روس یوکرین جنگ ایک رخ یہ بھی ہے

روس جیسے خوشحال ملک کا بائیکاٹ یورپ کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے

تجزیہ کار اس جنگ کو روس کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD:
یوکرین اور روس جنگ میں شدت اور ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ گو اقوام متحدہ کے ایمرجنسی اجلاس میں ووٹنگ کے ذریعے اس سانحے کو مسلط کردہ جنگ قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی گئی ہے، مگر روس کی طرف سے اس کو اسپیشل ملٹری آپریشن قرار دیا جارہا ہے۔

پاکستان سمیت کئی ممالک نے ووٹنگ سے غیر حاضر رہنا مناسب جانا اور اپنی غیر جانبداری دکھائی۔ حالات کس نہج پر پہنچیں گے، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ تجزیہ کاروں نے ابھی تک اس کو روس خصوصا‍‍ً پوٹین کا جنگی جنون ثابت کرنے پر زور دیا ہے اور پرانے سوویت یونین کی حدود یا نقشہ بحال کرنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ مگر اس پوری صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ آیئے اس پہلو پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پوٹین روسیوں میں بہت مقبول ہیں۔ چاہے اس کے پیچھے کوئی بھی عوامل ہوں، جیسے حب الوطنی یا معیارِ زندگی، یا پھر روس کی کھوئی ہی شناخت کی بحالی، یا دوسری جنگ عظیم میں کھائے ہوئے زخموں کا بدلہ۔ حال ہی میں آسٹریلیا کی سابق وزیر خارجہ جولی بشپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پوٹین بڑے مضبوط اور کسی بھی قسم کا خطرہ مول لینے والے انسان ہیں۔ وہ بہت خوبصورت انگریزی بولتے ہیں جس سے وہ خود بھی متاثر ہوئی تھیں۔ وہ دباؤ میں نہایت ہی پرسکون رہتے ہیں۔ یہی بات اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے اپنے حالیہ دورے میں پوٹین کے بارے میں کہی، جہاں وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کےلیے روس کا دورہ کررہے تھے۔ جولی بشپ کے دورِ وزارت میں روس نے ایک میزائل کے ذریعے ملیشیا کا جہاز مار گرایا تھا جو یوکرین کے اوپر پرواز کررہا تھا۔ اس حملے میں تقریباً تین سو افراد جاں بحق ہوئے تھے، جس میں 30 آسٹریلوی باشندے تھے۔

24 دسمبر 2021 کو پوٹین نے اسلاموفوبیا سے متعلق ایک بیان دے کر پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ انہوں نے کہا کہ محمد صلّی الله علیہ وسلم کی گستاخی کرنا آزادی اظہار رائے ہرگز نہیں ہے۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ روس یوکرین میں اپنی فوج اتارے گا۔ اب اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیچنیا اور شام سے کچھ دستے یوکرین میں داخل ہوگئے ہیں اور روس کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ کیا یہ بیان مسلم دنیا کو خوش کرنے کےلیے تھا... بالخصوص یورپ میں مقیم مسلمان؟ اس بارے میں وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا، مگر متحدہ عرب امارات کا اقوام متحدہ کی ووٹنگ سے غیر حاضر رہنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوسکتی ہے۔

یہ بات بھی عیاں ہوچکی ہے کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں، جس نے کئی ممالک کی معیشت کو ٹھیس پہنچائی تھی، اب واپس اوپر کی طرف جارہی ہیں۔ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، مگر اتنے بڑے فیصلے میں آپ کو دوستوں کی ضرورت پڑتی ہے، خاص طور پر برے وقت کے ساتھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھی دورہ روس آگے بڑھایا، ختم نہیں کیا۔ اسی طرح پوٹین نے جنگ کے آغاز پر سخت بیانات دے کر نیٹو کو اس جنگ میں کودنے سے باز رکھا۔


بعض تجزیہ کاروں نے ابھی سے ہی اس جنگ کو روس کی ناکامی قرار دے دیا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ کریملن نے سوچا تھا کہ وہ تین سے چار دن میں یوکرین پر قبضہ کرکے اس کو ایک آزاد ریاست قرار دے دے گا۔ مگر بات اس سے آگے کی ہے۔

روس نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے ساتھ سویلین آبادی والے علاقوں کو گھیر کر لوگوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ پڑوس کے یورپی ممالک میں نقل مکانی کرجائیں۔ اس سے ان ممالک کی معیشت پر شدید بوجھ پڑے گا۔ اس وقت تقریباً 15 لاکھ لوگ یوکرین سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ دوسرا مقصد ان پر مغرب کا وہ چہرہ عیاں کرنا لگتا ہے کہ کیسے اس مشکل وقت میں انہوں نے یوکرین کو بچانے کےلیے کچھ نہیں کیا۔ نہ ہی روس کو روکنے کےلیے کوئی کوشش کی، اور اس برے وقت میں یوکرین کا ساتھ چھوڑ دیا- اسی بات کا اظہار یوکرین کے وزیر خارجہ خود امریکا سے کئی بار کرچکے ہیں، اور یوکرینی عوام اور آرمی میں بھی اس بات کو لے کر کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

نیٹو ممالک اور اس کے اتحادیوں نے روس پر دباؤ ڈالنے کےلیے بے تحاشا پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ پابندیاں دیرپا ثابت نہیں ہوں گی، کیوں کہ یورپی معیشت ابھی تک کورونا سے پوری طرح سنبھل نہیں پائی ہے۔ روس خود بھی اس جنگ کی 14 سال سے تیاری کررہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روس کے پاس 630 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں اور روس جیسے خوشحال ملک، جس کا جی ڈی پی 1700 بلین ڈالر ہے، کا بائیکاٹ یورپ کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔

روس کے بلاک میں اس وقت کئی اتحادی اور دیرینہ دوست ہیں، جیسے چین، بھارت اور مشرق وسطیٰ۔ یہ منظرنامہ ابھی کافی دھندلا ہے۔ تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑے گا، مگر کس کی شرائط پر، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story