جمہوری نظام سبوتاژ ہونے کا خطرہ
قومی اسمبلی کے اسپیکر نے واضح طور پر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے جو کہ بنیادی پارلیمانی روایات کے برعکس ہے
لاہور:
میڈیا کی خبروں کے مطابق چند روز پہلے اسلام آباد پولیس نے پارلیمنٹ لاجز پر دھاوا بول دیا۔ جے یو آئی کے دو اراکینِ اسمبلی صلاح الدین ایوبی اور جمال الدین کے لاجز کی تلاشی لی۔ پولیس کے تشدد سے صلاح الدین ایوبی، جمال الدین، خواجہ سعد رفیق، کامران مرتضیٰ اور آغا رفیع اﷲ معولی زخمی بھی ہوئے۔
پولیس والے کچھ افراد کو ساتھ لے گئے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اس واقعہ کے بعد ٹی وی اسکرین پر ابھرے اور فرمایا کہ پولیس نے ایک گروہ پکڑ لیا ہے، انصار الاسلام کالعدم تنظیم ہے اور یہ لوگ جتھے لے کر آرہے ہیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا انجام عبرت ناک ہوگا۔
مزید فرمایا کہ قومی اسمبلی کے اراکین کو گرفتار نہیں کیا گیا، یہ لوگ کمپنی کی مشہوری کے لیے تھانے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس واقعہ کے بعد فورا پارلیمنٹ لاجز پہنچے اور خود گرفتاری دینے کا اعلان کیا اور ملک بھر میں کارکنوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سڑکوں پر دھرنے دیں۔
مولانا فضل الرحمن کی اس کال پر جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں نے ملک بھر میں دھرنے دینے شروع کیے۔ گزشتہ جمعرات کی رات کے اختتام تک سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں جے یو آئی کے کارکن مختلف مرکزی شاہراہوں تک پہنچ گئے اور ان کے دھرنے کی بناء پر کراچی سے پشاور جانے والی سپر ہائی وے سمیت سندھ اور بلوچستان کی اہم سڑکیں بند ہوئیں۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ ان کے رہنما پارلیمنٹ لاجز کے رجسٹر پر ان کارکنوں کے ناموں کا اندراج کراکے انھیں اپنے کمروں میں لے گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے نوجوانوں کی تنظیم کے رضاکاروں کی موجودگی کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حکومت کا حزب اختلاف کے اراکین قومی اسمبلی کو اغواء کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔ اس لیے یہ کارکن اسلام آباد آئے ہیں اور یہ سب غیر مسلح تھے۔ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف نے بھی پولیس ایکشن کی مذمت کی۔
وزارت داخلہ کو جمعہ کی صبح سے پہلے صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا اور گرفتار کیے گئے رہنماؤں اور کارکنوں کو شخصی ضمانتوں پر رہا کردیا گیا۔ ان کارکنوں کی رہائی کے بعد شیخ رشید نے کہا کہ ان افراد کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز کو رینجرز اور ایف سی کے حوالہ کردیا گیا ہے۔
ادھر عمران خان نے مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف، آصف زرداری کے خلاف توہین آمیز گفتگو کی اور جواب میں مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کے جوابی حملوں سے صورتحال میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ لاجز پر پولیس کے دھاوے سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ عمران خان نے لوئر دیر کے جلسہ میں غیر جانبداری کا مذاق اڑایا اور کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ وہ یہ الزام لگاتے ہوئے بھول گئے کہ ایک ہفتہ قبل انھوں نے ہی ایک جلسہ میں کہا تھا کہ پاکستان عالمی منظر نامہ میں نیوٹرل ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری پہلے مخالف رہنماؤں پر بیرون ملک کی سازش میں شریک ہونے کا الزام لگاتے ہیں، پھر وفاقی اور صوبائی مشیر بھی یہ بیانیہ دھراتے رہے ہیں۔ اب انھوں نے یہ الزام لگانا شروع کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے فوج کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ ان کا یہ مفروضہ ہے کہ فضل الرحمن، نواز شریف اور آصف زرداری فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔
ڈان لیکس، بھارتی تاجروں اور وزیر اعظم مودی سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقاتیں اسی سلسلہ کی کڑی تھی۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو فواد چوہدری کا بیانیہ یہ تھا کہ حکومت فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے گی تاکہ حزب اختلاف کی اس تحریک کا فوری طور پر خاتمہ ہوجائے۔
پھر بعض وزراء نے یہ بیانیہ دیا کہ حکومت تحریک عدم اعتماد والے دن اپنے اراکین پر پابندی عائد کردے گی کہ ایوان میں داخل نہ ہوں ، اگر کوئی منحرف رکن ایوان میں داخل ہوا تو اسپیکر فلور کراسنگ کے قانون کے تحت انھیں نشست سے محروم کرنے کا حکم نامہ صادر کریں گے اور وہ منحرف رکن اسمبلی اپنی نشست سے محروم ہوجائے گا کیونکہ وہ فرد آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت امین اور صادق نہیں رہے گا۔ قانونی ماہرین نے وفاقی وزراء کی قانون کی اس تشریح کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔
ان ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ فطری قانون کے مطابق کوئی فرد جب تک قانون کو نہیں توڑتا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ قانون کے تحت قومی اسمبلی کے اسپیکر کو کسی منتخب رکن اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے ، اسپیکر کا کام پوسٹ آفس کا ہے، اگر کسی پارٹی کا سربراہ اپنے رکن اسمبلی پر فلور کراسنگ کا الزام لگاتا ہے تو وہ اسپیکر فاضل رکن کو نااہل قرار دینے کے لیے ریفرنس داخل کرتا ہے۔ اسپیکر کے فرائض میں صرف یہ بات شامل ہے کہ وہ اس ریفرنس کو الیکشن کمیشن کے پاس بھیج دے۔
چیف الیکشن کمیشن کے افسر ریفرنس کی قانونی حیثیت کی جانچ پڑتال کرکے چیف الیکشن کمشنر کے سامنے یہ ریفرنس رکھیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر اراکین الیکشن کمیشن کے ساتھ متعلقہ رکن کو نوٹس جاری کریں گے۔ متعلقہ رکن اپنے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ فاضل رکن کو الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔
ایسی اطلاعات بھی گردش میں آئی ہیں کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اراکین کو نااہل قرار دینے کے اپنے ممکنہ فیصلہ کے جواز کے لیے اسمبلی سیکریٹریٹ میں ایک سمری تیار کرائی ہے۔اگر ایسا ہے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر نے واضح طور پر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے جو کہ بنیادی پارلیمانی روایات کے برعکس ہے۔
اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ تحریک ِ انصاف کے اتحادی اس کے ساتھ نہیں ہیں اور تحریکِ انصاف کے منحرفین کے گروپ کا سائز بہت بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور ان کے معاونین کا رویہ تلخ ہوتا جارہا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنما بھی اسی لہجہ میں جواب دے رہے ہیں۔ ڈی چوک پر 20 لاکھ افراد جمع کر کے منحرفین کو خوفزدہ کرنے کے اعلانات ظاہر کرتے ہیں عمران خان ہر صورت اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں،اس طرح کا رویہ اور بیانات فاشزم کو پسند کرنے کا اظہار ہے جس کے نتیجہ میں جمہوری نظام کا مستقبل خطرہ میں نظر آرہا ہے۔ عمران خان کو تو اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، دوسری صورت میں جمہوری نظام سبوتاژ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق چند روز پہلے اسلام آباد پولیس نے پارلیمنٹ لاجز پر دھاوا بول دیا۔ جے یو آئی کے دو اراکینِ اسمبلی صلاح الدین ایوبی اور جمال الدین کے لاجز کی تلاشی لی۔ پولیس کے تشدد سے صلاح الدین ایوبی، جمال الدین، خواجہ سعد رفیق، کامران مرتضیٰ اور آغا رفیع اﷲ معولی زخمی بھی ہوئے۔
پولیس والے کچھ افراد کو ساتھ لے گئے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اس واقعہ کے بعد ٹی وی اسکرین پر ابھرے اور فرمایا کہ پولیس نے ایک گروہ پکڑ لیا ہے، انصار الاسلام کالعدم تنظیم ہے اور یہ لوگ جتھے لے کر آرہے ہیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا انجام عبرت ناک ہوگا۔
مزید فرمایا کہ قومی اسمبلی کے اراکین کو گرفتار نہیں کیا گیا، یہ لوگ کمپنی کی مشہوری کے لیے تھانے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس واقعہ کے بعد فورا پارلیمنٹ لاجز پہنچے اور خود گرفتاری دینے کا اعلان کیا اور ملک بھر میں کارکنوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سڑکوں پر دھرنے دیں۔
مولانا فضل الرحمن کی اس کال پر جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں نے ملک بھر میں دھرنے دینے شروع کیے۔ گزشتہ جمعرات کی رات کے اختتام تک سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں جے یو آئی کے کارکن مختلف مرکزی شاہراہوں تک پہنچ گئے اور ان کے دھرنے کی بناء پر کراچی سے پشاور جانے والی سپر ہائی وے سمیت سندھ اور بلوچستان کی اہم سڑکیں بند ہوئیں۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ ان کے رہنما پارلیمنٹ لاجز کے رجسٹر پر ان کارکنوں کے ناموں کا اندراج کراکے انھیں اپنے کمروں میں لے گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے نوجوانوں کی تنظیم کے رضاکاروں کی موجودگی کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حکومت کا حزب اختلاف کے اراکین قومی اسمبلی کو اغواء کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔ اس لیے یہ کارکن اسلام آباد آئے ہیں اور یہ سب غیر مسلح تھے۔ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف نے بھی پولیس ایکشن کی مذمت کی۔
وزارت داخلہ کو جمعہ کی صبح سے پہلے صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا اور گرفتار کیے گئے رہنماؤں اور کارکنوں کو شخصی ضمانتوں پر رہا کردیا گیا۔ ان کارکنوں کی رہائی کے بعد شیخ رشید نے کہا کہ ان افراد کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز کو رینجرز اور ایف سی کے حوالہ کردیا گیا ہے۔
ادھر عمران خان نے مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف، آصف زرداری کے خلاف توہین آمیز گفتگو کی اور جواب میں مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کے جوابی حملوں سے صورتحال میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ لاجز پر پولیس کے دھاوے سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ عمران خان نے لوئر دیر کے جلسہ میں غیر جانبداری کا مذاق اڑایا اور کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ وہ یہ الزام لگاتے ہوئے بھول گئے کہ ایک ہفتہ قبل انھوں نے ہی ایک جلسہ میں کہا تھا کہ پاکستان عالمی منظر نامہ میں نیوٹرل ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری پہلے مخالف رہنماؤں پر بیرون ملک کی سازش میں شریک ہونے کا الزام لگاتے ہیں، پھر وفاقی اور صوبائی مشیر بھی یہ بیانیہ دھراتے رہے ہیں۔ اب انھوں نے یہ الزام لگانا شروع کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے فوج کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ ان کا یہ مفروضہ ہے کہ فضل الرحمن، نواز شریف اور آصف زرداری فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔
ڈان لیکس، بھارتی تاجروں اور وزیر اعظم مودی سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقاتیں اسی سلسلہ کی کڑی تھی۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو فواد چوہدری کا بیانیہ یہ تھا کہ حکومت فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے گی تاکہ حزب اختلاف کی اس تحریک کا فوری طور پر خاتمہ ہوجائے۔
پھر بعض وزراء نے یہ بیانیہ دیا کہ حکومت تحریک عدم اعتماد والے دن اپنے اراکین پر پابندی عائد کردے گی کہ ایوان میں داخل نہ ہوں ، اگر کوئی منحرف رکن ایوان میں داخل ہوا تو اسپیکر فلور کراسنگ کے قانون کے تحت انھیں نشست سے محروم کرنے کا حکم نامہ صادر کریں گے اور وہ منحرف رکن اسمبلی اپنی نشست سے محروم ہوجائے گا کیونکہ وہ فرد آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت امین اور صادق نہیں رہے گا۔ قانونی ماہرین نے وفاقی وزراء کی قانون کی اس تشریح کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔
ان ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ فطری قانون کے مطابق کوئی فرد جب تک قانون کو نہیں توڑتا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ قانون کے تحت قومی اسمبلی کے اسپیکر کو کسی منتخب رکن اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے ، اسپیکر کا کام پوسٹ آفس کا ہے، اگر کسی پارٹی کا سربراہ اپنے رکن اسمبلی پر فلور کراسنگ کا الزام لگاتا ہے تو وہ اسپیکر فاضل رکن کو نااہل قرار دینے کے لیے ریفرنس داخل کرتا ہے۔ اسپیکر کے فرائض میں صرف یہ بات شامل ہے کہ وہ اس ریفرنس کو الیکشن کمیشن کے پاس بھیج دے۔
چیف الیکشن کمیشن کے افسر ریفرنس کی قانونی حیثیت کی جانچ پڑتال کرکے چیف الیکشن کمشنر کے سامنے یہ ریفرنس رکھیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر اراکین الیکشن کمیشن کے ساتھ متعلقہ رکن کو نوٹس جاری کریں گے۔ متعلقہ رکن اپنے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ فاضل رکن کو الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔
ایسی اطلاعات بھی گردش میں آئی ہیں کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اراکین کو نااہل قرار دینے کے اپنے ممکنہ فیصلہ کے جواز کے لیے اسمبلی سیکریٹریٹ میں ایک سمری تیار کرائی ہے۔اگر ایسا ہے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر نے واضح طور پر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے جو کہ بنیادی پارلیمانی روایات کے برعکس ہے۔
اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ تحریک ِ انصاف کے اتحادی اس کے ساتھ نہیں ہیں اور تحریکِ انصاف کے منحرفین کے گروپ کا سائز بہت بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور ان کے معاونین کا رویہ تلخ ہوتا جارہا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنما بھی اسی لہجہ میں جواب دے رہے ہیں۔ ڈی چوک پر 20 لاکھ افراد جمع کر کے منحرفین کو خوفزدہ کرنے کے اعلانات ظاہر کرتے ہیں عمران خان ہر صورت اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں،اس طرح کا رویہ اور بیانات فاشزم کو پسند کرنے کا اظہار ہے جس کے نتیجہ میں جمہوری نظام کا مستقبل خطرہ میں نظر آرہا ہے۔ عمران خان کو تو اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، دوسری صورت میں جمہوری نظام سبوتاژ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔