ملک و قوم کا مفاد ناگزیر ہے
اللہ اپوزیشن کو بھی سمجھ عطا فرمائے یہ ملک سب کا ہے، ہم سب کو اس کی حفاظت کرنی ہے
LONDON:
ہائے! عقل پر کیسا پردہ پڑا، کچھ نظر نہیں آتا دور دور تک دھند چھا گئی ہے، دل کی آنکھ بند ہے، نہ بصیرت اور نہ وہ بصارت جو دور تلک دیکھ سکے، افغانستان کے حالات، عراق کی تباہی، فلسطین میں ہزاروں لاکھوں معصومین کی شہادتیں، جن کے ہاتھوں میں صرف پتھر ہیں اور دوسری طرف میزائل، بم اور دوسرے ہتھیار۔
اسرائیل اپنے بچوں کو آنیوالے وقت کے لیے تربیت دے رہا ہے، دہشتگردی کی اور وہ مسلمانوں کی نسلوں کو ختم کرنے کی بات کر رہا ہے، ہائے مظلوم کشمیری روز جنازے اٹھتے ہیں، عزتیں برباد ہوتی ہیں، سانس لینا مشکل، روہنگیا کے مسلمان جو پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں، بھینسوں کے باڑوں جیسا ان کا مسکن ہے، بھوک، افلاس، بیماری، ہندوستان میں مسلمانوں پر روز قیامت ٹوٹتی ہے ہندوتوا کے نظریے کے تحت مسلمانوں کو جبراً ہندو بنا رہے ہیں لیکن وہ دل سے مسلمان ہیں، زبردستی ''جے شری رام'' کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔
ہمارے اپنے پاکستانی بھائی ایک طویل مدت سے بنگلہ دیش کی سرحد پر پڑے ہیں، محب وطن ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں لیکن ان کے لیے اپنے وطن میں جگہ تنگ ہے، ناجائز زمینوں پر قبضہ کرنے، پلازے بنانے کے لیے جگہ ہی جگہ ہے، موجودہ حکومت انھیں بلا کر بسا سکتی ہے۔
یہ سب لوگ آزادی کی انمول دولت سے محروم ہو چکے ہیں اپنے وطن سے عالمی طاقتوں کی بدولت اسی طرح دور ہوگئے ہیں جس طرح فٹ بال کو کک ماری جاتی ہے، مسلمان بھائیوں کو کک ماردی گئی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں کبھی نادانوں نے یہ بھی سوچا کہ کہیں آزادی کی بے مثال نعمت سے محروم نہ کردیے جائیں پھر کہاں کی وزارت، سفارت، کہاں کے عیش و عشرت، شہزادوں اور شہزادیوں اور بادشاہوں والی زندگی میسر ہے، مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی اولادوں نے انگریزوں کے قبضے کے بعد جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگی، تن پر کپڑا نہیں، پیر میں جوتا نہیں، تلوئوں میں چھالے، دل میں چھالے، کیسا اقتدار چھینا گیا شیرازہ بکھر گیا۔
ہندوستان پر قبضہ ہو گیا۔ حکومت کے مخالفین کو ڈرنا چاہیے اس وقت سے کہ جب مکافات عمل سامنے آجائے، صرف اقتدار کی بھوک ہے باقی کچھ نہیں، بار بار اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے لیے کیا کیا؟ قوم کو بھکاری بنا دیا، چور، ڈاکو بنا دیا، بددیانت بنا دیا، ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کا سبق پڑھایا، اقتدار اور طاقت کی بنا پر بے شمار نوجوانوں سے ان کا مستقبل چھین لیا ان کی غیرت کو داغ دار کیا۔ تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے قوم کے معمار مستقبل کے محافظوں کو جرائم کی طرف رغبت دلانے میں ماضی کی حکومتیں پیش پیش رہیں آج بھی اندرون سندھ میں بے شمار اسکول یا تو بند پڑے ہیں یا پھر اصطبل کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
پنجاب اور دوسرے صوبوں کے حالات بھی قابل اطمینان نہیں، وہاں بھی غریب، بے بس لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ، عوام کا ان حکمرانوں نے جس قدر استحصال کیا ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، خود بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں، رعایا کو حشرات الارض کا درجہ دیا گیا ہے جن کی کوئی مرضی نہیں جو چاہتا ہے پیروں تلے مسل دیتا ہے۔
اب یہ سب ہم خیال لوگ حکومت گرانے کے خواب دیکھ رہے ہیں، ہاں ان کی کامیابی ایک صورت میں ہو سکتی ہے کہ وہ دلوں کو فتح کرلیں، اپنی تمام دولت سے پاکستان کا قرضہ اتار دیں، اندرون سندھ میں ترقیاتی کام کروائیں، سڑکیں، بجلی، پانی، گیس، زیادہ سے زیادہ اجرت کی ادائیگی، کہنے کا مطلب صرف اتنا سا ہے جو سب کی دیرینہ خواہش ہے کہ بنیادی ضرورتوں کو فراہم کریں۔
ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے تین نسلوں نے غربت، افلاس، جیل اور عدالتوں کے چکر کاٹتے گزاری ہے، یہ زمیندار کے لیے سہولت کار کے طور پر ملازمت کر رہے ہیں، ان ساہوکاروں پر جب کوئی برا وقت آتا ہے، غلام ابن غلاموں کو سامنے کردیتے ہیں۔ اب انھیں عمر قید ہو یا پھانسی انھیں کوئی غرض نہیں، سوائے اس کے کہ ان بے قصور قاتلوں کے گھرانے کی کفالت کریں اور بدلے میں پورا خاندان وڈیرے کی چاکری عمر بھر تک کرنے کے لیے مجبور ہو۔
وزیر اعظم عمران خان وہ واحد شخص ہے جو بحیثیت وزیر اعظم یورپ اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر اور اپنا موقف بیان کر رہا ہے، خاکوں کے معاملے پر وزیر اعظم نے کھل کر بات کی کہ جب کوئی ایسا کرتا ہے تو ہمارے دل میں درد ہوتا ہے کہ رسول پاکؐ کی محبت تمام رشتوں، ناتوں سے بلند ہے اور یہی ایمان کا تقاضا بھی ہے۔ حال ہی میں عمران خان نے یورپی یونین کو دو ٹوک جواب دیا۔ یہ بات کوئی کہہ سکتا تھا کہ ''ہم تمہارے غلام نہیں ہیں، اب ہم کسی صورت جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، آپ نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، تو ہم کیوں دیں؟''
یہ کھری کھری باتیں وہ کر سکتا ہے جس میں جرأت اور بہادری ہو، جو صرف اور صرف اللہ سے ڈرتا ہے، عالمی قوتوں سے نہیں۔ موت، زندگی، کامیابی، عروج و زوال اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے لیکن اللہ بھی نیت اور اعمال دیکھتا ہے، اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھنے والوں کے ساتھ اللہ رب العزت کی مدد شامل ہے، جو کائنات کا رب ہے، اس کے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ ہر کام میں اللہ کی حکمت مضمر ہوتی ہے، جن لوگوں نے جہنم کا راستہ چنا ہے اور جنت سے دست بردار ہوگئے ہیں ان کے لیے دونوں جہاں میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا اولین فرض ہے کہ وہ روٹھے ہوؤں کو نہ صرف یہ کہ منالیں بلکہ ان کا مان بھی رکھیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تقریباً ساڑھے تین سال تک وزیر اعلیٰ کے منصب پر براجمان رہے، انھیں بھی ملک و ملت کے تحفظ کے لیے بڑا دل کرنا ہوگا اور وزیر اعظم عمران خان کا جو ان کے محسن بھی ہیں ساتھ دینا ہوگا، وہ خود مستعفی ہوجائیں تو عمران خان بڑی مشکل سے نکل آئیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں مزید مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، اس پر کنٹرول اور ٹیکسوں میں کمی کرنا اہم تھا، عوام کو بھوک سے بچانے کے لیے بہت سے راستے ہموار ہو سکتے تھے، لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے عوام کی خوشحالی کے لیے بہت سے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، مثال کے طور پر احساس پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، مزدوروں اور مسافروں کے لیے شیلٹر اور درخت لگانے کی مہم کو عام کیا۔
آج صحرائی علاقے جہاں آب و گیاہ دور دور تک نظر نہیں آتا تھا، آج وہاں بے شمار درخت مست ہواؤں کے ساتھ جھوم رہے ہیں، کراچی میں ٹرانسپورٹ کے لیے کامیاب کوششیں، ریگل پر چلنے والی الیکٹرانک مارکیٹ کی ازسر نو تعمیر، دکاندار ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دے رہے ہیں۔ ہر گلی، ہر تجارتی مراکز میں کام کرنے والے لوگ عمران خان کے یورپی یونین کو دیے جانے والے جوابات کو سراہ رہے ہیں۔ ملک و وطن کے لیے کام کرنے والے ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔
اللہ اپوزیشن کو بھی سمجھ عطا فرمائے یہ ملک سب کا ہے، ہم سب کو اس کی حفاظت کرنی ہے۔ پاکستان ہمارا گھر ہے، گھر والے ہی اسے دشمن سے بچاتے ہیں تو پھر آئیے ہم سب مل کر اسے بچائیں۔
ہائے! عقل پر کیسا پردہ پڑا، کچھ نظر نہیں آتا دور دور تک دھند چھا گئی ہے، دل کی آنکھ بند ہے، نہ بصیرت اور نہ وہ بصارت جو دور تلک دیکھ سکے، افغانستان کے حالات، عراق کی تباہی، فلسطین میں ہزاروں لاکھوں معصومین کی شہادتیں، جن کے ہاتھوں میں صرف پتھر ہیں اور دوسری طرف میزائل، بم اور دوسرے ہتھیار۔
اسرائیل اپنے بچوں کو آنیوالے وقت کے لیے تربیت دے رہا ہے، دہشتگردی کی اور وہ مسلمانوں کی نسلوں کو ختم کرنے کی بات کر رہا ہے، ہائے مظلوم کشمیری روز جنازے اٹھتے ہیں، عزتیں برباد ہوتی ہیں، سانس لینا مشکل، روہنگیا کے مسلمان جو پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں، بھینسوں کے باڑوں جیسا ان کا مسکن ہے، بھوک، افلاس، بیماری، ہندوستان میں مسلمانوں پر روز قیامت ٹوٹتی ہے ہندوتوا کے نظریے کے تحت مسلمانوں کو جبراً ہندو بنا رہے ہیں لیکن وہ دل سے مسلمان ہیں، زبردستی ''جے شری رام'' کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔
ہمارے اپنے پاکستانی بھائی ایک طویل مدت سے بنگلہ دیش کی سرحد پر پڑے ہیں، محب وطن ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں لیکن ان کے لیے اپنے وطن میں جگہ تنگ ہے، ناجائز زمینوں پر قبضہ کرنے، پلازے بنانے کے لیے جگہ ہی جگہ ہے، موجودہ حکومت انھیں بلا کر بسا سکتی ہے۔
یہ سب لوگ آزادی کی انمول دولت سے محروم ہو چکے ہیں اپنے وطن سے عالمی طاقتوں کی بدولت اسی طرح دور ہوگئے ہیں جس طرح فٹ بال کو کک ماری جاتی ہے، مسلمان بھائیوں کو کک ماردی گئی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں کبھی نادانوں نے یہ بھی سوچا کہ کہیں آزادی کی بے مثال نعمت سے محروم نہ کردیے جائیں پھر کہاں کی وزارت، سفارت، کہاں کے عیش و عشرت، شہزادوں اور شہزادیوں اور بادشاہوں والی زندگی میسر ہے، مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی اولادوں نے انگریزوں کے قبضے کے بعد جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگی، تن پر کپڑا نہیں، پیر میں جوتا نہیں، تلوئوں میں چھالے، دل میں چھالے، کیسا اقتدار چھینا گیا شیرازہ بکھر گیا۔
ہندوستان پر قبضہ ہو گیا۔ حکومت کے مخالفین کو ڈرنا چاہیے اس وقت سے کہ جب مکافات عمل سامنے آجائے، صرف اقتدار کی بھوک ہے باقی کچھ نہیں، بار بار اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے لیے کیا کیا؟ قوم کو بھکاری بنا دیا، چور، ڈاکو بنا دیا، بددیانت بنا دیا، ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کا سبق پڑھایا، اقتدار اور طاقت کی بنا پر بے شمار نوجوانوں سے ان کا مستقبل چھین لیا ان کی غیرت کو داغ دار کیا۔ تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے قوم کے معمار مستقبل کے محافظوں کو جرائم کی طرف رغبت دلانے میں ماضی کی حکومتیں پیش پیش رہیں آج بھی اندرون سندھ میں بے شمار اسکول یا تو بند پڑے ہیں یا پھر اصطبل کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
پنجاب اور دوسرے صوبوں کے حالات بھی قابل اطمینان نہیں، وہاں بھی غریب، بے بس لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ، عوام کا ان حکمرانوں نے جس قدر استحصال کیا ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، خود بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں، رعایا کو حشرات الارض کا درجہ دیا گیا ہے جن کی کوئی مرضی نہیں جو چاہتا ہے پیروں تلے مسل دیتا ہے۔
اب یہ سب ہم خیال لوگ حکومت گرانے کے خواب دیکھ رہے ہیں، ہاں ان کی کامیابی ایک صورت میں ہو سکتی ہے کہ وہ دلوں کو فتح کرلیں، اپنی تمام دولت سے پاکستان کا قرضہ اتار دیں، اندرون سندھ میں ترقیاتی کام کروائیں، سڑکیں، بجلی، پانی، گیس، زیادہ سے زیادہ اجرت کی ادائیگی، کہنے کا مطلب صرف اتنا سا ہے جو سب کی دیرینہ خواہش ہے کہ بنیادی ضرورتوں کو فراہم کریں۔
ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے تین نسلوں نے غربت، افلاس، جیل اور عدالتوں کے چکر کاٹتے گزاری ہے، یہ زمیندار کے لیے سہولت کار کے طور پر ملازمت کر رہے ہیں، ان ساہوکاروں پر جب کوئی برا وقت آتا ہے، غلام ابن غلاموں کو سامنے کردیتے ہیں۔ اب انھیں عمر قید ہو یا پھانسی انھیں کوئی غرض نہیں، سوائے اس کے کہ ان بے قصور قاتلوں کے گھرانے کی کفالت کریں اور بدلے میں پورا خاندان وڈیرے کی چاکری عمر بھر تک کرنے کے لیے مجبور ہو۔
وزیر اعظم عمران خان وہ واحد شخص ہے جو بحیثیت وزیر اعظم یورپ اور امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر اور اپنا موقف بیان کر رہا ہے، خاکوں کے معاملے پر وزیر اعظم نے کھل کر بات کی کہ جب کوئی ایسا کرتا ہے تو ہمارے دل میں درد ہوتا ہے کہ رسول پاکؐ کی محبت تمام رشتوں، ناتوں سے بلند ہے اور یہی ایمان کا تقاضا بھی ہے۔ حال ہی میں عمران خان نے یورپی یونین کو دو ٹوک جواب دیا۔ یہ بات کوئی کہہ سکتا تھا کہ ''ہم تمہارے غلام نہیں ہیں، اب ہم کسی صورت جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، آپ نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، تو ہم کیوں دیں؟''
یہ کھری کھری باتیں وہ کر سکتا ہے جس میں جرأت اور بہادری ہو، جو صرف اور صرف اللہ سے ڈرتا ہے، عالمی قوتوں سے نہیں۔ موت، زندگی، کامیابی، عروج و زوال اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے لیکن اللہ بھی نیت اور اعمال دیکھتا ہے، اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھنے والوں کے ساتھ اللہ رب العزت کی مدد شامل ہے، جو کائنات کا رب ہے، اس کے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ ہر کام میں اللہ کی حکمت مضمر ہوتی ہے، جن لوگوں نے جہنم کا راستہ چنا ہے اور جنت سے دست بردار ہوگئے ہیں ان کے لیے دونوں جہاں میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا اولین فرض ہے کہ وہ روٹھے ہوؤں کو نہ صرف یہ کہ منالیں بلکہ ان کا مان بھی رکھیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تقریباً ساڑھے تین سال تک وزیر اعلیٰ کے منصب پر براجمان رہے، انھیں بھی ملک و ملت کے تحفظ کے لیے بڑا دل کرنا ہوگا اور وزیر اعظم عمران خان کا جو ان کے محسن بھی ہیں ساتھ دینا ہوگا، وہ خود مستعفی ہوجائیں تو عمران خان بڑی مشکل سے نکل آئیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں مزید مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، اس پر کنٹرول اور ٹیکسوں میں کمی کرنا اہم تھا، عوام کو بھوک سے بچانے کے لیے بہت سے راستے ہموار ہو سکتے تھے، لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے عوام کی خوشحالی کے لیے بہت سے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، مثال کے طور پر احساس پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، مزدوروں اور مسافروں کے لیے شیلٹر اور درخت لگانے کی مہم کو عام کیا۔
آج صحرائی علاقے جہاں آب و گیاہ دور دور تک نظر نہیں آتا تھا، آج وہاں بے شمار درخت مست ہواؤں کے ساتھ جھوم رہے ہیں، کراچی میں ٹرانسپورٹ کے لیے کامیاب کوششیں، ریگل پر چلنے والی الیکٹرانک مارکیٹ کی ازسر نو تعمیر، دکاندار ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دے رہے ہیں۔ ہر گلی، ہر تجارتی مراکز میں کام کرنے والے لوگ عمران خان کے یورپی یونین کو دیے جانے والے جوابات کو سراہ رہے ہیں۔ ملک و وطن کے لیے کام کرنے والے ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔
اللہ اپوزیشن کو بھی سمجھ عطا فرمائے یہ ملک سب کا ہے، ہم سب کو اس کی حفاظت کرنی ہے۔ پاکستان ہمارا گھر ہے، گھر والے ہی اسے دشمن سے بچاتے ہیں تو پھر آئیے ہم سب مل کر اسے بچائیں۔