ریاست کو درپیش چیلنجز
پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب ہی سے اسے پے درپے طرح طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے۔۔۔
پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب ہی سے اسے پے درپے طرح طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے جس کا بنیادی سبب اس کا وجود ہی ہے جو ہمارے ازلی دشمنوں کی آنکھ میں شروع سے ہی بری طرح کھٹکتا ہے۔ ان کا بس چلتا تو وہ اس مملکت خداداد کا جنم ہی نہ ہونے دیتے۔ چنانچہ جب حکم ربی کے تحت یہ ملک دنیا کے نقشے پر ابھرکر سامنے آگیا تو انھوں نے اسے تنگ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس سازش کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ایما پر ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت برصغیر کی بندر بانٹ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں نہ صرف وہ علاقے بھارت کے پاس چلے گئے جو اصولاً پاکستان کو ملنے تھے بلکہ کشمیر کا تنازعہ بھی پیدا ہوگیا جس کے نتائج کشمیریوں اور ہمیں بھی آج تک بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ تقسیم کے بعد بھارت نے وہ اثاثے بھی ہڑپ کرلیے جو پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ اس باعث نوزائیدہ مملکت پاکستان کو بیشمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں بڑی دشواریاں پیش آئیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اس وقت کی قیادت اور انتظامیہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار نہ ہوتی تو وطن عزیز کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا پھر اس کے کچھ ہی عرصے بعد بھارت نے کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے کی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرایا اور جب اسے اس میں ناکامی ہوتے ہوئے نظر آئی تو اس نے اقوام متحدہ میں ریاست کے مستقبل کے فیصلے کے لیے استصواب رائے کرانے کا وعدہ کیا مگر وہ اس سے بھی مکر گیا اور آج تک فوج کے بل بوتے پر کشمیر جنت نظیر پر اپنا ناجائز قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور نہتے حریت پسندوں پر مسلسل انسانیت سوز مظالم ڈھائے چلا جا رہا ہے اورکشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ لگا رہا ہے۔ تنازعہ کشمیر ہی کے بطن سے 1965 کی جنگ نے جنم لیا جس کے نتیجے میں زبردست تباہی ہوئی۔
پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی بھارت نے پاکستان کے خلاف جو ریشہ دوانیاں شروع کی تھیں سقوط مشرقی پاکستان بھی اسی کا نتیجہ تھا جس کے باعث ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ یہ بھی بھارت ہی تھا جس کی لابی نے سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات کے قیام میں ہر طرح کے روڑے اٹکائے۔ پڑوسی برادر ملک افغانستان کی قیادت کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں بھی بھارت ہی کا ہاتھ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان میں موجود بھارت نواز سیاسی حلقوں نے نام نہاد تحریک چلائی جسے اس وقت کی افغان حکومت کی بھرپور سیاسی حمایت حاصل تھی جوکہ بھارت اور روس کی پٹھو حکومت تھی۔ افغانستان کی وہ حکومت پاکستان کے اس حد تک خلاف تھی کہ اس نے اس مملکت نوزائیدہ کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا اور اسلامی بھائی چارے اور اخوت کے تقاضوں کے تقدس کو بھی پامال کردیا۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت بھی بھارت ہی کا دم بھرتی ہے حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اگر پاکستان اپنے دل میں نرم گوشہ نہ رکھ کر افغانستان کو راہداری کی سہولتیں فراہم کرنے سے انکار کردے تو افغان حکومت کا ناطقہ بند ہوجائے۔ افغانستان اور اس کے عوام کے لیے اسلامی بھائی چارے کی بنا پر ہی پاکستان نے روسی جارحیت کے بعد لاکھوں افغان باشندوں کو اپنی سرزمین پر نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی کفالت کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھا لیا جس کا خمیازہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مختلف صورتوں میں آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے اور افغانستان کی حکومت ہے کہ اس کے جواب میں خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کے جال بننے میں مصروف ہے۔
اس کے برعکس ایران کے ساتھ پاکستان کے باہمی تعلقات قیام پاکستان کے روز اول ہی سے بیحد برادرانہ اور دوستانہ ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے اس پڑوسی نے ہمارے وجود کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ دونوں ممالک میں حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں لیکن یہ باہمی تعلقات اسی طرح برقرار اور استوار رہے۔ آر سی ڈی اور ای سی او جیسی تنظیموں کے قیام کے نتیجے میں ان تعلقات کو مزید فروغ اور استحکام حاصل ہوا اور ان کا دائرہ کار ایک اور برادر ملک ترکی تک وسیع ہو گیا مگر بھارتی لابی عرصہ دراز سے پاک ایران تعلقات کو بگاڑنے کے لیے بھی مسلسل کوشاں ہے۔ حال ہی میں ایرانی علاقے میں سرحدی محافظوں کے اغوا کے حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ کا یہ سخت بیان کہ اگر حکومت پاکستان نے انھیں بازیاب نہ کرایا تو ایران اپنے مغویوں کی تلاش کے لیے اپنی فوجیں پاکستان میں داخل کردے گا اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی معلوم ہوتا ہے۔
اس طرح کی بیان بازی معقولیت پسندی سے عاری ہے اور بلاوجہ کی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ بات بھی بعید از امکان نہیں ہے کہ اغوا کار اور مغوی دونوں ہی ایران کے اپنے ہی علاقے میں موجود ہوں۔ ایران کا اس قسم کا شدید اور اشتعال انگیز ردعمل دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کے نہ صرف منافی ہے بلکہ انتہائی غیر دانش مندانہ اور قطعی غیر ضروری بھی ہے۔ ایران کی حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس پورے خطے میں ایسی کئی غیر ریاستی قوتیں سرگرم عمل ہیں جو امن و سلامتی اور باہمی تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر پاکستانی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بالکل بجا طور پر یہ کہا کہ ایرانی حکام کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ ایف سی نے پورے علاقے کی تلاشی اور چھان بین کے بعد واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ اغوا شدہ ایرانی سرحدی محافظوں کے پاکستان میں داخلے یا موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
ترجمان خاتون نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان کو بجا طور پر انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کو پاکستان میں اپنی فوج بھیجنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ چونکہ پاکستان اور ایران کی سرحدیں متصل ہیں لہٰذا بعض مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ دونوں ملک آپسی بھائی چارے کے جذبے کے تحت ان مسائل کو باہمی تعاون اور پیار و محبت کے ساتھ حل کریں اور ذرا سی بات کا بتنگڑ نہ بننے دیں۔ لازم ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک میں سے کوئی بھی صبر و تحمل کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
پاکستان کو اس وقت انتہائی سنگین صورتحال کا سامنا ہے اس وقت وطن عزیز میں دو متوازی جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ ایک جنگ وہ ہے جو مخالف قوتیں پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف لڑنے میں مصروف ہیں اور دوسری جنگ وہ ہے جو ریاست پاکستان اور اندرون سندھ و بلوچستان کے درمیان مدت دراز سے جاری ہے۔ شہر قائد کراچی اس جنگ کا سب سے بڑا نشانہ بنا ہوا ہے جہاں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور بھتہ خوری کا بازار انتہائی گرم ہے۔ اگرچہ انسداد دہشتگردی کے تمام ادارے دہشتگردی کے اس عفریت کے خلاف پوری قوت اور عزم صمیم کے ساتھ صف آرا ہیں اور بے دریغ قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود تخریبی کارروائیوں کا طوفان ہے کہ کسی بھی صورت تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کے عوام سخت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ نہ ان کی جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ عام تاثر یہی ہے کہ حکومت بے بسی کے عالم میں ہے اور اس کی رٹ دور پرے تک کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بلاتاخیر کوئی کارگر حکمت عملی وضع کرے اور اندرونی و بیرونی دونوں محاذوں پر منڈلاتے ہوئے سنگین چیلنجوں کا بھرپور عزم اور پامردی کے ساتھ مقابلہ کرے تاکہ پاکستان کے عوام سکھ اور چین کا سانس لے سکیں اور حکومت کے تمام منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں۔ ہمت مرداں مدد خدا۔
اس کے علاوہ تقسیم کے بعد بھارت نے وہ اثاثے بھی ہڑپ کرلیے جو پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ اس باعث نوزائیدہ مملکت پاکستان کو بیشمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں بڑی دشواریاں پیش آئیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اس وقت کی قیادت اور انتظامیہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار نہ ہوتی تو وطن عزیز کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا پھر اس کے کچھ ہی عرصے بعد بھارت نے کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے کی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرایا اور جب اسے اس میں ناکامی ہوتے ہوئے نظر آئی تو اس نے اقوام متحدہ میں ریاست کے مستقبل کے فیصلے کے لیے استصواب رائے کرانے کا وعدہ کیا مگر وہ اس سے بھی مکر گیا اور آج تک فوج کے بل بوتے پر کشمیر جنت نظیر پر اپنا ناجائز قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور نہتے حریت پسندوں پر مسلسل انسانیت سوز مظالم ڈھائے چلا جا رہا ہے اورکشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ لگا رہا ہے۔ تنازعہ کشمیر ہی کے بطن سے 1965 کی جنگ نے جنم لیا جس کے نتیجے میں زبردست تباہی ہوئی۔
پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی بھارت نے پاکستان کے خلاف جو ریشہ دوانیاں شروع کی تھیں سقوط مشرقی پاکستان بھی اسی کا نتیجہ تھا جس کے باعث ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ یہ بھی بھارت ہی تھا جس کی لابی نے سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات کے قیام میں ہر طرح کے روڑے اٹکائے۔ پڑوسی برادر ملک افغانستان کی قیادت کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں بھی بھارت ہی کا ہاتھ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان میں موجود بھارت نواز سیاسی حلقوں نے نام نہاد تحریک چلائی جسے اس وقت کی افغان حکومت کی بھرپور سیاسی حمایت حاصل تھی جوکہ بھارت اور روس کی پٹھو حکومت تھی۔ افغانستان کی وہ حکومت پاکستان کے اس حد تک خلاف تھی کہ اس نے اس مملکت نوزائیدہ کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا اور اسلامی بھائی چارے اور اخوت کے تقاضوں کے تقدس کو بھی پامال کردیا۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت بھی بھارت ہی کا دم بھرتی ہے حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اگر پاکستان اپنے دل میں نرم گوشہ نہ رکھ کر افغانستان کو راہداری کی سہولتیں فراہم کرنے سے انکار کردے تو افغان حکومت کا ناطقہ بند ہوجائے۔ افغانستان اور اس کے عوام کے لیے اسلامی بھائی چارے کی بنا پر ہی پاکستان نے روسی جارحیت کے بعد لاکھوں افغان باشندوں کو اپنی سرزمین پر نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی کفالت کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھا لیا جس کا خمیازہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مختلف صورتوں میں آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے اور افغانستان کی حکومت ہے کہ اس کے جواب میں خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کے جال بننے میں مصروف ہے۔
اس کے برعکس ایران کے ساتھ پاکستان کے باہمی تعلقات قیام پاکستان کے روز اول ہی سے بیحد برادرانہ اور دوستانہ ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے اس پڑوسی نے ہمارے وجود کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ دونوں ممالک میں حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں لیکن یہ باہمی تعلقات اسی طرح برقرار اور استوار رہے۔ آر سی ڈی اور ای سی او جیسی تنظیموں کے قیام کے نتیجے میں ان تعلقات کو مزید فروغ اور استحکام حاصل ہوا اور ان کا دائرہ کار ایک اور برادر ملک ترکی تک وسیع ہو گیا مگر بھارتی لابی عرصہ دراز سے پاک ایران تعلقات کو بگاڑنے کے لیے بھی مسلسل کوشاں ہے۔ حال ہی میں ایرانی علاقے میں سرحدی محافظوں کے اغوا کے حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ کا یہ سخت بیان کہ اگر حکومت پاکستان نے انھیں بازیاب نہ کرایا تو ایران اپنے مغویوں کی تلاش کے لیے اپنی فوجیں پاکستان میں داخل کردے گا اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی معلوم ہوتا ہے۔
اس طرح کی بیان بازی معقولیت پسندی سے عاری ہے اور بلاوجہ کی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ بات بھی بعید از امکان نہیں ہے کہ اغوا کار اور مغوی دونوں ہی ایران کے اپنے ہی علاقے میں موجود ہوں۔ ایران کا اس قسم کا شدید اور اشتعال انگیز ردعمل دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کے نہ صرف منافی ہے بلکہ انتہائی غیر دانش مندانہ اور قطعی غیر ضروری بھی ہے۔ ایران کی حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس پورے خطے میں ایسی کئی غیر ریاستی قوتیں سرگرم عمل ہیں جو امن و سلامتی اور باہمی تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر پاکستانی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بالکل بجا طور پر یہ کہا کہ ایرانی حکام کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ ایف سی نے پورے علاقے کی تلاشی اور چھان بین کے بعد واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ اغوا شدہ ایرانی سرحدی محافظوں کے پاکستان میں داخلے یا موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
ترجمان خاتون نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان کو بجا طور پر انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کو پاکستان میں اپنی فوج بھیجنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ چونکہ پاکستان اور ایران کی سرحدیں متصل ہیں لہٰذا بعض مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ دونوں ملک آپسی بھائی چارے کے جذبے کے تحت ان مسائل کو باہمی تعاون اور پیار و محبت کے ساتھ حل کریں اور ذرا سی بات کا بتنگڑ نہ بننے دیں۔ لازم ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک میں سے کوئی بھی صبر و تحمل کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
پاکستان کو اس وقت انتہائی سنگین صورتحال کا سامنا ہے اس وقت وطن عزیز میں دو متوازی جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ ایک جنگ وہ ہے جو مخالف قوتیں پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف لڑنے میں مصروف ہیں اور دوسری جنگ وہ ہے جو ریاست پاکستان اور اندرون سندھ و بلوچستان کے درمیان مدت دراز سے جاری ہے۔ شہر قائد کراچی اس جنگ کا سب سے بڑا نشانہ بنا ہوا ہے جہاں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور بھتہ خوری کا بازار انتہائی گرم ہے۔ اگرچہ انسداد دہشتگردی کے تمام ادارے دہشتگردی کے اس عفریت کے خلاف پوری قوت اور عزم صمیم کے ساتھ صف آرا ہیں اور بے دریغ قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود تخریبی کارروائیوں کا طوفان ہے کہ کسی بھی صورت تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کے عوام سخت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ نہ ان کی جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ عام تاثر یہی ہے کہ حکومت بے بسی کے عالم میں ہے اور اس کی رٹ دور پرے تک کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بلاتاخیر کوئی کارگر حکمت عملی وضع کرے اور اندرونی و بیرونی دونوں محاذوں پر منڈلاتے ہوئے سنگین چیلنجوں کا بھرپور عزم اور پامردی کے ساتھ مقابلہ کرے تاکہ پاکستان کے عوام سکھ اور چین کا سانس لے سکیں اور حکومت کے تمام منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں۔ ہمت مرداں مدد خدا۔