مکان ایک نعمت خداوندی
’’گھر کی تعمیر اور استعمال میں حرام کمائی اور حرام کاموں سے بچو کیوں کہ یہی چیزیں اس کی ویرانی کی بنیاد ہیں۔‘‘
LONDON:
اﷲ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں عزت سے رہنے کے لیے مکان جیسی نعمت عطا فرمائی ہے جس سے تمام گھر والے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں اﷲ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم: ''اور اﷲ تعالیٰ نے تمہارے کے لیے تمہارے گھروں کو سکون کی جگہ بنایا اور تمہارے لیے جانوروں کی کھالوں سے تیار ہونے والے ایسے گھر چمڑے کے خیمے بنائے جو تمہیں سفر میں جاتے وقت اور دوران سفر کہیں پڑاؤ ڈالتے وقت ہلکے پھلکے محسوس ہوتے ہیں اور جانوروں کی اُون، ان کی رُویں اور جانوروں کے بالوں سے گھریلو سامان کی دیرپا چیزیں بنائیں جو ایک مدت تک تمہارے کام آتی رہتی ہیں۔
(سورۃ النحل)حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مکان کی تعمیر اور استعمال میں حرام کمائی اور حرام کاموں سے بچو کیوں کہ یہی چیزیں اس کی ویرانی کی بنیاد ہیں۔'' (شعب الایمان للبیہقی)
گھر سے نکلتے وقت کی اسلامی تعلیمات:
پہلا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلنے سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لی جائے۔ حضرت ابُوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب اپنے گھروں سے نکلنے لگو تو اس سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لیا کرو۔ (مسند بزار)
دوسرا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت دعا مانگنی چاہیے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جب بندہ اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ دعا مانگتا ہے، مفہوم: ''اﷲ کے نام کے ساتھ اپنے گھر سے نکلتا ہوں، اﷲ پر بھروسا کرتا ہوں، اﷲ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو گناہوں سے میری حفاظت اور نیکی کی طاقت دے سکے۔ تو اس دعا مانگنے والے کو سفر کی تمام پریشانیوں سے نجات دے دی جاتی ہے۔'' (سنن أبی داؤد)تیسرا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت گھر والوں کو سلام کر لیا جائے۔ حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب گھر سے کہیں جانے لگو تو گھر والوں کو سلام کر کے جایا کرو۔'' (شعب الایمان للبیہقی)
گھر میں داخل ہوتے وقت کی اسلامی تعلیمات:
پہلا ادب یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے کھنکھار کر یا کوئی ایسی علامت کے ذریعے داخل ہوں جس سے گھر والوں کو آمد کی اطلاع ہو جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ اپنے گھر داخل ہونے لگے تو بہتر یہ ہے کہ وہ کھنکھار لے یا قدرے زور سے اپنے پاؤں زمین پر مارے۔ (تفسیر القرآن العظیم المعروف بہ ابن کثیر)
دوسرا ادب یہ ہے گھر میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کریں۔ حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''گھروں میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کیا کرو۔'' (شعب الایمان للبیہقی)
تیسرا ادب یہ ہے گھر میں داخل ہو کر دو رکعت نفل نماز پڑھ لی جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''سفر سے واپسی پر جب اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تو باقی کاموں سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لیا کرو۔'' (مسند بزار)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مکان کے چار درجے ذکر فرمائے ہیں۔مکان بہ صورت رہائش: مکان رہائش کے قابل ہو، قبرستان کی طرح ویران اور پریشان کن نہ ہو بل کہ ایسا ہو جس میں آدمی اپنے کنبہ کے ساتھ دھوپ، بارش، گرمی، سردی، اور موسم کے بُرے اثرات سے حفاظت کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ مکان بہ صورت آسائش: اﷲ تعالیٰ نے مکان کی سہولت عطا فرمائی ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے قابل رہائش مکان کو آرام و آسائش کے قابل بنانا چاہتا ہے تو مکان کا دوسرا درجہ آسائش کا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ مکان کو آرام و راحت کے قابل بنایا جائے۔ مثلاً مکان کی چھت ٹین کی ہے تو ایسا مکان رہائش کے قابل ضرور ہے لیکن اس میں بارش میں چھت ٹپکتی ہے اور گرمی میں تپتی ہے اس لیے آسائش اور آرام کی غرض سے چھت کو پکا بنا دیا جائے۔ یا پلاسٹر کے ذریعے اس کی دیواروں کو مزید پختہ کر دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
بل کہ عاجز (مولانا اشرف علی تھانویؒ) کا خیال ناقص یہ ہے کہ اﷲ نے جسے سہولت عطا کی ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنا اور اہل و عیال کے آرام کا خیال کرتے ہوئے مکان کو قابل آسائش اور پختہ ہی بنائے خواہ مخواہ تکلف سے کام نہ لے، کیوں کہ قرآن و حدیث میں اہل ایمان کے اتحاد کو بنیان سے تشبیہ دی ہے جس کا مطلب ہے مضبوط عمارت۔ ارشاد نبویؐ ہے: ایمان والے اپنے اتفاق و اتحاد میں مضبوط عمارت اور مکان کی مانند ہیں۔ تو اس میں ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ مکان پختہ اور مضبوط ہونا چاہیے اور یہ کوئی ناجائز نہیں۔ شرعاً اس کی اجازت ہے کہ مکان قابل آسائش اور مضبوط بنایا جائے۔
مکان بہ صورت آرائش:
اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ سہولت و وسعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکان کو رہائش اور آسائش سے بڑھ کر آرائش کے قابل بنائے۔ تو مکان کا تیسرا درجہ آرائش ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مکان کو آرام و راحت کے قابل بنانے کے علاوہ مناسب طریقہ پر سجاوٹ کر کے خُوب صورت بنا دیا جائے تو اس کی بھی رخصت کے درجے میں اجازت ہے۔
مثلاً ایک شخص نے اپنے رہنے کے قابل مکان تو بنا لیا لیکن اس میں پلاسٹر نہیں کیا، یا پلاسٹر بھی کیا لیکن اس میں رنگ و روغن نہیں کیا تو ایسا مکان اگرچہ قابل رہائش ہے اور اس میں فی الجملہ آسائش و آرام کا بھی انتظام ہے لیکن آرائش اور زیب و زینت کا اہتمام نہیں اس لیے دیکھنے میں ذرا اچھا نہیں لگتا۔ اب اگر کوئی شخص اﷲ کے دیے ہوئے رزقِ حلال سے اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے فضول انہماک اور اشتغال کے بغیر فرنیچر وغیرہ کے ذریعے مکان کو مناسب درجہ میں خُوب صورت بنا لے تو یہ بھی جائز ہے۔
مکان بہ صورت نمائش:
اگر اس آرائش کا مقصد نمائش اور دکھلاوا ہو تو یہ حرام ہے۔
مکان میں خیر و برکت کیسے آئے۔۔۔ ؟
گھر کے تمام افراد فرائض و واجبات کی مکمل پابندی کریں۔
گھر میں تلاوت قرآن کریم، ذکر اﷲ، درود پاک، دعاؤں کی کثرت کریں۔
گھر میں داخل ہوتے وقت اسلامی آداب پر عمل کریں۔
گھر سے نکلتے وقت اسلامی آداب پر عمل کریں۔
گھر کو ہر قسمی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے صدقات کا اہتمام کریں۔
گھر میں والدین اولاد، بہن بھائی، میاں بیوی، ساس بہو پیار و محبت سے رہیں۔
گھر میں قطع کلامی، قطع تعلقی، نفرت اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔
گھر میں بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے شفقت کا ماحول بنائیں۔
گھر سے گناہوں کے تمام اسباب ختم کریں۔
گھر میں شوقیہ طور پر کتّا اور تصویریں نہ رکھیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اﷲ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں عزت سے رہنے کے لیے مکان جیسی نعمت عطا فرمائی ہے جس سے تمام گھر والے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں اﷲ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم: ''اور اﷲ تعالیٰ نے تمہارے کے لیے تمہارے گھروں کو سکون کی جگہ بنایا اور تمہارے لیے جانوروں کی کھالوں سے تیار ہونے والے ایسے گھر چمڑے کے خیمے بنائے جو تمہیں سفر میں جاتے وقت اور دوران سفر کہیں پڑاؤ ڈالتے وقت ہلکے پھلکے محسوس ہوتے ہیں اور جانوروں کی اُون، ان کی رُویں اور جانوروں کے بالوں سے گھریلو سامان کی دیرپا چیزیں بنائیں جو ایک مدت تک تمہارے کام آتی رہتی ہیں۔
(سورۃ النحل)حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مکان کی تعمیر اور استعمال میں حرام کمائی اور حرام کاموں سے بچو کیوں کہ یہی چیزیں اس کی ویرانی کی بنیاد ہیں۔'' (شعب الایمان للبیہقی)
گھر سے نکلتے وقت کی اسلامی تعلیمات:
پہلا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلنے سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لی جائے۔ حضرت ابُوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب اپنے گھروں سے نکلنے لگو تو اس سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لیا کرو۔ (مسند بزار)
دوسرا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت دعا مانگنی چاہیے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جب بندہ اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ دعا مانگتا ہے، مفہوم: ''اﷲ کے نام کے ساتھ اپنے گھر سے نکلتا ہوں، اﷲ پر بھروسا کرتا ہوں، اﷲ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو گناہوں سے میری حفاظت اور نیکی کی طاقت دے سکے۔ تو اس دعا مانگنے والے کو سفر کی تمام پریشانیوں سے نجات دے دی جاتی ہے۔'' (سنن أبی داؤد)تیسرا ادب یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت گھر والوں کو سلام کر لیا جائے۔ حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب گھر سے کہیں جانے لگو تو گھر والوں کو سلام کر کے جایا کرو۔'' (شعب الایمان للبیہقی)
گھر میں داخل ہوتے وقت کی اسلامی تعلیمات:
پہلا ادب یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے کھنکھار کر یا کوئی ایسی علامت کے ذریعے داخل ہوں جس سے گھر والوں کو آمد کی اطلاع ہو جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ اپنے گھر داخل ہونے لگے تو بہتر یہ ہے کہ وہ کھنکھار لے یا قدرے زور سے اپنے پاؤں زمین پر مارے۔ (تفسیر القرآن العظیم المعروف بہ ابن کثیر)
دوسرا ادب یہ ہے گھر میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کریں۔ حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''گھروں میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کیا کرو۔'' (شعب الایمان للبیہقی)
تیسرا ادب یہ ہے گھر میں داخل ہو کر دو رکعت نفل نماز پڑھ لی جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''سفر سے واپسی پر جب اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تو باقی کاموں سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھ لیا کرو۔'' (مسند بزار)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مکان کے چار درجے ذکر فرمائے ہیں۔مکان بہ صورت رہائش: مکان رہائش کے قابل ہو، قبرستان کی طرح ویران اور پریشان کن نہ ہو بل کہ ایسا ہو جس میں آدمی اپنے کنبہ کے ساتھ دھوپ، بارش، گرمی، سردی، اور موسم کے بُرے اثرات سے حفاظت کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ مکان بہ صورت آسائش: اﷲ تعالیٰ نے مکان کی سہولت عطا فرمائی ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے قابل رہائش مکان کو آرام و آسائش کے قابل بنانا چاہتا ہے تو مکان کا دوسرا درجہ آسائش کا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ مکان کو آرام و راحت کے قابل بنایا جائے۔ مثلاً مکان کی چھت ٹین کی ہے تو ایسا مکان رہائش کے قابل ضرور ہے لیکن اس میں بارش میں چھت ٹپکتی ہے اور گرمی میں تپتی ہے اس لیے آسائش اور آرام کی غرض سے چھت کو پکا بنا دیا جائے۔ یا پلاسٹر کے ذریعے اس کی دیواروں کو مزید پختہ کر دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
بل کہ عاجز (مولانا اشرف علی تھانویؒ) کا خیال ناقص یہ ہے کہ اﷲ نے جسے سہولت عطا کی ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنا اور اہل و عیال کے آرام کا خیال کرتے ہوئے مکان کو قابل آسائش اور پختہ ہی بنائے خواہ مخواہ تکلف سے کام نہ لے، کیوں کہ قرآن و حدیث میں اہل ایمان کے اتحاد کو بنیان سے تشبیہ دی ہے جس کا مطلب ہے مضبوط عمارت۔ ارشاد نبویؐ ہے: ایمان والے اپنے اتفاق و اتحاد میں مضبوط عمارت اور مکان کی مانند ہیں۔ تو اس میں ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ مکان پختہ اور مضبوط ہونا چاہیے اور یہ کوئی ناجائز نہیں۔ شرعاً اس کی اجازت ہے کہ مکان قابل آسائش اور مضبوط بنایا جائے۔
مکان بہ صورت آرائش:
اگر کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ سہولت و وسعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکان کو رہائش اور آسائش سے بڑھ کر آرائش کے قابل بنائے۔ تو مکان کا تیسرا درجہ آرائش ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مکان کو آرام و راحت کے قابل بنانے کے علاوہ مناسب طریقہ پر سجاوٹ کر کے خُوب صورت بنا دیا جائے تو اس کی بھی رخصت کے درجے میں اجازت ہے۔
مثلاً ایک شخص نے اپنے رہنے کے قابل مکان تو بنا لیا لیکن اس میں پلاسٹر نہیں کیا، یا پلاسٹر بھی کیا لیکن اس میں رنگ و روغن نہیں کیا تو ایسا مکان اگرچہ قابل رہائش ہے اور اس میں فی الجملہ آسائش و آرام کا بھی انتظام ہے لیکن آرائش اور زیب و زینت کا اہتمام نہیں اس لیے دیکھنے میں ذرا اچھا نہیں لگتا۔ اب اگر کوئی شخص اﷲ کے دیے ہوئے رزقِ حلال سے اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے فضول انہماک اور اشتغال کے بغیر فرنیچر وغیرہ کے ذریعے مکان کو مناسب درجہ میں خُوب صورت بنا لے تو یہ بھی جائز ہے۔
مکان بہ صورت نمائش:
اگر اس آرائش کا مقصد نمائش اور دکھلاوا ہو تو یہ حرام ہے۔
مکان میں خیر و برکت کیسے آئے۔۔۔ ؟
گھر کے تمام افراد فرائض و واجبات کی مکمل پابندی کریں۔
گھر میں تلاوت قرآن کریم، ذکر اﷲ، درود پاک، دعاؤں کی کثرت کریں۔
گھر میں داخل ہوتے وقت اسلامی آداب پر عمل کریں۔
گھر سے نکلتے وقت اسلامی آداب پر عمل کریں۔
گھر کو ہر قسمی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے صدقات کا اہتمام کریں۔
گھر میں والدین اولاد، بہن بھائی، میاں بیوی، ساس بہو پیار و محبت سے رہیں۔
گھر میں قطع کلامی، قطع تعلقی، نفرت اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔
گھر میں بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے شفقت کا ماحول بنائیں۔
گھر سے گناہوں کے تمام اسباب ختم کریں۔
گھر میں شوقیہ طور پر کتّا اور تصویریں نہ رکھیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین