ہماری تقدیر کب بدلے گی
یہ قیادت چاہے آج کی ہو یا ماضی کی، قیادت ہی اس قسم کی صورتحال کی ذمے دار رہی ہے
آپ بھی میرے ساتھ مل کر یہ اعلان کیجیے کہ جو زندگی آپ گزار رہے ہیں، آپ کو یہ زندگی منظور نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے لیکن ہم سب پاکستانی اس سب کچھ سے محروم ہیں اور یہ محرومی جو ہم پر دانستہ مسلط کی گئی ہے، ہم اس سے انکار کرتے ہیں ۔
اس انکار کی وجہ یہ ہے کہ مفکر ین اور دانشوروں کی جانب سے یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ وطن عزیز میں چھینا جھپٹی وسیع پیمانے پرشروع ہونے والی ہے ،اس کا آغاز تو ہو چکا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہماری پسندیدہ قیادت قریب قریب وہی ہے جو اس صورتحال کی ذمے دار ہے۔
یہ قیادت چاہے آج کی ہو یا ماضی کی، قیادت ہی اس قسم کی صورتحال کی ذمے دار رہی ہے ۔ ہر ایک کا ماضی اور حال ہمارے سامنے ہے۔ عوام کا دل لبھانے کے لیے ان کے سہانے منشور تو ہر دور میں رہے ہیں لیکن ان منشور پر عمل درآمد ندار رہا' وہ بس لگاتار اعلانات تک ہی محدود رہے لیکن کوئی واضح صورت سامنے نہ لا سکے، ہوش سے زیادہ جوش سے کام لیا جاتا رہا ہے حالانکہ ہر دور میں عوام تو اپنے پسندیدہ حکمرانوں کی جانب راغب رہے 'ان میں اپنا مستقبل تلاش کرتے رہے اور اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے کسی انقلاب کے منتظر رہے لیکن یہ انتظار اتنی طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ اب عوام اپنے لیڈروں نئے اور پرانے سب سے مایوس ہو چلے ہیں۔ اگر حقیقت کو قریب سے دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں کیا ہے جو نہیں ہے۔
ایک پاکستانی کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ۔ کوئی پاکستانی رات کو بھوکا نہیں سوتا ، سفر کا ہر ذریعہ موٹرکار، بس ، ریلوے اور جہاز تک موجود ہیں ۔ علاج کی ضرورت ہو تو اسپتال موجود ہیں، پڑھنا ہو تو تعلیمی ادارے موجود ہیں، سیر و سیاحت کے لیے بہترین سیر گاہیں موجود ہیں ، تحفظات کے باوجود آزاد میڈیا موجود ہے۔ زندگی کی ضرورتیں پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں اور موجود ہیں لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہم عوام ان سے محروم ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم بڑے ناز و نخروں سے اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں لیکن ہمارے ہی منتخب کردہ یہ مٹھی بھر لوگ ملکی وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں اور ملک کی آمدنی کو کھانا شروع کر دیتے ہیں اور عوام کی دولت کو ذاتی بنا کر بیرون ملک بینکوں میں جمع کرانا شروع کر دیتے ہیں ۔
یہی وہ طبقہ ہے جس نے پاکستانیوں کو پاکستان کی نعمتوں سے محروم کر رکھا ہے، خود یہ آدھے پاکستان میں اور آدھے پاکستان سے باہر ہوتے ہیں یعنی حکمرانی یہ پاکستان میں کرتے ہیں لیکن ان کی دولت اور اولاد ترقی یافتہ غیرمسلم ممالک میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ ان کی پڑھائی اور پھر کاروبار بھی غیر ممالک میں ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود یہ دعویدار ہیں کہ پاکستان اور عام پاکستانیوں کی غربت اور محرومیوں کا دکھ انھیں کھائے جارہا ہے اور ان دکھوں کے مداوے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستانی عوام ایک بار پھر ان کو اپنا حکمران منتخب کر لیں ۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جو بوجہ ضرورت پاکستانی کہلاتے ہیں، پاکستان ان کی شکار گاہ ہے اورخود غرض اور متکبر حکمران اس شکارگاہ میں ہر وقت حکمرانی کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا پاکستان سے تعلق اپنے مفادات کی حد تک ہے اور آپ اندازہ لگا لیں کہ جس کا ملک سے تعلق ہی مفاد کی بنیاد پر ہو وہ کتنا پاکستانی ہو گا۔ فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔
ملک کے اندر دیکھیں یا باہر کسی طرف سے بھی اطمینان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ ملک کے اندر جو سیاسی صورتحال ہے، اس کو مد نظر رکھاجائے تو کل کی خبر نہیں ہے کہ کیا ہو جائے اور سیاستدانوں کی بے وقوفیوں سے کوئی عقلمند فائدہ نہ اٹھا لے لیکن اس کی بھی کسی کو سمجھ نہیں آرہی ۔ قوم کو مغالطوں میں ڈال کر عقل و خرد سے بیگانہ کردیا گیا ہے، ہر طرف سے جاوے ہی جاوے اور آوے ہی آوے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں لیکن کوئی مسیحا نظر نہیں آرہا، صرف حکمرانی کے لیے ٹپکتی رالیں نظر آتی ہیں ۔
تصادم نظر آتا ہے۔ کل کے حریف اور آج حلیف بنتے نظر آتے ہیں۔ اگر کچھ نظر نہیں آرہا تو وہ عوام ہیں جو اپنے حال پر شاکر تو نہیں ہیں لیکن صابر اوربے بس ضرور ہیں اور ان کی بے بسی کی دادرسی کرتا کوئی نظر نہیں آتا ،کسی کے پاس مہنگائی میں کمی کا کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں ہے البتہ یہ ضرور کہا جاتا رہا ہے اور کہا جاتا ر ہے گا کہ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کواپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر لیں گے اوراس کے لیے ماضی اور حال کے یہ عوامی ''مسیحا'' ایک بار پھر اپنی منڈلی سجا چکے ہیں، حرص و ہوس کاکھیل عروج پر ہے ۔ اگر اس کھیل میں کوئی نظر نہیں آرہا تو وہ عوام ہیں جو اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ دعاؤں سے تقدیر بھی بدل جاتی ہے، معلوم نہیں ہماری تقدیر کب بدلے گی، شاید ہمارے دعاؤں میں اثر نہیں رہا یا ہمار ا مالک ہم سے ناراض ہے لیکن کسی بھی ملک کے عوام اس ملک کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ معصوم ' مظلوم اور مجبورہوتے ہیں اور مظلوم کی آہ تو سات آسمانوں کو ہلا دیتی ہے ۔ وہ وقت قریب ہے جب پاکستان کے عوام کی آہیں عرش ہلا دیں گی اور کوئی حقیقی نجات دہندہ سامنے آجائے گا۔ہمارے حالت ہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اس شعر میں یوں بیان ہوئی ہے کہ
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
اس انکار کی وجہ یہ ہے کہ مفکر ین اور دانشوروں کی جانب سے یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ وطن عزیز میں چھینا جھپٹی وسیع پیمانے پرشروع ہونے والی ہے ،اس کا آغاز تو ہو چکا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہماری پسندیدہ قیادت قریب قریب وہی ہے جو اس صورتحال کی ذمے دار ہے۔
یہ قیادت چاہے آج کی ہو یا ماضی کی، قیادت ہی اس قسم کی صورتحال کی ذمے دار رہی ہے ۔ ہر ایک کا ماضی اور حال ہمارے سامنے ہے۔ عوام کا دل لبھانے کے لیے ان کے سہانے منشور تو ہر دور میں رہے ہیں لیکن ان منشور پر عمل درآمد ندار رہا' وہ بس لگاتار اعلانات تک ہی محدود رہے لیکن کوئی واضح صورت سامنے نہ لا سکے، ہوش سے زیادہ جوش سے کام لیا جاتا رہا ہے حالانکہ ہر دور میں عوام تو اپنے پسندیدہ حکمرانوں کی جانب راغب رہے 'ان میں اپنا مستقبل تلاش کرتے رہے اور اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے کسی انقلاب کے منتظر رہے لیکن یہ انتظار اتنی طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ اب عوام اپنے لیڈروں نئے اور پرانے سب سے مایوس ہو چلے ہیں۔ اگر حقیقت کو قریب سے دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں کیا ہے جو نہیں ہے۔
ایک پاکستانی کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ۔ کوئی پاکستانی رات کو بھوکا نہیں سوتا ، سفر کا ہر ذریعہ موٹرکار، بس ، ریلوے اور جہاز تک موجود ہیں ۔ علاج کی ضرورت ہو تو اسپتال موجود ہیں، پڑھنا ہو تو تعلیمی ادارے موجود ہیں، سیر و سیاحت کے لیے بہترین سیر گاہیں موجود ہیں ، تحفظات کے باوجود آزاد میڈیا موجود ہے۔ زندگی کی ضرورتیں پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں اور موجود ہیں لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہم عوام ان سے محروم ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم بڑے ناز و نخروں سے اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں لیکن ہمارے ہی منتخب کردہ یہ مٹھی بھر لوگ ملکی وسائل پر قابض ہو جاتے ہیں اور ملک کی آمدنی کو کھانا شروع کر دیتے ہیں اور عوام کی دولت کو ذاتی بنا کر بیرون ملک بینکوں میں جمع کرانا شروع کر دیتے ہیں ۔
یہی وہ طبقہ ہے جس نے پاکستانیوں کو پاکستان کی نعمتوں سے محروم کر رکھا ہے، خود یہ آدھے پاکستان میں اور آدھے پاکستان سے باہر ہوتے ہیں یعنی حکمرانی یہ پاکستان میں کرتے ہیں لیکن ان کی دولت اور اولاد ترقی یافتہ غیرمسلم ممالک میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ ان کی پڑھائی اور پھر کاروبار بھی غیر ممالک میں ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود یہ دعویدار ہیں کہ پاکستان اور عام پاکستانیوں کی غربت اور محرومیوں کا دکھ انھیں کھائے جارہا ہے اور ان دکھوں کے مداوے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستانی عوام ایک بار پھر ان کو اپنا حکمران منتخب کر لیں ۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جو بوجہ ضرورت پاکستانی کہلاتے ہیں، پاکستان ان کی شکار گاہ ہے اورخود غرض اور متکبر حکمران اس شکارگاہ میں ہر وقت حکمرانی کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا پاکستان سے تعلق اپنے مفادات کی حد تک ہے اور آپ اندازہ لگا لیں کہ جس کا ملک سے تعلق ہی مفاد کی بنیاد پر ہو وہ کتنا پاکستانی ہو گا۔ فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔
ملک کے اندر دیکھیں یا باہر کسی طرف سے بھی اطمینان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ ملک کے اندر جو سیاسی صورتحال ہے، اس کو مد نظر رکھاجائے تو کل کی خبر نہیں ہے کہ کیا ہو جائے اور سیاستدانوں کی بے وقوفیوں سے کوئی عقلمند فائدہ نہ اٹھا لے لیکن اس کی بھی کسی کو سمجھ نہیں آرہی ۔ قوم کو مغالطوں میں ڈال کر عقل و خرد سے بیگانہ کردیا گیا ہے، ہر طرف سے جاوے ہی جاوے اور آوے ہی آوے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں لیکن کوئی مسیحا نظر نہیں آرہا، صرف حکمرانی کے لیے ٹپکتی رالیں نظر آتی ہیں ۔
تصادم نظر آتا ہے۔ کل کے حریف اور آج حلیف بنتے نظر آتے ہیں۔ اگر کچھ نظر نہیں آرہا تو وہ عوام ہیں جو اپنے حال پر شاکر تو نہیں ہیں لیکن صابر اوربے بس ضرور ہیں اور ان کی بے بسی کی دادرسی کرتا کوئی نظر نہیں آتا ،کسی کے پاس مہنگائی میں کمی کا کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں ہے البتہ یہ ضرور کہا جاتا رہا ہے اور کہا جاتا ر ہے گا کہ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کواپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر لیں گے اوراس کے لیے ماضی اور حال کے یہ عوامی ''مسیحا'' ایک بار پھر اپنی منڈلی سجا چکے ہیں، حرص و ہوس کاکھیل عروج پر ہے ۔ اگر اس کھیل میں کوئی نظر نہیں آرہا تو وہ عوام ہیں جو اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ دعاؤں سے تقدیر بھی بدل جاتی ہے، معلوم نہیں ہماری تقدیر کب بدلے گی، شاید ہمارے دعاؤں میں اثر نہیں رہا یا ہمار ا مالک ہم سے ناراض ہے لیکن کسی بھی ملک کے عوام اس ملک کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ معصوم ' مظلوم اور مجبورہوتے ہیں اور مظلوم کی آہ تو سات آسمانوں کو ہلا دیتی ہے ۔ وہ وقت قریب ہے جب پاکستان کے عوام کی آہیں عرش ہلا دیں گی اور کوئی حقیقی نجات دہندہ سامنے آجائے گا۔ہمارے حالت ہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اس شعر میں یوں بیان ہوئی ہے کہ
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں