بہار کا موسم اور فیض میلہ
ہماری نوجوان نسل تو یہ جانتی بھی نہیں کہ ادیب کون ہوتا ہے اورادب کیسے تخلیق ہوتا ہے
LIVERPOOL:
سیاسی میدان میں ہنگامہ خیزی جاری ہے، سیاسی حالات میں دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے تبدیلی نظر آرہی ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح صورت سامنے نہیں آسکی۔
اپوزیشن پارٹیاں اپنا اپنا راگ الاپ رہی ہیں، دیکھتے ہیں کہ حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں، فی الحال سیاسی میدان میں ابہام اتنا زیادہ ہے کہ مستقبل کے متعلق کوئی بھی پیشنگوئی کرنا عقل مندی نہیں ہے کیونکہ ہمارے سیاسی نمایندے ایک مرتبہ پھر اِدھر اُدھر ہونے کی تیاریوں میں ہیں ۔
سیاسی میدان کی گرما گرمی تو ایک طرف رہی لاہورمیں بدلتے موسم اور بہار کو خوش آمدید کہنے کے لیے کچھ برس قبل تک تو بسنت کا مشہور ومعروف تہوار نہایت اہتمام سے منایا جاتا تھا لیکن ہم نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی اور اس خوبصورت تہوار کو شیشے اور کیمیکل لگی ڈور سے خونی تہوار میں بدل دیا، یوں لاہوریئے اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے اس تہوار کے لیے خصوصی طور پر لاہور آنے والے سیاح موسم بہار کے اس خوبصورت تہوار سے محروم ہو گئے۔
بہار ہی کے موسم میں لاہور میں ہارس اینڈ کیٹل شو کا بھی انعقاد ہوتا تھا اور کئی مہینے تیاریاں جاری رہتی تھیں ۔ ہارس اینڈ کیٹل شو میں پاکستان بھر سے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے شرکت کرتے تھے، ہر صوبے کے خوبصورت فلوٹ اس صوبے کے رسم و رواج کی نمایندگی کرتے' ان کے علاوہ ہر نسل کے خوبصورت جانوروںکی نمائش بھی اس شو میں لازم تھی ۔
کھیلوں کے مقابلے اور آتش بازی سے بھی حاظرین محضوظ ہوتے تھے لیکن اس اہم تہوارکو بھی سیکیورٹی خدشات کھا گئے اور سیکیورٹی کی وجہ سے لاہور کا فورٹریس اسٹیڈیم ویران ہو گیا،اب ایک بار پھر پنجاب حکومت نے لاہور کے اس خوبصورت تہوار کو زندہ کرنے کا خوش آیند اعلان کیا ہے اور اس کے انعقاد کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔
خزاں کا موسم رخصت ہو رہا ہے اور بہار کا خوشگوار موسم دستک دے رہا ہے۔ بہار کے خوبصورت موسم میں لاہور میں عوامی میلوں ٹھیلوں کے علاوہ ادبی میلے کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔ جناب فیض احمد فیض کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پاکستان بھر سے ان کے عشاق لاہورکے الحمرا ہال میں اکٹھے ہوئے اور ان کی یادیں تازہ کیں۔تین روزہ فیض ادبی میلہ بخیر وخوبی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
لاہور ایک ادب نواز شہر ہے جہاں ایک زمانے میں اپنے وقت کے عظیم شعراء قیام پذیر رہے اور اپنے شاگردوں کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔جس زمانے میں فیض صاحب ' سعادت حسن منٹو ' احمد ندیم قاسمی جیسے نامی گرامی اور بڑے لوگ لاہور میں موجود تھے تو لاہور کی ادب کے حوالے سے ایک الگ ہی پہچان اور شناخت تھی ،حوادث زمانہ کہ یہ بڑے لوگ ہمارے درمیان سے اٹھ گئے لیکن اپنی خوبصورت شاعری اور ادب کتابوں کی شکل میں ہمارے لیے چھوڑ گئے۔
اس طرح کی تقریبات گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہیں اور فیض صاحب جیسی بڑی شخصیت کو یاد کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ میری ایک معمولی سی نسبت فیض صاحب کے ساتھ یہ ہے کہ ان کے نواسے عدیل ہاشمی میرے ہم جماعت تھے اور ماڈل ٹاؤن کے سرکاری اسکول میں کئی برس ہم اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ر ہے۔ فیض صاحب کے ساتھ دوسری نسبت میرے مرحوم والد کی وجہ سے تھی، والد صاحب فیض صاحب کے ساتھ روابط کی باتیں سنایا کرتے تھے۔
فیض صاحب اس ہفت روزہ اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے جس کے والد صاحب ایک جونیئر کارکن تھے۔ پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے تھے ''کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں اتنے بڑے آدمی، اتنے بڑے شاعر سے بالمشافہ مل رہا تھااور وہ مجھ سے ہمکلام بھی تھے ۔
وہ اس قدر شیریں مزاج تھے کہ ان سے ہدایات لے کر اور چند جملے بول سن کر لطف آجاتا تھا۔ ان کی نشست و برخاست سے ہمارے دفتر میں جو حسن ہر سو پھیل جاتا تھا اور جو رنگ بکھر جاتے تھے وہ گویا میرے ایسے مبتدی لوگوں کے لیے ایک نعمت تھے۔ کسی صوفی کی مجلس میں ہربیٹھنے والے کو اس کا حصہ مل جاتا ہے، اس طرح مجھے بھی فیض صاحب کی طبیعت بہت کچھ عطا کر جاتی تھی''۔
فیض جیسے ادیب اور شاعرشاذو نادر ہی پیدا ہوتے ہیں جو ادب کے آداب کو برقرار رکھ کر ایسی تند و تیز بات کر سکتے ہیں کہ جس کا ذکر ہو وہ چین نہ لے سکے' ہمارے ہاں ادیبوں نے شعر و نثر میں ایسے ایسے تیر چلائے ہیں کہ ان کی چبھن کبھی ختم نہ ہوسکی۔ اخبار کی بات تو رات گئی بات گئی بن جاتی ہے لیکن ادیب کی طنز اور طعن و تشنج ہمیشہ کے لیے چپک جاتی ہے ۔معاشرے میں جس قدر حصہ اور کنٹری بیوشن ادیب کا ہوتا ہے، اتنا کسی سیٹھ ' صنعتکار' تاجر یا زمیندار کا نہیں ہو سکتا ۔
جب سے موبائل فون کی عفریت ہمارے ہاتھ میں پہنچی ہے وہ لوگ جو کسی نہ کسی بہانے کتاب پڑھ لیتے تھے انھوں نے بھی کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں ۔ ادب تو دور کسی کونے کھدرے میں چلا گیا ہے، ادبی جرائد نہ ہونے کے برابر ہیں اور کتابوں کی اشاعت کا یہ حال ہے کہ ادیبوں کو اپنی جیب سے کتابیں چھپوانے پڑتی ہیں۔
ہماری نوجوان نسل تو یہ جانتی بھی نہیں کہ ادیب کون ہوتا ہے اورادب کیسے تخلیق ہوتا ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اپنے شاندار ماضی سے جڑا رکھنے کے لیے فیض میلے جیسی تقریبات کا انعقاد کرتے رہنا چاہیے، ان کو یہ بتاتے رہنا ہے کہ ہمارے اسلاف اور مشاہیر کون تھے اور معاشرے کی نشو ونما میں ان کا کیا کردار ہے کیونکہ جس معاشرے میں اسلاف کو فراموش کر دیا جائے وہ معاشرے انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔
خونریزی اور غارت گری کے اس دور میں خوبصورت شعر، اچھی موسیقی اور دلکش آواز جو اثر دکھا سکتی ہے، وہ کسی تادیبی کارروائی سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ شعر و ادب انسانی ذہنوں شائستگی، نرمی اور گداز پیدا کرتا ہے ۔ گھنگھروؤں اور طبلے سارنگی کی آوازیں پہلے ہی گم ہو چکی ہیں، بس کچھ لوگوں کے ذہن میں چند یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں،اپنے مشاہیر کے افکار کے متعلق آیندہ نسلوں کوآگاہی دینا ہماری سماجی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری ہمیں ہر حال میں نبھانی ہے۔
سیاسی میدان میں ہنگامہ خیزی جاری ہے، سیاسی حالات میں دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے تبدیلی نظر آرہی ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح صورت سامنے نہیں آسکی۔
اپوزیشن پارٹیاں اپنا اپنا راگ الاپ رہی ہیں، دیکھتے ہیں کہ حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں، فی الحال سیاسی میدان میں ابہام اتنا زیادہ ہے کہ مستقبل کے متعلق کوئی بھی پیشنگوئی کرنا عقل مندی نہیں ہے کیونکہ ہمارے سیاسی نمایندے ایک مرتبہ پھر اِدھر اُدھر ہونے کی تیاریوں میں ہیں ۔
سیاسی میدان کی گرما گرمی تو ایک طرف رہی لاہورمیں بدلتے موسم اور بہار کو خوش آمدید کہنے کے لیے کچھ برس قبل تک تو بسنت کا مشہور ومعروف تہوار نہایت اہتمام سے منایا جاتا تھا لیکن ہم نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی اور اس خوبصورت تہوار کو شیشے اور کیمیکل لگی ڈور سے خونی تہوار میں بدل دیا، یوں لاہوریئے اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے اس تہوار کے لیے خصوصی طور پر لاہور آنے والے سیاح موسم بہار کے اس خوبصورت تہوار سے محروم ہو گئے۔
بہار ہی کے موسم میں لاہور میں ہارس اینڈ کیٹل شو کا بھی انعقاد ہوتا تھا اور کئی مہینے تیاریاں جاری رہتی تھیں ۔ ہارس اینڈ کیٹل شو میں پاکستان بھر سے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے شرکت کرتے تھے، ہر صوبے کے خوبصورت فلوٹ اس صوبے کے رسم و رواج کی نمایندگی کرتے' ان کے علاوہ ہر نسل کے خوبصورت جانوروںکی نمائش بھی اس شو میں لازم تھی ۔
کھیلوں کے مقابلے اور آتش بازی سے بھی حاظرین محضوظ ہوتے تھے لیکن اس اہم تہوارکو بھی سیکیورٹی خدشات کھا گئے اور سیکیورٹی کی وجہ سے لاہور کا فورٹریس اسٹیڈیم ویران ہو گیا،اب ایک بار پھر پنجاب حکومت نے لاہور کے اس خوبصورت تہوار کو زندہ کرنے کا خوش آیند اعلان کیا ہے اور اس کے انعقاد کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔
خزاں کا موسم رخصت ہو رہا ہے اور بہار کا خوشگوار موسم دستک دے رہا ہے۔ بہار کے خوبصورت موسم میں لاہور میں عوامی میلوں ٹھیلوں کے علاوہ ادبی میلے کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔ جناب فیض احمد فیض کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پاکستان بھر سے ان کے عشاق لاہورکے الحمرا ہال میں اکٹھے ہوئے اور ان کی یادیں تازہ کیں۔تین روزہ فیض ادبی میلہ بخیر وخوبی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
لاہور ایک ادب نواز شہر ہے جہاں ایک زمانے میں اپنے وقت کے عظیم شعراء قیام پذیر رہے اور اپنے شاگردوں کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔جس زمانے میں فیض صاحب ' سعادت حسن منٹو ' احمد ندیم قاسمی جیسے نامی گرامی اور بڑے لوگ لاہور میں موجود تھے تو لاہور کی ادب کے حوالے سے ایک الگ ہی پہچان اور شناخت تھی ،حوادث زمانہ کہ یہ بڑے لوگ ہمارے درمیان سے اٹھ گئے لیکن اپنی خوبصورت شاعری اور ادب کتابوں کی شکل میں ہمارے لیے چھوڑ گئے۔
اس طرح کی تقریبات گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہیں اور فیض صاحب جیسی بڑی شخصیت کو یاد کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ میری ایک معمولی سی نسبت فیض صاحب کے ساتھ یہ ہے کہ ان کے نواسے عدیل ہاشمی میرے ہم جماعت تھے اور ماڈل ٹاؤن کے سرکاری اسکول میں کئی برس ہم اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ر ہے۔ فیض صاحب کے ساتھ دوسری نسبت میرے مرحوم والد کی وجہ سے تھی، والد صاحب فیض صاحب کے ساتھ روابط کی باتیں سنایا کرتے تھے۔
فیض صاحب اس ہفت روزہ اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے جس کے والد صاحب ایک جونیئر کارکن تھے۔ پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے تھے ''کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں اتنے بڑے آدمی، اتنے بڑے شاعر سے بالمشافہ مل رہا تھااور وہ مجھ سے ہمکلام بھی تھے ۔
وہ اس قدر شیریں مزاج تھے کہ ان سے ہدایات لے کر اور چند جملے بول سن کر لطف آجاتا تھا۔ ان کی نشست و برخاست سے ہمارے دفتر میں جو حسن ہر سو پھیل جاتا تھا اور جو رنگ بکھر جاتے تھے وہ گویا میرے ایسے مبتدی لوگوں کے لیے ایک نعمت تھے۔ کسی صوفی کی مجلس میں ہربیٹھنے والے کو اس کا حصہ مل جاتا ہے، اس طرح مجھے بھی فیض صاحب کی طبیعت بہت کچھ عطا کر جاتی تھی''۔
فیض جیسے ادیب اور شاعرشاذو نادر ہی پیدا ہوتے ہیں جو ادب کے آداب کو برقرار رکھ کر ایسی تند و تیز بات کر سکتے ہیں کہ جس کا ذکر ہو وہ چین نہ لے سکے' ہمارے ہاں ادیبوں نے شعر و نثر میں ایسے ایسے تیر چلائے ہیں کہ ان کی چبھن کبھی ختم نہ ہوسکی۔ اخبار کی بات تو رات گئی بات گئی بن جاتی ہے لیکن ادیب کی طنز اور طعن و تشنج ہمیشہ کے لیے چپک جاتی ہے ۔معاشرے میں جس قدر حصہ اور کنٹری بیوشن ادیب کا ہوتا ہے، اتنا کسی سیٹھ ' صنعتکار' تاجر یا زمیندار کا نہیں ہو سکتا ۔
جب سے موبائل فون کی عفریت ہمارے ہاتھ میں پہنچی ہے وہ لوگ جو کسی نہ کسی بہانے کتاب پڑھ لیتے تھے انھوں نے بھی کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں ۔ ادب تو دور کسی کونے کھدرے میں چلا گیا ہے، ادبی جرائد نہ ہونے کے برابر ہیں اور کتابوں کی اشاعت کا یہ حال ہے کہ ادیبوں کو اپنی جیب سے کتابیں چھپوانے پڑتی ہیں۔
ہماری نوجوان نسل تو یہ جانتی بھی نہیں کہ ادیب کون ہوتا ہے اورادب کیسے تخلیق ہوتا ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اپنے شاندار ماضی سے جڑا رکھنے کے لیے فیض میلے جیسی تقریبات کا انعقاد کرتے رہنا چاہیے، ان کو یہ بتاتے رہنا ہے کہ ہمارے اسلاف اور مشاہیر کون تھے اور معاشرے کی نشو ونما میں ان کا کیا کردار ہے کیونکہ جس معاشرے میں اسلاف کو فراموش کر دیا جائے وہ معاشرے انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔
خونریزی اور غارت گری کے اس دور میں خوبصورت شعر، اچھی موسیقی اور دلکش آواز جو اثر دکھا سکتی ہے، وہ کسی تادیبی کارروائی سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ شعر و ادب انسانی ذہنوں شائستگی، نرمی اور گداز پیدا کرتا ہے ۔ گھنگھروؤں اور طبلے سارنگی کی آوازیں پہلے ہی گم ہو چکی ہیں، بس کچھ لوگوں کے ذہن میں چند یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں،اپنے مشاہیر کے افکار کے متعلق آیندہ نسلوں کوآگاہی دینا ہماری سماجی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری ہمیں ہر حال میں نبھانی ہے۔