چائے خانوں سے عظیم عوامی ہال تک چین میں جمہوریت کیسے کام کرتی ہے

چینی حکومت تمام فیصلوں پر عملدرآمد کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس نے اپنے عوام سے کبھی کھوکھلے وعدے نہیں کیے

چین، مشرقی صوبہ آنہوئی کے قصبہ لین ہوان میں چائے خانہ پر لوگ چائے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ تصویر بشکریہ :شِنہوا

LOS ANGELES:
چین کے جنوب مغربی پہاڑی گاؤں سے تعلق رکھنے والی 106 سالہ لی چاؤلان مقامی عوامی کانگریس انتخابات میں ایک درجن سے زائد مرتبہ ووٹ ڈال چکی ہیں۔

انہیں امید ہے کہ بیجنگ میں جاری قومی ''دو اجلاس'' میں شرکت کرنے والے دیہی علاقوں میں عمررسیدہ افراد کی دیکھ بھال پر بھرپور توجہ دیں گے۔

دریں اثناء چین کے مشرقی صوبہ آنہوئی کے لین ہوان میں چائے خانوں پر مقامی لوگوں میں کافی ہلچل ہے کیونکہ وہ اس اہم سیاسی موقع پر تبادلہ خیال کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ قدیم قصبے کے لئے ترقی کے مواقع کی تلاش کرسکیں۔

یہ کہانیاں اس عمل کی جھلکیاں پیش کرتی ہیں کہ کس طرح چین میں شہری، جو دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں، ملک کے حقیقی اور مؤثر جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہیں۔



قومی عوامی کانگریس (این پی سی) اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس (سی پی پی سی سی) کی قومی کمیٹی کے جاری اجلاس 1 ارب 40 کروڑ چینی عوام کی امنگوں کا جواب دینے اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے یکجا کرنے کا مشن ہے۔

انتخابات، مشاورت، فیصلہ سازی، انتظام اور نگرانی کا احاطہ کرنے والی چین کی مکمل عوامی جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ملک کو چلانے والے عوام ہی ہیں۔

مکئی کے دانےکے ساتھ ووٹنگ

صوبہ سیچھوان کے یا آن شہر سے تعلق رکھنے والی لی نے عوامی کانگریسز میں نائبین کے انتخابات میں شرکت کے اپنے پہلے تجربے کو یاد کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ 1953 کا موسم سرما تھا۔ ہم سب قطار میں کھڑے تھے، اور ہر ایک نے اپنے پسندیدہ امیدوار کے لئے ووٹ کے طور پر مکئی کا دانہ ڈالا۔ میں اتنی زیادہ پرجوش تھی کہ بمشکل سوسکی۔

ستمبر 1954 میں قومی عوامی کانگریس کا پہلا اجلاس ہوا، جس میں چین کے بنیادی سیاسی نظام کے طور پر عوامی کانگریسز کا نظام قائم کیا گیا۔

2020 کے اختتام تک چین میں تمام پانچوں سطح پر عوامی کانگریسز کے 26 لاکھ 20 ہزار نائبین ہیں۔

مجموعی طور پر 94.5 فیصد نائبین کاؤنٹی اور قصبے کی سطح سے تھے جو تمام براہ راست ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہوئے تھے۔



عوامی کانگریسز شہر، صوبائی اور قومی سطح پر عوامی کانگریسز کے نائبین کا انتخاب اگلے درجے کے لئے کرتی ہیں۔

گزشتہ اکتوبر میں لی چاؤلان نے ایک بار پھر انتخابی عملے کی طرف اپنے دروازے پر لائے جانے والے موبائل بیلٹ باکس میں اس وقت ووٹ ڈالا جب 1 ارب سے زائد ووٹرز نے قصبے اور کاؤنٹی سطح پر عوامی کانگریسز کے ملک گیر انتخابات کے ایک نئے دور میں حصہ لینا شروع کیا۔

لی نے اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی نئی مدت شروع ہونے والی ہوتی ہے تو مجھے ووٹر کارڈ اور بیلٹ دیئے جاتے تھے۔

مکئی کے بیج سے لیکر موبائل بیلٹ باکس تک وقت بدل گیا ہے لیکن عوام کے اپنے ملک کا مالک ہونے کا احساس نہیں بدلا۔

1970 کی دہائی کے اختتام میں اصلاحات کے آغاز کے بعد سے کاؤنٹی اور ٹاؤن شپ کی سطح پر عوامی کانگریسز کے نائبین کے انتخابات میں ووٹرٹرن آؤٹ کی شرح تقریباً 90 فیصد رہی ہے جو بہت سے مغربی ممالک کے مقامی انتخابات سے کہیں زیادہ ہے۔

چین کے نائبین ، عوامی کانگریسز میں کل وقتی قانون سازوں کے طور پر کام نہیں کرتے بلکہ ان کی اپنی ملازمتیں اور کاروبار ہیں۔ ان کا تعلق تمام علاقوں، نسلی گروہوں، شعبوں اور سماجی گروہوں سے ہے۔ یہاں تک کہ سب سے چھوٹی آبادی والے نسلی گروہ کا بھی قومی عوامی کانگریس میں کم از کم ایک نائب ہے۔

جمہوریت نمائشی زیور نہیں مسائل کے حل کا راستہ ہے۔

گزشتہ برس کے "دو اجلاسوں" کے دوران قومی قانون سازوں اور سیاسی مشیروں کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز سے 1600 سے زائد حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کی تشکیل بارے ترغیب ہوئی۔

ان میں مزدوروں کے حقوق کے بہتر تحفظ سے متعلق تجاویز مثلاً خوراک کی ترسیل اور کار ہیلنگ صنعتوں کو جولائی 2021 میں جاری کردہ سرکاری رہنما ضابطوں میں شامل کیا گیا۔

برطانوی مصنف اور سیاسی تبصرہ نگار کارلوس مارٹنیز نے کہا کہ چین میں عام لوگوں کے بنیادی مفادات کو حکومت میں مغرب کے برعکس کہیں زیادہ حد تک پیش کیا جاتا ہے۔

2022 کے ایڈل مین ٹرسٹ بیرومیٹر کے مطابق 2021 میں چینی شہریوں کا اپنی حکومت پر اعتماد 91 فیصد تھا جو سروے میں شامل 28 ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ اعداد و شمار ہارورڈ کینیڈی اسکول کے سروے کے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں۔

چائے کی چُسکی کے ساتھ گفت وشنید

لین ہوان قصبے کے رہائشی اپنی صبح کا آغاز چائے کے ایک کپ سے کرتے ہیں۔

گزشتہ صدیوں میں 20 سے زائد چائے خانوں کے ساتھ شہر میں پھلتی پھولتی چائے کی ثقافت نے چائے پیتے وقت بات چیت کا رواج قائم کیا ہے جس نے چائے خانوں میں قومی عوامی کانگریس کے ڈپٹی اسٹوڈیو کا آغاز بھی کیا ،جہاں کاؤنٹی اور قصبے کی سطح کے نائبین ہر ماہ آتے اور رہائشیوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔

ابلتے پانی کے برتن کے اردگرد بیٹھے لیو جن ہوا اور ان کے کئی دیہاتی ساتھی چائے کی چُسکی کے ساتھ اس ماہ نائبین کے ساتھ اٹھائے جانے والی تجویز پر تبادلہ خیال کررہے ہیں جس میں ایک مناسب عوامی بیت الخلا کی تعمیر بھی شامل ہے۔

دیہاتیوں کو بتایا گیا کہ ہمارے پاس اس بارے مختلف تجاویز ہیں کہ اسے کہاں تعمیر کیا جائے، لہذا ہم آج یہاں بہترین مقام پر تبادلہ خیال کرنے اور بہترین جگہ کی تلاش میں ہیں"۔



گزشتہ 5 برس میں اس قصبے بارے 300 سے زائد تجاویز نائبین نے وصول کیں، اور سڑک کی تعمیر، آبپاشی، اسٹریٹ لائٹ کی تنصیب سے لیکر پرانے درختوں کے تحفظ تک کے معاملات کو نمٹایا۔


چائے خانوں میں ثالثی کے کمرے بھی ہیں۔ ثالثی کرنے والوں کی بدولت چائے پیتے وقت مقدمہ نمٹایا جاسکتا ہے۔

لین ہوان شہر کی طرح نچلی سطح پر جمہوری مشاورت اور انتظام چین میں رہنے والے غیر ملکیوں کو بھی اس سے جڑنے کا موقع دیتا ہے۔

شنگھائی میں لین ہوان سے تقریباً 7گھنٹے کی مسافت پر ایک ترک بینکر نویان رونا ، 20 سال سے زیادہ عرصے سے اس شہر میں مقیم ہے، اور وہ اپنے رہائشی علاقے میں خامیوں کو دور کرنے کے خواہاں ہیں۔

ماحولیاتی حفظان صحت، غذائی تحفظ، سڑک کے ناموں کے ترجمے سے لیکر ریلنگ کی تنصیب تک، ان کی بہت سی تجاویز پر عمل کیا گیا یہاں تک کہ ایک تجویز کو انفرادی انکم ٹیکس قانون پر نظر ثانی میں بھی شامل کیا گیا۔

رونا کی رائے میں تجاویز دینا شکایت کرنا یا صرف سوالات اٹھانا نہیں ہے، یہ چیزوں کو ایک مخصوص نقطہ نگاہ سے اور وقت کے ساتھ مشاہدہ کرنے اور حل پیش کرنے بارے ہے۔

چائے خانوں میں، درختوں کے نیچے، صحن اور کانفرنس رومز میں "آف لائن خیالات کے تبادلے" سے لیکر 1 ارب سے زائد چینی انٹرنیٹ صارفین کے "آن لائن مباحثے" تک، چینی عوام نے اپنی دانش مندی اور جدت کے ساتھ مختلف اور موثر ذرائع تلاش کئے ہیں۔

اگست 2020 میں جب حکام نے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے 2025-2021 کے مسودے کی تیاری کے لئے آن لائن عوامی رائے طلب کی تو اگست 2020 میں 10 لاکھ سے زائد آراء موصول ہوئیں۔

چائنہ اینڈ گلوبلائزیشن کے ایک سینئر فیلو لارنس جے برہم نے کہا کہ چینی جمہوریت مغرب سے مختلف ہے، یہ دراصل اتفاق رائے پیدا کرنے کا نظام ہے۔ " یہ خاموش اور کئی طریقوں " بالکل تائی چی کی مانند ہے"۔

موثر فیصلہ سازی کے براہ راست راستے پر گامزن

چین کے مشرقی صوبہ ژے جیانگ کے ای وو شہر میں ایک دکان کے ملازم ،لو شیاؤ یو اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ کھانے کی پیکیجنگ پر ختم ہونے کی تاریخوں کو زیادہ نمایاں طور پر ثبت کرنے کے بارے میں ان کی رائے انسدادِ خوراک کے فاضل مواد سے متعلق قومی قانون پر اثر انداز ہوئی ہے۔

نئی قانون سازی پر تجاویز طلب کرنے کے لیے ایک نچلی سطح کے سیمینار میں شرکت کرتے ہوئے اکتوبر 2020 میں لو کی رائے ریکارڈ کی گئی تھی، اور اسے براہ راست قومی عوامی کانگریس کی قائمہ کمیٹی کے قانون سازی کے امور بارے کمیشن کو ارسال کیا گیا۔

یہ سب کچھ کمیشن کی جانب سے قائم کیے گئے نچلی سطح کے رابطہ مراکز کی وجہ سے ممکن ہوا، اور یہ عام لوگوں اور چین کی اعلیٰ مقننہ کے مابین براہ راست رابطے کے طور پر کام کرتے ہیں، اور جو کہ ملک کی جمہوری فیصلہ سازی کو سرانجام دیتے ہیں۔

چین میں سال 2015 سے اب تک ایسے 20 سے زیادہ مراکز قائم کیے گئے ہیں، جو کہ صوبائی سطح کے دو تہائی سے زیادہ علاقوں پر محیط ہیں، جس سے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قومی قانون سازی میں اپنی فراست کا حصہ ڈالنے کا موقع ملا ہے۔

قانون سازی ایک مشکل اور وقت طلب عمل ہے۔ مثال کے طور پر ای کامرس کے قانون کے نفاذ میں مجموعی طور پر پانچ سال لگے اور اس دوران رائے عامہ جاننے کے لئے تین ادوار اور چار مباحثے منعقد ہوئے۔

حتمی دفعات میں صارفین کے حقوق، خاص طور پر ان کے ذاتی تحفظ پر زیادہ زور دیا گیا ہے، اور ای کامرس کا کاروبار چلانے والوں کی ذمہ داریوں اور فرائض میں مناسب اضافہ کیا گیا ہے۔

چین کی جانب سے مشکل حالات میں جمہوری مرکزیت کا نفاذ موثر، سائنسی اور عوام پر مبنی فیصلہ سازی کی ضمانت دیتا ہے۔

جب 2020 کے اوائل میں چین کا صوبہ ہوبے نوول کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سامنا کر رہا تھا، حکومت نے معمولی علامات والے مریضوں کے علاج کے لیے عارضی ہسپتال بنانے کا فوری فیصلہ کیا،جس نے نوول کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ کچھ ملکوں کے بالکل برعکس ہے جہاں لوگ اس بات پر نہ ختم ہونے والی مخالفت میں مشغول تھے کہ آیا عوام کے لئے ماسک کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔

چین کی حکومت بھی تمام فیصلوں پر عملدرآمد کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس نے اپنے عوام سے کبھی کھو کھلے وعدے نہیں کیے۔

ہر سال، "دو اجلاسوں " کے دوران قومی عوامی کانگریس کے ذریعے حکومتی امور کی رپورٹ پر غور و خوض کیا جاتاہے اور اسے اختیار کرنے کے بعد ریاستی کونسل جلد ہی کاموں کو تقسیم کرتی ہے، اس میں شامل محکموں اور مدت کے تعین کی وضاحت کی جاتی ہے اور اس پر عمل درآمد کی سختی سے نگرانی ہوتی ہے۔

عظیم عوامی ہال - جمہوریت کی نشانی

بیجنگ کے مرکز میں واقع عظیم عوامی ہال میں جہاں "دو اجلاس" منعقد کیے جاتے ہیں، قومی قانون سازوں اور سیاسی مشیروں کے سامنے مقامی عوامی کانگریس اور مقامی عوامی حکومتوں کے نامیاتی قانون میں ترمیم کا مسودہ رکھا جاتا ہے۔

توقع کی جاتی ہے کہ مکمل عوامی جمہوریت کو قانون کا حصہ بنایا جائے گا، جس میں مقامی قانون سازوں اور حکومتوں کے نظم ونسق اور عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ 1 ارب 40 کروڑ افراد پر اثر انداز ہونے والی کثیرالجہتی اور ہمہ جہتی جمہوریت کو یقینی بنایا جا سکے۔

قومی عوامی کانگریس اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کی قومی کمیٹی کے سالانہ اجتماعات میں چینی رہنماؤں سمیت ہزاروں قومی قانون ساز اور سیاسی مشیر اکٹھے ہوتے ہیں، جہاں بڑے قومی ترقیاتی منصوبوں پر تفصیل سے بات چیت ہوتی ہے اور لوگوں کی گزربسر سے متعلق اہم مسائل کا جائزہ لیا جاتاہے۔

چین کی اعلیٰ ترین ریاستی طاقت کے اس پلیٹ فارم پر نئے چین کا پہلا آئین متعارف کرایا گیا، 2 ہزار سال پرانے زرعی ٹیکس کے خاتمے کا اعلان کیا گیا، عوام کے حقوق کے زیادہ سے زیادہ تحفظ پر مبنی ملک کا پہلا سول کوڈ اپنایا گیا، اور ایک یکساں مواقع فراہم کرنے والے غیر ملکی سرمایہ کاری کے قانون کی منظوری دی گئی ، جہاں تمام اندرون و بیرون ملک سرمایہ کار حصہ لے سکتے ہیں اور مقابلہ کر سکتے ہیں۔

قومی عوامی کانگریس کے نائبین ریاستی طاقت کا استعمال کر تے رہے ہیں، اور پارٹی کی تجاویز اور عوام کی منشا کو ریاست کی مرضی میں تبدیل کرتے رہے ہیں، اور قانونی طریقہ کار سے گزر کر اجتماعی اقدامات کرتے ہیں، جو کہ عوام کی حیثیت ملک کے حکمران اور قانون پر مبنی حکمرانی کے طور پر کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ (سی پی سی ) کی قیادت کے انضمام کو اجاگر کرتی ہے۔

چین میں کام کرنے والے جمہوری نظام نے بڑے ملک کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ گزشتہ برسوں کے دوران تیز رفتار اقتصادی ترقی اور طویل مدتی سماجی استحکام حاصل کر سکے۔

چین کے پاس آج دنیا کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا نظام موجودہے، اس نے کامیابی کے ساتھ انتہائی غربت کا خاتمہ کیا ہے، بدعنوانی کے خلاف جنگ میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے، اور سب محاذوں پر قومی سلامتی کو فروغ دیا ہے۔ اس کی مجموعی ملکی پیداوار 1 ہزار کھرب یوآن (158 کھرب 30ارب امریکی ڈالرز) سے تجاوز کر گئی ہے، فی کس آمدنی 10 ہزار ڈالر سے بڑھ گئی ہے۔

جنوبی افریقہ کے ایک ماہر پال ٹیمب نے نشاندہی کی ہے کہ چین کی مکمل عوامی جمہوریت مشترکہ مفادات کو پورا کرتی ہے اور اچھی طرز حکمرانی سے وابستہ ہے۔

اس دنیا میں جمہوریت کئی صورتوں میں موجود ہے۔ مکمل عوامی جمہوریت انسانیت کی سیاسی ترقی کے لیے ایک نیا انتخاب ہے۔

سیچھوان کے شہر یا آن کے ایک گاؤں یوآن گن سے تعلق رکھنے والی قومی عوامی کانگریس کی نائب، ماؤ ژین فانگ اس سال کے قومی عوامی کانگریس سیشن میں دیہی عمررسیدہ افراد کی خدمات کو بہتر بنانے کے بارے میں اپنے ساتھ ایک تجویز لے کر آئی، جو کہ لی چاؤ لان جیسے بزرگ دیہی باشندوں کے ساتھ وسیع مشاورت پر مبنی تھی۔

ماؤ نے کہا کہ جمہوریت ایسے ذرائع پیدا کرنے کا نام ہے جس کی بدولت ہر آواز سنی جائے۔
Load Next Story