ہمیں تو اپنوں نے ہی لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
سندھ فیسٹیول کی پنچ لائن کو بنانے والے اور اس پروگرام کا انعقاد کرنے والے مجھے تو ایک دوسرے کے دشمن معلوم ہوتے ہیں۔
KARACHI:
پاکستان کی آبادی ہو یا پاکستانی اداکاراوں کی عمریں کبھی آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی ۔ گزشتہ چار، پانچ برس سے پاکستان کی آبادی 18 کروڑ بتائی جارہی ہے یعنی نہ کوئی دنیا میں آرہا ہے اور نہ کوئی جارہا ہے ۔ خیر اس بات سے قطع نظر اصل مدع یہ تھا کہ اس 18 کروڑ کی آبادی میں 60 فیصد یعنی آدھی سے بھی زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جب بھی ہم 60 فیصد کہتے ہیں تو اس کا وزن کچھ کم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم کہیں کہ پاکستان کی18 کروڑآبادی میں 10 کروڑکی آبادی جوان خون پر مشتمل ہے تو بات سہی طرح سمجھ آتی ہے۔
اب آپ تصور کیجیے ان 10 کروڑ نوجوانوں میں سے وہ چند لاکھ نہیں، چند ہزار یا چند سو بھی نہیں بلکہ چند افراد کس قدر خوش نصیب ہونگے جن کو اس ملک کے لیے کچھ کرنے کا موقع حاصل ہو۔یہ اعزاز تو شاید اس طالبعلم کو ملنے والے انعام سے بھی کئی گنا بہتر ہے جو لاکھوں طلبہ و طالبات کی موجودگی میں اول پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ اور ہم جیسے لوگوں کے لیے تو یہ اعزاز رشک کرنے کے لیے کافی ہے جو علم ، علاج، روٹی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنی پوری زندگی صرف کردیتے ہیں ۔
یقیناً آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ ناجانے لکھنے والا درحقیقت کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ اور آپکا یہ سوچنا بالکل بجا ہے۔ درحقیقت میرا اشارہ حکمرانوں کی ان اولادوں کی طرف ہے جن کو یہ اعزاز بغیر کسی محنت اور جستجو کے اس لیے حاصل ہوگیا کہ وہ حاکم کی اولاد ہے۔جیسے ہم مسلمان صرف اس لیے ہیں کہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔اور اس حیثیت سے ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں کیونکہ ہم سب اپنے اپنے مرتبے اور مقام کی عزت و احترام سے عاری ہیں کیونکہ یہ سب ہمیں اتفاقیہ نصیب ہوگئیں۔
اس تمہید کا جو بنیادی مقصد تھا وہ ان حکمرانوں کی اولادوں کی ترجیحات پر روشنی ڈالنا تھی۔ گزشتہ ماہ سے ہر جانب سندھ فیسٹیول کا چرچہ عام تھا۔اختلافات سے قطع نظر سندھ فیسٹیول کے انعقاد کی خبر یقینی طور پر سندھ میں رہنے والے اکثر لوگوں کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں تھی۔اس کی وجہ بہت ہی سادہ تھی کہ اس بار مقامی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کا یہ بہترین موقع تھا۔
لیکن پھر ہوا کیا؟ ثقافت کے نام پر وہ کچھ ہوا جس کا شاید تصور بھی محال تھا۔وہ سندھی اجرک اور ٹوپی جس کا پورے ملک میں عزت و احترام اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اُسے خواتین کے نیم برہنہ جسموں کی زینت بنایا گیا۔ بھری محفلوں میں لڑکے لڑکیاں کسی جھجک کے بغیر ایک دوسرے سے ہاتھوں میں ہاتھ تھامے بوسے لیتے نظر آئے۔تاریخی ثقافت کی اصل شناخت کو جس قوت کے ساتھ مسمار کرنے کی کوشش کی گئی وہ کم ترین الفاظ میں بھی 'شرمندگی' سے کم نہیں تھا۔ اس فیسٹیول کے لیے جو پنچ لائن استعمال کی گئی وہ حقیقی معنوں میں بہت عمدہ تھی ۔
اپنی ثقافت پے ناز کرو ۔۔۔۔۔ پاکستان سے پیار کرو۔
اس پنچ لائن کو بنانے والے اور اس پروگرام کا انعقاد کرنے والے مجھے تو ایک دوسرے کے دشمن معلوم ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اس خوبصورت پنچ لائن کی ذرہ بھربھی جھلک دیکھنے کو نہیں ملی۔نہ ہی پاکستان کا کہیں نام و نشان تھا اور ثقافت پرناز کرنے کے لیے کچھ چھوڑا ہی نہیں۔اس فیسٹیول کو دیکھنے کے بعد میں نے کئی بار شکرادا کیا کہ اچھا ہوا بلاول میاں کے ذہن میں سندھ فیسٹیول کا ہی خیال آیا تو نقصان پھر کچھ کم ہوا۔خدانخواستہ اگر پاکستان فیسٹیول کا موڈ بن جاتا تو ناجانے نقصان کس قدر زیادہ ہوجاتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان کی آبادی ہو یا پاکستانی اداکاراوں کی عمریں کبھی آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی ۔ گزشتہ چار، پانچ برس سے پاکستان کی آبادی 18 کروڑ بتائی جارہی ہے یعنی نہ کوئی دنیا میں آرہا ہے اور نہ کوئی جارہا ہے ۔ خیر اس بات سے قطع نظر اصل مدع یہ تھا کہ اس 18 کروڑ کی آبادی میں 60 فیصد یعنی آدھی سے بھی زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جب بھی ہم 60 فیصد کہتے ہیں تو اس کا وزن کچھ کم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم کہیں کہ پاکستان کی18 کروڑآبادی میں 10 کروڑکی آبادی جوان خون پر مشتمل ہے تو بات سہی طرح سمجھ آتی ہے۔
اب آپ تصور کیجیے ان 10 کروڑ نوجوانوں میں سے وہ چند لاکھ نہیں، چند ہزار یا چند سو بھی نہیں بلکہ چند افراد کس قدر خوش نصیب ہونگے جن کو اس ملک کے لیے کچھ کرنے کا موقع حاصل ہو۔یہ اعزاز تو شاید اس طالبعلم کو ملنے والے انعام سے بھی کئی گنا بہتر ہے جو لاکھوں طلبہ و طالبات کی موجودگی میں اول پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ اور ہم جیسے لوگوں کے لیے تو یہ اعزاز رشک کرنے کے لیے کافی ہے جو علم ، علاج، روٹی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنی پوری زندگی صرف کردیتے ہیں ۔
یقیناً آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ ناجانے لکھنے والا درحقیقت کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ اور آپکا یہ سوچنا بالکل بجا ہے۔ درحقیقت میرا اشارہ حکمرانوں کی ان اولادوں کی طرف ہے جن کو یہ اعزاز بغیر کسی محنت اور جستجو کے اس لیے حاصل ہوگیا کہ وہ حاکم کی اولاد ہے۔جیسے ہم مسلمان صرف اس لیے ہیں کہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔اور اس حیثیت سے ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں کیونکہ ہم سب اپنے اپنے مرتبے اور مقام کی عزت و احترام سے عاری ہیں کیونکہ یہ سب ہمیں اتفاقیہ نصیب ہوگئیں۔
اس تمہید کا جو بنیادی مقصد تھا وہ ان حکمرانوں کی اولادوں کی ترجیحات پر روشنی ڈالنا تھی۔ گزشتہ ماہ سے ہر جانب سندھ فیسٹیول کا چرچہ عام تھا۔اختلافات سے قطع نظر سندھ فیسٹیول کے انعقاد کی خبر یقینی طور پر سندھ میں رہنے والے اکثر لوگوں کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں تھی۔اس کی وجہ بہت ہی سادہ تھی کہ اس بار مقامی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کا یہ بہترین موقع تھا۔
لیکن پھر ہوا کیا؟ ثقافت کے نام پر وہ کچھ ہوا جس کا شاید تصور بھی محال تھا۔وہ سندھی اجرک اور ٹوپی جس کا پورے ملک میں عزت و احترام اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اُسے خواتین کے نیم برہنہ جسموں کی زینت بنایا گیا۔ بھری محفلوں میں لڑکے لڑکیاں کسی جھجک کے بغیر ایک دوسرے سے ہاتھوں میں ہاتھ تھامے بوسے لیتے نظر آئے۔تاریخی ثقافت کی اصل شناخت کو جس قوت کے ساتھ مسمار کرنے کی کوشش کی گئی وہ کم ترین الفاظ میں بھی 'شرمندگی' سے کم نہیں تھا۔ اس فیسٹیول کے لیے جو پنچ لائن استعمال کی گئی وہ حقیقی معنوں میں بہت عمدہ تھی ۔
اپنی ثقافت پے ناز کرو ۔۔۔۔۔ پاکستان سے پیار کرو۔
اس پنچ لائن کو بنانے والے اور اس پروگرام کا انعقاد کرنے والے مجھے تو ایک دوسرے کے دشمن معلوم ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اس خوبصورت پنچ لائن کی ذرہ بھربھی جھلک دیکھنے کو نہیں ملی۔نہ ہی پاکستان کا کہیں نام و نشان تھا اور ثقافت پرناز کرنے کے لیے کچھ چھوڑا ہی نہیں۔اس فیسٹیول کو دیکھنے کے بعد میں نے کئی بار شکرادا کیا کہ اچھا ہوا بلاول میاں کے ذہن میں سندھ فیسٹیول کا ہی خیال آیا تو نقصان پھر کچھ کم ہوا۔خدانخواستہ اگر پاکستان فیسٹیول کا موڈ بن جاتا تو ناجانے نقصان کس قدر زیادہ ہوجاتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔