تھری فورجی نیلامی 50 فیصد بعد میں ادائیگی کی حکومتی پیشکش

نگراں کمیٹی کااجلاس،ٹیلی کام کمپنیوں کاپیشگی ادائیگی کی شرط ختم کرنے پر زور

لائسنس مدت20سال کرنے کامطالبہ،29.5کروڑڈالر بیس پرائس بھی زیادہ قرار دے دی . فوٹو: فائل

وفاقی وزارت خزانہ نے ٹیلی کام کمپنیوں کو تھری /فور جی لائسنس کی 50فیصد اپ فرنٹ اور باقی 50فیصد 3 فیصد مارک اپ کے ساتھ 5سال میں ادا کرنے کی پیشکش کردی ہے۔


ٹیلی کام انڈسٹری کے ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز آکشن نیلامی کی نگراں کمیٹی سے موبائل فون کمپنیوں کے سربراہان کی ملاقات میں حکومت کی جانب سے کمپنیوں کو آفر دی گئی تاہم ٹیلی کام کمپنیوں نے متفقہ طور پر 29کروڑ50 لاکھ ڈالر کی بیس پرائس کو بہت زیادہ قرار دیا۔ اس سے قبل جاری ہونے والی اطلاعات کے مطابق حکومت تھری جی کے 3اور فور جی کے 2اسپیکٹرم نیلام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تھری جی کیلیے 29 کروڑ ڈالر جبکہ فور جی کیلیے 21کروڑ ڈالر کی بیس پرائس مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی میں تمام کمپنیاں متفقہ لائحہ عمل اختیار کررہی ہیں جس کے مطابق حکومت پر لائسنس کی میعاد 15سال سے بڑھا کر 20سال اور پیشگی ادائیگی کی شرط ختم کرنے پر زور دیا جارہا ہے تاہم حکومت کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کیلیے کوئی متبادل نہ ہونے کے سبب موبائل فون کمپنیوں کو ادائیگیوں میں زیادہ چھوٹ ملنے کی توقع نہیں ہے۔

حکومت نے بجٹ تخمینے میں تھری جی نیلامی سے آمدن کا اندازہ 1.2ارب ڈالر لگایا ہے، انڈسٹری کے مطالبے پر اپ فرنٹ وصولی نہ کیے جانے سے بجٹ اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے جس سے حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے سبکی کا سامنا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 3 تھری اور4 فور جی لائسنس کی کامیاب نیلامی کیلیے موجودہ کمپنیوں سے ہٹ کر غیرملکی سرمایہ کاروں کا نیلامی میں شامل ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے، پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیاں ادائیگیوں اور بیس پرائس پر ایک صفحے پر آچکی ہیں اور زیادہ بیس پرائس مقرر کرنے یا اپ فرنٹ پیمنٹ کے ساتھ ادائیگیوں کے سخت شیڈول کے آکشن پر اثر انداز ہونے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر، سعودی عرب اور ترکی کی کمپنیوں کی نیلامی میں شرکت کی اطلاعات ہیں تاہم پاکستان میں نامساعد حالات کے سبب ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والا سعودی گروپ اور انٹرنیٹ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے والی قطر کی کمپنی پہلے ہی دباؤ کا شکار نظر آرہی ہیں، ایسی صورتحال میں ان ملکوں سے کسی سرمایہ کاری بالخصوص موجودہ سیکیورٹی حالات میں نئے سرمایہ کار کی آمد ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
Load Next Story