غداری مقدمہ فوجی عدالت کے بجائے خصوصی عدالت میں ہی چلے گا عدالتی فیصلہ

درخواست میں جس آرمی ایکٹ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اب ختم ہوچکا ہے، عدالتی فیصلہ

سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کا صرف اور صرف خصوصی عدالت کو ہی اختیار ہے، عدالتی فیصلہ فوٹو: فائل

خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس فوجی عدالت میں چلانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ یہ مقدمہ فوجی عدالت کے بجائے خصوصی عدالت میں ہی چلے گا۔

جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کرنے والی 3 رکنی خصوصی عدالت نے خصوصی عدالت کے قیام کے خلاف درخواست پر 18 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے آج فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ درخواست میں جس آرمی ایکٹ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اب ختم ہوچکا ہے، 1977 کے آرمی ایکٹ کو 1981 میں کالعدم قرار دیا جا چکا جو اب غیر مؤثر ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف 2007 کے بعد سے فوج کا حصہ نہیں جس کے باعث ان کے خلاف کوئی مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا جب کہ سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کا صرف اور صرف خصوصی عدالت کو ہی اختیار ہے۔


خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعت 14 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کو 11 مارچ کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے تاکہ ان پر فرد جرم عائد کی جاسکے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے وکلا نے عدالتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ فیصلہ منظور نہیں ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے انہیں ہدایت کی کہ اگر آپ کو فیصلہ منظور نہیں یا اس پر کوئی اعتراض ہے تو اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ عدالت کی جانب سے آج جو فیصلہ سنایا گیا وہ حقائق کے برخلاف ہے کیوں کہ اس میں کہا گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف ریٹائرڈ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی وہ آرمی چیف تھے لہذا ان پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ آج کے فیصلے سے کوئی راستہ نکے اور پاکستان میں جو عذاب آیا ہوا ہے وہ ٹل جائے، یہاں جس قسم کے حالات پیدا ہورہے ہیں معاملہ بگڑ سکتا ہے پرویز مشرف کا مقدمہ اس ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔
Load Next Story