اے پشاور آخری کوشش ہے یہ
وہ تبدیلی آنے دی جائے جس کا اعلان وہ اپنے ووٹ کی پرچی میں کرتے ہیں
HYDERABAD:
ایک شعر جس میں پشاور کا ذکر تھا، میں نے کئی روز پہلے پڑھا اور سوچا کہ ڈاکٹر اسحق وردگ جس آشوب کا ذکر کرتے ہیں، اُسے بیتے تو زمانہ بیت چکا۔ یہ سوچ کر میں آگے بڑھ گیا۔ آگے بڑھنے کے عمل میں بھی ایک جادو ہے۔
اس جادو کا توتا کاروبار دنیا کے پنجرے میں بندہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ، عمران خان کادورہ ماسکو، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، حکمرانوں کے اوسان خطا کرنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کا وہ مارچ جو ان دنوں جاری ہے یاپی ڈی ایم کاوہ مارچ جسے لاہور سے شروع ہو کر اوسان خطا کرنے ہیں۔
رفتار عالم اسی کو کہتے ہیں۔ یہی رفتار ہے جس کاساتھ نہ دینے والے پیچھے رہ جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو حافظے سے بھی اتر جاتے ہیں۔ رہوارِ خیال بھی ممکن ہے کہ یہی کچھ کہہ رہا ہو لیکن سچائیوں کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ آپ لاکھ انھیں پردوں میں چھپائیں، یہ کسی نہ کسی کونے سے سر نکال کر اپنے وجود کااحساس دلا کرہی رہتی ہیں۔ اسحق وردگ کا یہ شعر ایسی ہی سچائی کی طرح میرے سامنے آ کھڑا ہوا لیکن تنہا یہ شعرنہیں کوچہ رسالدار کی پوری حشر سامانی اس کے ساتھ تھی۔
ٹیلی پرومپٹر پر ابھرنے والے حروف کو روایتی طور پر چبا چباکر ہمارے سامنے دہرا دینے والا اینکر جب کوچہ رسالدار کی مسجد میں ہونے والی تباہی اور خون ریزی کا ماجرا بیان کر رہا تھا، میرے حافظے کے کسی گم گشتہ گوشے سے نکل کر اسی شعر نے مجھے پکارا
اے پشاور، آخری کوشش ہے یہ
خواب سے اک فاختہ لایا ہوں میں
اب میں سوچتا ہوں کہ ان تجربوں میں ایسا کیا اسرار ہو تا ہے جو الفاظ میں ڈھل کر کسی شاعر کی زبان سے نکلتا ہے؟ کوچہ رسالدار کی مسجد میں بہنے والے بے گناہ لہو اور اس مسجد سے اٹھنے والی چیخوں نے بتایا کہ یہ راز اُن تلخ حقائق میں پوشیدہ ہے، ارباب بست و کشاد جن سے نگاہیں چھپانے کے لیے گاہے ریت میں سر دبا لیتے ہیں اور گاہے مخلوق خدا کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں یا انھیں غیر متعلق معاملات میں الجھائے رکھتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی تجربہ ہمارا بھی ہے۔ یہی تجربہ ہے جس کے نتیجے میں ایک عام شہری میں یاس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوررفتہ رفتہ اُس کی مایوسی گہری ہوتی جاتی ہے۔ یوں وہ حکمرانوں کی نفسیات کی پیروی کرتے ہوئے اپنی شکست، محرومی اور نقصان کو کسی مختلف رنگ میں دیکھنے لگتا ہے۔ اسحق وردگ نے عام آدمی کے اس پیچیدہ احساس بلکہ تجربے کو زبان دی ہے
خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہار گیا ہوں میں
جیتی ہوئی بازی کو خیرات میں دے آنے کے دعوے کا تجزیہ ذرا وسیع تناظر میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایسی کیفیات انسانی ذہن میں پیدا کیسے ہوتی ہیں؟
مسلمانوں کے سیاسی زوال کو سمجھنے کی کوشش بہت لوگوں نے کی اور اپنے اپنے انداز میں کی۔ ان میں سید ابوالاعلیؒ دوسروں سے مختلف نکلے۔ اس بزرگ نے فرمایا تھا کہ سیاست میں جو کجی ہمیں آج دکھائی دیتی ہے، عین ممکن ہے کہ اس کی بنیاد ہمارے ماضی میں کہیں رکھی گئی ہو۔ ان کا یہی نظریہ تھا جس کے نتیجے میں انھوں نے خود کو بے رحم تنقید کی دھار پر رکھ کر 'خلافت و ملوکیت' کے تجزیے کی روایت کو مضبوط کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ ایسی ہی کوشش آج بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ ہماری قوم نے بے پناہ قوت ارادی سے کام لے کر اور تاریخی قربانیاں دے کر اپنے دیس کا امن بحال کیا۔یہ کامیابی یقیناً تاریخی تھی لیکن وہ جو ہوتا ہے، کسی کی کمائی پر کچھ دوسرے حق جتانے آجاتے ہیں۔ اس بار بھی مختلف نہیں ہوا۔ سوات، چترال، خیبرپختونخوا، کراچی کوئٹہ، کہاں کہاں ہم نے قربانی نہیں دی اور اپنے لاتعداد لخت ہائے جگر قربان کر کے اس دھرتی میں امن کے بیج بوئے۔
اب لازم تھا کہ یہ قوم امن کی اس کھیتی سے فیض یاب ہوتی لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ اسی دوران میں پانسا پلٹ گیا۔ یہ پلٹے ہوئے پانسے ہی کا کمال تھا کہ مناظر تیزی سے بدلے اور بقول محسن بھوپالی منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ یہی نقصان اور بے بسی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں احساس شکست جنم لیتا ہے اور کمزور انسان اپنی شکست کو اپنی فراخ دلی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
اب یہ کوچہ رسالدار میں بہنے والے خون اور گزشتہ تین چار برس میں ارزاں ہونے والی بے روزگاری، غربت اور غربت کی چکی میں پسنے والے ابنائے وطن کی عدیم النظیر قربانیوں کا تقاضا ہے کہ اس قوم کو ظلم کے اس شکنجے سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی جائے۔ یہ کیوں ضروری ہے، اس سوال کا جواب بھی ہمیں اسحق وردگ فراہم کرتے ہیں ۔
ہوئی تھی آگہی جب شہر میں گم
کسی کو کوئی رنج اس کا نہیں تھا
اور
ابھی وہ کھیل کھیلا جا رہا ہے
دھکیلا جائے گا ہم کو زیاں تک
شاعری نہ صحافت ہوتی ہے نہ انسانی احساسات کا استحصال کرنے والی خطابت، اس میں دیوار پر بہ انداز دگر آنے والے دور کی تصویر رقم کی جاتی ہے، بقول اقبالؒ
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
ہر شاعر اقبالؒ نہیں ہوتا۔ نہ ہر شاعر دیوار پر نوشتے لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جذبہ صادق ہو اور اس سچے جذبے کی آنچ پر خیالات میں پختگی پیدا ہونے لگے تو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہو جاتا ہے جس کی کوشش'شہرمیں گاؤں کے پرندے'نامی مجموعے میں اسحق وردگ نے کی ہے۔
اس کوشش پر میں پھولوں کے شہر سے اٹھنے والی اس تازہ آواز کا خیر مقدم کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی خبر دار بھی کرتا ہوں کہ مخلوق خدا کی آرزؤں کا احترام کیا جائے اور وہ تبدیلی آنے دی جائے جس کا اعلان وہ اپنے ووٹ کی پرچی میں کرتے ہیں۔ ان آرزؤں کو کچلنے کا نتیجہ بقول شاعر یاس کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی یاس غیظ و غضب میں بدل جاتا ہے۔ کوچہ رسالدار کے مظلوم شہیدوں کے لہو سے بھی یہی آواز اٹھ رہی ہے ع
اے پشاور، آخری کوشش ہے یہ
یہاں لفظ پشاور کو فقط پشاور شہر سمجھنا بھیانک غلطی ہوگی۔
ایک شعر جس میں پشاور کا ذکر تھا، میں نے کئی روز پہلے پڑھا اور سوچا کہ ڈاکٹر اسحق وردگ جس آشوب کا ذکر کرتے ہیں، اُسے بیتے تو زمانہ بیت چکا۔ یہ سوچ کر میں آگے بڑھ گیا۔ آگے بڑھنے کے عمل میں بھی ایک جادو ہے۔
اس جادو کا توتا کاروبار دنیا کے پنجرے میں بندہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ، عمران خان کادورہ ماسکو، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، حکمرانوں کے اوسان خطا کرنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کا وہ مارچ جو ان دنوں جاری ہے یاپی ڈی ایم کاوہ مارچ جسے لاہور سے شروع ہو کر اوسان خطا کرنے ہیں۔
رفتار عالم اسی کو کہتے ہیں۔ یہی رفتار ہے جس کاساتھ نہ دینے والے پیچھے رہ جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو حافظے سے بھی اتر جاتے ہیں۔ رہوارِ خیال بھی ممکن ہے کہ یہی کچھ کہہ رہا ہو لیکن سچائیوں کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ آپ لاکھ انھیں پردوں میں چھپائیں، یہ کسی نہ کسی کونے سے سر نکال کر اپنے وجود کااحساس دلا کرہی رہتی ہیں۔ اسحق وردگ کا یہ شعر ایسی ہی سچائی کی طرح میرے سامنے آ کھڑا ہوا لیکن تنہا یہ شعرنہیں کوچہ رسالدار کی پوری حشر سامانی اس کے ساتھ تھی۔
ٹیلی پرومپٹر پر ابھرنے والے حروف کو روایتی طور پر چبا چباکر ہمارے سامنے دہرا دینے والا اینکر جب کوچہ رسالدار کی مسجد میں ہونے والی تباہی اور خون ریزی کا ماجرا بیان کر رہا تھا، میرے حافظے کے کسی گم گشتہ گوشے سے نکل کر اسی شعر نے مجھے پکارا
اے پشاور، آخری کوشش ہے یہ
خواب سے اک فاختہ لایا ہوں میں
اب میں سوچتا ہوں کہ ان تجربوں میں ایسا کیا اسرار ہو تا ہے جو الفاظ میں ڈھل کر کسی شاعر کی زبان سے نکلتا ہے؟ کوچہ رسالدار کی مسجد میں بہنے والے بے گناہ لہو اور اس مسجد سے اٹھنے والی چیخوں نے بتایا کہ یہ راز اُن تلخ حقائق میں پوشیدہ ہے، ارباب بست و کشاد جن سے نگاہیں چھپانے کے لیے گاہے ریت میں سر دبا لیتے ہیں اور گاہے مخلوق خدا کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں یا انھیں غیر متعلق معاملات میں الجھائے رکھتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی تجربہ ہمارا بھی ہے۔ یہی تجربہ ہے جس کے نتیجے میں ایک عام شہری میں یاس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوررفتہ رفتہ اُس کی مایوسی گہری ہوتی جاتی ہے۔ یوں وہ حکمرانوں کی نفسیات کی پیروی کرتے ہوئے اپنی شکست، محرومی اور نقصان کو کسی مختلف رنگ میں دیکھنے لگتا ہے۔ اسحق وردگ نے عام آدمی کے اس پیچیدہ احساس بلکہ تجربے کو زبان دی ہے
خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہار گیا ہوں میں
جیتی ہوئی بازی کو خیرات میں دے آنے کے دعوے کا تجزیہ ذرا وسیع تناظر میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایسی کیفیات انسانی ذہن میں پیدا کیسے ہوتی ہیں؟
مسلمانوں کے سیاسی زوال کو سمجھنے کی کوشش بہت لوگوں نے کی اور اپنے اپنے انداز میں کی۔ ان میں سید ابوالاعلیؒ دوسروں سے مختلف نکلے۔ اس بزرگ نے فرمایا تھا کہ سیاست میں جو کجی ہمیں آج دکھائی دیتی ہے، عین ممکن ہے کہ اس کی بنیاد ہمارے ماضی میں کہیں رکھی گئی ہو۔ ان کا یہی نظریہ تھا جس کے نتیجے میں انھوں نے خود کو بے رحم تنقید کی دھار پر رکھ کر 'خلافت و ملوکیت' کے تجزیے کی روایت کو مضبوط کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ ایسی ہی کوشش آج بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ ہماری قوم نے بے پناہ قوت ارادی سے کام لے کر اور تاریخی قربانیاں دے کر اپنے دیس کا امن بحال کیا۔یہ کامیابی یقیناً تاریخی تھی لیکن وہ جو ہوتا ہے، کسی کی کمائی پر کچھ دوسرے حق جتانے آجاتے ہیں۔ اس بار بھی مختلف نہیں ہوا۔ سوات، چترال، خیبرپختونخوا، کراچی کوئٹہ، کہاں کہاں ہم نے قربانی نہیں دی اور اپنے لاتعداد لخت ہائے جگر قربان کر کے اس دھرتی میں امن کے بیج بوئے۔
اب لازم تھا کہ یہ قوم امن کی اس کھیتی سے فیض یاب ہوتی لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ اسی دوران میں پانسا پلٹ گیا۔ یہ پلٹے ہوئے پانسے ہی کا کمال تھا کہ مناظر تیزی سے بدلے اور بقول محسن بھوپالی منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ یہی نقصان اور بے بسی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں احساس شکست جنم لیتا ہے اور کمزور انسان اپنی شکست کو اپنی فراخ دلی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
اب یہ کوچہ رسالدار میں بہنے والے خون اور گزشتہ تین چار برس میں ارزاں ہونے والی بے روزگاری، غربت اور غربت کی چکی میں پسنے والے ابنائے وطن کی عدیم النظیر قربانیوں کا تقاضا ہے کہ اس قوم کو ظلم کے اس شکنجے سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی جائے۔ یہ کیوں ضروری ہے، اس سوال کا جواب بھی ہمیں اسحق وردگ فراہم کرتے ہیں ۔
ہوئی تھی آگہی جب شہر میں گم
کسی کو کوئی رنج اس کا نہیں تھا
اور
ابھی وہ کھیل کھیلا جا رہا ہے
دھکیلا جائے گا ہم کو زیاں تک
شاعری نہ صحافت ہوتی ہے نہ انسانی احساسات کا استحصال کرنے والی خطابت، اس میں دیوار پر بہ انداز دگر آنے والے دور کی تصویر رقم کی جاتی ہے، بقول اقبالؒ
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
ہر شاعر اقبالؒ نہیں ہوتا۔ نہ ہر شاعر دیوار پر نوشتے لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جذبہ صادق ہو اور اس سچے جذبے کی آنچ پر خیالات میں پختگی پیدا ہونے لگے تو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہو جاتا ہے جس کی کوشش'شہرمیں گاؤں کے پرندے'نامی مجموعے میں اسحق وردگ نے کی ہے۔
اس کوشش پر میں پھولوں کے شہر سے اٹھنے والی اس تازہ آواز کا خیر مقدم کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی خبر دار بھی کرتا ہوں کہ مخلوق خدا کی آرزؤں کا احترام کیا جائے اور وہ تبدیلی آنے دی جائے جس کا اعلان وہ اپنے ووٹ کی پرچی میں کرتے ہیں۔ ان آرزؤں کو کچلنے کا نتیجہ بقول شاعر یاس کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی یاس غیظ و غضب میں بدل جاتا ہے۔ کوچہ رسالدار کے مظلوم شہیدوں کے لہو سے بھی یہی آواز اٹھ رہی ہے ع
اے پشاور، آخری کوشش ہے یہ
یہاں لفظ پشاور کو فقط پشاور شہر سمجھنا بھیانک غلطی ہوگی۔