وفاقی حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن 20 پر عملدرآمد روک دیا اٹارنی جنرل
وزیر اعظم کو پیکا ترمیمی آرڈیننس سیکشن 20 پر آگاہ کیا تو انہوں نے کہا "یہ کیسے ہوگیا"، اٹارنی جنرل
HYDERABAD:
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن 20 پر عمل درآمد روک دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پی بی اے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواستوں پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن 20 پر عمل روک دیا اور آرڈیننس پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ایم این اے کنول شوذب اسلام آباد ہائی کورٹ میں رو پڑیں
ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے پیش ہوکر بتایا کہ تین سال میں دو لاکھ 44 ہزار شکایات درج ہوئیں ہیں، جن میں سے سیکشن 20 کے تحت 94 ہزار شکایات ہیں لیکن سیکشن 20 کے تحت کوئی گرفتاری نہیں کی، سیکشن 20 کے ساتھ دیگر سیکشنز کا اضافہ ہو تو گرفتاری ہوتی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ٹی وی پروگرامز پیکا 20 کے تحت نہیں آتے، محسن بیگ کی ایف آئی آر اختیارات کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے ، کیوں یہ اختیار صرف پبلک آف ہولڈر کو فائدہ پہنچانے کے استعمال کیا جارہا ہے، محسن بیگ نے جو کچھ کہا یہ بتائیں کہ اس پر کون سی دفعہ لگتی ہے؟، ہو سکتا ہے کہ کتاب میں وزیر کے بارے میں اچھی باتیں لکھی گئی ہوں، ایف آئی آے نے فرض کرلیا کہ وہاں کچھ غلط ہی لکھا گیا ہے اور انکوائری کے بغیر اسی روز بندے کو گرفتار کر لیا، کیا آپ نے یہ سارا تجزیہ کمپلینٹ فائل ہونے سے پہلے ہی کر لیا تھا؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ محسن بیگ کی شکایت کرنے والا خود وزیراعظم کو defame بدنام کر رہا ہے، اس کتاب میں کوئی اچھی چیز بھی لکھی گئی ہو گی، جن کا ذہن خراب ہے وہ کتاب کے اس صفحے کی غلط تشریح کرے گا، آپ اس ملک کو کدھر لے جانا چاہ رہے ہیں کہ کوئی تنقید نا ہو، دنیا ڈی کرمنالائزیشن کی طرف جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میں اس معاملے پر وزیراعظم سے بھی ملا ہوں، جب یہ آرڈی نینس آیا تو پتہ چلا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، میں نے وزیر اعظم کے سامنے تین چار ایشو اٹھائے ، میری رائے کے مطابق نیچرل پرسن کی تعریف اور ٹی وی کو پیکا کے تحت ریگولیٹ کرنے کی ضرورت نہیں، میرے خیال سے یہ ترمیم برقرار نہیں رہ سکتی، میڈیا کے تمام نمائندگان اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، وزیر اعظم کو پیکا ترمیمی آرڈیننس سیکشن 20 پر آگاہ کیا تو انہوں نے کہا "یہ کیسے ہوگیا؟" میں نے جواب دیا کہ یہ ہماری غلطی ہے۔
اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس کے تناظر میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے تیار ہے، ایک کمیشن بنے گا جس کی سفارش کے بغیر کارروائی نہیں چل سکے گی، سابق ہائی کورٹ کے جج ، سول سوسائٹی ممبرز رکھ کر ایک فورم بنایا جا سکتا ہے، وزیراعظم کو بتایا کہ ترمیمی آرڈی نینس سے کچھ چیزیں تو واپس ہوں گی، ہم پی ایف یو جے، سی پی این ای اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لیں گے، عدالت کا حکم موجود ہے، ترمیمی آرڈی نینس کے تحت کوئی کیس نہیں چلے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی عوامی شخصیت فوجداری Defamation کا سہارا نہیں لے سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کہا جائے پبلک آفس ہولڈر نے ملک کو تباہ کردیا ساتھ کہہ دے اس کی بیٹی بھاگ گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب کیوں کسی کو بھی سوشل میڈیا سے پریشان ہونا چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، اگر سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں کو روک دیں تو جو کچھ سوشل میڈیا پر ہورہا ہے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یورپ کی بات کریں تو وہاں سزائے موت ختم ہو گئی، پھر کیا ہم بھی ختم کر دیں، عوامی شخصیت پر بے شک تنقید کریں کہ کرپشن کر لی، مگر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی بیٹی بھاگ گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لیے سول قوانین موجود ہیں، کوئی سوشل میڈیا سے کیوں پریشان ہو؟ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی طرف سے بیان دے رہے ہیں وہ بہت مناسب ہیں، اٹارنی جنرل نے ایف آئی اے اور وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی ہے سیکشن 20 سے کوئی متاثر نہیں ہو گا، ہو سکتا ہے کہ سارے اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں تو یہ آرڈی نینس ہی واپس ہو جائے، اگر یہ قانون رہا اور ہتک عزت کو فوجداری بنایا گیا تو سارے سیاست دان بھی اور وی لاگرز بھی جیل میں ہوں گے، یہ عدالت پاکستان کو بھارت بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔
پی ایف یو جے کے وکیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے آدھے آرڈی نینس کی حد تک تو خود ہی کہہ دیا کہ وہ اس کا دفاع نہیں کرتے، ہم ان کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔
اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ جب تک عدالت کے سامنے رپورٹ نہیں آجاتی تب تک ترمیمی آرڈیننس پر عمل نہیں ہو گا اور ایف آئی اے سیکشن 20 کے تحت کوئی گرفتار نہیں کرے گی، وزیر اعظم کچھ وجوہات کی بنا پر مصروف ہیں اس لیے اس حوالے سے زیادہ وقت دیا جائے، انشا اللہ اس مرحلے سے نکل جائیں گے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 20 کا دفاع نہیں کرسکتا، میں خود کہہ چکا ہوں کہ پیکا ترمیمی آرڈی نینس کی موجودہ شکل میں اس کے ڈریکونین اثرات ہوں گے۔
چیف کیس نے کہا کہ وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کو مینڈیٹ دیا ہے تو ان کو کوشش کرنے دیں، پٹیشن اس دوران زیر التوا رہیں گی، یہ کورٹ کو مطمئن کریں گے کہ ترمیمی آرڈی نینس کا غلط استعمال اور منفی اثرات نہیں ہوں گے، سول قوانین میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے، ان میں بھی بہتری لائیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے سیکشن 20 پر حتمی دلائل کی ہدایت کردی۔
اس کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی ایم این اے کنول شوذب بھی عدالت میں پیش ہوئیں اور روتے ہوئے بتایا کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر نازیبا گفتگو کی جاتی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن 20 پر عمل درآمد روک دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پی بی اے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواستوں پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کی سیکشن 20 پر عمل روک دیا اور آرڈیننس پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ایم این اے کنول شوذب اسلام آباد ہائی کورٹ میں رو پڑیں
ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے پیش ہوکر بتایا کہ تین سال میں دو لاکھ 44 ہزار شکایات درج ہوئیں ہیں، جن میں سے سیکشن 20 کے تحت 94 ہزار شکایات ہیں لیکن سیکشن 20 کے تحت کوئی گرفتاری نہیں کی، سیکشن 20 کے ساتھ دیگر سیکشنز کا اضافہ ہو تو گرفتاری ہوتی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ٹی وی پروگرامز پیکا 20 کے تحت نہیں آتے، محسن بیگ کی ایف آئی آر اختیارات کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے ، کیوں یہ اختیار صرف پبلک آف ہولڈر کو فائدہ پہنچانے کے استعمال کیا جارہا ہے، محسن بیگ نے جو کچھ کہا یہ بتائیں کہ اس پر کون سی دفعہ لگتی ہے؟، ہو سکتا ہے کہ کتاب میں وزیر کے بارے میں اچھی باتیں لکھی گئی ہوں، ایف آئی آے نے فرض کرلیا کہ وہاں کچھ غلط ہی لکھا گیا ہے اور انکوائری کے بغیر اسی روز بندے کو گرفتار کر لیا، کیا آپ نے یہ سارا تجزیہ کمپلینٹ فائل ہونے سے پہلے ہی کر لیا تھا؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ محسن بیگ کی شکایت کرنے والا خود وزیراعظم کو defame بدنام کر رہا ہے، اس کتاب میں کوئی اچھی چیز بھی لکھی گئی ہو گی، جن کا ذہن خراب ہے وہ کتاب کے اس صفحے کی غلط تشریح کرے گا، آپ اس ملک کو کدھر لے جانا چاہ رہے ہیں کہ کوئی تنقید نا ہو، دنیا ڈی کرمنالائزیشن کی طرف جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میں اس معاملے پر وزیراعظم سے بھی ملا ہوں، جب یہ آرڈی نینس آیا تو پتہ چلا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، میں نے وزیر اعظم کے سامنے تین چار ایشو اٹھائے ، میری رائے کے مطابق نیچرل پرسن کی تعریف اور ٹی وی کو پیکا کے تحت ریگولیٹ کرنے کی ضرورت نہیں، میرے خیال سے یہ ترمیم برقرار نہیں رہ سکتی، میڈیا کے تمام نمائندگان اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، وزیر اعظم کو پیکا ترمیمی آرڈیننس سیکشن 20 پر آگاہ کیا تو انہوں نے کہا "یہ کیسے ہوگیا؟" میں نے جواب دیا کہ یہ ہماری غلطی ہے۔
اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس کے تناظر میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے تیار ہے، ایک کمیشن بنے گا جس کی سفارش کے بغیر کارروائی نہیں چل سکے گی، سابق ہائی کورٹ کے جج ، سول سوسائٹی ممبرز رکھ کر ایک فورم بنایا جا سکتا ہے، وزیراعظم کو بتایا کہ ترمیمی آرڈی نینس سے کچھ چیزیں تو واپس ہوں گی، ہم پی ایف یو جے، سی پی این ای اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لیں گے، عدالت کا حکم موجود ہے، ترمیمی آرڈی نینس کے تحت کوئی کیس نہیں چلے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی عوامی شخصیت فوجداری Defamation کا سہارا نہیں لے سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کہا جائے پبلک آفس ہولڈر نے ملک کو تباہ کردیا ساتھ کہہ دے اس کی بیٹی بھاگ گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب کیوں کسی کو بھی سوشل میڈیا سے پریشان ہونا چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، اگر سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں کو روک دیں تو جو کچھ سوشل میڈیا پر ہورہا ہے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یورپ کی بات کریں تو وہاں سزائے موت ختم ہو گئی، پھر کیا ہم بھی ختم کر دیں، عوامی شخصیت پر بے شک تنقید کریں کہ کرپشن کر لی، مگر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی بیٹی بھاگ گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے لیے سول قوانین موجود ہیں، کوئی سوشل میڈیا سے کیوں پریشان ہو؟ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی طرف سے بیان دے رہے ہیں وہ بہت مناسب ہیں، اٹارنی جنرل نے ایف آئی اے اور وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی ہے سیکشن 20 سے کوئی متاثر نہیں ہو گا، ہو سکتا ہے کہ سارے اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں تو یہ آرڈی نینس ہی واپس ہو جائے، اگر یہ قانون رہا اور ہتک عزت کو فوجداری بنایا گیا تو سارے سیاست دان بھی اور وی لاگرز بھی جیل میں ہوں گے، یہ عدالت پاکستان کو بھارت بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔
پی ایف یو جے کے وکیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے آدھے آرڈی نینس کی حد تک تو خود ہی کہہ دیا کہ وہ اس کا دفاع نہیں کرتے، ہم ان کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔
اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ جب تک عدالت کے سامنے رپورٹ نہیں آجاتی تب تک ترمیمی آرڈیننس پر عمل نہیں ہو گا اور ایف آئی اے سیکشن 20 کے تحت کوئی گرفتار نہیں کرے گی، وزیر اعظم کچھ وجوہات کی بنا پر مصروف ہیں اس لیے اس حوالے سے زیادہ وقت دیا جائے، انشا اللہ اس مرحلے سے نکل جائیں گے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 20 کا دفاع نہیں کرسکتا، میں خود کہہ چکا ہوں کہ پیکا ترمیمی آرڈی نینس کی موجودہ شکل میں اس کے ڈریکونین اثرات ہوں گے۔
چیف کیس نے کہا کہ وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کو مینڈیٹ دیا ہے تو ان کو کوشش کرنے دیں، پٹیشن اس دوران زیر التوا رہیں گی، یہ کورٹ کو مطمئن کریں گے کہ ترمیمی آرڈی نینس کا غلط استعمال اور منفی اثرات نہیں ہوں گے، سول قوانین میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے، ان میں بھی بہتری لائیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے سیکشن 20 پر حتمی دلائل کی ہدایت کردی۔
اس کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی ایم این اے کنول شوذب بھی عدالت میں پیش ہوئیں اور روتے ہوئے بتایا کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر نازیبا گفتگو کی جاتی ہے۔