سیاسی ہلچل اور گرما گرمی
چین، سعودی عرب، یواے ای، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف، سبھی سے ہم نے قرض لیا ہوا ہے
ملک کے سیاسی ماحول میں جو ہلچل اور گرما گرمی دیکھی جارہی ہے وہ کوئی نئی اور انہونی بات نہیں ہے۔ ہر جمہوری حکومت کے آخری سال یہ ماحول ہمیشہ سے پروان چڑھتا رہتا ہے ، لیکن اس بار چونکہ پی ٹی آئی کی حکمرانی پہلی بار آئی ہے اور اس کی حکمران قیادت خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خلاف پہلی بار کوئی ایسی بھر پور مخالفت دیکھی ہے۔
اس سے پہلے وہ خود دوسروں کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ، شاید اس لیے انھیں اس کا تجربہ نہیں تھا۔ان کا لب و لہجہ اب بھی سخت ہے، اپنے منصب کا خیال رکھتے ہوئے انھیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے جیسی وہ دھرنے والے دنوں میں کنٹینر سے کیا کرتے تھے۔
دنیا بھر میں سربراہ حکومت ایک شائستہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ جس منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں اس کی عزت و عظمت کا تقاضا یہی ہے کہ اپوزیشن چاہے کچھ بھی اور کیسی بھی زبان استعمال کرلے لیکن انھوں نے تہذیب و شرافت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ خود میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ نہیں کہتے لیکن جب وہ برسر اقتدار آجاتے ہیں تو ایک مہذب اور شائستہ انداز تکلم اختیار کرتے ہوئے کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے جیسے وہ اپوزیشن کے دنوں میں کیا کرتے تھے۔
آصف علی زرداری نے تو صدر مملکت کے منصب پر رہتے ہوئے انتہائی صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ اُن کی اپوزیشن نے اُن کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا لیکن انھوں نے کبھی بھی اس کا جواب اُس انداز میں نہیں دیا جس کی لوگ اُن سے توقع کرتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ انتہائی تحمل اور بردباری سے اپنی اپوزیشن کا مقابلہ کیا اور اپنے دور کے پانچ سال مکمل کیے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے مسلم لیگ (ن) کو الیکشن جیت جانے پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان صدر سے رخصت ہوئے اور ایک متین اور شائستہ جمہوری اسلوب اختیار کرکے پھر سے اپوزیشن کی صفوں میں آ بیٹھے۔ یہ نہیں کہا کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے میں اور بھی زیادہ خطرناک بن جاؤں گا۔
سیاسی ماحول میں آج کل جو بد مزگی کا تاثر ابھر رہا ہے اُس میں اصل کردار خود حکومت کا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک لانا اپوزیشن کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اُس کے آجانے پر اتنا برہم اور سیخ پا نہیں ہونا چاہیے ۔ حکومت کو جب اپنے اتحادیوں اور اپنے ممبران پر اتنا یقین اور اعتماد ہے کہ وہ اُسے چھوڑ کر نہیں جانے والے تو پھر بڑے حوصلے اور اطمینان سے عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ایک طرف حکومت یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ اپوزیشن 172 ووٹ حاصل نہیں کر پائے گی تو پھر بلاوجہ اتنی کیوں پریشان ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جن پتوں کے سہارے وہ تین چار سال گذار چکے ہیں وہ پتے اب کہیں ہوا تو نہیں دینے لگے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمی کو 2018 میں آزاد ارکان کی حمایت سے پورا کیا گیا اور اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنائی گئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد کارکردگی کے میدان میں بھی کوئی ایسے جوہر نہیں دکھائے گئے کہ جس کے بل بوتے پر حکومت اپنے طور پرعوامی مقبولیت اورپذیرائی حاصل کرلیتی اوراُسے آج اس پریشانی کا سامنا نہ ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ حکومت عدم اعتماد کی تحریک سے اتنی پریشان کیوں ہے جب اُسے کامل یقین بھی ہے کہ اُس کے لوگ کہیں جانے والے نہیں ہیں اوراتحادی بھی مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اُسے تو بے فکر ہوکر فوراً اجلاس بلاکریہ معرکہ سرکرلیناچاہیے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے پہلے دورحکومت میں کچھ ایسے ہی دنوں کاسامنا تھا۔ جب کہ انھیں برسراقتدار آئے ہوئے ابھی صرف 20 مہینے ہی گذرے تھے اورآئی جے آئی کی شکل میں ایک مضبوط اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لے آئی مگر کیامحترمہ نے اپنی ذہانت اورقابلیت سے یہ معرکہ سر نہیں کرلیاتھا۔
انھوں نے اپوزیشن کے خلاف یہ لب لہجہ ہرگز استعمال نہیں کیاتھاجو آج کے ہمارے حکمراں کررہے ہیں۔اورکیا عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد محترمہ نے اپوزیشن سے کوئی انتقام بھی لیاتھا۔حالانکہ وہ چاہتیں تو ایسا کرسکتی تھیں۔وہ بھی اگر اسی طرح جارحانہ تنقید اورمزاحمتی اسلوب اختیار کرتیں تو کیسے اتنی کامیاب قرار پاتیں۔شعلہ بیانی ، آتش فشانی اورچرب زبانی سے اپنے اندر کے احساسات کواور اپنی انا کو تسکین تو دی جاسکتی ہے لیکن ملک وقوم کی کوئی خدمت نہیںکی جاسکتی ہے۔ لڑائی اورمارکٹائی سے جمہوریت کابسترتوگول کیاجاسکتاہے لیکن ایک اچھے لیڈر کے طور پر قوم کی رہنمائی نہیں کی جاسکتی ہے۔
حکومت اوراپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ حالات اوروقت کی نزاکت کو سمجھیں اوراپنے کسی عمل سے اس مملکت خداداد کی جڑیں کمزور نہ کریں۔دنیامیں ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک معاشی ترقی کرکے خود کفالت اورخود انحصاری کی منزلیں طے کرتے ہوئے آج ایک سپر طاقت کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں اورہم ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی خاطر ملک وقوم کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ بنگلا دیش نے ہم سے آزادی حاصل کرکے اور اپنے یہاںسیاسی استحکام پیداکرکے آج معاشی اوراقتصادی میدان میں ہمیں شکست دیدی ہے۔مگر ہم اس ملک سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کررہے ہیں۔قابل افسوس مقام ہے کہ آزادی کے 75سال بعد بھی ہم کاسہ گدائی لیے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔اوردنیا ہمیں ایک محتاج اور قرض خواہ قوم سمجھ کر دھتکار نے لگی ہے۔
اب تویہ حال ہے کہ کوئی ہمیں ایک ٹکا بھی دینے کوتیار نہیں ہے۔چین ، سعودی عرب ،یواے ای ،ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف سبھی سے ہم نے قرض لیا ہوا ہے۔ اندرونی حالات کا یہ حال ہے کہ امپورٹ اورایکسپورٹ کاتوازن انتہائی سطح پر بگڑ چکاہے۔گندم چینی تک ہمیں امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے۔
یہ وہ فصلیں تھیں جس میں ہم چند سال پہلے تک خود کفیل ہوچکے تھے۔مگر اب ہمیں یہ ضروری اجناس بھی باہر سے امپورٹ کرنا پڑرہے ہیں۔ ایسی صورت میں مالی خسارہ کیسے پوراہوگا۔ یہ سوچنے کے بجائے ہم ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ہوئے پڑے ہیں۔ حکومت کوچاہیے تھاقوم کو ان مشکلوں سے نجات دلاتی اُلٹاوہ اِن مشکلوں کو مزید بڑھانے کاسبب بن رہی ہے۔ اُس کی ساری توجہ اپنی اپوزیشن کوٹف ٹائم دینے کی اسکیمیں اورترکیبیں سوچنے پر مرکوز ہے ۔ایسے میں بھلا حالات کیسے بہتر ہوپائیںگے۔
اس سے پہلے وہ خود دوسروں کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ، شاید اس لیے انھیں اس کا تجربہ نہیں تھا۔ان کا لب و لہجہ اب بھی سخت ہے، اپنے منصب کا خیال رکھتے ہوئے انھیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے جیسی وہ دھرنے والے دنوں میں کنٹینر سے کیا کرتے تھے۔
دنیا بھر میں سربراہ حکومت ایک شائستہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ جس منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں اس کی عزت و عظمت کا تقاضا یہی ہے کہ اپوزیشن چاہے کچھ بھی اور کیسی بھی زبان استعمال کرلے لیکن انھوں نے تہذیب و شرافت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ خود میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ نہیں کہتے لیکن جب وہ برسر اقتدار آجاتے ہیں تو ایک مہذب اور شائستہ انداز تکلم اختیار کرتے ہوئے کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے جیسے وہ اپوزیشن کے دنوں میں کیا کرتے تھے۔
آصف علی زرداری نے تو صدر مملکت کے منصب پر رہتے ہوئے انتہائی صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ اُن کی اپوزیشن نے اُن کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا لیکن انھوں نے کبھی بھی اس کا جواب اُس انداز میں نہیں دیا جس کی لوگ اُن سے توقع کرتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ انتہائی تحمل اور بردباری سے اپنی اپوزیشن کا مقابلہ کیا اور اپنے دور کے پانچ سال مکمل کیے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے مسلم لیگ (ن) کو الیکشن جیت جانے پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان صدر سے رخصت ہوئے اور ایک متین اور شائستہ جمہوری اسلوب اختیار کرکے پھر سے اپوزیشن کی صفوں میں آ بیٹھے۔ یہ نہیں کہا کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے میں اور بھی زیادہ خطرناک بن جاؤں گا۔
سیاسی ماحول میں آج کل جو بد مزگی کا تاثر ابھر رہا ہے اُس میں اصل کردار خود حکومت کا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک لانا اپوزیشن کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اُس کے آجانے پر اتنا برہم اور سیخ پا نہیں ہونا چاہیے ۔ حکومت کو جب اپنے اتحادیوں اور اپنے ممبران پر اتنا یقین اور اعتماد ہے کہ وہ اُسے چھوڑ کر نہیں جانے والے تو پھر بڑے حوصلے اور اطمینان سے عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ایک طرف حکومت یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ اپوزیشن 172 ووٹ حاصل نہیں کر پائے گی تو پھر بلاوجہ اتنی کیوں پریشان ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جن پتوں کے سہارے وہ تین چار سال گذار چکے ہیں وہ پتے اب کہیں ہوا تو نہیں دینے لگے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمی کو 2018 میں آزاد ارکان کی حمایت سے پورا کیا گیا اور اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنائی گئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد کارکردگی کے میدان میں بھی کوئی ایسے جوہر نہیں دکھائے گئے کہ جس کے بل بوتے پر حکومت اپنے طور پرعوامی مقبولیت اورپذیرائی حاصل کرلیتی اوراُسے آج اس پریشانی کا سامنا نہ ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ حکومت عدم اعتماد کی تحریک سے اتنی پریشان کیوں ہے جب اُسے کامل یقین بھی ہے کہ اُس کے لوگ کہیں جانے والے نہیں ہیں اوراتحادی بھی مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اُسے تو بے فکر ہوکر فوراً اجلاس بلاکریہ معرکہ سرکرلیناچاہیے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے پہلے دورحکومت میں کچھ ایسے ہی دنوں کاسامنا تھا۔ جب کہ انھیں برسراقتدار آئے ہوئے ابھی صرف 20 مہینے ہی گذرے تھے اورآئی جے آئی کی شکل میں ایک مضبوط اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لے آئی مگر کیامحترمہ نے اپنی ذہانت اورقابلیت سے یہ معرکہ سر نہیں کرلیاتھا۔
انھوں نے اپوزیشن کے خلاف یہ لب لہجہ ہرگز استعمال نہیں کیاتھاجو آج کے ہمارے حکمراں کررہے ہیں۔اورکیا عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد محترمہ نے اپوزیشن سے کوئی انتقام بھی لیاتھا۔حالانکہ وہ چاہتیں تو ایسا کرسکتی تھیں۔وہ بھی اگر اسی طرح جارحانہ تنقید اورمزاحمتی اسلوب اختیار کرتیں تو کیسے اتنی کامیاب قرار پاتیں۔شعلہ بیانی ، آتش فشانی اورچرب زبانی سے اپنے اندر کے احساسات کواور اپنی انا کو تسکین تو دی جاسکتی ہے لیکن ملک وقوم کی کوئی خدمت نہیںکی جاسکتی ہے۔ لڑائی اورمارکٹائی سے جمہوریت کابسترتوگول کیاجاسکتاہے لیکن ایک اچھے لیڈر کے طور پر قوم کی رہنمائی نہیں کی جاسکتی ہے۔
حکومت اوراپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ حالات اوروقت کی نزاکت کو سمجھیں اوراپنے کسی عمل سے اس مملکت خداداد کی جڑیں کمزور نہ کریں۔دنیامیں ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک معاشی ترقی کرکے خود کفالت اورخود انحصاری کی منزلیں طے کرتے ہوئے آج ایک سپر طاقت کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں اورہم ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی خاطر ملک وقوم کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ بنگلا دیش نے ہم سے آزادی حاصل کرکے اور اپنے یہاںسیاسی استحکام پیداکرکے آج معاشی اوراقتصادی میدان میں ہمیں شکست دیدی ہے۔مگر ہم اس ملک سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کررہے ہیں۔قابل افسوس مقام ہے کہ آزادی کے 75سال بعد بھی ہم کاسہ گدائی لیے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔اوردنیا ہمیں ایک محتاج اور قرض خواہ قوم سمجھ کر دھتکار نے لگی ہے۔
اب تویہ حال ہے کہ کوئی ہمیں ایک ٹکا بھی دینے کوتیار نہیں ہے۔چین ، سعودی عرب ،یواے ای ،ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف سبھی سے ہم نے قرض لیا ہوا ہے۔ اندرونی حالات کا یہ حال ہے کہ امپورٹ اورایکسپورٹ کاتوازن انتہائی سطح پر بگڑ چکاہے۔گندم چینی تک ہمیں امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے۔
یہ وہ فصلیں تھیں جس میں ہم چند سال پہلے تک خود کفیل ہوچکے تھے۔مگر اب ہمیں یہ ضروری اجناس بھی باہر سے امپورٹ کرنا پڑرہے ہیں۔ ایسی صورت میں مالی خسارہ کیسے پوراہوگا۔ یہ سوچنے کے بجائے ہم ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ہوئے پڑے ہیں۔ حکومت کوچاہیے تھاقوم کو ان مشکلوں سے نجات دلاتی اُلٹاوہ اِن مشکلوں کو مزید بڑھانے کاسبب بن رہی ہے۔ اُس کی ساری توجہ اپنی اپوزیشن کوٹف ٹائم دینے کی اسکیمیں اورترکیبیں سوچنے پر مرکوز ہے ۔ایسے میں بھلا حالات کیسے بہتر ہوپائیںگے۔