سلیم احمد… تیز ہوا کے شور میں

سلیم احمد نے یوں تو ساری عمرہی علمی و ادبی ہنگاموں میں گزاری لیکن آخری چند برسوں میں یہ ہنگامے تیز سے تیز تر ہوتے گئے

سلیم احمد ایم پرمغز، تخلیقی اور ہمہ تن ادب کی آبیاری کرنے والے انسان تھے، انھوں نے ڈرامے بھی لکھے، کالم نگاری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا، وہ بیدار مغز نقاد بھی تھے، ایک اچھے شاعر بھی تھے نیز شعر و ادب کے لیے جو کچھ وہ کرسکتے تھے انھوں نے کیا، وہ بلاشبہ مختلف الجہات آدمی تھے، ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے لیے ڈرامے لکھے تو بہترین ڈرامہ نویس قرار پائے۔ انھوں نے نسیم حجازی کے ناول ''آخری چٹان'' کی ڈرامائی تشکیل بھی کی اور پاکستان ٹی وی کے بے پناہ مقبول ڈرامے سے انھوں نے خوب نام کمایا، کالم نگاری کی صورت میں سلیم احمد کی ایک اور صلاحیت منظر عام پر آئی۔ 1966 میں انھوں نے روزنامہ حریت کراچی میں پہلی بار کالم لکھنا شروع کیا، ''مجھے کہنا ہے کچھ'' کے عنوان سے، روزنامہ جسارت میں ''روبرو'' کے عنوان سے کالم لکھے اور ہفت روزہ ''زندگی'' میں بھی کبھی اپنے نام سے اور کبھی کسی قلمی نام سے سیاسی نوعیت کے کالم لکھے، اور انھوں نے بحیثیت وفاقی مشیر برائے اطلاعات جیسی ملازمت گو کہ چند مہینوں پر مشتمل تھی نہایت دانشمندی اور دیانتداری سے انجام دی۔

سلیم احمد نے یوں تو ساری عمر ہی علمی و ادبی ہنگاموں میں گزاری لیکن آخری چند برسوں میں یہ ہنگامے تیز سے تیز تر ہوتے گئے۔ علم و ادب کے ساتھ ساتھ مذہب اور سیاست سے جو دلچسپی بچپن میں پیدا ہوگئی تھی وہ وقت کے ساتھ زیادہ ہوتی چلی گئی۔ سلیم احمد ایک تخلیقی شخصیت تھے۔ مجموعی طور پر ان کا تخلیقی سفر کم و بیش 45 برسوں پر محیط ہے، اس سفر کے ابتدائی پانچ برسوں کو نومشقی کا زمانہ بھی سمجھ لیا جائے۔ تب بھی وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے، غالباً لکھنا، لکھانا ان کے لیے وظیفہ حیات تھا۔ اگر وہ نہ لکھتے تو شاید زندگی سے اکتا جاتے، اور ان کا اندرونی کرب بڑھتا رہتا۔ یہ شاید ہر تخلیقی شخصیت کے ساتھ ہوسکتا ہے چاہے وہ مصور ہو کہ شاعر، ادیب ہو کہ افسانہ نگار، کچھ نہ کرنا Ability کے ہوتے ہوئے بیکاری کو جنم دیتا ہے لیکن یہ بیکاری کسی تخلیقی عمل(Creative Activity) کے نہ ہونے پر عمل میں آتی ہے۔ سلیم احمد صاحب کی اولین ترجیح تو شاعری ہی تھی، بعد میں یہ دلچسپی فکشن کی طرف آنے سے کچھ کم ہوئی اور پچاس کی دہائی کے آتے آتے وہ باقاعدہ تنقید نگار ہوگئے اور ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ ''ادبی اقدار'' 1956 میں شایع ہوا۔ اسی طرح ''نئی نظم اور پورا آدمی'' ان کی دوستی تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب 1962 میں اشاعتی عمل سے گزری۔

غالباً سلیم احمد کا پہلا شعری مجموعہ ''بیاض'' 1966 بھی سامنے آیا۔ 1970 کی دہائی میں ''اقبال۔ ایک شاعر'' اور ''محمد حسن عسکری، آدمی یا انسان'' لکھیں۔ 1945 سے 1980 تک پچیس برسوں میں سلیم احمد کے تنقیدی مضامین کے تقریباً 6 مجموعے منظر عام پر آئے جب کہ شاعری کی صرف 2 کتابیں شایع ہوئیں۔ سلیم احمد کا تیسرا شعری مجموعہ ''چراغ نیم شب'' ان کی وفات کے بعد 1985 میں چھپ سکا۔ شاعری کی ایک کتاب ''مشرق'' کی تشہیر کئی برس تک ہوتی رہی مگر یہ بھی مرحوم کی وفات کے 6 سال بعد 1989 میں منظر عام پر آئی۔اسی طرح اخباری کالموں کا ایک انتخاب بعنوان ''اسلامی نظام مسائل اور تجزیے'' بھی ان کی وفات کے بعد 1984 کے وسط میں منظر عام پر آیا۔ سلیم احمد کی پہچان ان کا ڈرامہ ہے، حیرت انگیز طور پر ان کے ڈراموں کا کوئی بھی مجموعہ شایع نہیں ہوسکا۔ اور ان کی شاعری کی کلیات 2003 میں آگئی جس میں ''بازیافت'' کے عنوان سے سلیم احمد کے نثریے بھی شامل ہیں۔ اس طرح اب تک سلیم احمد کی کل 12 کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ ان کی شاعری کی دوسری کتاب ''اکائی'' تھی جو 1982 میں شایع ہوئی تھی۔


شروع میں وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے باقاعدہ رکن تھے لیکن ہمیشہ سے ان کا رجحان جماعت اسلامی کی طرف تھا اور اس سے پہلے وہ خاکسار تحریک کے سرگرم رکن تھے۔ لیکن مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کا خطاب سن کر مسلم لیگ کے حامی ہوگئے۔ وہ سیاست کو ادیبوں کے لیے شجر ممنوعہ نہیں سمجھتے تھے وہ چاہتے تھے کہ ادیب و شاعر پارٹی پالیٹکس Party Politics سے بلند تر ہوکر سوچیں۔ اگرچہ وہ خود خاکسار تحریک، مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہمہ تن وابستہ رہے لیکن عمر بھر کے تجربے کے بعد آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک ادیب یا شاعر کو کسی مخصوص پارٹی کا تابع مہمل بن کر نہیں رہنا چاہیے، ادب میں گروہ بندی ادب کے لیے مہلک ہوا کرتی ہے، جس سے اس کی ترسیل اور نمو متاثر بھی ہوجاتی ہے۔ سلیم احمد اکثر بیمار رہتے تھے ان پر متعدد بار نروس بریک ڈاؤن کے حملے ہوئے۔ انھوں نے ساقی فاروقی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ 1957 تک میری یہی کیفیت تھی، 1958 سے 1961 تک مجھ پر لاشعوری اثرات غالب آگئے اور تمہیں شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ میں نے ''نئی نظم اور پورا آدمی'' لاشعور کی مکمل گرفت کی حالت میں لکھی ہے''۔

سلیم احمد نے اپنا پہلا تنقیدی مضمون ''زندگی ادب میں'' میں لکھا کہ ''زندگی اپنی ارتقا پذیر شخصیت کو بہتر سے بہتر پیکر میں ظاہر کرنے کے لیے انسانی معاشرے کو توڑ پھوڑ کر نئے سرے سے بناتی ہے''۔ 1948 میں جب یہ مضمون لکھا گیا تو ''ادب برائے ادب'' اور ''ادب برائے زندگی'' کی بحث عام تھی، سلیم احمد موخر الذکر نظریے کے حامی تھے۔ سلیم احمد نے ترقی پسند حضرات کے ساتھ بھرپور اور مدلل اختلاف کیا، اور اس سلسلے میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کا انداز جارحانہ ہوتا چلا گیا۔ اپنے مضمون ''زندگی ادب میں'' میں انھوں نے لکھا کہ ''ابھی ہمارا ادب زندگی کو ایک ایسی عینک سے دیکھتا ہے جو اس نے فرائیڈ اور مارکس کی دکان سے بغیر اس بات کا لحاظ کیے ہوئے خریدی ہے کہ اس کا نمبر اس کی آنکھوں کے لیے ٹھیک بھی ہے یا نہیں''۔ یعنی مارکس کے افکار اور خیالات کے برخلاف ہے، اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''انسانی فطرت اپنے بنیادی تقاضوں بھوک، پیاس، نیند اور جنس وغیرہ کے باوجود محض ان تقاضوں کی اسیر ہوکر نہیں رہ سکتی، یہ اندروں بینی یا حقائق سے روگردانی نہیں تو اور کیا ہے میں پیاس کی شدت یا بھوک کی حالت میں چپکا ہوکر بیٹھ سکتا ہوں یا کوئی اور ایسا کرسکتا ہے یعنی میں اپنے DNA کے برخلاف کروں۔ سلیم احمد سرسید تحریک کے حوالے ایک کتاب بابائے جدیدیت کے عنوان سے لکھنا بھی چاہتے تھے، سلیم احمد کا خیال یہ ہے کہ سرسید کے چھوڑے ہوئے کاموں کو ''مدرسہ دیوبند'' کے اکابرین نے آگے بڑھایا۔ یہ تحریک مولانا الطاف حسین حالی کے فرمان کے مطابق ہوا کا رخ دیکھ کر پھرنے والی نہیں تھی۔ سلیم احمد جب تک لکھتے رہے پورے احساس فرض اور اخلاص نیت کے ساتھ لکھتے رہے یوں لکھنے کو انھوں نے ہزاروں صفحات لکھ ڈالے لیکن وہ صرف اپنی ادبی تحریروں کو own کرتے تھے۔ باقی سب تحریریں ان کے نزدیک ''سیٹھ کا مال'' یا کمرشل تحریریں تھیں۔ ان ہی کا ایک شعر ہے ؎

میری زبان آتشیں لو تھی مرے چراغ کی
میرا چراغ چپ نہ تھا تیز ہوا کے شور میں
یہ شعر ان کے تنقیدی رویے کا بھی غماز ہے۔
Load Next Story