کورونا میں کمیخوش آیند
پاکستان جیسا ملک جب کورونا کا شکار ہوا تو پاکستانی قوم کی اکثریت نے اس بیماری کو ماننے سے ہی انکار کر دیا
پاکستان میں کورونا کی پانچویں لہر میں ڈرامائی طور پر کمی آ گئی ہے۔ مثبت کیسز کی شرح 2% ہی رہ گئی ہے جو معجزے سے کم نہیں ۔ پاکستان جیسا ملک جب کورونا کا شکار ہوا تو پاکستانی قوم کی اکثریت نے اس بیماری کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ ملک کے بڑے طبقے نے اسے کفار کی سازش قرار دیا۔
قطع نظر اس کے کہ لوگ پڑھے لکھے ہوں یا نیم خواندہ یا ان پڑھ۔ اکثریت نے جو کم از کم 80% بنتی ہے، نے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر ماسک وغیرہ استعمال کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس حوالے سے پورے ملک میں دلچسپ لطائف سامنے آئے۔ KP میں تو یہ تک کہا گیا کہ زیادہ ہاتھ دھونے سے ہاتھ گھس سکتے ہیں۔ کورونا کے آغاز میں اداروں کی طرف سے غفلت کے سنگین مظاہر سامنے آئے۔ بیرون ملک سے آنے والوں کو قرنطینہ کیا گیا نہ ان کے ٹیسٹ ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلاتے ہوئے انتہائی تیزی سے پھیل گیا۔
یہاں تک کہ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ نہ رہے۔ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کا کردار اس ضمن میں پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ انھوں نے عوام کو اس جان لیوا خوفناک بیماری سے بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔
اس طرح ان کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا۔ ایسے ماحول میں ایسے الزامات لگائے گئے کہ ڈاکٹر حضرات اس سازش میں شامل ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کو موت کے گھاٹ اتار کر زیادہ سے زیادہ عالمی امداد کا حصول ممکن بنایا جائے۔ جہالت کی یہ انتہاء تھی۔ اس معاملے پر بھی سیاست کی گئی۔ حالانکہ یہ لاکھوں ، کروڑوں عوام کی زندگیوں کا معاملہ تھا۔
اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے W.H.O کا کردار اس ضمن میں انتہائی شاندار رہا۔ اس ادارے نے نہ صرف پوری دنیا کو اس بیماری کے حوالے سے بروقت خبردار کیا بلکہ اس وباء کے ماہرین کے انتہائی قیمتی مشوروں کو حکومتوں تک پہنچاتا رہا۔ جب دنیا کورونا کے حوالے سے زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھی تو عالمی صحت کے اس ادارے کو بھی سیاست کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ کارنامہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انجام دیا کہ انھوں نے اپنی سیاست کے لیے چین کو بدنام کرتے ہوئے اس ادارے پر الزامات کی بارش کر دی کہ اس نے ملی بھگت سے چین سے ملنے والی کورونا بارے معلومات کو ایک سازش کے تحت امریکا سے چھپایا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ٹرمپ نے عالمی ادارے صحت کو دی جانے والی امداد ہی بند کر دی۔
نیو یارک ٹائمز میں لکھے ایک مضمون کے مطابق سابق صدر ٹرمپ امریکا میں کووڈ سے جس بے ڈھنگے طریقے سے نمٹے وہ لوگ بھی موت کے منہ میں چلے گئے جنھیں ابھی مرنا نہیں تھا۔ اس حوالے سے قائم کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اگر ٹرمپ کورونا سے نمٹنے میں اپنے اتحادیوں کے ہی نقش قدم پر چلتے تو امریکا میں 40% سے زائد افراد کو مرنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ یعنی کم از کم 4لاکھ قیمتی انسانی جانیں بچائی جا سکتی تھیں جو سابق صدر ٹرمپ کی غیر سنجیدگی کی نذر ہو گئیں۔ اب تک امریکا میں 9لاکھ افراد اس وباء کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ کووڈ ایک عالمی وباء سے محض ایک موسمی وباء میں بدل جائے گا جیسا کہ وائٹ ہاؤس کے چیف میڈیکل مشیر انتھونی فوچی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر آپ وبائی امراض کی سابقہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ابھی تک ہم صرف ایک وباء کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور وہ چیچک ہے۔
کووڈ کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر فوچی کا مزید یہ کہنا تھا کہ اب ہمیں صرف اس بات کی امید رکھنی چاہیے کہ ہم کووڈ کو اس قدر نچلے لیول تک کمزور کر دیں کہ یہ ایک عام سا وبائی مرض بن جائے جس کا ہمیں عام طور پر سامنا رہتا ہے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ کووڈ کو ابھی ہماری زندگیوں میں ہمارے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ نباہ کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ نہ ہی اومی میکرون جس نے اس موسم سرما میں پوری دنیا میں تباہی مچائی ۔ ہماری زندگیوں کا آخری کورونا وائرس نہیں ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس اس بات کی بھی ضمانت نہیں ہے کہ کووڈ کی موجودہ ویکسین مستقبل میں سامنے آنے والے کورونا ویری اینٹس کے خلاف بھی کامیابی سے ہمارے جسم کا دفاع کر سکیں گی یا نہیں۔
انسانی نفسیات کی ٹیڑھ ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے تمام ممالک حتیٰ کہ امریکا ، یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے اکثریتی عوام بھی شامل ہیں جنھوں نے کورونا کی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ سچ ہے کہ انسان مستقل خوف کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔
مئی سے ستمبر، اکتوبر کے مہینے بتائیں گے کہ سائنسدان کس حد تک کورونا کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ لوگ پڑھے لکھے ہوں یا نیم خواندہ یا ان پڑھ۔ اکثریت نے جو کم از کم 80% بنتی ہے، نے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر ماسک وغیرہ استعمال کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس حوالے سے پورے ملک میں دلچسپ لطائف سامنے آئے۔ KP میں تو یہ تک کہا گیا کہ زیادہ ہاتھ دھونے سے ہاتھ گھس سکتے ہیں۔ کورونا کے آغاز میں اداروں کی طرف سے غفلت کے سنگین مظاہر سامنے آئے۔ بیرون ملک سے آنے والوں کو قرنطینہ کیا گیا نہ ان کے ٹیسٹ ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلاتے ہوئے انتہائی تیزی سے پھیل گیا۔
یہاں تک کہ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ نہ رہے۔ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کا کردار اس ضمن میں پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ انھوں نے عوام کو اس جان لیوا خوفناک بیماری سے بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔
اس طرح ان کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا۔ ایسے ماحول میں ایسے الزامات لگائے گئے کہ ڈاکٹر حضرات اس سازش میں شامل ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کو موت کے گھاٹ اتار کر زیادہ سے زیادہ عالمی امداد کا حصول ممکن بنایا جائے۔ جہالت کی یہ انتہاء تھی۔ اس معاملے پر بھی سیاست کی گئی۔ حالانکہ یہ لاکھوں ، کروڑوں عوام کی زندگیوں کا معاملہ تھا۔
اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے W.H.O کا کردار اس ضمن میں انتہائی شاندار رہا۔ اس ادارے نے نہ صرف پوری دنیا کو اس بیماری کے حوالے سے بروقت خبردار کیا بلکہ اس وباء کے ماہرین کے انتہائی قیمتی مشوروں کو حکومتوں تک پہنچاتا رہا۔ جب دنیا کورونا کے حوالے سے زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھی تو عالمی صحت کے اس ادارے کو بھی سیاست کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ کارنامہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انجام دیا کہ انھوں نے اپنی سیاست کے لیے چین کو بدنام کرتے ہوئے اس ادارے پر الزامات کی بارش کر دی کہ اس نے ملی بھگت سے چین سے ملنے والی کورونا بارے معلومات کو ایک سازش کے تحت امریکا سے چھپایا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ٹرمپ نے عالمی ادارے صحت کو دی جانے والی امداد ہی بند کر دی۔
نیو یارک ٹائمز میں لکھے ایک مضمون کے مطابق سابق صدر ٹرمپ امریکا میں کووڈ سے جس بے ڈھنگے طریقے سے نمٹے وہ لوگ بھی موت کے منہ میں چلے گئے جنھیں ابھی مرنا نہیں تھا۔ اس حوالے سے قائم کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اگر ٹرمپ کورونا سے نمٹنے میں اپنے اتحادیوں کے ہی نقش قدم پر چلتے تو امریکا میں 40% سے زائد افراد کو مرنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ یعنی کم از کم 4لاکھ قیمتی انسانی جانیں بچائی جا سکتی تھیں جو سابق صدر ٹرمپ کی غیر سنجیدگی کی نذر ہو گئیں۔ اب تک امریکا میں 9لاکھ افراد اس وباء کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ کووڈ ایک عالمی وباء سے محض ایک موسمی وباء میں بدل جائے گا جیسا کہ وائٹ ہاؤس کے چیف میڈیکل مشیر انتھونی فوچی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر آپ وبائی امراض کی سابقہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ابھی تک ہم صرف ایک وباء کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور وہ چیچک ہے۔
کووڈ کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر فوچی کا مزید یہ کہنا تھا کہ اب ہمیں صرف اس بات کی امید رکھنی چاہیے کہ ہم کووڈ کو اس قدر نچلے لیول تک کمزور کر دیں کہ یہ ایک عام سا وبائی مرض بن جائے جس کا ہمیں عام طور پر سامنا رہتا ہے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ کووڈ کو ابھی ہماری زندگیوں میں ہمارے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ نباہ کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ نہ ہی اومی میکرون جس نے اس موسم سرما میں پوری دنیا میں تباہی مچائی ۔ ہماری زندگیوں کا آخری کورونا وائرس نہیں ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس اس بات کی بھی ضمانت نہیں ہے کہ کووڈ کی موجودہ ویکسین مستقبل میں سامنے آنے والے کورونا ویری اینٹس کے خلاف بھی کامیابی سے ہمارے جسم کا دفاع کر سکیں گی یا نہیں۔
انسانی نفسیات کی ٹیڑھ ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے تمام ممالک حتیٰ کہ امریکا ، یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے اکثریتی عوام بھی شامل ہیں جنھوں نے کورونا کی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ سچ ہے کہ انسان مستقل خوف کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔
مئی سے ستمبر، اکتوبر کے مہینے بتائیں گے کہ سائنسدان کس حد تک کورونا کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔