فیصل آباد کے رہائشی صدیق 75 سال سے بچھڑے بھائی کی پاکستان آمد پر خوشی سے نہال
حبیب عرف سکا خان 1947ء میں والدہ کے ساتھ ننھیال میں ہی رہ گئے تھے جبکہ والد، بڑے بھائی اور بہن پاکستان آگئے تھے
پنجاب کے ضلع فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد صدیق ان دنوں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ 1947ء میں ان سے بچھڑ جانے والا چھوٹا بھائی حبیب خان بھارت کے علاقہ بھٹنڈہ سے ان سے ملنے پاکستان آرہا ہے۔
محمد صدیق کا خاندان حبیب کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ محمد صدیق کی اپنے چھوٹے بھائی سے ایک ملاقات چند ہفتے قبل گردوارہ دربار صاحب کرتار پور صاحب میں ہوچکی ہے لیکن ویزا پابندیاں دونوں بھائیوں کے مستقل ملنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے حبیب خان کو ویزا جاری کردیا گیا ہے اور اب انہیں پاکستان آنے کے لیے بھارتی وزارت داخلہ سے اٹاری / واہگہ سرحد عبورکرنے کے لیے این او سی کا انتظار ہے۔
حبیب عرف سکا خان جن کی عمراس وقت 77 برس کے قریب ہے وہ بھارتی علاقے بھٹنڈہ کے گاؤں پھلے وال میں رہتے ہیں۔ 1947ء کی تقسیم کے وقت وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنے ننھیال میں ہی رہ گئے تھے جبکہ ان کے والد، بڑے بھائی اور بہن خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ پاکستان آگئے تھے۔
دونوں بھائیوں کی 75 سال بعد کرتارپور راہداری کے راستے گوردوارہ دربارصاحب میں ملاقات ہوئی تھی۔75 برس بعد دونوں بھائیوں کے ملنے کی ویڈیو اور تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو پاکستانی ہائی کمیشن نے حبیب عرف سکا خان سے خود رابطہ کیا اور انہیں ویزا دینے ان کے پاس پہنچے تاکہ وہ پاکستان آکر اپنے خاندان سے مل سکیں اور یہاں دن گزار سکیں۔
بھارتی علاقے پھلے وال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرجگسیر سنگھ نے ایکسپریس ٹربیون سے کو بتایا کہ حبیب عرف سکا خان کو اپنے خاندان سے ملنے کے لیے 75 برس انتظار کرنا پڑا ہے، دوسال پہلے انہوں نے ہی سکا خان کے بھائی محمد صدیق جو کہ فیصل آباد کے نواحی چک نمبر 255 بوگڑاں کے رہائشی ہیں ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھی تھی جو ایک پاکستانی یوٹیوبر ناصر ڈھلوں نے شیئر کی تھی، سکا خان اکثر ان سے اپنے خاندان سے متعلق باتیں کرتا رہتا تھا، اس لیے جب انہوں نے ان کے بھائی کی ویڈیو دیکھی تو پھر واٹس ایپ پر دونوں بھائیوں کا رابطہ کروایا اور بالاخر دونوں کی کرتار پور صاحب میں ملاقات بھی ہوگئی۔
ڈاکٹرجگسیرسنگھ کے مطابق حبیب عرف سکا خان محنت مزدوری کرتا ہے، اس نے آج تک شادی بھی نہیں کی، اس کے ننھیال کے رشتہ داروں نے ہی اس کی پرورش کی ہے، اس نے جو کمائی کی وہ اپنے بھائی اور خاندان کی تلاش میں خرچ کردی اب جب اسے اس کا خاندان مل گیا ہے تو ہم نے اس کا پاسپورٹ بنوا کر دیا ہے اور اب بس ان کے پاکستان جانے کے منتظر ہیں۔
حبیب عرف سکا خان نے پاکستان آنے کے لیے تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں، انہوں نے بڑے بھائی اور خاندان کے دیگرافراد کے لیے کئی تحائف بھی خریدے ہیں اور اب انہیں صرف این او سی کا انتظار ہے کیونکہ کورونا وبا کی وجہ سے بھارت نے ابھی تک اپنی سرحد عام آمد و رفت کے لیے اوپن نہیں کی ہے۔
بزرگوں کو ویزا کیلیے 2020ء میں معاہد ہوا
پاکستان اور بھارت کے مابین سن 2012ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں ملک 65 سال سے زائد عمر کے ایسے بزرگ شہریوں کو واہگہ /اٹاری بارڈر پر ہی ویزا جاری کریں گے جن کی پیدائش 1947ء سے قبل ہوئی تھی اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد انہیں بھارت سے پاکستان یا پھر پاکستان سے بھارت جانا پڑا تھا۔
اس معاہدے کے تحت 15 جنوری 2013ء کو لاہور سے تعلق رکھنے والے دو بزرگ شہری 69 سالہ محمد ظفر اور 67 سالہ عبدالرشید بھارت میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لیے واہگہ بارڈر پہنچے تھے لیکن بھارتی امیگریشن حکام نے انہیں اٹاری بارڈر سے واپس بھیج دیا تھا۔
اس پالیسی کے تحت آج تک کوئی بھی پاکستانی بزرگ شہری بھارت نہیں جاسکا جب کہ دوسری طرف بھارت سے دو بزرگ شہریوں کو پاکستانی حکام کی طرف سے واہگہ سرحد پر ہی ویزا دیا گیا تھا۔
اس پالیسی کے تحت بھارت سے پاکستان آنے والوں میں سب سے پہلے بزرگ شہری اور معروف صحافی چنچل منوہر سنگھ تھے جبکہ ان کے بعد ایک اور بزرگ پیارا سنگھ کو 24 نومبر2019ء میں پاکستانی حکام نے واہگہ ای میل کے ذریعے ویزا جاری کیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان آنے والے یہ شاید آخری بھارتی شہری تھے اس کے بعد سے ابت ک دونوں ملکوں کی طرف سے کسی بزرگ شہری کو بارڈر پر ویزا نہیں دیا گیا۔
65 سال سے زائد العمر کیلیے سنگل انٹری ویزا کا فیصلہ ہوا تھا، ترجمان دفتر خارجہ
دفتر خارجہ پاکستان کے ترجمان عاصم افتخار نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2012ء کا آزادانہ دوطرفہ ویزا معاہدہ دونوں ممالک کے بزرگ شہریوں کے لیے ویزا آن ارائیول کی اجازت دیتا ہے جو واہگہ، اٹاری بارڈر کے ذریعے پیدل کسی بھی ملک کو عبور کرنا چاہتے ہیں، 65 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ شہریوں کے لیے جو پولیس رپورٹنگ سے مستثنیٰ ہونے کے اہل ہیں ان کے لیے 45 دنوں کے لیے ناقابل توسیع اور غیر تبدیل شدہ سنگل انٹری ویزا کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بزرگ شہریوں کے لیے ویزاآن ارائیول سروس کیس ٹو کیس کی بنیاد پرجاری ہے لیکن کوروناپابندیوں کی وجہ سے مارچ 2020ء سے معطل ہے کیونکہ بھارت کی جانب سے ابھی تک سرحد نہیں کھولی گئی، 1947 میں بچھڑے خاندانوں کے علاوہ ایسی خواتین کو بھی پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی شادیاں ایک دوسرے کے ملک میں ہوئی ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون غلام فاطمہ نے بتایا کہ ان کے والدین بھارت میں رہتے ہیں اور چند برس قبل انہوں نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی بھارت میں مقیم اس کے کزن سے کی ہے۔
فاطمہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو ویزے کے حصول میں مشکل کا سامنا ہے اور اپنے دونوں بچوں جن کی عمر ڈیڑھ سے چار برس کی ہیں ان کے ساتھ سفر نہیں کرسکتی ہیں۔ فاطمہ کا کہنا تھا ان کی بیٹی سمیت ایسی سیکڑوں خواتین ہیں جن کی زندگی کی خوشیاں اور دکھ پاکستان اور بھارت کے تعلقات سے جڑے ہیں۔
گہری دشمنی کے سبب کوئی بھی عمل کامیاب نہیں ہوپارہا، سابق سفیر عبدالباسط
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر اور سینئر تجزیہ کار عبدالباسط نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا دونوں ملکوں کے مابین دشمنی کی جڑی بہت گہری ہیں اسی وجہ سے کوئی بھی انفرادی عمل کامیاب نہیں ہوپاتا حتی کے دونوں ملک کے بزرگ شہریوں کو ویزے جاری کرنے کے بے ضرر نظام ہی کیوں نہ ہو، وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو تنازعہ کشمیر کو مستقل طور پر حل کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک اچھے پڑوسیوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔
پاکستان اوربھارت کے مابین امن اور دوستی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم آغاز دوستی کے کنونیئر روی نتیش نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ دونوں ملکوں نے سینئر سٹیزن کو ویزاآن آرئیول کی جو پالیسی بنائی تھی بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوسکا حالانکہ ایسے خاندان جو 1947ء میں بچھڑ گئے تھے اور سرحد کی دونوں جانب مقیم ہیں انہیں انسانی ہمدردی کے تحت ویزے ملنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ سینئر سٹیزن کے علاوہ نوجوانوں اور خاص کر طالب علموں کو بھی ویزوں کی فراہمی کا عمل انتہائی آسان ہونا چاہیے ، دونوں ملک بے شک سیکیورٹی کلیئرنس کے عمل کو سخت کریں ، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ویزا پراسیس آسان ہونا چاہیے، خواہش ہے کہ بزرگ شہریوں کو ویزوں کی فراہمی فوری شروع ہوجائے۔
محمد صدیق کا خاندان حبیب کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ محمد صدیق کی اپنے چھوٹے بھائی سے ایک ملاقات چند ہفتے قبل گردوارہ دربار صاحب کرتار پور صاحب میں ہوچکی ہے لیکن ویزا پابندیاں دونوں بھائیوں کے مستقل ملنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے حبیب خان کو ویزا جاری کردیا گیا ہے اور اب انہیں پاکستان آنے کے لیے بھارتی وزارت داخلہ سے اٹاری / واہگہ سرحد عبورکرنے کے لیے این او سی کا انتظار ہے۔
حبیب عرف سکا خان جن کی عمراس وقت 77 برس کے قریب ہے وہ بھارتی علاقے بھٹنڈہ کے گاؤں پھلے وال میں رہتے ہیں۔ 1947ء کی تقسیم کے وقت وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنے ننھیال میں ہی رہ گئے تھے جبکہ ان کے والد، بڑے بھائی اور بہن خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ پاکستان آگئے تھے۔
دونوں بھائیوں کی 75 سال بعد کرتارپور راہداری کے راستے گوردوارہ دربارصاحب میں ملاقات ہوئی تھی۔75 برس بعد دونوں بھائیوں کے ملنے کی ویڈیو اور تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو پاکستانی ہائی کمیشن نے حبیب عرف سکا خان سے خود رابطہ کیا اور انہیں ویزا دینے ان کے پاس پہنچے تاکہ وہ پاکستان آکر اپنے خاندان سے مل سکیں اور یہاں دن گزار سکیں۔
بھارتی علاقے پھلے وال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرجگسیر سنگھ نے ایکسپریس ٹربیون سے کو بتایا کہ حبیب عرف سکا خان کو اپنے خاندان سے ملنے کے لیے 75 برس انتظار کرنا پڑا ہے، دوسال پہلے انہوں نے ہی سکا خان کے بھائی محمد صدیق جو کہ فیصل آباد کے نواحی چک نمبر 255 بوگڑاں کے رہائشی ہیں ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھی تھی جو ایک پاکستانی یوٹیوبر ناصر ڈھلوں نے شیئر کی تھی، سکا خان اکثر ان سے اپنے خاندان سے متعلق باتیں کرتا رہتا تھا، اس لیے جب انہوں نے ان کے بھائی کی ویڈیو دیکھی تو پھر واٹس ایپ پر دونوں بھائیوں کا رابطہ کروایا اور بالاخر دونوں کی کرتار پور صاحب میں ملاقات بھی ہوگئی۔
ڈاکٹرجگسیرسنگھ کے مطابق حبیب عرف سکا خان محنت مزدوری کرتا ہے، اس نے آج تک شادی بھی نہیں کی، اس کے ننھیال کے رشتہ داروں نے ہی اس کی پرورش کی ہے، اس نے جو کمائی کی وہ اپنے بھائی اور خاندان کی تلاش میں خرچ کردی اب جب اسے اس کا خاندان مل گیا ہے تو ہم نے اس کا پاسپورٹ بنوا کر دیا ہے اور اب بس ان کے پاکستان جانے کے منتظر ہیں۔
حبیب عرف سکا خان نے پاکستان آنے کے لیے تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں، انہوں نے بڑے بھائی اور خاندان کے دیگرافراد کے لیے کئی تحائف بھی خریدے ہیں اور اب انہیں صرف این او سی کا انتظار ہے کیونکہ کورونا وبا کی وجہ سے بھارت نے ابھی تک اپنی سرحد عام آمد و رفت کے لیے اوپن نہیں کی ہے۔
بزرگوں کو ویزا کیلیے 2020ء میں معاہد ہوا
پاکستان اور بھارت کے مابین سن 2012ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں ملک 65 سال سے زائد عمر کے ایسے بزرگ شہریوں کو واہگہ /اٹاری بارڈر پر ہی ویزا جاری کریں گے جن کی پیدائش 1947ء سے قبل ہوئی تھی اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد انہیں بھارت سے پاکستان یا پھر پاکستان سے بھارت جانا پڑا تھا۔
اس معاہدے کے تحت 15 جنوری 2013ء کو لاہور سے تعلق رکھنے والے دو بزرگ شہری 69 سالہ محمد ظفر اور 67 سالہ عبدالرشید بھارت میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لیے واہگہ بارڈر پہنچے تھے لیکن بھارتی امیگریشن حکام نے انہیں اٹاری بارڈر سے واپس بھیج دیا تھا۔
اس پالیسی کے تحت آج تک کوئی بھی پاکستانی بزرگ شہری بھارت نہیں جاسکا جب کہ دوسری طرف بھارت سے دو بزرگ شہریوں کو پاکستانی حکام کی طرف سے واہگہ سرحد پر ہی ویزا دیا گیا تھا۔
اس پالیسی کے تحت بھارت سے پاکستان آنے والوں میں سب سے پہلے بزرگ شہری اور معروف صحافی چنچل منوہر سنگھ تھے جبکہ ان کے بعد ایک اور بزرگ پیارا سنگھ کو 24 نومبر2019ء میں پاکستانی حکام نے واہگہ ای میل کے ذریعے ویزا جاری کیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان آنے والے یہ شاید آخری بھارتی شہری تھے اس کے بعد سے ابت ک دونوں ملکوں کی طرف سے کسی بزرگ شہری کو بارڈر پر ویزا نہیں دیا گیا۔
65 سال سے زائد العمر کیلیے سنگل انٹری ویزا کا فیصلہ ہوا تھا، ترجمان دفتر خارجہ
دفتر خارجہ پاکستان کے ترجمان عاصم افتخار نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2012ء کا آزادانہ دوطرفہ ویزا معاہدہ دونوں ممالک کے بزرگ شہریوں کے لیے ویزا آن ارائیول کی اجازت دیتا ہے جو واہگہ، اٹاری بارڈر کے ذریعے پیدل کسی بھی ملک کو عبور کرنا چاہتے ہیں، 65 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ شہریوں کے لیے جو پولیس رپورٹنگ سے مستثنیٰ ہونے کے اہل ہیں ان کے لیے 45 دنوں کے لیے ناقابل توسیع اور غیر تبدیل شدہ سنگل انٹری ویزا کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بزرگ شہریوں کے لیے ویزاآن ارائیول سروس کیس ٹو کیس کی بنیاد پرجاری ہے لیکن کوروناپابندیوں کی وجہ سے مارچ 2020ء سے معطل ہے کیونکہ بھارت کی جانب سے ابھی تک سرحد نہیں کھولی گئی، 1947 میں بچھڑے خاندانوں کے علاوہ ایسی خواتین کو بھی پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی شادیاں ایک دوسرے کے ملک میں ہوئی ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون غلام فاطمہ نے بتایا کہ ان کے والدین بھارت میں رہتے ہیں اور چند برس قبل انہوں نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی بھارت میں مقیم اس کے کزن سے کی ہے۔
فاطمہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو ویزے کے حصول میں مشکل کا سامنا ہے اور اپنے دونوں بچوں جن کی عمر ڈیڑھ سے چار برس کی ہیں ان کے ساتھ سفر نہیں کرسکتی ہیں۔ فاطمہ کا کہنا تھا ان کی بیٹی سمیت ایسی سیکڑوں خواتین ہیں جن کی زندگی کی خوشیاں اور دکھ پاکستان اور بھارت کے تعلقات سے جڑے ہیں۔
گہری دشمنی کے سبب کوئی بھی عمل کامیاب نہیں ہوپارہا، سابق سفیر عبدالباسط
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر اور سینئر تجزیہ کار عبدالباسط نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا دونوں ملکوں کے مابین دشمنی کی جڑی بہت گہری ہیں اسی وجہ سے کوئی بھی انفرادی عمل کامیاب نہیں ہوپاتا حتی کے دونوں ملک کے بزرگ شہریوں کو ویزے جاری کرنے کے بے ضرر نظام ہی کیوں نہ ہو، وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو تنازعہ کشمیر کو مستقل طور پر حل کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک اچھے پڑوسیوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔
پاکستان اوربھارت کے مابین امن اور دوستی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم آغاز دوستی کے کنونیئر روی نتیش نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ دونوں ملکوں نے سینئر سٹیزن کو ویزاآن آرئیول کی جو پالیسی بنائی تھی بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوسکا حالانکہ ایسے خاندان جو 1947ء میں بچھڑ گئے تھے اور سرحد کی دونوں جانب مقیم ہیں انہیں انسانی ہمدردی کے تحت ویزے ملنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ سینئر سٹیزن کے علاوہ نوجوانوں اور خاص کر طالب علموں کو بھی ویزوں کی فراہمی کا عمل انتہائی آسان ہونا چاہیے ، دونوں ملک بے شک سیکیورٹی کلیئرنس کے عمل کو سخت کریں ، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ویزا پراسیس آسان ہونا چاہیے، خواہش ہے کہ بزرگ شہریوں کو ویزوں کی فراہمی فوری شروع ہوجائے۔