احادیث اور محاورے جو شفا بنے

جن پر عمل درآمد آج بھی ضروری ہے،کورونا کے دنوں میں ہمارا طرزعمل اور سوچ بدل دینے والے کچھ الفاظ کا تذکرہ

جن پر عمل درآمد آج بھی ضروری ہے،کورونا کے دنوں میں ہمارا طرزعمل اور سوچ بدل دینے والے کچھ الفاظ کا تذکرہ

لاہور:
آج سال 2022 کے دہانے پر کھڑے، تغیر و تبدیلی کے پچھلے دو سالوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم سوچ رہے ہیں کہ یوں تو دنیا میں انقلاب بہت آئے جنھوں نے دنیا کو ہلا ڈالا لیکن روئے زمیں پر کورونا جیسا انقلاب جس نے پاؤں تلے زمین ہی کھسکا دی ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا، صرف زمین ہی نہیں کھسکی بلکہ اپنے اثرات کے ذریعے تحقیق کے لیے ہر ذہن پر ایک سوال چھوڑ گئی کہ کیا کورونا محض ایک وبا تھی؟ جس نے بہتی ہوئی دنیا کا دھارا دوسری سمت کر دیا۔

2022 میں دنیا کے کینوس پر نمودار ہونے والی کورونا وبا جس نے ہنستی بستی، سجی سجائی چلتی ہوئی دنیا کی بساط ہی الٹ دی اور انسان کو ہوا میں معلق کرکے ایسے پل صراط پر چلنے کا حکم دیا جس پر چلتے ہوئے ہر دم گرنے کا احتمال رہا، ایک اندیشۂ جاں نے سارا سال سولی پر لٹکائے رکھا کہ اب گرے تو اب گرے، دنیا کو بدلنے کا عمل اتنی تیزی سے آیا کہ سوچنے سمجھنے کی ساری حدیں ختم ہوگئیں۔

متحرک و مصروف دنیا میں ہو کے عالم نے ہر ایک کو سانپ سونگھا دیے، کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے والا ہے، کیا ہوگا، کہیں یہ قیامت کے آثار تو نہیں، اس کی دہشت نے انسان کے ہوش و حواس ہی نہیں چھپنے بلکہ اس کے زیر اثر ایک یا دو نہیں پوری دنیا ایک ہی رنگ و روپ میں رنگی نظر آئی، کیا بلندیاں، کیا پستیاں سب ہی اس کے بھاری پنجوں تلے آ کر اپنی اصل شکل و صورت ہی کھو بیٹھیں، اور یوں کورونا نے ایک اہم استعارہ بن کر انسانی زندگی پر اپنے وہ نقش ثبت کیے جو تاعمر اس کی یاد دلائیں گے۔

سال 2020 اور سال 2021 کورونا وبا کے وہ تاریخی سال جس کے ہم تو چشم دید گواہ لیکن آنے والی نسلیں وبا کے اس خوف ناک دور کی ملکی و غیرملکی متاثرین و ہلاکتوں کی داستانیں اور اس کے اثرات و ثمرات پڑھ کر ضرور سوچیں گی اور غوروفکر کے گھوڑے دوڑائیں گی کہ آدمی کو آدمی سے دور کرنے والا اور زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی کو بند کرکے محفلوں کو ویران کرنے والا، فضاؤں و آنکھوں کو اشک بار کرنے والا، سانسوں کو گراں بار کرنے والا، قدموں کو بوجھل کرنے والا، یہ کورونا وائرس کیا تھا؟

کہنے کو معمولی و نادیدہ وائرس، لیکن طاقت میں تمام اسلحوں سے زیادہ طاقتور و ہیبت ناک جو ساری دنیا کو بندشوں کی ایسی زنجیر میں جکڑ گیا کہ زندگی کی طرف کھلنے والا ہر راستہ ہی بند ہو گیا، اور اس سے نکلنے اور جان چھڑانے کے لیے لوگوں کے سر اس مالک حقیقی کے آگے ایسے جھکے کہ اٹھنا ہی بھول گئے اور ساتھ ہی اس پر بھی تحقیق کرے گی کہ اس نے دنیا کو ریوائنڈ کرکے انسان کو اس سادہ رہن سہن اور سادہ غذا کے دور تک کیسے پہنچایا جو سنت نبوی کے اصولوں سے مزین تھا اور جنھیں وہ نئے دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بالکل فراموش کرچکا تھا۔

٭ ریورس گیئر
ہماری زندگی کا یہ ریورس گیئر پڑھ کر انھیں اندازہ ہوگا کہ یہ ریورس گیئر یوں ہی نہیں لگا اور یہ معجزہ منٹوں میں رونما نہیں ہوا، ہماری زندگی کا یہ ٹھہراؤ و سکوت کوئی معمولی سکوت نہ تھا، بلکہ انتہائی غیرمعمولی تھا، سال 2020 کا سب سے بڑا معجزہ انسانوں کو گھروں میں محصور کرنے کا تھا، باقی وباؤں نے ان احادیث پر عمل کرایا کہ ''جب کہیں وبا پھوٹ پڑے تو اس جگہ سے دوسری جگہ مت جاؤ، یعنی نقل مکانی نہ کرو۔'' لیکن گھروں میں محصوری کا حوالہ سوائے کورونا وبا کے اور کہیں نہیں، بلاوجہ و بلا جواز ایک بندے کو بھی قید کرنا ممکن نہیں، یہاں تو انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر یعنی پوری دنیا کو ہی اس نے گھروں میں قید کردیا۔

اڑتے ہوئے بے زبان پرندوں کو بھی پنجرے میں قید کرو، تو وہ بھی آزادی کے لیے پھڑپھڑاتے اور پنجرے سے ٹکریں مارتے ہیں اور یہاں تو جب عقل و شعور رکھنے والے انسانوں کو قید کیا گیا تو انھوں نے بھی اپنی رہائی کے لیے ہر حیلہ و حربہ آزما ڈالا لیکن اپنے تئیں خدا بننے والے انسان کو اللہ کی پکڑ و آزمائش بٹھا کر سبق سکھانا اور یاد کرانا چاہتی تھی، سو اللہ نے کورونا سے بچنے کا ایک ہی حل، ایک ہی ذریعہ، ایک ہی تدبیر دکھائی، ایک ہی فارمولے پر عمل درآمد کرایا، وہ تھا ''گھر پر رہو، محفوظ رہو'' کورونا کی احتیاطی تدابیر کی پہلی کڑی جو دنیا کے سدھار اور خدا کی خدائی کا نشان بن کر، نجات کا آلام و گھنٹی بن کر، انسان کے باہر اٹھتے ہوئے قدموں کو روک گئی اور آسائشوں کی دوڑ میں گھن چکر بنے انسان کو اللہ کے اس فیصلے کے آگے سر جھکانا پڑا کیوں کہ رہائی مقصود تھی۔

زندگی عزیز تھی اور اس محصوری نے شان کریمی کے وہ کمالات دکھائے کہ انسان اس میں بہتا ہوا خودبخود اس کی منزل تک آ پہنچا، جہاں خدا کی منشا اسے بچانا چاہتی تھی، ہمیں گھر بٹھا کر کورونا نے پورے دو سال ہمیں جس سختی سے اسلام کے بھولے ہوئے سبق یاد کرائے کہ ازبر ہوگئے کیوں کہ کوئی بھی سبق زبانی نہیں تھا بلکہ عملاً تھا اور ہمارے اندر رچ بس گیا۔

ہم نے جن ہتھیاروں سے کورونا کی جنگ لڑی وہ توپ یا تلوار نہیں بلکہ وہ ''محاورے'' تھے جن کی انگلی کورونا نے اپنی ''احتیاطی تدابیر'' وضع کرکے ہمارے ہاتھوں میں پکڑائی یوں یہ محاورے جو ''صحت و اخلاقیات'' کے زریں اصولوں سے مزین تھے ہماری اندرونی و بیرونی شفا کے وہ نسخے بنے جنھوں نے ''دوا'' کے بغیر بھی ڈاکٹر بن کر انسانی جانیں ہی نہیں بچائیں بلکہ زندگی کے وہ سنہری اصول بھی سکھائے، وہ قیمتی اثاثہ بھی لوٹایا جو موجودہ طرز زندگی نے ہم سے چھین لیا تھا۔

کورونا کی احتیاطی تدابیر کے پہلے اعلان ''گھر پر رہو، محفوظ رہو'' کے تحت ہم نے سال 2020 میں انسانوں کی وہ الٹی دوڑ دیکھی جس کا ہر راستہ گھر کی منزل پر آ کر رکا، ہر جگہ داخلہ ممنوع کا بورڈ نظر آنے پر، دفاتر گھروں میں کھلے، بچوں کے اسکولوں کی گھنٹی گھروں میں بجی، مسجدیں گھروں میں آباد ہوئیں، لان کا حدود اربع جم کی صورت اختیار کر گیا اور گھر کا چھوٹا سا کچن فائیو اسٹار ہوٹل کا نقشہ پیش کرنے لگا، سب نے اکٹھے دوڑ لگا کر گھر پہنچ کر ہی دم لیا، کہاں تو صبح سے شام تک گھر کی صورت دیکھنے کو نہ ملتی تھی، وہ گھر جہاں ہم ضرورت کے وقت قیام و طعام کرتے تھے وہی ہماری سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ اور مستقل قیام گاہ بن گیا۔

1۔ ''میرا گھر، میری جنت'' کی صحیح معنوں میں قدر کرائی، کورونا نے وہ کر دکھایا جو شاید عام حالات اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں ممکن ہی نہ تھا، یوں تو سب کو معلوم ہے کہ گھر سے بڑی کوئی جنت نہیں لیکن اس جنت میں چھپی ہوئی نصیحتیں و راحتیں جس طرح کورونا نے ہمیں محسوس کرائیں وہ فی زمانہ ہم لوازمات کی لسٹ حاصل کرنے اور حرص و ہوس کی دوڑ میں فراموش کر چکے تھے، غم روزگار کے چکروں اور زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرنے کی خواہش نے ہم سے گھر بیٹھنے کے آسودہ لمحے چھین کر ہمیں سڑکوں پر خوار کرکے رکھ دیا تھا، حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کی خواہش نے در بہ در کردیا تھا، یہ مشینی دور ہمیں اپنے ماں باپ سے کتنا دور کر گیا تھا۔

اس وبا نے ہمیں اس جنت کو ڈھونڈنے اور خیال رکھنے کا موقع دیا ''جن کے قدموں تلے جنت ہے'' اور جس کا حساب کتاب قیامت کے روز ہوگا۔ گھروں تک محدود اڑان نے اور اس پر مزید لاک ڈاؤن کی بندش نے باہر کی دنیا بالکل ہی بے معنی کردی تو اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے اور گھر کی ٹھنڈی چھاؤں میں سستانے کا موقعہ ملا اور سستانے کے اس عمل سے انسان کے قلب و ذہن میں ایسی تبدیلی آئی کہ اس کا طرز فکر، اس کا رہن سہن، اس کی بود و باش، غرض یہ کہ ہر روش میں تبدیلی آئی، کام والی کی چھٹی ہونے۔۔۔۔خاتون خانہ کا مل کر ہاتھ بٹایا، ورنہ عام دنوں میں تو پانی کا گلاس پینا بھی مشکل ہوتا تھا۔

آج جو ہمارے کھانے پینے اور زندگی کے طور اطوار حرام و حلال، جائز و ناجائز کا سبق پڑھایا جا رہا ہے سادہ غذاؤں سے رغبت، باہر کے کھانوں سے اجتناب، یہ بدلی ہوئی صورت حال حضور کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا پیغام دے گئی ہے جو ایک کھجور کھا کر اور سادہ سخت چٹائی پر سو کر اسلام کی ایسی مشعل جلا گئے ہیں کہ جس پر چل کر ہم آج بھی اپنی زندگی کو سہل بنا سکتے ہیں، خواہشوں کی دلدل میں دھنسنے کے بجائے ''اپنا گھر، اپنی جنت'' میں مدغم ہو سکتے ہیں کیوں کہ دنیا کی ہر خوشی اور ہر غم کا مداوا ''آپ کا اپنا گھر ہی تو ہے۔''

2۔ ''جان ہے تو جہان ہے'' اس سادہ سے جملے نے جس طرح پچھلے دو سالوں میں اپنی اہمیت عیاں کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس نے ہمارا منہ ہماری طرف ایسا موڑا کہ آج جس کو دیکھو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ''ہم نے کورونا کے دنوں میں اپنا جتنا خیال رکھا، شاید ہی کبھی زندگی میں رکھا ہو۔'' اور یہ حقیقت ہے اس چار لفظی محاورے نے جس طرح دنیا کو اپنے گرد گھمایا، اور ایسی تھرتھلی مچائی کہ ساری دنیا بلا امتیاز، امیر و غریب، کالے و گورے، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔

کورونا کا اچانک حملہ اور آناً فاناً موت نے اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے کردی، ایک ہی ڈر، ایک ہی خوف سب کے ذہنوں پر حاوی ہوا کہ کہیں کورونا نہ ہو جائے۔ سب کو اپنی جان بچانے کی ایسی پڑی کہ سب کچھ بھول گیا کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے یا کسی نے ان کے ساتھ کیا کیا، سب کچھ ذہن سے محو ہو گیا، یاد رہا تو صرف اتنا کہ ''کورونا سے بچنا کیسے ہے؟'' اور ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ لوگ کورونا کا پازیٹیو مثبت رزلٹ آنے پر زار وقطار روئے بھی، یہ تھی اس کی دہشت جس نے زندگی کی قدر و قیمت ایسے بتلائی کہ سب ہی ''جان ہے تو جہان ہے'' کے مصداق اسے بچانے کے لیے دوڑ پڑے، ورنہ تو لاکھوں کی اس جان کو ہم نے دو کوڑی کا سمجھ کر زندگی کی دوڑ دھوپ میں رول دیا تھا۔ پیسے کی ہوس ''چمڑی جائے۔


دمڑی نہ جائے'' نے ایسے گھسیٹا تھا کہ جیسے چلتی ہے، چلتی جائے، گھسٹتی جائے، جب تلک تھک کر گر نہ پڑتے یا دل کا دورہ نہ پڑ جاتا اس کا خیال رکھنے کا خیال تک نہ آتا، ''لکھاں جئی جان ککھاں بھاں رُل گئی'' (لاکھوں سی جان تنکوں کی مانند رُل گئی تھی) اب جو کورونا نے الرٹ کیا تو اس کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہی اسے بچانے کے لیے ساری حدیں عبور کر گئے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، ہر وہ جتن کر ڈالا، ہر وہ گر و نسخہ استعمال کر ڈالا جو اس سے بچنے اور زندگی کا ضامن تھا۔ 2020 میں دواؤں کی بے بسی نے قوت مدافعت بڑھا کر اس سے لڑنے کا مشورہ دیا، تو قوت مدافعت بڑھانے والی غذاؤں کو ڈھونڈتے ہوئے اپنے بزرگوں کی بند پوٹلیاں کھول کر وہ سارے نسخے کھنگال ڈالے جنھیں ہم پرانے وقتوں کا اثاثہ سمجھ کر الماریوں میں بند کرچکے تھے جو ان کی طویل العمری کا سبب تھے۔

اس کے زیراثر ایسے ایسے دیسی نسخے استعمال کر ڈالے جس کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوا ہو، اور جن کے کبھی قریب بھی نہ پھٹکے تھے۔ وہ سادہ غذائیں جن کی ہماری زندگی میں چنداں کوئی اہمیت نہ تھی، جو باہر ہوٹلنگ اور فاسٹ فوڈ کی چمک دمک میں اپنی اہمیت و وقعت کھو بیٹھی تھیں، کورونا نے ہوٹلوں پر تالے لگوا کر ان سے ہمارا تعارف ہی نہیں کرایا بلکہ روزمرہ کے کھانوں اور ہمارے باورچی خانوں کا حصہ بنایا، ہماری نئی نسل کے لیے تو یہ گھر کے کھانے بالکل ہی نیا تجربہ کہ وہ اب باہر کے کھانوں اور پیزے تک کی ہوم ڈلیوری ہی کراتے۔

قوت مدافعت والی غذائیں کھجور، شہد، بادام، زیتون ہمارے ٹیبل کی زینت بنیں، معمولی چھینک اور کھانسی خطرے کا الارم بنی تو ادرک و دار چینی کے قہوے کا استعمال ضروری جانا، کولڈ ڈرنک چھوڑ گرم پانی میں نمک ڈال کر غرارے کرنا معمول بنایا، کیلشیم کی شیشیوں کی شیشیاں ختم کر ڈالیں، وٹامن سی سے بھرپور پھل و سبزیوں کا کثرت سے استعمال کیا اور کلونجی کے دانے (جن کے بارے میں حضورؐ کا ارشاد ہے کہ موت کے علاوہ اس میں ہر چیز کا علاج ہے) کو روز کھانا معمول بنایا، وقت وہ زمانہ بھلے بدل جائے لیکن سادہ غذاؤں میں چھپے ہوئے صحت کے راز وہی ہیں، جو ہمارے بزرگوں کے زمانے میں تھے۔

سو یہ تھا وہ سفر جو اپنا خیال رکھنے سے شروع ہو کر اپنا خیال رکھنے تک بتلا گیا کہ ''جان ہے تو جہان ہے۔'' اس کی حفاظت لازمی کیوںکہ زندگی خدا کی امانت ہے۔

3۔ ''صفائی نصف ایمان ہے'' کورونا نے جس طرح صفائی کو لازم و ملزوم بنایا، اس سے پہلے صفائی، پاکیزگی و طہارت کبھی ایمان کے درجے تک نہ پہنچی تھی، اس چار لفظی جملے کا مفہوم اس پر بار بار عمل کرکے سمجھ میں آیا، اب تو حال یہ ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ہاتھ دھونے کی عادت ایسی پڑی ہے کہ بار بار ہاتھ دھونے پر بھی تسلی نہیں ہوتی گو ہر دم ہاتھ دھونے اور سینی ٹائزر استعمال کرنے سے قسمت کی لکیریں تک مٹا ڈالیں، لیکن ہاتھ نہ دھونے کی صورت میں عمر کی لکیر مٹتی نظر آ رہی تھی، آج پوری دنیا اس کی افادیت تسلیم کر رہی ہے، ٹیشو پیپر سے ہاتھ صاف کرنے کے بجائے ہینڈ واش و صابن کا استعمال جس طرح ہو رہا ہے ہاتھ دھونے کے مختلف طریقے جس طرح آن ایئر ہوئے بتانے کے لیے کافی ہے کہ صفائی کا جادو ساری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا ہے گھروں کی ایسی صفائی دروازوں کے ہینڈلوں پر ڈیٹول کا اسپرے چمکتے ہوئے فرش اور چمکتے ہوئے شیشوں میں سے جھانکتا ہوا اپنا ہی عکس ''صفائی نصف ایمان ہے'' کی گواہی دے رہا ہے۔

4۔ ''دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے''۔ دنیا کا ہر لمحہ آزمائش اور اس میں سرخ روئی صرف اور صرف خدا کی رحمت کے مرہون منت ہے، جب دوائیں و تدبیریں بے اثر ہو جائیں، جب کچھ سجھائی نہ دے، ہر راستہ بند دکھائی دے تو انسان کو اپنی بے بسی و تکلیف میں خدا ہی یاد آتا ہے، ورنہ تو دنیا کی بھول بھلیوں میں گم انسان کو ایک سجدہ بھی گراں لگتا ہے، آج 2022 میں یاد کی ہوئی اور 2021 میں دہرائی ہوئی اپنی ہی دعائیں کانوں میں گونج کر وہ لمحے یاد کرا رہی ہیں جب زندگی کا سکھ چین داؤ پر لگ گیا۔

موت کی آہٹ نے زندگی کا حسن ہی چھین لیا، کورونا کا حملہ، وینٹی لیٹر پر آخری سانس، اچانک موت، نہ کوئی تیمار دار، نہ کوئی سنگی ساتھی، اور دواؤں کے لاحاصل ہونے نے انسان کو اپنی بے بسی اور بندہ ناچیز ہونے کا ایسا احساس دلایا کہ اس کا ہونا یا نہ ہونا تو اس کے ایک اشارے کا منتظر ہے، بس پھر کیا تھا وہ سر جو جھکنے میں دیر کر رہا تھا، زندگی کے لیے دعائیں کرتا ہوا ایسا سجدہ ریز ہوا کہ 2020 میں صرف آہ و فغاں و گریہ و زاری میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کا شور سنائی دیا کہ ''اللہ ہمیں کورونا سے بچا لے'' ہنستے بستے گھروں میں اچانک موت کی کہانی نے قیامت صغریٰ برپا کردی، اس پر مسجد بند ہونے اور خانہ کعبہ کے طواف کے بند ہونے نے انسان کو ایسے لرزایا کہ یہ کورونا نہیں قہر الٰہی ہے جو ہم پر ٹوٹا ہے۔

''ہم خدا کو ناراض کر بیٹھے ہیں'' بس اسی احساس نے دعاؤں میں اتنی شدت پیدا کی کہ سال 2020 میں ہمیں مشرق یا مغرب ایک ہی گریہ و زاری میں ڈوبی ہوئی سنائی دی ''یا غفور، یا غور، یا غفور'' یا اللہ ہمیں معاف کردے، ہماری حفاظت کر، مسلم تو مسلم، غیر مسلم بھی سر اٹھائے اس کی رضا کے طلب گار تھے۔ قہر الٰہی نے رواں رواں دعا بنا دیا، دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، ایک ہی کلمہ ایک ہی دعا ورد زباں رہی یا اللہ ہماری حفاظت کرنا، سارا سال توبہ و استغفار کی تسبیح ہمارے ہاتھوں سے لپٹی رہی، اسی کے تحت ایسے ایسے مناظر دیکھنے میں آئے جو بھلائے نہیں جاسکتے، گھروں میں استغفار کی اذانیں، ٹی وی پر لگاتار ترجموں کے ساتھ دعائیں، احادیث کی رہنمائی نے ہر گھر کو عبادت گاہ بنایا، ہر شخص مجسم فریاد بنا، ہر سانس دعا بنی، اور آج اس کی رحمت سے اپنی انھی دعاؤں کی قبولیت کی بنا پر ہم یہ کہنے کے قابل ہوئے کہ ہم دنیا کے مقابلے میں کورونا سے کم متاثر ہوئے ہیں، آپ نے ان لمحوں میں جن دعاؤں کو اپنا شعار بنایا جو آپ کے لیے ذریعہ نجات بنیں، اس کا حصار نہ ٹوٹنے پائے، نماز پنجگانہ کے لیے مسجدوں میں کمی نہ آنے دیں، رب کریم آپ کی دعاؤں کے صدقے 2022 میں بھی آپ کو صحت و زندگی کے ساتھ تمام خوشیوں کو بھی ہم رکاب رکھے (آمین ثمہ آمین)۔

5۔ ''دنیا مکافات عمل ہے''، ''جو کرو گے وہ بھروگے'' کیوں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے، آج آپ کسی کا دل دکھائیں گے تو کل اسی کی آہ آپ کو لے ڈوبے گی کیوں کہ کسی کی آہ لگنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے، نفسانفسی کی دوڑ اور انسان کی ''میں'' نے اس محاورے کو یوں سنا ان سنا کیا کہ حیوانیت و درندگی کی تمام حدیں پار کر گیا، لیکن کورونا کی دہشت نے اس جملے کا ایسا اثر دکھایا کہ ہم حیران و پریشان کلف لگی گردنوں کو جھکتا دیکھتے رہ گئے۔

موت نے راستہ روکا، تو خوف سے گھگھی بندھ گئی، کانوں پر ہاتھ رکھ کر توبہ توبہ کر اٹھے کہ یقیناً ہماری کرنیوں کا پھل، اور گناہوں کی سزا ہے، اس سے بچنے کے لیے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے دوڑ پڑے کہ ''جو بویا ہے وہ کاٹنا ہی نہ پڑ جائے'' اس سوچ نے ان کے مردہ ضمیر کو اس قدر جھنجھوڑا کہ وہ آگہی کے در تک آ پہنچا، آگہی کا در کھلتے ہی شعور کی نئی منزلیں بیدار ہوئیں، رشد و ہدایت کا نیا باب رقم ہوا، یہ انھی رحمتوں کا ادراک تھا کہ وہ خودبخود احتساب کی منزل تک آ پہنچا جو کام دنیا کی عدالتیں نہ کرسکیں وہ ایک نادیدہ وائرس نے کر دکھایا، اور جب بات احتساب تک پہنچ جائے تو دل کی سیاہ کاریاں دہکنے لگتی ہیں، گناہوں کا کفارہ فرض اول بن جاتا ہے۔

غلطیاں گریبان پکڑتی ہیں کہ کس کا حق مارا ہے، کس کو ناحق تنگ کیا، کس کے رزق پر لات ماری، سب کچھ صاف صاف دکھائی دینے لگتا ہے، انسان کے اندر کی عدالتیں کھلنے سے دنیا نے اپنی اکڑ میں ڈوبے ہوئے ان لوگوں کی توبہ و استغفار کی وہ آواز سنی کہ یا الٰہی مجھے معاف کردے، صرف خدا سے ہی نہیں، ان بندوں سے بھی معافی مانگی جن کا دل دکھایا تھا، یہ ہے اس محاورے کا خوف جو ہر غلط کام کرنے سے روک کر آپ کو فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔

6۔ ''صدقہ ردِ بلا ہے۔'' وہ یوں نہیں کہتے کہ آپ کی نیکی رائیگاں نہیں جاتی، آپ کے ہاتھوں کا لیا دیا ہی کام آتا ہے، جانے کون سی نیکی آپ کو موت کے منہ سے بچا گئی۔ کسی کی تنگ دستی دور کرنے سے آپ کا مال تو کچھ کم نہیں ہوتا لیکن خدا آپ کو آپ کی نیکی کے صلے میں جانے کتنی آزمائشوں سے بچا لیتا ہے، کتنی ہی بلاؤں و وباؤں کو رفع کردیتا ہے، 2020 میں یہ محاورہ موت کے اندھیروں میں روشنی کا پیغام بن گیا، کورونا سے بچنے کا یہی حل و تدارک نظر آیا کہ اس سے بچنا ہے تو صدقہ و خیرات میں کمی نہ کرو، اسی جذبے کے تحت رحم دلی، سخاوت و دریا دلی کے وہ مناظر دیکھنے میں آئے کہ عقل حیران و زبان گنگ ہے، لوگوں نے جس طرح اپنی بند تجوریاں کھول کر لوگوں کی امداد کی وہ اس بات کا ثبوت تھی کہ ہماری قوم میں تو یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، جانے حرص و لالچ کی کون سی ہوا چلی کہ یہ جذبہ دل کے نہاں خانوں میں کہیں جا سویا۔

کورونا سے موت کے خوف نے یوں احساس دلایا کہ جانے کتنی مہلت باقی ہے اپنے ہاتھوں سے لیا دیا ہی دنیا اور آخرت میں کام آئے گا بس یہی سوچ جانے کتنے گھروں کے چولہے جلا گئی، کتنوں کا تن ڈھانپ کر آپ کو دعاؤں سے مالا مال اور آخرت کے لیے نیکیاں ذخیرہ کر گئی، اس سال بھی جو ہاتھ آپ کی طرف بڑھیں انھیں جھٹکیں مت، تھوڑا بہت جتنا آپ کی دسترس میں ہے اس کی ضرورت پورا کرنے میں ضرور لگائیں، یقینا ان کی دعائیں آپ کے ہر دکھ کا مداوا کرسکتی ہیں۔

7۔ ''احتیاط اور صرف احتیاط''۔ ہم نے اس اصول پر عمل کرکے بتا دیا کہ ''پرہیز علاج سے بہتر ہے، یقین جانیے، اس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے ہم نے اپنی ساری جان لڑا دی۔ اپنے ناک منہ اور آنکھوں کو ہاتھ لگانے کے گریز نے گو ہمیں اپنے ہی لیے اجنبی بنا دیا لیکن اس پر اس سختی سے کاربند ہوئے کہ کہیں اپنے ہی ہاتھ اپنے دشمن نہ بن جائیں، اور اب 2022 میں بھی یہ ہمارے گلے کا ایسا ہار بنا ہے کہ ہم تو سب رنگ بھول گئے، دفتر جانا، اسکول جانا، ملنا ملانا، ہاتھ ملانا تک بھول گئے۔

لیکن نہیں بھولے تو ماسک پہننا نہیں بھولے، باہر جاتے ہوئے پرس لے جانا بھول جاتے ہیں، لیکن ماسک پہننا نہیں بھولتے (جیسے آج میٹرو میں ماسک ٹھیک کرتے ہوئے اپنا پرس ہی کاؤنٹر پر بھول آئے) یہ ہے وہ احتیاط کا سبق جو ہمارے اندر رچ بس گیا۔ آج دنیا کا بدلا ہوا منظرنامہ سب کا ایس او پیز پر عمل درآمد بتا رہا ہے کہ ساری دنیا کا مرنا جینا ایک ساتھ ہے، کورونا کا سیاق و سباق سب کا مشترکہ مسئلہ و مشترکہ ایشو ہے اور سب ہی اس سے پوری طرح نجات کے خواہاں ہیں، آپ بھی اس چھوٹے سے جملے کو ذہن میں رکھ کر اس پر کاربند رہیں کیونکہ کورونا کی پانچویں لہر اومی کرون میں بتدریج کمی ضرور ہوئی ہے لیکن خطرہ ابھی پوری طرح ٹلا نہیں، اس لیے ویکسین کے ساتھ احتیاط لازمی ہے۔

آپ نے جس طرح ان احتیاطی تدابیر کے وضع کیے ہوئے اصولوں کے تحت جن محاوروں کو اپنے پلو سے باندھا ہے ان کی گرہیں کھول مت دیجیے، کیوںکہ نہ تو یہ محاورے وقتی ہیں نہ ہی دنیا کے بدلتے ہوئے طور طریقے ہیں بلکہ یہ زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہی کرتی ہوئی وہ ٹھوس حقیقتیں، مشاہدے و تجربات ہیں جو ہر زمانے اور ہر دور میں دہرائے گئے ہیں اور جو ہماری فلاح و بہتری، صحت و زندگی کے ساتھ اخلاقی قدریں بحال کرنے کے بھی ضامن ہیں جنھیں خدا نے کورونا کی صورت پکڑ کرکے ہمیں ازسر نو یاد کرایا اور ہمارے ذہنوں پر نقش کیا۔

شاید وقت کا یہی تقاضا تھا اور ہمیں سکھانے کا بھی یہی طریقہ تھا، اللہ نے جو ہمارے دلوں پر سے مہریں اٹھا کر ہمیں صراط مستقیم کا سبق پڑھایا و راستہ دکھایا ہے تو وہ بے مقصد نہیں بلکہ اس رب کریم کی یاد دہانی ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے، اگر خدانخواستہ ہم پھر اپنی پرانی روش اختیار کرتے ہیں تو پھر کیوںکر اس کی رحمت کے طلب گار ہو سکتے ہیں، اس کے میزان پر پورا اترنے کے لیے 2022 میں بھی عملاً یاد کرائے ہوئے اس سبق کا ورد ضروری ہے کیوںکہ یہی ہماری دنیا اور دین میں سرخروئی کا انعام ہے۔
Load Next Story