درپیش مسائل کا صائب حل تلاش کیجیے

خارجی مسائل میں پاکستان کواپنے پڑوس میں سیکیورٹی کا سب سے بڑا خطرہ بھارت سے ہے

خارجی مسائل میں پاکستان کواپنے پڑوس میں سیکیورٹی کا سب سے بڑا خطر ہ بھارت سے ہے

ISLAMABAD:
پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے، جس کی سالمیت اور وقارکو نقصان پہنچانے کے لیے اندرونی اور بیرونی سطح پر کئی ملک دشمن عناصر سرگرم ہیں۔ پاکستان داخلی اور خارجی سطح پر مختلف مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ 11/9 کے بعد پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان نے دہشت گردی سمیت دیگر چیلنجزکا جس طرح بہادری و جرأت سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کئی قربانیاں پیش کیں یہ اس امرکا واضح اظہار تھا کہ ہم پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے کبھی کمپرو مائز نہیں کریں گے، لیکن ایک بار پھر ملک میں دہشت گردی کی لہر سر اٹھا رہی ہے، ملک میں بم دھماکوں کی گونج سے سرزمین لرز رہی ہے، بے گناہوں کے خون سے در و دیوار رنگین ہو رہے ہیں۔ آج مغربی دُنیا نے پاکستان کو رسمی تعلقات اور افغانستان ہمسائے کی حد تک محدود کر کے رکھ دیا ہے، یورپی ممالک کی پاکستان میں دلچسپی کم پڑ چکی ہے جب کہ امریکا سے پاکستان کے تعلقات زمین بوس ہوتے جا رہے ہیں۔

99%شرائط ماننے کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کوگرے لسٹ سے نکالنے سے انکارکردیا ہے۔ اقوام متحدہ ہو یا انٹرنیشنل میڈیا سب پاکستان پر تنقیدی نظر رکھے ہوئے ہیں ، اس میں سارا قصور پاکستان کا نہیں ہے ، امریکا اور مغرب نے بھی پاکستان کے زیادتیاں کی ہیں، مگر سوچنا یہ ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے ؟ خاموش سفارت کاری کے ذریعے مفادات کے حصول کی کاوش۔ پاکستان آج بھی امریکا اور مغربی ملکوں کی مدد کی ضرورت ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہمارے کاروباری مفادات امریکا ، مغرب اور عرب ممالک کے ساتھ ہیں، لاکھوں پاکستانی ان ملکوں میں پرسکون اور پرآسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو امریکا سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہیئیں۔

خارجی مسائل میں پاکستان کواپنے پڑوس میں سیکیورٹی کا سب سے بڑا خطر ہ بھارت سے ہے ، جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت میں انتہا پسند حکومت ہے جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے ، جس کی مثال مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے جاری کرفیو اور انسانیت سوز مظالم ہیں۔ خطے میں امن و استحکام کا داعی ہونے کے ناتے پاکستان بھارت کو کئی دفعہ مذاکرات کی پیش کش کرچکا ہے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی کی آڑ میں مذاکرات نہیں کرنا چاہتا ، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان خلیج مزید بڑھ رہی ہے۔

عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فاشسٹ بھارت کو انسانیت پر ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے سے روکے اور پاکستان کو اس کا قانونی حق کشمیر دلانے میں غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے تاکہ خطے میں امن وا ستحکام قائم ہوسکے۔ پاکستان کا شمال مغربی بارڈر افغانستان سے جڑا ہے اور اس وقت افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے اور اگر اسے عالمی برادری کی جانب سے ایڈریس نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں خطے بھر بالخصوص پاکستان کے لیے بڑا سیکیورٹی چیلنج ہوگا۔ ریاست پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لیے ہمیشہ سے سنجیدہ ہے اور عالمی طاقتوں کے ذمے دارانہ کردارکے لیے اپنی سیاسی و سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

عالمی برادری کی جانب سے سنجیدہ اقدامات سے ہی مسئلہ سر اٹھانے سے قبل حل ہو سکتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی کہلاتی ہے۔ اب Conventional warکی جگہ ہائبرڈ وار نے لے لی ہے جس میں ایجوکیشن، ہیلتھ، میڈیا اور ڈائیلاگ کے ذریعے دشمن کسی ملک کی عوام کو ٹارگٹ کرتا ہے ، تاکہ انھیں اپنے ہی ملک یا اداروں کے خلاف اکسایا جاسکے، یہ ایک انتہائی سنجیدہ سیکیورٹی مسئلہ ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان میں تعلیم و تربیت کے فروغ کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور سماجی سطح پر تربیتی ورکشاپس کے ذریعے ہائبرڈ وار کی آگاہی و شعور اجاگر کرنے ضرورت ہے تاکہ وہ انجانے میں ملک کے خلاف کسی جھوٹے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔

قدرت کی تمام تر فیاضیوں کے باوجود پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہے ، یوں تو پاکستان کے سماجی مسائل کی فہرست بہت طویل ہے مگر ہم چند فوری توجہ طلب مسائل کا ذکر کررہے ہیں، جن کا حل ہوجانا ملک و ملت کے لیے بہت ہی سود مند ثابت ہو سکتا ہے جیسے پاکستان میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ غربت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ غربت کے ساتھ ساتھ عدم مساوات، قدرتی آفات، بیروزگاری، جاگیردارانہ نظام ، نامناسب حکومتی نظام ، تباہ حال صنعتیں اور ناخواندگی بھی غربت بڑھانے کے اسباب میں شامل ہیں۔


اس کے علاوہ ناقص صحت کا نظام ، فرسودہ نظام تعلیم ، غیر ملکی قرضہ، افراط زر، نا انصافی، منشیات اور بدعنوانی بھی پاکستان کے معاشرتی سماجی مسائل میں شامل ہیں۔ دنیا میں شعبہ صحت پر خرچ کرنے کے حوالے سے امریکا سرفہرست ہے جو اس شعبے پر اپنی جی ڈی پی کا 17 فی صد خرچ کرتا ہے دیگر مغربی ممالک میں بھی جی ڈی پی کا معتد بہ حصہ طبی آلات و سہولیات کی فراہمی اور مریضوں کی نگہداشت کے لیے مختص ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ سرمایہ کاری کے فقدان اور حکومت کی عشروں پر محیط عدم توجہی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان آبادی کی کثرت اور لوگوں میں علاج کی عدم استطاعت کے باوجود صحت کے شعبے پر سالانہ جی ڈی پی کا صرف 2 سے 3 فی صد خرچ کرتی ہے۔ پاکستانی معیشت موسمی تبدیلیوں سے بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت پاکستان نے 2018 میں 10 ارب درخت لگانے کی مہم شروع کی تھی، وہ تاحال مکمل نہیں ہوسکی ہے۔

ویسے تو پاکستان گونا گوں مسائل میں مبتلا ہے مگر ان میں ایک بہت بڑا مسئلہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کا ہے جس کی وجہ سے امیر لوگ بڑی تیزی سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور غریب اتنی ہی سرعت سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں، مہنگائی کے بوجھ میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے کہ غریب عوام کی زندگی کی گاڑی اس بوجھ کو اٹھانے سے قاصر ہوتی جا رہی ہے۔ غریب آدمی کے بچے بھوکے ہیں، اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہے اس کی بچی کی جوانی ڈھل رہی ہے مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے پیسہ نہیں ہے۔

مجبوراً ان کا خوبصورت بچپن کارخانوں اور فیکٹریوں میں محنت و مشقت کرتے گزر رہا ہے۔ یوٹیلٹی بلز اس قدر زیادہ ہیں کہ غریب کی مختصر کمائی کا ایک بہت بڑا حصہ ان کی ادائیگی ہی میں خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا خاندان فاقوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بجلی کے نرخوں میں روز بروز اضافے نے عوام کو معاشی بدحالی کے سیلاب میں تنکوں کی طرح بہا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا عفریت عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر اپنا پیسہ بمعہ منافع وصول کر رہا ہے، پاکستانی عوام کو کبھی پٹرول کے بحران کا سامنا ہے اورکبھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا سامنا ہے۔ کبھی چینی کی پریشانی ہے تو کبھی آٹے کی مصیبت در پیش ہے۔

پاکستان کو جو چند بڑے مسائل درپیش ہیں، اگر ان کو درست کر دیا جائے تو ملکی حالات یکسر بدل سکتے ہیں جیسے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے داروں کو زبردست تطہیر کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ قانون اور عدالتی نظام میں بہتری لائے جانے کی زبردست گنجائش موجود ہے۔

اس کے علاوہ بجلی و ایندھن کی فراہمی کے ادارے، ٹیکس جمع کرنے والے ادارے، کسٹمز، تعلیم و صحت سے متعلق ادارے، زمین و جائیداد کا انتظام و انصرام کرنے والے ادارے، ان سب اداروں میں نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزائیں بھی دی جانے کی شدید ضرورت ہے جو یقیناً ملک میں بدعنوانی کو کم کرنے اور حالات کو ملک کے موافقت میں لانے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہے، جو اداروں کو قانونی اور آئینی طاقت فراہم کرنے کا سبب ہوسکتی ہے جن کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے حکومتی سطح پر شفاف احتساب کے ذریعے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

حرف آخر، حکومت کو چاہیے کہ بیرونی قرضوں پر انحصارکرنے کے بجائے خود کفالت کی کوشش کرے ، تعلیم، تعمیرات، توانائی، زراعت، صحت اور نقل و حمل ایسے شعبوں کو ترقی دے کر لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کرے، ہر مسئلے میں اصلاح اور بہتری کا موقع موجود ہوتا ہے۔
Load Next Story