مجھے انتہا پسند ملاؤں کا نہیں قائد اعظم کے وژن والا پاکستان چاہیے الطاف حسین
حقائق سے آگاہ کرتا رہوں گا چاہے قتل کیوں نہ کرادیا جائے ،قائد متحدہ ،قائداعظم کے افکار سے مسائل حل ہوسکتے ہیں
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ مجھے پاکستان اور اس کا استحکام چاہیے۔
لیکن مجھے انتہا پسند و ملاؤں کا نہیں بلکہ قائداعظم کے وژن والا پاکستان چاہیے جہاں تمام فقہوں، مسالک اور مذاہب کے ماننے والے شہریوں کو برابرکا پاکستانی سمجھا جائے اور سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی کے موقع پر ایم کیو ایم کے زیر اہتمام کراچی میں منعقدہ سیمینار سے فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا، سیمینار کا عنوان ''قائداعظم اور آج کا پاکستان'' تھا، سیمینار میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ارکان، علمائے کرام، صحافیوں، کالم نگاروں، دانشوروں، تاجروں، صنعت کاروں، وکلا، مختلف جامعات و کالجز کے پروفیسرز اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اکابرین و معززین سمیت سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔
اس موقع پر ایم کیوایم کے ڈپٹی کنوینرز ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل ، الطاف حسین کی بڑی ہمشیرہ سائرہ بیگم، اراکین رابطہ کمیٹی اور ارکان اسمبلی اور مختلف شعبہ جات کے ارکان بھی موجود تھے۔ سیمینار سے اپنے خطاب میں الطاف حسین نے کہا کہ جہاں قائداعظم ہوں گے وہاں سچائی، ایمانداری، دیانتداری، خلوص اور جرات ہوگی اور قائداعظم کی برسی کا اسٹیج ہو تو وہاں منافقت کی بات ہرگز نہیں ہوگی بلکہ قائداعظم کی طرح جرات اظہار سے کام لیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ میں قائداعظم کے مسلک کے بارے میں برسوں سے جانتا تھا لیکن میں خاموش رہا کیونکہ مجھے قائداعظم کے مسلک پر بات کرنے کا کوئی شوق نہیں تھامگر جب معصوم و بے گناہ پاکستانیوں کو شیعہ ہونے کی بنیاد پر کافرکہہ کر اور باقاعدہ شناخت کرکے سفاکی سے قتل کیا جانے لگا تو میں خاموش نہ رہ سکا اور مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ اہل تشیع افراد کو کافرکہہ کر قتل نہ کروکیونکہ قائداعظم بھی خوجہ شیعہ اثنائے عشری تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی اپنا مسلک نہیں بتایا تھا، انھیں بتانے کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ وہ فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ قائداعظم کی سچی باتوں کو اسٹیبلشمنٹ نے کبھی پسند نہیں کیا، قائداعظم طبعی موت نہیں مرے بلکہ انھیں قتل کرنے کی سازش کی گئی، انھیں زیارت کوئٹہ سے کراچی لانے کے لیے جان بوجھ کر نہایت خراب ایمبولینس بھیجی گئی تھی جس میں پٹرول بھی پوری طرح سے نہیں بھرا تھا، انھوں نے کہا کہ قائداعظم ایک لبرل، سیکولر، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر یقین رکھنے والے رہنما تھے مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ بعض لوگ قائداعظم کوایک ملا بنا کر پیش کرتے ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ قائداعظم ملا کیسے ہو سکتے ، ان کی کابینہ میں تو جوگندراناتھ منڈل ایک ہندو اور سر ظفر اللہ شامل تھے جو احمدی تھے لہٰذا وہ رہنما کٹر ملا ہو ہی نہیں سکتا جو اپنی کابینہ میں ہندو اور احمدی کو شامل رکھے۔
انھوں نے کہا کہ میں نے اب یہ ٹھان لی ہے کہ میں نظام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قوم کو تاریخ کے بارے میں اصل حقائق سے بھی آگاہ کروں گا چاہے کسی کو بھیج کر مجھے یہاں قتل کیوں نہ کرا دیا جائے، انھوں نے کہا کہ آپ احمدیوں کو مسلمان نہیں مانتے تو نہ مانیں ، کم از کم انھیں پاکستانی تو مانیے، الطاف حسین نے کہا کہ جو لوگ یہ آگ لگا رہے ہیں کہ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں، احمدیوں کو پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں، انھیں مار دو، ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کردو، اگر یہ آگ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پورے یورپ میں لگ گئی اور وہاں غیر مسلموں کی طر ف سے یہ کہا جانے لگے کہ یہاں مسلمان صرف اسی صورت میں رہے گا کہ وہ چرچ جائے اور اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائی بن جائے توکیا ہوگا۔
اگر یورپ میں بھی مسجدوں کو جلایا جانے لگے اور بموں سے اڑایا جانے لگے تو کیا مسلمان اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ انھوں نے اس موقع پر بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے کی جانے والی تاریخی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے چند اقتباسات بھی پیش کیے جن کا ترجمہ یہ تھا، کہ '' آپ آزاد ہیں، آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں ، مسجدوں، مندروں یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ کا مذہب کیا ہے، فرقہ کیا ہے، ذات کیا ہے، قوم کیا ہے اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے اصول کواپنا نصب العین رکھنا چاہیے اور عنقریب آپ دیکھیں گے کہ ریاست کی نظر میں ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان ، مسلمان نہیں رہے گا مذہبی نقطہ نظر سے ایسا نہیں ہوگا بلکہ یہ سیاسی طور پر ہوگا کیونکہ ہر شخص کا اپنا انفرادی عقیدہ ہوتا ہے ''۔ الطاف حسین نے کہا کہ قائداعظم کی یہ تاریخی تقریر ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک لبرل ، پروگریسو اور سیکولر رہنما تھے جبکہ سیکولرازم کا مطلب لادینیت ہرگز نہیں ہوتا۔ تقریب میں شریک دانشوروں نے ان کی اس بات کی تائید کی، انھوں نے کہا کہ قائداعظم تو تمام مذاہب ، تمام فقہوں اور مسالک کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک چاہتے تھے۔
انھوں نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ اور پاکستان میں تعلیمی نصاب میں نفرت انگیز مواد شامل کرنے سے متعلق بی بی سی کی رپورٹس کا حوالہ دیا اور ان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کے رجحانات کو بڑھانے کے لیے ہم نصاب کو بگاڑ رہے ہیں، انھوں نے قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کیا اور اپنی تقریر کا اختتام قائداعظم زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے سے کیا۔دریں اثناء سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محقق، ماہر لسانیات اور دانشور ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کہا کہ میر ی زندگی میں کوئی واقعہ قابل فخر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ میں نے قائداعظم ؒ کو بہت قریب سے دیکھا اور انھیں دیکھنے کا میرے ذہن اور سیرت پر خاصا اثر ہوا ہے ، قائد اعظم کے افکار سے ملک کے مسائل کو حل کیا جائے۔
بزرگ سیاستدان معراج محمد خان نے کہا کہ قائداعظم ملا اور کٹھ ملا نہیں تھے اگر ایسا ہوتا تو اس وقت جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی ان ؒ کی مخالفت نہیں کرتی، قائد اعظم سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے۔ خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ متحدہ نے اہم اور نازک مرحلے میں سیمینار کا انعقاد کرکے قومی ذمے دار ی کو پورا کیا ہے،ہم نے قائد اعظم کے تصور پاکستان کو کبھی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔
سینئرصحافی مجاہد بریلوی نے کہا کہ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد شہید ملت خان لیاقت علی خان ایک سانحہ کا شکار ہوگئے، علمائے دیوبند اور جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کاجو تصور اپنایا ہے وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان سے یکسر مختلف ہے، دانشور کالم نگار محمد حنیف نے کہا کہ قائد اعظم ایسا پاکستان بالکل نہیں چاہتے تھے جیسا آج ہے ،یہ ملک کافر بنانے کی فیکٹری بن چکا ہے، صحافی و اینکرپرسن سلیم صافی نے کہا کہ قائد اعظم نے کبھی مسلک کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
لیکن مجھے انتہا پسند و ملاؤں کا نہیں بلکہ قائداعظم کے وژن والا پاکستان چاہیے جہاں تمام فقہوں، مسالک اور مذاہب کے ماننے والے شہریوں کو برابرکا پاکستانی سمجھا جائے اور سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی کے موقع پر ایم کیو ایم کے زیر اہتمام کراچی میں منعقدہ سیمینار سے فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا، سیمینار کا عنوان ''قائداعظم اور آج کا پاکستان'' تھا، سیمینار میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ارکان، علمائے کرام، صحافیوں، کالم نگاروں، دانشوروں، تاجروں، صنعت کاروں، وکلا، مختلف جامعات و کالجز کے پروفیسرز اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اکابرین و معززین سمیت سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔
اس موقع پر ایم کیوایم کے ڈپٹی کنوینرز ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل ، الطاف حسین کی بڑی ہمشیرہ سائرہ بیگم، اراکین رابطہ کمیٹی اور ارکان اسمبلی اور مختلف شعبہ جات کے ارکان بھی موجود تھے۔ سیمینار سے اپنے خطاب میں الطاف حسین نے کہا کہ جہاں قائداعظم ہوں گے وہاں سچائی، ایمانداری، دیانتداری، خلوص اور جرات ہوگی اور قائداعظم کی برسی کا اسٹیج ہو تو وہاں منافقت کی بات ہرگز نہیں ہوگی بلکہ قائداعظم کی طرح جرات اظہار سے کام لیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ میں قائداعظم کے مسلک کے بارے میں برسوں سے جانتا تھا لیکن میں خاموش رہا کیونکہ مجھے قائداعظم کے مسلک پر بات کرنے کا کوئی شوق نہیں تھامگر جب معصوم و بے گناہ پاکستانیوں کو شیعہ ہونے کی بنیاد پر کافرکہہ کر اور باقاعدہ شناخت کرکے سفاکی سے قتل کیا جانے لگا تو میں خاموش نہ رہ سکا اور مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ اہل تشیع افراد کو کافرکہہ کر قتل نہ کروکیونکہ قائداعظم بھی خوجہ شیعہ اثنائے عشری تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی اپنا مسلک نہیں بتایا تھا، انھیں بتانے کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ وہ فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ قائداعظم کی سچی باتوں کو اسٹیبلشمنٹ نے کبھی پسند نہیں کیا، قائداعظم طبعی موت نہیں مرے بلکہ انھیں قتل کرنے کی سازش کی گئی، انھیں زیارت کوئٹہ سے کراچی لانے کے لیے جان بوجھ کر نہایت خراب ایمبولینس بھیجی گئی تھی جس میں پٹرول بھی پوری طرح سے نہیں بھرا تھا، انھوں نے کہا کہ قائداعظم ایک لبرل، سیکولر، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر یقین رکھنے والے رہنما تھے مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ بعض لوگ قائداعظم کوایک ملا بنا کر پیش کرتے ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ قائداعظم ملا کیسے ہو سکتے ، ان کی کابینہ میں تو جوگندراناتھ منڈل ایک ہندو اور سر ظفر اللہ شامل تھے جو احمدی تھے لہٰذا وہ رہنما کٹر ملا ہو ہی نہیں سکتا جو اپنی کابینہ میں ہندو اور احمدی کو شامل رکھے۔
انھوں نے کہا کہ میں نے اب یہ ٹھان لی ہے کہ میں نظام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قوم کو تاریخ کے بارے میں اصل حقائق سے بھی آگاہ کروں گا چاہے کسی کو بھیج کر مجھے یہاں قتل کیوں نہ کرا دیا جائے، انھوں نے کہا کہ آپ احمدیوں کو مسلمان نہیں مانتے تو نہ مانیں ، کم از کم انھیں پاکستانی تو مانیے، الطاف حسین نے کہا کہ جو لوگ یہ آگ لگا رہے ہیں کہ ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں، احمدیوں کو پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں، انھیں مار دو، ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کردو، اگر یہ آگ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پورے یورپ میں لگ گئی اور وہاں غیر مسلموں کی طر ف سے یہ کہا جانے لگے کہ یہاں مسلمان صرف اسی صورت میں رہے گا کہ وہ چرچ جائے اور اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائی بن جائے توکیا ہوگا۔
اگر یورپ میں بھی مسجدوں کو جلایا جانے لگے اور بموں سے اڑایا جانے لگے تو کیا مسلمان اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ انھوں نے اس موقع پر بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے کی جانے والی تاریخی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے چند اقتباسات بھی پیش کیے جن کا ترجمہ یہ تھا، کہ '' آپ آزاد ہیں، آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی اپنی عبادت گاہوں ، مسجدوں، مندروں یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ کا مذہب کیا ہے، فرقہ کیا ہے، ذات کیا ہے، قوم کیا ہے اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے اصول کواپنا نصب العین رکھنا چاہیے اور عنقریب آپ دیکھیں گے کہ ریاست کی نظر میں ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان ، مسلمان نہیں رہے گا مذہبی نقطہ نظر سے ایسا نہیں ہوگا بلکہ یہ سیاسی طور پر ہوگا کیونکہ ہر شخص کا اپنا انفرادی عقیدہ ہوتا ہے ''۔ الطاف حسین نے کہا کہ قائداعظم کی یہ تاریخی تقریر ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک لبرل ، پروگریسو اور سیکولر رہنما تھے جبکہ سیکولرازم کا مطلب لادینیت ہرگز نہیں ہوتا۔ تقریب میں شریک دانشوروں نے ان کی اس بات کی تائید کی، انھوں نے کہا کہ قائداعظم تو تمام مذاہب ، تمام فقہوں اور مسالک کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک چاہتے تھے۔
انھوں نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ اور پاکستان میں تعلیمی نصاب میں نفرت انگیز مواد شامل کرنے سے متعلق بی بی سی کی رپورٹس کا حوالہ دیا اور ان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کے رجحانات کو بڑھانے کے لیے ہم نصاب کو بگاڑ رہے ہیں، انھوں نے قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کیا اور اپنی تقریر کا اختتام قائداعظم زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے سے کیا۔دریں اثناء سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محقق، ماہر لسانیات اور دانشور ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کہا کہ میر ی زندگی میں کوئی واقعہ قابل فخر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ میں نے قائداعظم ؒ کو بہت قریب سے دیکھا اور انھیں دیکھنے کا میرے ذہن اور سیرت پر خاصا اثر ہوا ہے ، قائد اعظم کے افکار سے ملک کے مسائل کو حل کیا جائے۔
بزرگ سیاستدان معراج محمد خان نے کہا کہ قائداعظم ملا اور کٹھ ملا نہیں تھے اگر ایسا ہوتا تو اس وقت جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی ان ؒ کی مخالفت نہیں کرتی، قائد اعظم سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے۔ خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ متحدہ نے اہم اور نازک مرحلے میں سیمینار کا انعقاد کرکے قومی ذمے دار ی کو پورا کیا ہے،ہم نے قائد اعظم کے تصور پاکستان کو کبھی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔
سینئرصحافی مجاہد بریلوی نے کہا کہ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد شہید ملت خان لیاقت علی خان ایک سانحہ کا شکار ہوگئے، علمائے دیوبند اور جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کاجو تصور اپنایا ہے وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان سے یکسر مختلف ہے، دانشور کالم نگار محمد حنیف نے کہا کہ قائد اعظم ایسا پاکستان بالکل نہیں چاہتے تھے جیسا آج ہے ،یہ ملک کافر بنانے کی فیکٹری بن چکا ہے، صحافی و اینکرپرسن سلیم صافی نے کہا کہ قائد اعظم نے کبھی مسلک کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔