عورت مارچ کی مخالفت کیوں

ہمارے ہاں ایک بااثرگروہ جوریاستی پالیسیوں کوبھی ڈکٹیٹ کراتاہے وہ عورت مارچ والی خواتین کومسلم اقدارکیلیے خطرہ سمجھتاہے

jamilmarghuz1@gmail.com

کراچی:
وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ ''8مارچ کو ہر سال منعقد ہونے والے عورت مارچ کو روکا جائے اور اس کی جگہ ''بین الاقوامی یوم حجاب ''منایا جائے' لگتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد خیر سے پاکستان کے مذہبی حلقے ایک بار پھر ہاتھ پاؤں پھیلا رہے ہیں۔

ہرسال'' عورت مارچ'' کی مخالفت کی جاتی ہے جیسے اب موجودہ حکومت کے وزیر مذہبی امور نے کی ہے اور جس کی مخالفت میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر انسانی حقوق محترمہ شیرین مزاری بھی میدان میں اتر آئے ہیں' عمران خان نے چونکہ پارٹی نہیں بلکہ بھان متی کا کنبہ جوڑاہے۔

یہاں کسی کی ایک دوسرے سے کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے 'ہر وزیر اپنا الگ ڈھنڈورا پیٹتا ہے' حالانکہ سیاسی پارٹی کی سب سے اہم شرط' نظریاتی ہم آہنگی ہوتی ہے 'اگر ایک پارٹی میں نظریاتی ہم آہنگی نہ ہو تو پارٹی نہیں بلکہ ہجوم کہلائے گا۔ چوہدری نثار نے ٹھیک کہا ہے کہ PTIپارٹی نہیں بلکہ عمران فین کلب (Fan Club)ہے۔

ہمارے مذہبی اور دائیں بازو کے سوڈو دانشور حلقوں کو خواتین کے حقوق سے نجانے کیا مسئلہ ہے حالانکہ انھیں بھی سوچنا چاہیے کہ خواتین پر جبر وظلم کو روکنا ریاست کا پہلا فرض ہونا چاہیے ۔ایک لطیفہ نما بات یاد آئی۔کسی زمانے میں آزاد کشمیر ریڈیو سے ہندوستان کے خلاف ایک پروگرام نشر ہوتا تھا' جس کا نام تو یاد نہیں' لیکن باپ بیٹے کی گفتگو کے آخر میں جب بیٹا سوال کرتا تو والد کا جواب ہوتا کہ ''رام جانے بیٹا''۔ مثلاً ایک دن پروگرام ہو رہا تھا ۔

بیٹا !۔اباجی !جی بیٹا۔

بیٹا !اباجی' ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت جوان ہے۔

اباجی!کہا ہوگا بیٹا۔

بیٹا!اباجی' اندراگاندھی نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے۔

والد! کہا ہوگا بیٹا۔

بیٹا اباجی ! جی بیٹا ۔

بیٹا!۔یہ اندرا گاندھی کو نوجوانوں سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟


ابا جی !رام جانے بیٹا۔

ہمارے علمائے کرام اور دائیں بازو کے سوڈو دانشور اس بات پر بغلیں بجا رہے تھے کہ ہندوستان میں مسکان نام مسلمان لڑکی ہندو جنونیوں کے سامنے حجاب پہن کر ڈٹ گئی 'ان کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور حجاب اتارنے سے انکار کردیا۔

غور کیا جائے تو مسکان نے بھی یہی پیغام دیا ہے کہ ''میرا چہرہ میری مرضی 'میرا برقع میری مرضی''۔یہ اعلان ہے اس بات کا کہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہنے اور اپنے عقیدے 'مذہب اور رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارے 'کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ RSSکے غنڈے کرناٹک میں مسلمان لڑکیوں کے سروں سے جو حجاب نوچ کر پھینک رہے ہیں' ان کا اصل میں کہنا یہ ہے کہ تمہیں اپنی مرضی سے جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ان حالات میں ایک 19سال کی مسلمان لڑکی کا جنونیوں کے آگے ڈٹ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگانا کسی جہاد سے کم نہیں ہے ' اسے سلام پیش کرنا چاہیے اور اسی اصول کے تحت ہم سب کو یہ سلام تمام پاکستانی خواتین کو بھی پیش کرنا چاہیے جو پاکستان میں رہ کر اسلام کی حقیقی روح کے مطابق اپنا حق مانگ رہی ہیں۔ ہمارے پدر سری معاشرے میں ہر سال عورتیں اپنے بنیادی حقوق کے لیے مارچ کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں ایک بااثر گروہ جو ریاستی پالیسیوں کو بھی ڈکٹیٹ کراتا ہے، وہ عورت مارچ والی خواتین کو مسلم اقدار کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ ان کا خود ساختہ خیال ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے باہرہے کہ ہم اپنے ملک میں اپنی عورتوں کے حقوق کی حمایت کیوں نہیں کرسکتے ' نہ جانے یہ کیوں فرض کر لیا گیا ہے کہ عورت مارچ والی عورتیں ہماری اقدار کے لیے خطرہ ہیں'سال بھر میں مشکل سے چند ہزار عورتوں کا اجتماع اگر ہماری اقدار کے لیے خطرہ ہیں' تو ہمیں اپنی روایات اور اقدار پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیے 'جو چند عورتوں کے جلوس سے زمین بوس ہوجاتی ہیں۔

پاکستانی عورتوں کا ایجنڈا اگر لبرل ہے ' مغرب زدہ ہے اور مذہب دشمن ہے' تو ہم یہاں بیٹھ کر بھارت میں RSS کے ایجنڈے کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔چند دن قبل عورت مارچ والوں نے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے 'جس کا نعرہ ہے کہ ''میرے اندر کی ہرعورت انصاف کی منتظر ہے''یہ نعرے نظر انداز کردیے گئے ہیں اور ''اپنے موزے خود تلاش کرو'' قسم کے نعرے عورت مارچ کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔

عورت مارچ کے ابلاغ کو ٹھیک کرنا ہوگا' جو لوگ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ عورت مارچ والی عورتوں کا احتجاج بے حیائی ہے تو انھیں چاہیے کہ کم از کم محترمہ ڈاکٹر سمیعہ راحیلہ قاضی کے منعقد کردہ اجتماع میں شرکت کرلیا کریں'وہ بھی خواتین کا عالمی دن مناتی ہیں اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔

عورت مارچ میں شریک خواتین کا مطالبہ کیا ہے؟ ان کا مطالبہ ہے کہ خواتین کا ریپ نہ کیا جائے'ان کے چہرے پر تیزاب نہ پھینکا جائے'غیرت کے نام پر قتل نہ کیا جائے' ملازمت کے دوران ہراساں نہ کیا جائے' وراثت میں حصہ دیا جائے اور سب سے بڑھ کر انھیں انسان سمجھا جائے۔

مجھے حیرانی ہے کہ ہمارے علماء کرام نے کبھی سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام اور غربت کی وجہ سے نوجوان لڑکیاں جس ظلم کا شکار ہوتی ہیں، اس پر کبھی بات نہیں کی، پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے نام نہاد عوامی نمایندوں نے اس حوالے سے کبھی قانون سازی نہیں کی۔ اور نہ ہی کبھی ان غریب عورتوں کے پردے کے بارے میں کوئی بات کی ہے جو غربت کی وجہ سے امیر گھرانوں میں نوکری کرتی ہیں اور اکثر ظلم کا شکار ہوجاتی ہیں'بڑے بڑے سیاسی اور کاروباری گھرانوں کی فیشن ایبل خواتین پرجو بن سنور کر اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں اور وہاں موجود مرد پارلیمنٹرینز سے بات چیت کرتی ہیں۔

ان کے پردے پر تو کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ مرد حضرات کابینہ اور اسمبلیوں میں ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور گپ بھی لگاتے ہیں۔ان ہزاروں لڑکیوں کا کوئی پرسان حال نہیں جوغربت کے باعث خلیجی ممالک اور یورپ کے قحبہ خانوں میں ڈانس اور دوسرے کام کرتی ہیں 'کیا ان کو معاشرے میں جاری جبری شادیاں' عورتوں کی خرید و فروخت'کاروکاری'غیرت کے نام پر قتل'وٹے سٹے' سوارہ کی رسم ،گھر 'شہر'دفتر اور درسگاہ میں ہونے والے بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں'اور ہراسگی کا علم نہیں ہے؟

کیا ان کو خواتین کی قرآن کے ساتھ نکاح کا یا کم عمر کی شادیوں کا علم نہیں ہے 'وہاں ان کی آواز کیوں خاموش ہوجاتی ہے؟ ان کو صرف عالمی سطح پر خواتین کے مساوی حقوق کی تحریک سے نفرت کیوں ہے؟
Load Next Story