لاعلمی یا اسٹیٹس سمبل
فطرت سے دوری کا ایک اور نقصان فریج کا ٹھنڈا پانی بھی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت کا ایک حصہ مٹی کے مٹکے اور صراحی بھی ہے
تغیر زندگی کی علامت ہے، وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے، بیل گاڑی کی جگہ ریل نے لی، پھر ہوائی جہاز اور تیز رفتار ٹرینیں اور پانی کے جہاز۔ یہ سب وقت کا تقاضہ ہیں۔ پیغام رسانی کے لیے کبھی کبوتر بھی استعمال ہوتے تھے۔ جنھیں تربیت دے کر قاصد یا نامہ بر کے طور پر بھیجا جاتا تھا۔ پھر گھڑ سوار قاصدوں نے کبوتروں کی جگہ لے لی۔ سلسلہ رکا نہیں بلکہ محکمہ ڈاک و تار سے ہوتا ہوا ٹیلی فون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک آن پہنچا کہ ترقی اسی کا نام ہے۔
لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں آپ چاہنے کے باوجود اپنی مرضی سے نہیں بدل سکتے کیونکہ قدرت ایسا نہیں چاہتی۔ غالباً ابتدائے آفرنیش سے ہی ایسا ہے یعنی ہمارے پیارے موسم گرمی، سردی، خزاں، بہار۔ برصغیر پاک و ہند کے علاقے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ یہاں چاروں موسم ہیں۔ ورنہ قطب شمالی کے رہنے والوں کا تصور کیجیے تو سردی کی انتہا کا سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جو ممالک اور خطے خط استوا کے قریب ہیں وہاں جس شدت کی گرمی پڑتی ہے، اس کا اندازہ کر کے ''سورج کے سوا نیزے پہ'' آ جانے کا محاورہ یاد آ جاتا ہے۔ ہم برسات کا مزہ بھی لیتے ہیں، گرمیوں میں آم، خوبانی، جامن، آلوچہ، گرما، سردا، تربوز اور خربوزے اپنی لذت سے کام و دہن کی تواضح کرتے ہیں۔ سردیاں اپنی گود میں، انار، سنگترہ، کینو، مالٹا اور موسمبی لے کر آتی ہیں۔ خزاں درختوں کو ٹُنڈ منڈ کر دیتی ہے لیکن تازہ ہوا بہار کی جوں ہی چلتی ہے، سارا گرد ملال اڑا کر لے جاتی ہے۔ ہر موسم کا اپنا رنگ اور اپنا ڈھنگ ہے۔ لیکن مجھے کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر کہ ہم نے کس کس طرح فطرت کو شکست دینے کی کوشش میں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے خاندان کی صحت کو نقصان پہنچایا ہے۔ غالباً بنیادی طور پر ہم ایک نقال قوم ہیں۔ ہر معاملے میں دوسروں کی نقل کرنا وہ بھی بلا سوچے سمجھے ایک احمقانہ قدم ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ کرتے جا رہے ہیں۔ فطرت سے دوری اور قدرت کے نظام میں خلل ڈالنے کے جو نقصانات ہیں ان پر ہماری توجہ ہی نہیں جاتی۔ جہالت نے احساس کمتری کی پٹی آنکھوں پہ باندھ دی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ہر شے کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ چلیے آج صرف صحت کے حوالے سے کچھ بات کرتے ہیں۔
آج کل شہروں میں مائیکرو ویو اوون کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے خواتین تن آسانی کی خاطر یا کاہلی کی بنا پر ہر قسم کے کھانوں کو گرم کرنے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرتی ہیں جب کہ اس کے ساتھ منسلک لٹریچر میں واضح طور پر اس کے زیادہ استعمال کے نقصانات بھی درج ہوتے ہیں۔ لیکن شوق کے مارے اس کا سوئچ آن آف کرنا تو سیکھ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کبھی غور کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ مائیکرو ویو کی لہروں کے کتنے نقصانات ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ غذائی اعتبار سے گرم ہونے والے کھانے نہ صرف اپنا اصل ذائقہ کھو دیتے ہیں بلکہ اندر سے ویسے ہی ٹھنڈے رہتے ہیں۔ آئے دن طبی موضوعات پہ مبنی رسائل مثلاً ''ہمدرد صحت'' اور ''شفا نیوز'' نہایت معلومات افزا لٹریچر شایع کرتے ہیں۔ لیکن کتاب کلچر کے روبہ زوال ہونے والے رویوں نے طبی رسائل سے بھی دوری پیدا کر دی ہے۔
اب آئیے! ڈبوں میں بند ان کھانوں کی طرف جو سیل بند ملتے ہیں۔ بظاہر بہت اچھا لگتا ہے کہ ڈبہ لائے، اپنا من پسند ڈبہ کھولا اور مائیکرو ویو میں رکھ دیا۔ اسے کہتے ہیں مرے پہ سو درے۔ ایک تو باسی کھانا، خدا جانے کب کا تیار ہوا۔ اور پھر مائیکرو ویو کی خطرناک تابکاری۔۔۔؟ فطرت سے دوری کا ایک اور مظہر۔ اسپلٹ یا ایئرکنڈیشن۔ دروازے کھڑکیاں بند کر کے مصنوعی ہوا سے کمرہ ٹھنڈہ کرنا بھی اب ضرورت سے زیادہ فیشن اور اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ جب کہ اس کے لٹریچر میں بھی بہت واضح طور پر خبردار کیا جاتا ہے کہ مسلسل اس کا استعمال جوڑوں کے درد کا باعث بن جاتا ہے۔ مگر پرواہ کسے؟ درد ہو گا تو ڈاکٹر تو موجود ہی ہیں ۔ تازہ ہوا کا گزر کمروں میں نہ ہونے کے برابر۔ نتیجہ الرجی اور مچھروں کی افزائش۔
فریج نے بے شک زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ لیکن کئی کئی مہینوں تک گوشت کو محفوظ رکھنے سے اس میں بیکٹیریا پیدا ہو جاتے ہیں۔ پرانا گوشت نہ صرف بوسیدہ ہو جاتا ہے بلکہ غذائیت بھی کھو دیتا ہے۔ لیکن عام نظارہ یہ ہے کہ ایک ایک ماہ تک کچا گوشت اور پکی ہوئی اشیا کو رکھنا معمول کی بات ہے۔ بقرعید کے موقعے پر آخر ڈیپ فریزر اتنے زیادہ کیوں بکتے ہیں؟ سب جانتے ہیں۔ قربانی کا گوشت محرم میں حلیم پکانے میں کام آتا ہے۔ میں نے ایسے بھی گھر دیکھے ہیں جہاں قربانی کا گوشت پانچ ماہ بعد بھی استعمال ہو رہا تھا۔ بار بار کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے خاتون خانہ نے پانچ کلو گوشت گھر میں کام کرنے والی کو دے دیا۔ بصورت دیگر یہ گوشت کچھ اور عرصے تک بھی محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔
فطرت سے دوری کا ایک اور نقصان فریج کا ٹھنڈا پانی بھی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت کا ایک حصہ مٹی کے مٹکے اور صراحی بھی ہے۔ تجربہ کر کے دیکھئے جو ذائقہ مٹکے کے پانی میں ہوتا ہے وہ بوتل میں بند پانی میں ممکن ہی نہیں۔ کوری مٹی کی سوندھی خوشبو جب پانی میں ملتی ہے تو پانی کو صحت مند اور خوش ذائقہ بھی بناتی ہے۔ بیشتر گھرانے پانی ابال کر مٹکوں میں بھر دیتے ہیں اور پھر بوتلوں میں بھر کر فریج میں ٹھنڈا کر لیتے ہیں گھر کا ابلا ہوا اور کپڑے سے چھنا ہوا پانی ان نام نہاد منرل واٹر سے ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے جو کئی کئی ماہ گھروں میں بند پڑا رہتا ہے۔ اگر کبھی ان ٹرکوں، بوتلوں، جیری کین وغیرہ کو دیکھ لیں تو یقینا لوگ اپنا پیسہ اور صحت برباد کرنا چھوڑ دیں۔ خالی بوتلیں اور جیری کین کس طرح کوڑے کے ڈھیر کی طرح جمع کیے جاتے ہیں اور انھیں بغیر دھوئے دوبارہ پانی سے بھر دیا جاتا ہے۔ جس نے بھی یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو گا وہ سادہ پانی نل کا پینے کو ترجیح دیگا لیکن اس پانی کے قریب سے بھی نہ گزرے گا جو ہماری لاعلمی کی بنا پر مہنگے داموں بغیر کسی روک ٹوک کے بیچا جا رہا ہے کیونکہ لاعلم اور اسٹیٹس سمبل کے مارے لوگ اس مضر صحت پانی کو اپنی صحت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
آئے دن اخبارات میں چھاپہ پڑنے اور غیر قانونی طور پر مضر صحت پانی کی فروخت سے متعلق خبریں چھپتی ہیں لیکن شعور پھر بھی بیدار نہیں ہوتا۔ لیبارٹری میں آئے دن ٹیسٹ ہونیوالے پانی کے نمونوں میں سے صرف دو فیصد ہی ٹھیک قرار دیے جاتے ہیں لیکن بقایا 98 فیصد بھی تو بک ہی رہا ہے۔
آنکھیں بند کر کے ان چیزوں کا استعمال کرنا جو صحت و تندرستی کے حوالے سے مضر ہیں انتہائی غیر مناسب ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ فطرت سے دوری نے جہاں تازہ ہوا چھین لی۔ پھول، سبزہ اور مٹی کو ہم سے دور کر دیا ہو اس کا انجام کیا ہو گا۔
ترقی یافتہ ممالک جڑی بوٹیوں (Herbal) کی طرف جا رہے ہیں۔ اور ہم مائیکرو ویو اوون کو زندگی میں لازمی جزو کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں آپ چاہنے کے باوجود اپنی مرضی سے نہیں بدل سکتے کیونکہ قدرت ایسا نہیں چاہتی۔ غالباً ابتدائے آفرنیش سے ہی ایسا ہے یعنی ہمارے پیارے موسم گرمی، سردی، خزاں، بہار۔ برصغیر پاک و ہند کے علاقے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ یہاں چاروں موسم ہیں۔ ورنہ قطب شمالی کے رہنے والوں کا تصور کیجیے تو سردی کی انتہا کا سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جو ممالک اور خطے خط استوا کے قریب ہیں وہاں جس شدت کی گرمی پڑتی ہے، اس کا اندازہ کر کے ''سورج کے سوا نیزے پہ'' آ جانے کا محاورہ یاد آ جاتا ہے۔ ہم برسات کا مزہ بھی لیتے ہیں، گرمیوں میں آم، خوبانی، جامن، آلوچہ، گرما، سردا، تربوز اور خربوزے اپنی لذت سے کام و دہن کی تواضح کرتے ہیں۔ سردیاں اپنی گود میں، انار، سنگترہ، کینو، مالٹا اور موسمبی لے کر آتی ہیں۔ خزاں درختوں کو ٹُنڈ منڈ کر دیتی ہے لیکن تازہ ہوا بہار کی جوں ہی چلتی ہے، سارا گرد ملال اڑا کر لے جاتی ہے۔ ہر موسم کا اپنا رنگ اور اپنا ڈھنگ ہے۔ لیکن مجھے کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر کہ ہم نے کس کس طرح فطرت کو شکست دینے کی کوشش میں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے خاندان کی صحت کو نقصان پہنچایا ہے۔ غالباً بنیادی طور پر ہم ایک نقال قوم ہیں۔ ہر معاملے میں دوسروں کی نقل کرنا وہ بھی بلا سوچے سمجھے ایک احمقانہ قدم ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ کرتے جا رہے ہیں۔ فطرت سے دوری اور قدرت کے نظام میں خلل ڈالنے کے جو نقصانات ہیں ان پر ہماری توجہ ہی نہیں جاتی۔ جہالت نے احساس کمتری کی پٹی آنکھوں پہ باندھ دی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ہر شے کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ چلیے آج صرف صحت کے حوالے سے کچھ بات کرتے ہیں۔
آج کل شہروں میں مائیکرو ویو اوون کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے خواتین تن آسانی کی خاطر یا کاہلی کی بنا پر ہر قسم کے کھانوں کو گرم کرنے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرتی ہیں جب کہ اس کے ساتھ منسلک لٹریچر میں واضح طور پر اس کے زیادہ استعمال کے نقصانات بھی درج ہوتے ہیں۔ لیکن شوق کے مارے اس کا سوئچ آن آف کرنا تو سیکھ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ کبھی غور کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ مائیکرو ویو کی لہروں کے کتنے نقصانات ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ غذائی اعتبار سے گرم ہونے والے کھانے نہ صرف اپنا اصل ذائقہ کھو دیتے ہیں بلکہ اندر سے ویسے ہی ٹھنڈے رہتے ہیں۔ آئے دن طبی موضوعات پہ مبنی رسائل مثلاً ''ہمدرد صحت'' اور ''شفا نیوز'' نہایت معلومات افزا لٹریچر شایع کرتے ہیں۔ لیکن کتاب کلچر کے روبہ زوال ہونے والے رویوں نے طبی رسائل سے بھی دوری پیدا کر دی ہے۔
اب آئیے! ڈبوں میں بند ان کھانوں کی طرف جو سیل بند ملتے ہیں۔ بظاہر بہت اچھا لگتا ہے کہ ڈبہ لائے، اپنا من پسند ڈبہ کھولا اور مائیکرو ویو میں رکھ دیا۔ اسے کہتے ہیں مرے پہ سو درے۔ ایک تو باسی کھانا، خدا جانے کب کا تیار ہوا۔ اور پھر مائیکرو ویو کی خطرناک تابکاری۔۔۔؟ فطرت سے دوری کا ایک اور مظہر۔ اسپلٹ یا ایئرکنڈیشن۔ دروازے کھڑکیاں بند کر کے مصنوعی ہوا سے کمرہ ٹھنڈہ کرنا بھی اب ضرورت سے زیادہ فیشن اور اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ جب کہ اس کے لٹریچر میں بھی بہت واضح طور پر خبردار کیا جاتا ہے کہ مسلسل اس کا استعمال جوڑوں کے درد کا باعث بن جاتا ہے۔ مگر پرواہ کسے؟ درد ہو گا تو ڈاکٹر تو موجود ہی ہیں ۔ تازہ ہوا کا گزر کمروں میں نہ ہونے کے برابر۔ نتیجہ الرجی اور مچھروں کی افزائش۔
فریج نے بے شک زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ لیکن کئی کئی مہینوں تک گوشت کو محفوظ رکھنے سے اس میں بیکٹیریا پیدا ہو جاتے ہیں۔ پرانا گوشت نہ صرف بوسیدہ ہو جاتا ہے بلکہ غذائیت بھی کھو دیتا ہے۔ لیکن عام نظارہ یہ ہے کہ ایک ایک ماہ تک کچا گوشت اور پکی ہوئی اشیا کو رکھنا معمول کی بات ہے۔ بقرعید کے موقعے پر آخر ڈیپ فریزر اتنے زیادہ کیوں بکتے ہیں؟ سب جانتے ہیں۔ قربانی کا گوشت محرم میں حلیم پکانے میں کام آتا ہے۔ میں نے ایسے بھی گھر دیکھے ہیں جہاں قربانی کا گوشت پانچ ماہ بعد بھی استعمال ہو رہا تھا۔ بار بار کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے خاتون خانہ نے پانچ کلو گوشت گھر میں کام کرنے والی کو دے دیا۔ بصورت دیگر یہ گوشت کچھ اور عرصے تک بھی محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔
فطرت سے دوری کا ایک اور نقصان فریج کا ٹھنڈا پانی بھی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت کا ایک حصہ مٹی کے مٹکے اور صراحی بھی ہے۔ تجربہ کر کے دیکھئے جو ذائقہ مٹکے کے پانی میں ہوتا ہے وہ بوتل میں بند پانی میں ممکن ہی نہیں۔ کوری مٹی کی سوندھی خوشبو جب پانی میں ملتی ہے تو پانی کو صحت مند اور خوش ذائقہ بھی بناتی ہے۔ بیشتر گھرانے پانی ابال کر مٹکوں میں بھر دیتے ہیں اور پھر بوتلوں میں بھر کر فریج میں ٹھنڈا کر لیتے ہیں گھر کا ابلا ہوا اور کپڑے سے چھنا ہوا پانی ان نام نہاد منرل واٹر سے ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے جو کئی کئی ماہ گھروں میں بند پڑا رہتا ہے۔ اگر کبھی ان ٹرکوں، بوتلوں، جیری کین وغیرہ کو دیکھ لیں تو یقینا لوگ اپنا پیسہ اور صحت برباد کرنا چھوڑ دیں۔ خالی بوتلیں اور جیری کین کس طرح کوڑے کے ڈھیر کی طرح جمع کیے جاتے ہیں اور انھیں بغیر دھوئے دوبارہ پانی سے بھر دیا جاتا ہے۔ جس نے بھی یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو گا وہ سادہ پانی نل کا پینے کو ترجیح دیگا لیکن اس پانی کے قریب سے بھی نہ گزرے گا جو ہماری لاعلمی کی بنا پر مہنگے داموں بغیر کسی روک ٹوک کے بیچا جا رہا ہے کیونکہ لاعلم اور اسٹیٹس سمبل کے مارے لوگ اس مضر صحت پانی کو اپنی صحت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
آئے دن اخبارات میں چھاپہ پڑنے اور غیر قانونی طور پر مضر صحت پانی کی فروخت سے متعلق خبریں چھپتی ہیں لیکن شعور پھر بھی بیدار نہیں ہوتا۔ لیبارٹری میں آئے دن ٹیسٹ ہونیوالے پانی کے نمونوں میں سے صرف دو فیصد ہی ٹھیک قرار دیے جاتے ہیں لیکن بقایا 98 فیصد بھی تو بک ہی رہا ہے۔
آنکھیں بند کر کے ان چیزوں کا استعمال کرنا جو صحت و تندرستی کے حوالے سے مضر ہیں انتہائی غیر مناسب ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ فطرت سے دوری نے جہاں تازہ ہوا چھین لی۔ پھول، سبزہ اور مٹی کو ہم سے دور کر دیا ہو اس کا انجام کیا ہو گا۔
ترقی یافتہ ممالک جڑی بوٹیوں (Herbal) کی طرف جا رہے ہیں۔ اور ہم مائیکرو ویو اوون کو زندگی میں لازمی جزو کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔