ریاست و نظریات کا امام
نازش نے اوجھا میں تمام ساتھیوں کے سامنے آخری ہچکی لی تو نہ ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ تھا اور نہ کوئی جمع پونجی
بے مقصد لمحے اور احساس چشم زدن میں محو ہوجایا کرتے ہیں مگر سماج کو باشعور دھارے پر ڈھالنے اور تاریخ بنانے والے کردار ایک پل کے لیے محو نہیں ہو پاتے۔
اس سماج کی سیاسی اور نظریاتی تاریخ کا 23 برس پہلے 9 مارچ 99 کو بچھڑنے والے اہم کردار کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امام علی نازش تھے،جن کی سیاسی تربیت،سیاسی شائستگی اور اصول پر ڈٹ جانے والا کردار آج بھی ایسی مشعل ہے کہ جس سے اس بے ترتیب سماج کو جوڑنے اور نئے حالات میں سیاسی و نظریاتی شعور کے چراغ جلانے کا کام کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ اصول نظریات اور ثابت قدمی کو ہی یاد رکھتی ہے۔
یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب شرافی گوٹھ کراچی میں 1986 میں سیاسی عمل کی تقسیم جاری تھی اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے بعد شکست خوردہ دوستوں کی کم ہمتی یا رخصتی بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل امام علی نازش کی سربراہی میں فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کی تنظیم کاری کے لیے پارٹی کو سماج میں ہر سطح منظم کیا جائے،اس سلسلے میں پارٹی کے تمام طلبہ، خواتین، مزدور، کسان، ادبا اور دانشور کے علاوہ صحافت کے فرنٹس کو ازسر نو منظم کرنے کی حکمت علی طے کی گئی۔
اسی سلسلے کی کڑی میں پارٹی کی ترجمانی اور کمیونزم کے پرچارک خاطر ''روشن خیال'' پرچے کا اجرا اظہر عباس کی قیادت تحت زاہدہ حنا اور ندیم اختر کی ادارت میں شروع کیا گیا۔پرچے کی کامیابی اور مشاورت کے لیے اس وقت میں جون ایلیا،جام ساقی اورامام علی نازش باقاعدگی کے ساتھ اپنی موجودگی کو یقینی بناتے رہے اور قیمتی مشوروں سے ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
مجھے یاد ہے کہ میری پہلی ملاقات ڈاکٹر مظہر عباس کے توسط سے امام علی نازش سے ''روشن خیال'' کے دفتر میں ہوئی تھی اور ان کی خواہش پر ہی میں ''روشن خیال''رسالے کی ٹیم کا آخری دم تک حصہ رہا۔میری یہ ملاقات ان کے آخری سانس تک جڑی رہی جب کہ عملی طور سے ان کے دیے گئے مارکسی اصول اور ضابطے اب تک میری اور میرے کنبے کی تربیت اور حیات کا وہ حصہ ہیں جن کو میری بیٹیاں لیلی اور مرضیہ اپنی نظریاتی بختی کا روشن خیال سرمایہ سمجھ کر کوشش کرتی ہیں کہ وہ ''نازش دادا''کے خواب کو زندگی میں عملی جامہ پہنا سکیں۔
امام علی نازش نے امروہہ کے علمی،تہذیبی اور خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی،علم و تہذیب کے تمام مدارج طے کرنے کے بعد ہندوستان کے معروف مدرسے ''سلطان المدارس'' میں پڑھنے کے لیے داخلہ لیا، جہاں ان کے ہم جماعتوں میں معروف ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری نمایاں تھے،مدرسے کی تعلیم کے دوران کتب بینی اور دنیا کے انسانوں کے درمیان تفریق اور غربت کی بنیاد پر بدتر برتائو نے انھیں ''مارکسزم''کی جانب راغب کیا اور یوں کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری کے ساتھ مل کر مدرسے میں ایک ''مارکسسٹ اکھنڈ''بنایا اور باقاعدہ مارکس اور لینن کے نظریات کا مطالعہ کیا،اسی دوران خوشحال گھرانے کی ''مولوی''بننے کی خواہش دم توڑ گئی۔
دوران تعلیم کیفی اعظمی اور علی سردار ''سلطان المدارس'' سے بغاوت کرکے انجمن ترقی پسند مصنفین کے قبیل میں شامل ہوگئے،جس بنا مذکورہ دونوں حضرات کو مدرسہ چھوڑنا پڑا،اب مدرسے میں نازش صاحب کی محفل ٹوٹ چکی تھی،مگر ذہنی طور سے وہ مارکسزم کے ہو چکے تھے،اسی دوران امام علی نازش کے جاگیردار باپ نے مدرسے کی تعلیم مکمل کرانے کے بعد بیٹے کو اجتہادی عالمانہ تعلیم کے لیے نجف عراق روانہ کیا جہاں امام علی نازش نے عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا اور اجتہاد مکمل کرنے کے بعد عالم کی دستار بندی سے پہلے کمیونزم برپا کرنے کا عزم لیے ہندوستان لوٹ آئے،نجف کے ،مدینۃ الحکمت میں ان کے سینیئر بعد میں پاکستان کے معروف مولانا محسن نقوی بنے۔
یہ دور دنیا میں سوشلسٹ سماج قائم کرنے کا وہ رجحان تھا جس نے ہندوستان کے ہر نوجوان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا،ترقی پسند خیالات فرسودگی کو اپنے توانا جذبے اور روشن خیال فکر سے شکست دے رہے تھے،ہندوستان کے ہر نوجوان میں بھگت سنگھ کے سوشلسٹ خیالات جوش و جذبے کا سبب تھے،اس ماحول میں سجاد ظہیر اور دیگر دوستوں کی نظریاتی تنظیم انجمن کی وہ نشستیں ہوا کرتی تھیں جہاں مخدوم،جاں نثار اختر،ساحر لدھیانوی،کیفی اعظمی،پریم چند،کرشن چندر، مولانا چراغ حسن حسرت،جوش،فیض اور دیگر اکابرین کمیونسٹ سماج کا خواب سجائے انسانی بقا اور ایک انصاف بر مبنی سماج کے قیام میں نوجوان شعرا و ادیب کا با شعور حوالہ تھے۔
اسی دوران ہندوستان میں سیاسی بیداری کی لہر نے انگریزوں کی غلامی قبول نہ کرنے کا جب تہیہ کیا تو انگریز سرکار نے متحدہ ہندوستان کی طاقت اور نظریاتی سوچ کی پختگی کے خوف سے ہندوستان کی تقسیم کا جال بنا اور یوں ہندوستان کی مضبوط کمیونسٹ تحریک کو بٹوارے پر مجبور کیا،اس مرحلے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سجاد ظہیر کی سربراہی میں امام علی نازش کو پاکستان آباد کرنے کا کہا اور امام علی نازش اپنی نو بیاہتا بیوی کی فرمائش پر پاکستان منتقل ہوگئے اور سرحدوں کی تقسیم کے باوجود دونوں آخری دم تک ایک ساتھ رہے۔
امام علی نازش ابتدائی سالوں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے آفس سیکریٹری بنے اور اسی آفس میں رہنے کو ترجیح دی اور اسی دوران پارٹی کی دانش کے اہم فرنٹ کو چلاتے رہے،نازش صاحب نے کراچی میں ٹریڈ یونین تحریک اور صحافتی ٹریڈ یونین کو متحرک کیا اور پارٹی پر پابندی کے بعد آزاد پاکستان پارٹی کے فرنٹ پر کام کیا،جہاں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کے ناتے حسین شہید سہروردی نے انھیں سندھ اسمبلی کے ریکارڈ روم میں ملازمت دلوائی،یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کمیونسٹ پر آمر ایوب خان نے گھیرا تنگ کیا ہوا تھا اور امریکی سامراج کی خوشنودی میں عوام اور مزدوروں کے ہر دل عزیز رہنمائوں کے جینے کو مشکل بنائے ہوئے تھے۔
روپوشی کے دنوں میں سندھ اسمبلی کی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے مگر اس وقت تک امام علی نازش کمیونسٹ پارٹی کے صف اول کے رہنما بن چکے تھے اور خود کو آمروں سے محفوظ کرتے کرتے پارٹی کے ہر محاذ کو روپوشی میں بھی منظم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے،یہی وجہ رہی کہ کمیونسٹ پارٹی کے روپوش رہنما امام علی نازش کی شکل سے اکثر لوگ واقف نہ تھے۔
1979 میں افغانستان کے انقلاب ثور کے بعد روپوشی کی حالت میں امام علی نازش کو کابل پہنچا دیا گیا جہاں وہ ڈاکٹر نجیب کی بیوی نسرین کے ''باپ'' سمان برسوں ایوان صدر کے مہمان رہے،1980 کے بعد جب کمیونسٹ پارٹی کو کام کرنے کی اجازت ملی تب کہیں امام علی نازش منظر عام پر آنے کے قابل ہوئے،مجھے یاد ہے کہ جب میں امام علی نازش کو لے کر کیفی اعظمی سے ملانے ان کے سسرال نارتھ ناظم آباد پہنچا تو دونوں پرانے ساتھی چند لمحوں تک مل کر روتے رہے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کمیونسٹ سماج قائم کرنے کا عزم لیے پھر سے توانا لگے۔
امام علی نازش تاریخ ادب اور سیادت پر گہری نظر رکھنے کے علاوہ جمالیاتی حسن کے دلدادہ تھے اور حسن و محبت کے اس رشتے کو غزل کے خوبصورت پیراہن میں ڈھالنے کا ہنر جانتے تھے،ان کے بیشتر اشعار خیال کی آفرینی کے ساتھ انقلابی جذبوں سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
امام علی نازش نے روس کے انہدام کو کبھی نظریئے کی کجی یا کوتاہی نہ سمجھا اور نہ ہی انھوں نے گورباچوف کے ''پریسترائیکا'' نکتہ نظر کو درست سمجھا،یہی وجہ تھی کہ ان کے اوجھا سینوٹوریم میں داخلے سے پہلے بیشتر سکہ بند خود ساختہ کمیونسٹ انھیں چھوڑ گئے اور نظریاتی کجی کا شکار ہوتے ہوئے جمہوریت الاپتے الاپتے حکومتی مراعات لے لیں یا مشیران بن گئے،مگر ناز و نعم سے پلے جاگیردار گھرانے کے اس چشم و چراغ نے اپنی زندگی کو ریاست کے والی کامریڈ حسن ناصر کی طرح نظریاتی کمیونسٹ کی حیثیت سے گزارا اور جب امام علی نازش کو اس وقت کے وزیر اعظم نے مشاہد حسین سید کے ذریعے بہتر علاج کے لیے مری منتقل کرنے اور بہتر علاج کا کہا تو نازش صاحب کا یہ جملہ کمال تھا کہ''اس اوجھا سینیٹوریم کو مری جیسا کر دیجیے۔''
نازش نے اوجھا میں تمام ساتھیوں کے سامنے آخری ہچکی لی تو نہ ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ تھا اور نہ کوئی جمع پونجی ... ہاں ان کی جیب سے سو کا ایک نوٹ ضرور برآمد ہوا تھا... امام علی نازش ایسے عوام دوست،نظریاتی محسن اور کمیونسٹ آدرش پر مکمل اترنے والے اس سیاستدان کی مثال تھا جو صرف عوام کے حق اور اس کو انصاف دلانے کی امنگ و جستجو رکھتا ہو...جو عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کی لگن میں نہ مراعات کا خواہاں ہو نہ دولت مند بننے کا طلب گار...آج بھی امام علی نازش کمیونسٹ سماج قائم کرنے کا وہ مضبوط حوالہ ہے جن کے کمیونسٹ نظریئے پر چل کر ہم اب بھی اپنی سیاسی و نظریاتی صفوں کو درست کر سکتے ہیں۔
اس سماج کی سیاسی اور نظریاتی تاریخ کا 23 برس پہلے 9 مارچ 99 کو بچھڑنے والے اہم کردار کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امام علی نازش تھے،جن کی سیاسی تربیت،سیاسی شائستگی اور اصول پر ڈٹ جانے والا کردار آج بھی ایسی مشعل ہے کہ جس سے اس بے ترتیب سماج کو جوڑنے اور نئے حالات میں سیاسی و نظریاتی شعور کے چراغ جلانے کا کام کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ اصول نظریات اور ثابت قدمی کو ہی یاد رکھتی ہے۔
یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب شرافی گوٹھ کراچی میں 1986 میں سیاسی عمل کی تقسیم جاری تھی اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے بعد شکست خوردہ دوستوں کی کم ہمتی یا رخصتی بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل امام علی نازش کی سربراہی میں فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کی تنظیم کاری کے لیے پارٹی کو سماج میں ہر سطح منظم کیا جائے،اس سلسلے میں پارٹی کے تمام طلبہ، خواتین، مزدور، کسان، ادبا اور دانشور کے علاوہ صحافت کے فرنٹس کو ازسر نو منظم کرنے کی حکمت علی طے کی گئی۔
اسی سلسلے کی کڑی میں پارٹی کی ترجمانی اور کمیونزم کے پرچارک خاطر ''روشن خیال'' پرچے کا اجرا اظہر عباس کی قیادت تحت زاہدہ حنا اور ندیم اختر کی ادارت میں شروع کیا گیا۔پرچے کی کامیابی اور مشاورت کے لیے اس وقت میں جون ایلیا،جام ساقی اورامام علی نازش باقاعدگی کے ساتھ اپنی موجودگی کو یقینی بناتے رہے اور قیمتی مشوروں سے ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
مجھے یاد ہے کہ میری پہلی ملاقات ڈاکٹر مظہر عباس کے توسط سے امام علی نازش سے ''روشن خیال'' کے دفتر میں ہوئی تھی اور ان کی خواہش پر ہی میں ''روشن خیال''رسالے کی ٹیم کا آخری دم تک حصہ رہا۔میری یہ ملاقات ان کے آخری سانس تک جڑی رہی جب کہ عملی طور سے ان کے دیے گئے مارکسی اصول اور ضابطے اب تک میری اور میرے کنبے کی تربیت اور حیات کا وہ حصہ ہیں جن کو میری بیٹیاں لیلی اور مرضیہ اپنی نظریاتی بختی کا روشن خیال سرمایہ سمجھ کر کوشش کرتی ہیں کہ وہ ''نازش دادا''کے خواب کو زندگی میں عملی جامہ پہنا سکیں۔
امام علی نازش نے امروہہ کے علمی،تہذیبی اور خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی،علم و تہذیب کے تمام مدارج طے کرنے کے بعد ہندوستان کے معروف مدرسے ''سلطان المدارس'' میں پڑھنے کے لیے داخلہ لیا، جہاں ان کے ہم جماعتوں میں معروف ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری نمایاں تھے،مدرسے کی تعلیم کے دوران کتب بینی اور دنیا کے انسانوں کے درمیان تفریق اور غربت کی بنیاد پر بدتر برتائو نے انھیں ''مارکسزم''کی جانب راغب کیا اور یوں کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری کے ساتھ مل کر مدرسے میں ایک ''مارکسسٹ اکھنڈ''بنایا اور باقاعدہ مارکس اور لینن کے نظریات کا مطالعہ کیا،اسی دوران خوشحال گھرانے کی ''مولوی''بننے کی خواہش دم توڑ گئی۔
دوران تعلیم کیفی اعظمی اور علی سردار ''سلطان المدارس'' سے بغاوت کرکے انجمن ترقی پسند مصنفین کے قبیل میں شامل ہوگئے،جس بنا مذکورہ دونوں حضرات کو مدرسہ چھوڑنا پڑا،اب مدرسے میں نازش صاحب کی محفل ٹوٹ چکی تھی،مگر ذہنی طور سے وہ مارکسزم کے ہو چکے تھے،اسی دوران امام علی نازش کے جاگیردار باپ نے مدرسے کی تعلیم مکمل کرانے کے بعد بیٹے کو اجتہادی عالمانہ تعلیم کے لیے نجف عراق روانہ کیا جہاں امام علی نازش نے عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا اور اجتہاد مکمل کرنے کے بعد عالم کی دستار بندی سے پہلے کمیونزم برپا کرنے کا عزم لیے ہندوستان لوٹ آئے،نجف کے ،مدینۃ الحکمت میں ان کے سینیئر بعد میں پاکستان کے معروف مولانا محسن نقوی بنے۔
یہ دور دنیا میں سوشلسٹ سماج قائم کرنے کا وہ رجحان تھا جس نے ہندوستان کے ہر نوجوان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا،ترقی پسند خیالات فرسودگی کو اپنے توانا جذبے اور روشن خیال فکر سے شکست دے رہے تھے،ہندوستان کے ہر نوجوان میں بھگت سنگھ کے سوشلسٹ خیالات جوش و جذبے کا سبب تھے،اس ماحول میں سجاد ظہیر اور دیگر دوستوں کی نظریاتی تنظیم انجمن کی وہ نشستیں ہوا کرتی تھیں جہاں مخدوم،جاں نثار اختر،ساحر لدھیانوی،کیفی اعظمی،پریم چند،کرشن چندر، مولانا چراغ حسن حسرت،جوش،فیض اور دیگر اکابرین کمیونسٹ سماج کا خواب سجائے انسانی بقا اور ایک انصاف بر مبنی سماج کے قیام میں نوجوان شعرا و ادیب کا با شعور حوالہ تھے۔
اسی دوران ہندوستان میں سیاسی بیداری کی لہر نے انگریزوں کی غلامی قبول نہ کرنے کا جب تہیہ کیا تو انگریز سرکار نے متحدہ ہندوستان کی طاقت اور نظریاتی سوچ کی پختگی کے خوف سے ہندوستان کی تقسیم کا جال بنا اور یوں ہندوستان کی مضبوط کمیونسٹ تحریک کو بٹوارے پر مجبور کیا،اس مرحلے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سجاد ظہیر کی سربراہی میں امام علی نازش کو پاکستان آباد کرنے کا کہا اور امام علی نازش اپنی نو بیاہتا بیوی کی فرمائش پر پاکستان منتقل ہوگئے اور سرحدوں کی تقسیم کے باوجود دونوں آخری دم تک ایک ساتھ رہے۔
امام علی نازش ابتدائی سالوں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے آفس سیکریٹری بنے اور اسی آفس میں رہنے کو ترجیح دی اور اسی دوران پارٹی کی دانش کے اہم فرنٹ کو چلاتے رہے،نازش صاحب نے کراچی میں ٹریڈ یونین تحریک اور صحافتی ٹریڈ یونین کو متحرک کیا اور پارٹی پر پابندی کے بعد آزاد پاکستان پارٹی کے فرنٹ پر کام کیا،جہاں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کے ناتے حسین شہید سہروردی نے انھیں سندھ اسمبلی کے ریکارڈ روم میں ملازمت دلوائی،یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کمیونسٹ پر آمر ایوب خان نے گھیرا تنگ کیا ہوا تھا اور امریکی سامراج کی خوشنودی میں عوام اور مزدوروں کے ہر دل عزیز رہنمائوں کے جینے کو مشکل بنائے ہوئے تھے۔
روپوشی کے دنوں میں سندھ اسمبلی کی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے مگر اس وقت تک امام علی نازش کمیونسٹ پارٹی کے صف اول کے رہنما بن چکے تھے اور خود کو آمروں سے محفوظ کرتے کرتے پارٹی کے ہر محاذ کو روپوشی میں بھی منظم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے،یہی وجہ رہی کہ کمیونسٹ پارٹی کے روپوش رہنما امام علی نازش کی شکل سے اکثر لوگ واقف نہ تھے۔
1979 میں افغانستان کے انقلاب ثور کے بعد روپوشی کی حالت میں امام علی نازش کو کابل پہنچا دیا گیا جہاں وہ ڈاکٹر نجیب کی بیوی نسرین کے ''باپ'' سمان برسوں ایوان صدر کے مہمان رہے،1980 کے بعد جب کمیونسٹ پارٹی کو کام کرنے کی اجازت ملی تب کہیں امام علی نازش منظر عام پر آنے کے قابل ہوئے،مجھے یاد ہے کہ جب میں امام علی نازش کو لے کر کیفی اعظمی سے ملانے ان کے سسرال نارتھ ناظم آباد پہنچا تو دونوں پرانے ساتھی چند لمحوں تک مل کر روتے رہے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کمیونسٹ سماج قائم کرنے کا عزم لیے پھر سے توانا لگے۔
امام علی نازش تاریخ ادب اور سیادت پر گہری نظر رکھنے کے علاوہ جمالیاتی حسن کے دلدادہ تھے اور حسن و محبت کے اس رشتے کو غزل کے خوبصورت پیراہن میں ڈھالنے کا ہنر جانتے تھے،ان کے بیشتر اشعار خیال کی آفرینی کے ساتھ انقلابی جذبوں سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
امام علی نازش نے روس کے انہدام کو کبھی نظریئے کی کجی یا کوتاہی نہ سمجھا اور نہ ہی انھوں نے گورباچوف کے ''پریسترائیکا'' نکتہ نظر کو درست سمجھا،یہی وجہ تھی کہ ان کے اوجھا سینوٹوریم میں داخلے سے پہلے بیشتر سکہ بند خود ساختہ کمیونسٹ انھیں چھوڑ گئے اور نظریاتی کجی کا شکار ہوتے ہوئے جمہوریت الاپتے الاپتے حکومتی مراعات لے لیں یا مشیران بن گئے،مگر ناز و نعم سے پلے جاگیردار گھرانے کے اس چشم و چراغ نے اپنی زندگی کو ریاست کے والی کامریڈ حسن ناصر کی طرح نظریاتی کمیونسٹ کی حیثیت سے گزارا اور جب امام علی نازش کو اس وقت کے وزیر اعظم نے مشاہد حسین سید کے ذریعے بہتر علاج کے لیے مری منتقل کرنے اور بہتر علاج کا کہا تو نازش صاحب کا یہ جملہ کمال تھا کہ''اس اوجھا سینیٹوریم کو مری جیسا کر دیجیے۔''
نازش نے اوجھا میں تمام ساتھیوں کے سامنے آخری ہچکی لی تو نہ ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ تھا اور نہ کوئی جمع پونجی ... ہاں ان کی جیب سے سو کا ایک نوٹ ضرور برآمد ہوا تھا... امام علی نازش ایسے عوام دوست،نظریاتی محسن اور کمیونسٹ آدرش پر مکمل اترنے والے اس سیاستدان کی مثال تھا جو صرف عوام کے حق اور اس کو انصاف دلانے کی امنگ و جستجو رکھتا ہو...جو عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کی لگن میں نہ مراعات کا خواہاں ہو نہ دولت مند بننے کا طلب گار...آج بھی امام علی نازش کمیونسٹ سماج قائم کرنے کا وہ مضبوط حوالہ ہے جن کے کمیونسٹ نظریئے پر چل کر ہم اب بھی اپنی سیاسی و نظریاتی صفوں کو درست کر سکتے ہیں۔