کیا حکومت کا خاتمہ تمام ملکی مسائل کا حل ہے

اپوزیشن عوام کے مسائل حل کرنے کے جو دعوے کر رہی ہے ان کی حقیقت کیا ہے ؟

اپوزیشن عوام کے مسائل حل کرنے کے جو دعوے کر رہی ہے ان کی حقیقت کیا ہے ؟ ۔ فوٹو : فائل

کراچی:
عالمی حالات میں بڑ ی تیزی سے مختلف تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ روس یوکرین بحران نے امریکہ اور یورپ کو خاصی حد تک بے نقاب کیا ہے ۔

پاکستان پہلے ہی امریکہ اور یورپ کے اس قسم کے روّیے سے بارہا دو چار ہو چکا ہے ۔ عالمی منڈیوں میں تیل سمیت بہت سی مصنوعات کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے ۔ پاکستان میں بھی اس کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے ۔ کورنا کی وجہ سے جن ممالک کی معیشت پر زد پڑ ی تھی وہ تو یوکرین بحران کا فائدہ اٹھا کر اپنی معیشت کو درست کر لیں گے مگر پاکستان جیسے ملک میں فوراً سنبھلنا مشکل نظر آ تا ہے مگر اپوزیشن ''عوام کو ریلیف '' دینے کیلئے میدان میں اُتر آئی ہے۔

ملک کے معاشی واقتصادی مسائل اور بڑ ھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان اور ریاست کے دوسرے اسٹیک ہولڈرز کی آ نکھوں سے بھی فکرمندی واضح طور پر نظر آ رہی ہے ، مگر اپوزیشن کا ایک ہی راگ ہے کہ یہ ناجائز اور نا اہل حکومت ہے ، اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچانے کیلئے ، حکومت کو ہر حال میں گرانا چاہتے ہیں ہر آ پشن استعمال کرنا چاہتے ہیں ممکن ہے کہ اپوزیشن واقعی عوام کی اس حالت پر تڑپ اُٹھی ہو، مگر عوام کے بے شمار سوالات بھی موجود ہیں ۔

٭اپوزیشن کے پاس موجودہ معاشی واقتصادی بحران سے نبٹنے کا اگر کوئی ٹھوس پروگرام ہے تو وہ عوام کے سامنے لایا جائے اور اس معاملے میں کوئی غلط بیانی نہ کی جائے؟

٭ماضی کی غلط پا لیسیوں کا ازالہ کیسے ہو گا ؟

٭کرپشن کا خاتمہ کیسے ہو گا ؟

٭انتخابی ، مفاداتی اور پیشہ ور سیاست کا خاتمہ کیسے ہو گا ؟

٭ موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد اپوزیشن جماعتوں میں سے کون اقتدار میں آ ئے گا ؟

ٔٔ٭ خارجہ پا لیسی کیا ہو گی ؟ بر سر اقتدار آ نے کے بعد وہ دُور دراز کے ممالک امریکہ اور یورپ کے بلاک میں شامل رہیں گے یا چین ، روس ، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر علاقائی اتحاد بنایا جائے گا؟

٭سی پیک اور گوادر پورٹ کے معاملے میں پالیسی کیا ہو گی؟ کیونکہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کو تو سی پیک کی کا میابی منظور نہیں ہے ؟

٭لندن اور یورپ میں خود ساختہ سیاسی پناہ لینے والے راہنما واپس آ کر سی پیک کو پا یہ تکمیل تک پہنچانے کے اقدامات کیسے کر سکیں گے ؟

٭بڑ ھتی ہوئی آ بادی کی وجہ سے خوراک کی ضروریات بھی بڑھتی جا رہی ہیں اس کا حل کیا ہو گا ؟

٭ امپورٹ کیسے کم کی جا سکے گی ؟ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیسے ہو گا ؟

٭ طبقاتی تفریق میں توازن کیسے پیدا ہو گا ؟

٭ ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام سے ہٹا کر بالادست طبقے اور امراء پر کیسے ڈالا جائے گا ؟

٭ گردشی قرضہ کیسے کم ہو گا ؟

٭ عالمی منڈیوں میں قیمتیں بڑ ھنے کے باوجود پا کستان میں بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتیں کیسے کم کی جائیں گی ؟

٭ ہر سال تنخواہوں اور پنشن کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کیسے سنبھا لا جا سکتا ہے؟


اپوزیشن اور سیاسی راہنماؤں نے ملک کے مستقبل کی جو تصویر عوام کے سامنے پیش کی ہے وہ واقعی انتہائی قابل فِکر ہے، اب تو وطیرہ ہی یہ بن گیا ہے کہ بس ایک دوسرے پر الزامات لگا کر وقت گزارتے رہو مگر اس کا حل کوئی بھی نہیں بتا رہا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو بھرپور وقت اور موقع مِلا مگر مسائل میں اضافہ ہوتا ہی گیا ، پھر لوگوں نے عمران خان کی پی ٹی آ ئی سے توقعات وابستہ کر لیں کیونکہ اس کی کئی وجوہات تھیں عمران خان نے سیاست کو اپنے کاروبارکی وسعت کیلئے استعمال نہیں کیا۔کینسر ہسپتال کو کامیاب کر کے دکھایا ۔ جب وہ حکومت میں آئے تو انھیں طاقتور اداروں کا ساتھ بھی حاصل تھا، ٹیکنوکر یٹ بھی ان کی معاونت کیلئے موجود تھے، عوام کا ساتھ بھی تھا۔ لوگوں نے پی ٹی آئی کی حکومت سے خاصی توقعات وابستہ کر لی تھیں ، مگر عمران خان کے پاس مسائل کے حل کیلئے وسائل نہیں ہیں ۔

اس وقت ملک جن حالات سے دوچار ہے ، جن مسائل کا سامنا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ فی الوقت ساری فوجی ، سیاسی اور عوامی قیادت قوم کو مسائل سے نکالنے کیلئے اکٹھی بیٹھ جائے ۔

ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے کئی حل موجود ہیں ۔ سب سے پہلا حل تو یہی ہے کہ سی پیک کی کامیابی کیلئے تمام ملکی و ریاستی قوتیں متحد ہو جائیں اور ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ ہمارے تمام سیاسی راہنماؤں اور پا رٹیوں کو اپنی بقاء کیلئے بیرون ممالک کی طرف نہ دیکھنا پڑے ، اس وقت ماضی میں دیکھنے کی بجائے مستقبل کا سوچا جائے ، پی ٹی آ ئی کے دور حکومت میں تمام تر کاوشوں کے باوجود کرپشن زدہ رقم واپس نہیں آ سکی اور نہ ہی اس کی اُ مید دکھا ئی دیتی ہے، اس کوشش میں کئی مشیر اور وزیر بھی تبدیل ہو چکے ہیں ، اوپر والی سطح پر ہونے والی کرپشن مشکل سے ہی سامنے آ تی ہے، کرپشن کی اصل وجہ تجارتی اور انتخابی سیاست تھی ۔

ہمارا سیاسی نظام کبھی بھی مستحکم نہیں رہا ، سیاسی افراد جوا سمجھ کر انتخابات میں حصہ لیتے تھے کہ اگر جیت گئے تو ایک کے سو بنالیں گے، دولت کے سا تھ عزت اور شہرت علیحدہ حاصل ہو گی اور جرائم میں ملوث ہو نے کے باوجود انتظامیہ ریاستی مشینری اُن پر ہا تھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرے گی اور ایسا ہوتا بھی رہا ہے، یہاں تک کہ منتخب ہونے والے سیاسی افراد اپنے علاقوں میں اپنے وفادار اور پسندیدہ پولیس اہلکار اور سیاسی ملازمین تعینات کرواتے تھے، یہ سیاسی افراد اور ریاستی اہلکار جرائم میں ایک دوسرے کی پُشت پناہی بھی کرتے ہیں ، ایک دوسرے کو تحفظ بھی دیتے ہیں ، چونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے سچے خیر خواہ ہوتے ہیں اس لئے کرپشن کے ثبوت ساتھ ساتھ ہی ختم کر دئیے جاتے ہیں ۔

ثبوت کے بغیر سزا نہیں دلوائی جا سکتی ۔ ایک ہی طریقہ رہ جا تا ہے کہ ذراؤ آمدنی دولت اور جائیداد کا موازانہ کیا جائے مگر شاطر افراد نے اس کا حل بھی سوچ لیا ہو ا ہے ۔ اب تو عدالتوں کے کچھ فیصلے ایسے بھی آ ئے ہیں کہ اگر بیوی بچوں کا اپنا کوئی بزنس ہے تو ان کی دولت اور جائیدادکو مکمل طور پر کرپشن زدہ نہیں کہا جا سکتا ۔ اب چونکہ اس مسئلے کا ممکنہ حل تو کوئی ہے نہیں بہتر ہے کہ آ گے کی طرف ہی چلا جائے ، وگرنہ ایک فضول سی مشق میں اور بھی وقت ضاؤ ہو گا، قوم کی تقسیم بھی بڑ ھتی جائے گی۔

قوم مزید ڈپریشن کا شکا ر ہو گی البتہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ کسی سطح پر کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی اور کرپشن ثابت ہونے پر کم از کم 5 سال قید کی سزاء اور جائیداد کی ضبطگی کو یقینی بنایا جائے گا ۔ اگر ایک دفعہ تمام سیاسی و ریاستی افراد کو ''این او آر '' دیدیا جائے تو ممکن ہے کہ سب اپنی دولت و جائیداد کی بقاء کی جنگ کی بجائے ملک اور عوام کی بقاء کیلئے اکٹھا ہو جائیں ۔

پاکستان دشمن عناصر کی سب سے بڑی ناکامی اس وقت ہو گی جب سی پیک کے معاملے میں تمام چھوٹی بڑ ی سیا سی پارٹیوں کا نقطہ نظر ایک ہوگا، مخالف قوتیں کسی بھی سیاسی پارٹی کو اپنا آ لہ کار نہ بنا سکیں اور نہ ہی پارٹیاں ملک میں غیریقینی صورتحال پیدا کر سکیں ، سی پیک کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے یہ ایک گیم چینجز منصوبہ ہے مگر ہماری باہمی چیفلش نے اُسے بہت دور کر دیا ہے ۔

دوسرا حل یہ ہے کہ ٹیکسوں کا 90 فیصد بوجھ اس طبقے پر ڈال دیا جائے کہ جن کے تجارتی یونٹوں ، جائیداد ، محلات ، دولت میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے، ان طبی اور تعلیمی اداروں کو بھی بڑ ے ٹیکس نیٹ ورک میں لا یا جائے کہ جن کے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایسا وقت آ گیا ہے کہ اب معروف تعلیمی ادارے بھی پورے ملک میں بھاری رقوم لیکر فرنچائز دے رہے ہیں، کئی تعلیمی ادارے ایسے ہیں کہ جن کے نام پر چلنے والی برانچز کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

اگرچہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ شوکت ترین بار ہا مرتبہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام میں صرف بیس لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں ، پہلی بات تو یہی ہے کہ بائیس کروڑ عوام کمائی نہیں کر رہے ،اس تعداد میں تقریباً گیارہ کروڑ خواتین ، 6 کروڑ سے زائد بچے اور بوڑھے افراد شامل ہیں ، معذور اور بے روز گار افراد کی بڑی تعداد بھی شامل ہے اور بہت کم اجّرت پر کام کرنے والے افراد بھی شامل ہیں ۔ بیس لاکھ کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ چالیس لاکھ کیا جا سکتا ہے مگر مصنوعات کی خریداری اور یوٹیلٹی بِلوں پر پوری قوم مختلف ٹیکس ادا کر رہی ہے۔

ہمارے ایک سابق وزیر خزانہ نے انکشاف کیا تھا کہ ملکی دولت کا 90 فیصد حصہ صرف ڈیرھ لاکھ کے پاس ہے ، یعنی باقی صرف دس فیصد دولت ملک کی باقی تمام آ بادی کے پاس ہے، اس بات کا حکومت کو بہتر علم ہو گا اگر یہ بات سچ ہے تو پھر 90 فیصد ٹیکس بھی ان ڈیرھ لا کھ افراد سے ہی وصول کیا جائے، انصاف تو یہی ہے۔؟

تجارتی خسارے ، تنحواہوں ، پینشن ، دفاعی اخراجات ، قرضوں کی ادائیگی اور روزمرہ کے ریاستی اخراجات پر بہت بڑی رقم خرچ ہو رہی ہے اور اس رقم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ان مسائل کے حل کیلئے مل بیٹھنا چاہیے۔ اگر آ خری سِرا بھی ہا تھ سے نِکل گیا تو پھر ہماری خودمختاری مزید مجروح ہو سکتی ہے۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس خوشی سے نہیں گئی ، انہی معاملات کی وجہ سے گئی ہے، آ ج ان کی ہر قسم کی شرائط ماننے پر ریا ست مجبور ہے توکل شرائط مزید سخت بھی ہو سکتی ہیں ، ہماری خودمختاری پر مزید زد پڑے گی ۔ اب وقت ایک دوسرے پرالزامات لگانے کا نہیں ، نیچا دکھا نے کا نہیں ، گرانے کا نہیں ، ملک و قوم کو بچانے کا ہے۔

ملک کے تمام اقتصادی و معاشی ماہرین کو بھی ان مسائل کے حل کیلئے میدان میں آنا پڑ ے گا ، یہاں جوہر قابل کی کمی نہیں صرف انکی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ان سے کام لینے کا فن آ نا چاہیے۔ یہاں نااہل افراد ہر میدان میں چھائے ہوئے ہیں اور جوہر قابل کا راستہ روکے ہوئے ہیں ، ظاہر ہے کہ ان نااہل افراد کی کسی نہ کسی سطح پر پُشت پناہی بھی ہو تی ہے اور یہ نااہل ، سازشی ، خوشامدی اور مفاد پرست انسان اپنی سیٹوں پر براجمان رہتے ہیں نہ انھیں خود کچھ آ تا ہے اور نہ ہی یہ کسی کو کام کرنے دیتے ہیں ۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے ان لوگوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہیں ۔

لانگ مارچ یا تحریک عدم اعتماد ملک وقوم کے معاشی اور اقتصادی بحران کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے بحران مزید گہرا ہو گا ، افراتفری میں اضافہ ہوگا ۔ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے سے یہاں تیل اور سونے کے ذخائر تو دریافت نہیں ہو نگے ، بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی اور ریاستی اسٹیک ہولڈر ،ملک وقوم اور غریب عوام کیلئے مل کر بیٹھیں اور مسائل کا حل نکالیں ۔ جو بیرونی ممالک مختلف پارٹیوں کی پُشت پناہی کر رہے ہیں تو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ان کا ساتھ دینے میں ان ممالک کا اپنا ذاتی مفاد کیا ہے اور وہ پا کستان کو مزید کمزور اور بے بس کیوں کرنا چاہتے ہیں۔

تمام سیاسی پارٹیاں تہیہ کر لیں کہ وہ اپنے اقتدار اور مفاد کیلئے غیرممالک کی طرف نہیں دیکھیں گے بلکہ وہ اُن کی سازشوں اور مفادات کو عوام کے سامنے لا ئیں گے تاکہ اس کی روشنی میں ریاست اپنے مقاصد اور منزل کا تعین کر سکے۔ پا کستان کو بیرونی قوتوں سے خطرہ نہیں صرف اپنوں سے خطرہ ہے اور اب یہ خطرہ مکمل طور پر دور ہونا چاہیے۔

صحافیوں کو بھی ایک ذمہ دارانہ کردار سر انجام دینے کی ضرورت ہے ، بعض میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کے ذاتی مفادات کا فائدہ سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں اور ان کی پُشت پناہی کرنے والے بھی ۔ میڈیا عوام کے مسائل بھی سامنے لائے اور ایسی آ راء کو بھی اہمیت دے کہ جو مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوں ۔ اب ذاتیات اور شخصیات کی بجائے نظریات کی سیاست اور صحافت ہونی چاہیے۔ اب صحافی اس بات کا تہیہ کر لیں کہ وہ صرف ریاست کی مضبوطی اور عوام کی خوشخالی کیلئے ہی قلم اٹھائیں گے ۔ ایسی آ رائے کو سامنے لا ئیں گے کہ جن سے مسائل حل ہوں نہ کہ مسائل زیادہ ہوں عوام میں تفر یق بڑ ھے اور عوام مزید مایوس اور پریشان ہوں !!!

تیل اور بجلی کی قیمت کم کرنے پر بھی اپوزیشن کو اعتراض
28 فروری 2022 ء کو وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے تیل کی قیمت میں 10روپے اور بجلی کی قیمت میں 5 روپے کمی کا اعلان کیا ۔ خیال تو یہی تھا کہ عوام سے زیادہ اپوزیشن کو خوشی ہو گی کہ ان کی جدوجہد رنگ لا رہی ہے مگر ساری اپوزیشن اعلان کے بعد بوکھلاھٹ کا شکار ہے۔

کیونکہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے، اپوزیشن کو علم ہے کہ قیمتیں کم ہو نے سے خزانے پر ہی بوجھ پڑ ے گا۔ اگر یہی بات ہے تو پھر انھیں مہنگائی کی ذ مہ داری وزیر اعظم عمران خان پر ڈالنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ اپوزیشن کو یہ بھی خوف ہے کہ اگر وزیراعظم قیمتیں کم کرتے رہے، وہ تو عوام میں مقبول ہو جائیں گے۔ اور اپوزیشن بر سر اقتدار آئی تووہ زر مبادلہ کے ذخا ئر کو مزید گِرنے سے کیسے بچا پائے گی۔
Load Next Story