سینڈک پروجیکٹ کے ملازمین پر ظلم
سینڈک کے ملازمین وہیں کے رہائشی ہونے کے باوجود شام کو گھروں کو نہیں لوٹ سکتے
بلوچستان کے ضلع چاغی میں سینڈک ایک دیہی علاقہ ہے۔ سینڈک کی وجہ شہرت سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر کی دریافت ہے۔
بلوچی زبان میں سینڈک (سیائن۔دک) کا مطلب سیاہ پہاڑی ہے۔ معدنیات کی کھوج کےلیے سینڈک میں چائنیز کمپنی کام کررہی ہے۔ نارتھ کوریا کے صدر کم جونگ اپنے سخت قوانین اور سزا کی وجہ سے دنیا میں جانے جاتے ہیں، لیکن آج کل سینڈک بھی نارتھ کوریا سے کم نہیں اور یہاں کے نظام چلانے والوں کو ظلم کی نسبت سے کم جونگ کہا جائے تو شاید ایسا غلط بھی نہ ہوگا۔
سینڈک پروجیکٹ کے نچلے طبقے کے زیادہ تر ملازمین کا تعلق ضلع چاغی سے ہے۔ وہ ان معدنیات کے حقیقی مالک ہیں لیکن ان کے بچوں کی بھوک اور گھر کے ٹھنڈے ہوتے چولہوں نے انہیں اس پروجیکٹ میں مالکوں کا غلام بننے پر مجبور کردیا ہے۔
گزشتہ دو سال سے سینڈک میں ملازمین کو کورونا کے نام پر ذہنی ٹارچر کیا جارہا ہے۔ معلومات کے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے ملازمین کو ایک ایک مہینہ دور دراز ویرانے میں قرنطینہ کے نام پر کال کوٹھڑی جیسے کمرے میں بند کردیا جاتا ہے۔ ملازمین قرنطینہ کے خوف سے مہینوں بلکہ کچھ تو سال تک بھی اپنے گھروں کو نہیں جاتے۔ اس طرح تو نارتھ کوریا کی فوج میں بھی نہیں ہوتا۔
گزشتہ دنوں سینڈک میں کورونا وائرس کے کچھ کیسز مثبت آنے پر سینڈک پروجیکٹ میں لاک ڈاؤن کردیا گیا۔ ملازمین کو کمروں تک محدود کرکے ٹیسٹ کیے گئے۔ گلے سے بار بار سیمپل لینے سے اکثر ملازمین کو گلے میں انفیکشن ہوگیا۔ جو ملازمین ٹیسٹ سے تنگ آکر گھروں کو جانے کی خواہش ظاہر کرتے انہیں یہی جواب ملتا ''استعفیٰ دو اور گھر جاؤ''۔ تاکہ وہ بھوک اور افلاس سے مرجائے۔ بالکل اسی طرح نارتھ کوریا میں کوئی فوجی اگر فوج چھوڑنا چاہے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے۔
سینڈک ملازمین وہ مجبور اور لاچار لوگ ہیں جو اپنے حق کےلیے آواز بھی بلند نہیں کرسکتے۔ کچھ عرصہ قبل ملازمین نے اپنے حق کےلیے آواز بلند کی، بعد میں علم ہوا کہ ان کو نوکری سے فارغ کردیا گیا۔ نارتھ کوریا میں اگر کسی شہری نے کم جونگ کے قوانین کی مخالفت کی یا اپنے حق کےلیے لڑا تو اس کو لٹکا دیا جاتا ہے۔ یہی قانون سینڈک میں لاگو ہے کہ اگر کسی بھی ملازم نے اپنے حقوق کےلیے آواز بلند کی تو اس کو گھر کا راستہ دکھایا جاتا ہے، جو غریب ملازم طبقے کےلیے موت سے کم نہیں۔ سینڈک پروجیکٹ میں کورونا کے حوالے سے حفاظتی نظام کی معلومات لیں تو بدن کانپنے لگا۔ معلومات میں یہ انکشاف ہوا کہ گھر سے آئے ہوئے ملازمین کا اگر 21 دن میں ایک بار بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو اس کو ایک ویرانے میں ایک تنگ کمرے کے اندر قرنطینہ کیا جاتا ہے اور جب تک ٹیسٹ کلیئر نہیں آتے قرنطینہ کے نام پر قید کیا جاتا ہے۔ اور قرنطینہ کی مدت میں اضافہ کرکے کہیں ملازمین کو دو دو مہنیے تک بھی قرنطینہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دو مہینے والا قرنطینہ کس نے ایجاد کیا؟ اور قرنطینہ سینٹرز میں انٹرنیٹ سروس سست ہونے کی بنا پر وہاں سے باہر روابط بھی مشکل ہیں۔ ان حالات میں کوئی مجبور اور بے بس ہی رہ سکتا ہے۔ ان مجبور ملازمین کو بلاوجہ قیدی بنا کر رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کورونا وائرس صرف سینڈک پر حملہ آور ہوا ہے۔
واضح رہے کہ سینڈرک ملازمین کو کورونا کی دو دو ویکسین، اور ایک بوسٹر ڈوز بھی لگ چکا ہے۔ اگر پھر بھی وہاں کورونا وائرس کا خطرہ موجود ہے تو یہ ویکسینیشن کے عمل اور WHO کی ویکسینیشن کے بارے میں تحقیقات کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ سینڈک انتظامیہ کے کورونا سے بچاؤ کے قوانین ملازمین کو ذہنی ٹارچر کرنے کے مترادف ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ فریاد کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
سینڈک کے کچھ ملازمین وہیں کے رہائشی ہونے کے باوجود شام کو گھروں کو لوٹ نہیں سکتے۔ ہفتہ قبل اس ظلم کے خلاف وہاں کے رہائشیوں نے احتجاج کیا تو کمپنی کی انتظامیہ نے مذاکرات کیے۔ مظاہرین کے مطالبات کو مان لیا گیا اور کورونا پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا گیا۔ اب خبر یہ آرہی ہے کہ کمپنی میں موجود ملازمین کا ہفتہ وار کورونا ٹیسٹ دوبارہ شروع کیا جائے گا اور گھر سے واپس آئے ملازمین کو دوبارہ قرنطینہ کیا جائے گا۔
بلوچستان کو ویسے بھی سینڈک کے شیئر آٹے میں نمک کے برابر جتنا ملتا ہے۔ چاغی والوں کےلیے جو ہے یہی نچلے طبقے کی ملازمتیں ہیں۔ اب یہ ظلم چاہے کمپنی کے مالک کریں یا پھر ہمارے مسلمان بھائی، ظلم تو ہورہا ہے اور جو سیاسی وابستگی کی یا پھر ڈالر کی وجہ سے چپ بیٹھ کر تماشائی بنے ہوئے ہیں وہ مت بھولیں کہ ظلم کو دیکھتے ہوئے بھی چپ رہنا ظالم کے ساتھ شراکت داری کے برابر ہے۔
معدنیات سے مالامال ضلع چاغی اور ریکوڈک جیسے پروجیکٹ نے عوام کو ایک پھوٹی کوڑی نہیں دی، اب یہ نچلے طبقے کی ملازمتیں بھی ان کو کھٹک رہی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بلوچی زبان میں سینڈک (سیائن۔دک) کا مطلب سیاہ پہاڑی ہے۔ معدنیات کی کھوج کےلیے سینڈک میں چائنیز کمپنی کام کررہی ہے۔ نارتھ کوریا کے صدر کم جونگ اپنے سخت قوانین اور سزا کی وجہ سے دنیا میں جانے جاتے ہیں، لیکن آج کل سینڈک بھی نارتھ کوریا سے کم نہیں اور یہاں کے نظام چلانے والوں کو ظلم کی نسبت سے کم جونگ کہا جائے تو شاید ایسا غلط بھی نہ ہوگا۔
سینڈک پروجیکٹ کے نچلے طبقے کے زیادہ تر ملازمین کا تعلق ضلع چاغی سے ہے۔ وہ ان معدنیات کے حقیقی مالک ہیں لیکن ان کے بچوں کی بھوک اور گھر کے ٹھنڈے ہوتے چولہوں نے انہیں اس پروجیکٹ میں مالکوں کا غلام بننے پر مجبور کردیا ہے۔
گزشتہ دو سال سے سینڈک میں ملازمین کو کورونا کے نام پر ذہنی ٹارچر کیا جارہا ہے۔ معلومات کے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے ملازمین کو ایک ایک مہینہ دور دراز ویرانے میں قرنطینہ کے نام پر کال کوٹھڑی جیسے کمرے میں بند کردیا جاتا ہے۔ ملازمین قرنطینہ کے خوف سے مہینوں بلکہ کچھ تو سال تک بھی اپنے گھروں کو نہیں جاتے۔ اس طرح تو نارتھ کوریا کی فوج میں بھی نہیں ہوتا۔
گزشتہ دنوں سینڈک میں کورونا وائرس کے کچھ کیسز مثبت آنے پر سینڈک پروجیکٹ میں لاک ڈاؤن کردیا گیا۔ ملازمین کو کمروں تک محدود کرکے ٹیسٹ کیے گئے۔ گلے سے بار بار سیمپل لینے سے اکثر ملازمین کو گلے میں انفیکشن ہوگیا۔ جو ملازمین ٹیسٹ سے تنگ آکر گھروں کو جانے کی خواہش ظاہر کرتے انہیں یہی جواب ملتا ''استعفیٰ دو اور گھر جاؤ''۔ تاکہ وہ بھوک اور افلاس سے مرجائے۔ بالکل اسی طرح نارتھ کوریا میں کوئی فوجی اگر فوج چھوڑنا چاہے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے۔
سینڈک ملازمین وہ مجبور اور لاچار لوگ ہیں جو اپنے حق کےلیے آواز بھی بلند نہیں کرسکتے۔ کچھ عرصہ قبل ملازمین نے اپنے حق کےلیے آواز بلند کی، بعد میں علم ہوا کہ ان کو نوکری سے فارغ کردیا گیا۔ نارتھ کوریا میں اگر کسی شہری نے کم جونگ کے قوانین کی مخالفت کی یا اپنے حق کےلیے لڑا تو اس کو لٹکا دیا جاتا ہے۔ یہی قانون سینڈک میں لاگو ہے کہ اگر کسی بھی ملازم نے اپنے حقوق کےلیے آواز بلند کی تو اس کو گھر کا راستہ دکھایا جاتا ہے، جو غریب ملازم طبقے کےلیے موت سے کم نہیں۔ سینڈک پروجیکٹ میں کورونا کے حوالے سے حفاظتی نظام کی معلومات لیں تو بدن کانپنے لگا۔ معلومات میں یہ انکشاف ہوا کہ گھر سے آئے ہوئے ملازمین کا اگر 21 دن میں ایک بار بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو اس کو ایک ویرانے میں ایک تنگ کمرے کے اندر قرنطینہ کیا جاتا ہے اور جب تک ٹیسٹ کلیئر نہیں آتے قرنطینہ کے نام پر قید کیا جاتا ہے۔ اور قرنطینہ کی مدت میں اضافہ کرکے کہیں ملازمین کو دو دو مہنیے تک بھی قرنطینہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دو مہینے والا قرنطینہ کس نے ایجاد کیا؟ اور قرنطینہ سینٹرز میں انٹرنیٹ سروس سست ہونے کی بنا پر وہاں سے باہر روابط بھی مشکل ہیں۔ ان حالات میں کوئی مجبور اور بے بس ہی رہ سکتا ہے۔ ان مجبور ملازمین کو بلاوجہ قیدی بنا کر رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کورونا وائرس صرف سینڈک پر حملہ آور ہوا ہے۔
واضح رہے کہ سینڈرک ملازمین کو کورونا کی دو دو ویکسین، اور ایک بوسٹر ڈوز بھی لگ چکا ہے۔ اگر پھر بھی وہاں کورونا وائرس کا خطرہ موجود ہے تو یہ ویکسینیشن کے عمل اور WHO کی ویکسینیشن کے بارے میں تحقیقات کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ سینڈک انتظامیہ کے کورونا سے بچاؤ کے قوانین ملازمین کو ذہنی ٹارچر کرنے کے مترادف ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ فریاد کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
سینڈک کے کچھ ملازمین وہیں کے رہائشی ہونے کے باوجود شام کو گھروں کو لوٹ نہیں سکتے۔ ہفتہ قبل اس ظلم کے خلاف وہاں کے رہائشیوں نے احتجاج کیا تو کمپنی کی انتظامیہ نے مذاکرات کیے۔ مظاہرین کے مطالبات کو مان لیا گیا اور کورونا پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا گیا۔ اب خبر یہ آرہی ہے کہ کمپنی میں موجود ملازمین کا ہفتہ وار کورونا ٹیسٹ دوبارہ شروع کیا جائے گا اور گھر سے واپس آئے ملازمین کو دوبارہ قرنطینہ کیا جائے گا۔
بلوچستان کو ویسے بھی سینڈک کے شیئر آٹے میں نمک کے برابر جتنا ملتا ہے۔ چاغی والوں کےلیے جو ہے یہی نچلے طبقے کی ملازمتیں ہیں۔ اب یہ ظلم چاہے کمپنی کے مالک کریں یا پھر ہمارے مسلمان بھائی، ظلم تو ہورہا ہے اور جو سیاسی وابستگی کی یا پھر ڈالر کی وجہ سے چپ بیٹھ کر تماشائی بنے ہوئے ہیں وہ مت بھولیں کہ ظلم کو دیکھتے ہوئے بھی چپ رہنا ظالم کے ساتھ شراکت داری کے برابر ہے۔
معدنیات سے مالامال ضلع چاغی اور ریکوڈک جیسے پروجیکٹ نے عوام کو ایک پھوٹی کوڑی نہیں دی، اب یہ نچلے طبقے کی ملازمتیں بھی ان کو کھٹک رہی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔