا۔ بطور 'صوبائی محتسب' رجسٹرار سے بات کی، تو دیگر پرچوں کی کارکردگی پر اسے کام یاب قرار دیا، لیکن جب شیخ الجامعہ ڈاکٹر ابوالکلام لوٹے، تو انھوں نے یہ رکوا دیا۔ انھوں نے ڈاکٹر ابوالکلام سے گزارش کی کہ ذرا کسی اور سے اس کا پرچا دلوائیے، اگر پاس ہوتا ہے، تو کر دیجیے اور دوسرے ممتحن کے لیے گئے پرچے میں وہ لڑکا پاس ہوگیا۔

ہم نے جسٹس حاذق الخیری کے دولت کدے پر سجی ہوئی اس قیمتی بیٹھک کو غنیمت جان کر 1947 ءتاحال کی ایک جمع تفریق دریافت کرنی چاہی، تو وہ کہنے لگے پاکستان ہمارے لیے نعمت ہے، یہاں کے لوگ بے مثال ہیں، 1947 ءمیں جو کچھ ہوا اور اس ملک کو لیاقت علی اور ان کی ٹیم نے جس طرح قائم ودائم رکھا، اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ قریب قریب ایک کروڑ آدمی ہجرت کر کے آئے، انھیں بسانا آسان کام نہیں تھا، آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس وقت کیا حالات رہے ہوں گے۔ میرے والدہ کے چچا کے گھرانے کے 72 افراد لدھیانے میں قتل کر دیے گئے، وہاں ان کا محلے میں سب کو ختم کر دیا گیا۔

پھر 1965ءکی جنگ کے دوران کس طرح لوگوں کا قربانی کا جذبہ تھا اور عالم یہ تھا کہ 17، 18 روز تک یہاں کی فوج داری عدالت میں ایک چوری چکاری یا قتل کا کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ دوسرا موقع وہ تھا، جب یہاں زلزلہ آیا، میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ کیا جذبہ تھا، جس کے پاس جو کچھ تھا، وہ دینے کو تیار تھا، لوگ گھنٹوں قطار میں سامان جمع کرانے کھڑے ہوئے ہوتے تھے، میرے دوست خالد نیاز کا بیٹے ڈاکٹر سعد نیاز کو آغا خان اسپتال سے رخصت نہ ملی، تو اس نے استعفا دے کر امدادی کیمپوں میں جا کر کام کیا۔ اسی طرح ایک اور دوست کے بیٹے امریکا سے یہاں آئے۔ یہ قوم بڑی مخیّر ہے، انھی کی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے۔

"ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں!" ہم نے گویا ایک اور رخ کا اظہار کیا، تو انھوں نے توقع ظاہر کی کہ "امید ہے وقت کے ساتھ بہتری آئے گی، لیکن جہاں اتحاد کی ضرورت آتی ہے، تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔"

ہجرت کرنے والوں کے تشخص پر وہ گویا ہوئے کہ آہستہ آہستہ وہ اس سرزمین کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، کب تک الگ شناخت لیے پھریں گے، آج یہاں اردو آج پنجاب کی وجہ سے ہے اور یہ واحد ایک زبان ہے، جو اس پورے ملک کو جوڑ کر رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہجرت کرنے والوں کے اس حق کی تائید کرتے ہیں کہ وہ اپنے روایتی طور طریقے، رکھ رکھاﺅ اور پہننا اوڑھنا اپنائے رکھیں۔ اردو کے بدلنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اردو امیر خسرو کے زمانے سے بدل رہی ہے اور بدلے گی۔ بڑی بات یہ ہے کہ اردو کے اخبارات اور رسائل کی کھپت ہے، کتابیں چھپ رہی ہیں۔ یہاں انگریزی کے دو خبری چینل شروع ہوئے، دونوں بند ہوگئے، یہاں اردو کا مستقبل روشن ہے۔ اردو کا ہمارے درمیان ایک تہذیبی اور لسانی رشتہ ہے، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اردو کو فروغ دیں۔

٭ پہلے موکل کو 'رحم کی درخواست' لکھ کر سزا سے بچایا

جسٹس (ر) حاذق الخیری بطور وکیل پہلے مقدمے کے سوال پر گویا ہوئے: میرا پہلا مقدمہ 1958ءمیں اسپیشل ملٹری کورٹس کے سامنے تھا، اس میں انجینئر ظہور احمد پر الزام یہ تھا کہ وہ ٹھیکے دار سے مل کر سریا اور سیمنٹ 'بلیک' میں بیچ دیتا ہے۔ لیفٹیننٹ کمانڈر کرنل اختر نے اِسے پرزائیڈ کیا اور مجسٹریٹ ذاکر حسین ودیگر کے سامنے ظہور احمد کی طرف سے میں پیش ہوا، لیکن ظہور احمد کو سزا ہوگئی۔ لیفٹیننٹ کمانڈر کرنل اختر نے فیصلے کے بعد مجھے بلوایا۔ میں نے چند ماہ پہلے ہی وکالت شروع کی تھی، اور اس مقدمے میں اتنی محنت کی تھی کہ بعض اوقات دفتر ہی میں سو جاتا تھا۔ کرنل اختر نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے "آپ نے بہت اچھا مقدمہ لڑا، لیکن دیکھیے ہم لوگوں کی بھی تو کچھ مجبوریاں ہیں۔' مجھے آج بھی ان کے الفاظ یاد ہیں۔ ادھر سزا کے بعد ظہور احمد کے والدین نے رونا پیٹنا شروع کیا، کہنے لگے کہ اب کیا ہو سکتا ہے، میں نے کہا بس رحم کی درخواست ہو سکتی ہے، کہنے لگے ہمیں تو نہیں آتی، وہ بھی آپ کریں۔ میں نے سوچا 'مصورِ غم' (علامہ راشد الخیری) کا پوتا ہوں، کچھ زورِ قلم دکھاﺅں۔ میں نے اردو میں ایک پٹیشن تیار کی۔ اس کے درمیان ظہور احمد کے بچپن، شادی اور والدین کے ساتھ تصاویر رکھیں اور لکھا کہ یہ خاندان کا واحد کفیل ہے وغیرہ وغیرہ"
"رضوان میاں! رحم کی اپیل منظور ہوگئی!" انھوں نے اتنے پرجوش انداز میں کہا کہ گویا یہ بالکل ابھی کا واقعہ رہا ہو پھر کہنے لگے کہ "اس کے والدین میرے پاس مٹھائی کا ٹوکرا لے آگئے، ظہور احمد بھی خود چلے آرہے ہیں۔ میں نے کہا بھئی یہ سب اللہ کی طرف سے ہے!" نصف صدی گزرنے کے باوجود اس واقعے کی خوشی اُس لمحے بھی حاذق الخیری کے چہرے سے پُھوٹی جا رہی تھی۔

٭ جسٹس (ر) کارنیلئس آئے، تو کوئی جج کھڑا نہیں ہوا!

جسٹس (ر) حاذق الخیری کہتے ہیں کہ فخر الدین جی ابراہیم سپریم کورٹ سے مستعفی ہو کر آئے، تو میری خواہش پر ایس ایم لا کالج میں پڑھانا شروع کیا اور آخر تک پڑھایا۔ ہمارے کالج میں ایک سالانہ عشائیہ ہوتا تھا، جس میں پروفیسر اور ان کی بیگمات کی طرف سے ایک مہمان خصوصی کو بلایا جاتا۔ ایک مرتبہ فخر الدین جی ابراہیم کے توسط سے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) اے آر کارنیلئس صاحب (Alvin Robert Cornelius) کو مدعو کیا۔ ہالی ڈے اِن (میریٹ ہوٹل) کے گراﺅنڈ فلور پر موجود ہال میں یہ پروگرام تھا۔ وہاں سب معزز مہمان، جج، وکلا اور ان کی بیگمات اور کالج کے پروفیسر وغیرہ براجمان تھے۔ میں جسٹس کارنیلئس صاحب کو لے کر آیا کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہاں موجود ہائی کورٹ کا ایک جج بھی ان کو دیکھ کر کھڑا نہیں ہوا! کیوں کہ اب وہ چیف جسٹس نہیں تھے، لیکن ان سب ججوں کی حتمی تقرری کرنے والے تو کارنیلئس صاحب ہی تھے آج وہ عہدے پر نہیں، تو اتنا بھی نہ ہوا کہ ان کے لیے کھڑے ہی ہو جاتے!"

انھوں نے توقف کیا، پھر سنجیدگی سے بولے کہ "یہ بتا رہا ہوں کہ یہ دنیا کیا ہے! اس کا مجھے بہت افسوس ہوا، میں نے تو اس واقعے کو اپنی کتاب میں بھی لکھا۔ بس یہ کچھ ایسے واقعات ہیں جو ذہن پر نقش ہوگئے ہیں۔ میں کارنیلئس صاحب کو ججوں کے بہ جائے پروفیسروں کے پاس لے گیا۔ کارنیلئس صاحب بہت عظیم جج تھے، انھوں نے مولوی تمیز الدین کیس (1955ئ) میں گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کو غلط کہا، وہی جنرل ایوب خان کے فوجی اقدام کے خلاف اختلافی نوٹ لکھنے والے جج بھی تھے۔ ایک بار پروفیسر اور اسٹوڈنٹ کے روایتی کرکٹ میچ کے افتتاح کے لیے بھی کارنیلئس صاحب کو کراچی جم خانہ بلوایا تھا، جب وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔

٭ منہ مانگی فیس کی پیش کش کے باوجود اب مقدمات نہیں لیتا

جسٹس (ر) حاذق الخیری پانچ نومبر 1931ءکو دلی میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ 1947ءمیں ہم کشمیر میں تھے، والد (رازق الخیری) ہر سال گرمیوں میں کسی نہ کسی پہاڑی مقام پر جاتے تھے، مئی 1947ءمیں والد صاحب نے کہا کہ کشمیر چلو، پاکستان بننے والا ہے، پھر نصیب ہو نہ ہو۔ تین جون 1947ءکو تقسیم ہند کا اعلان وہیں سری نگر میں سنا، اس کے بعد والد نے کہا کہ ہمیں پاکستان چلنا ہے، ہندوستان میں اردو کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ چناں چہ پھر ہم پاکستان بننے سے پہلے 12، 13 اگست کو ریل گاڑی میں بیٹھے، لیکن خراب حالات کے سبب مشرقی پنجاب سے ہی واپس ہوگئی۔ پتا چلا کہ پہلے جتنی ٹرینیں چلی تھیں، وہ مشرقی پنجاب میں کٹ گئی تھیں، چناں چہ پھر ہم غالباً 22 اگست 1947ءکو موناباﺅ سے یہاں آئے۔ کہتے ہیں کہ اس طرح پاکستان میں داخل ہوئے کہ ایک پشتون اور ایک نیپالی مسلمان ہمارے محافظ تھا، دونوں ہمارے دروازوں پر موجود رہتے تھے۔ کراچی میں پھر مہاجروں والی زندگی شروع ہوگئی۔

ہم نے اس سفر کی مزید تفصیلات ٹٹولیں، تو جسٹس خیری نے بتایا کہ ہمارے آنے سے پہلے ہمارے والد، چچا اور بڑے بھائی سعد خیری کراچی کا ایک پھیرا لگا چکے تھے، سعد خیری فارن سروس میں تھے، یہاں انھوں نے بہار کالونی میں زمین اور بندر روڈ پر فلیٹ لے لیا تھا۔ پھر ہمیں لے کر آئے اور ہمیں یہاں پہنچا کر پھر واپس دلی گئے، وہاں ہمارا پبلشنگ ہاﺅس تھا، 150 کے قریب کتب چھپ چکی تھیں، تین پرچے نکلتے تھے، جو پھر کراچی سے شروع کیے۔' جسٹس خیری کی شادی 1963ءمیں ہوئی۔ چار بیٹیاں ہیں، ایک صاحب زادی حنا خیری امریکا میں ہیں، وہ بھی چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ شریک حیات 2020ءمیں انتقال کر گئیں۔ آج کل کی مصروفیات میں مطالعہ ہے، مزید وکالت کے حوالے سے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ میں اب اپنی 'اننگ' کھیل چکا، جو کرنا تھا کر چکا۔ لوگ منہ مانگی فیس کی پیش کش کرتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ نہیں، میں اب آرام کرنا چاہتا ہوں۔

حاذق الخیری کی خود نوشت 'جاگتے لمحے' کے عنوان سے شایع ہو چکی ہے، اس میں ان کے اہم مشاہدات اور ان گنت تاریخی گواہیاں بھی ثبت ہیں۔ تقسیم کے ہنگام کے وقت یہاں نہ پہنچ سکنا اور شکستہ دل کے ساتھ ہندوستان کو آزاد ہوتے ہوئے دیکھنا، قائداعظم کا آخری دیدار، اُن کے جنازے میں شرکت اور وہاں سر ظفر اللہ کا نمازِ جنازہ نہ پڑھنا، بے نظیر بھٹو کی وکالت کرنے کی خواہش، 1967ءمیں پی ٹی وی سے اپنے تحریر کردہ ڈرامے کے نشر ہونے تک۔ جا بہ جا واقعات بکھرے پڑے ہیں۔

٭ "آئندہ پولیس کالج کے اندر داخل نہیں ہوگی!"

1981ءمیں ایس ایم لا کالج کے پرنسپل بننے کے بعد کی یادیں تازہ کرتے ہوئے جسٹس (ر) حاذق الخیری نے ہمیں بتایا کہ "جب پرنسپل بنا، تو کالج کے دروازے پر موجود 'ایس ایچ او' اندر آیا اور سیلوٹ کر کے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ سر، کسی چیز کی ضرورت ہو آپ مجھے بتائیے۔ میں نے کہا دیکھو آج تو تم آگئے ہو، ٹھیک ہے، لیکن آئندہ پولیس یہاں داخل نہیں ہوگی، یہ میرا اور بچوں کا معاملہ ہے۔ اگر پولیس آئے گی، تو میں شکایت کر دوں گا۔ دوسرا کام یہ کیا تمام سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے بینر تھے، انھیں اتروا دیا۔ اس کے بعد اعلان کیا کہ یہاں پاکستان اور کالج کے سوا کوئی پرچم نہیں لگے گا۔ ساڑھے سات سال رہا، کالج میں تین ہزار طلبہ تھے، کبھی کسی نے دوسرے کا گریبان تک نہ پکڑا۔ جب کہ جامعہ کراچی میں اس زمانے میں قتل تک ہوئے۔"
"آپ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کو ممنوع سمجھتے ہیں؟" ہم نے جاننا چاہا، تو انھوں نے کہا:
"نہیں، لیکن یہ ہلڑ بازی نہ ہو، ہر چیز قانون اور دستور کے تحت ہو۔ میں نے خود سیاست میں حصہ لیا، اسٹوڈنٹ سوسائٹی کا سیکریٹری رہا، مگر ایسی جماعتیں جن کی ڈوریں کالج سے باہر ہوں، وہ درست نہیں، باقی طلبہ اپنے معاملات خود حل کریں، انتخابات لڑیں، ٹھیک ہے، لیکن میں سیاسی اور حکومتی جماعتوں کے خلاف ہوں۔" انھوں نے اپنا مدعا بیان کیا۔

بطور پرنسپل دباﺅ کے حوالے سے پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ اطلاع ملی کہ 'اسلامی جمعیت طلبہ' والے کینٹین میں سیرت النبی پر جلسہ کر رہے ہیں، تو انھیں کہا کہ آج آپ کر رہے ہیں، کل کوئی کارل مارکس پر کرے گا۔ سیر ت النبی ﷺ پر باہر کھلی جگہ پر کالج کی طرف سے جلسہ ہوگا اور جس میں سب مشترکہ طور پر شریک ہوں۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ ایک دو لڑکیاں کالج میں لڑکوں سے آکر بیٹھ جاتیں اور بہ آواز بلند ہنسی مذاق کرتیں، مجھے پتا چلا تو میں نے کچھ نہیں کہا، صرف دو تین روز وہاں سے گزرا، جس کے بعد انھوں نے وہاں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ ہم نے پوچھا اگر وہ نہ ہٹتیں، تو کیا کرتے؟ بولے کہ پھر سوچتے، لیکن وہ سمجھ گئیں۔

 
Load Next Story