نقل کی سیاہ کاریاں
کسی زمانے میں اندلس اور مغرب کے پایہ تخت قیروان و قرطبہ تھے وہاں علوم و فنون کے بازار گرم رہا کرتے تھے۔۔۔
چند روزپہلے ایک بہت اچھی اورنصیحت آمیز خبر پڑھنے کو ملی وہ یہ کہ چوالیس (44) جعلی امیدوار بی کام پرائیویٹ کا پرچہ حل کرتے ہوئے پکڑے گئے جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے پہلی بار یہ قدم اٹھایا ہے کہ ان نقل کرنے والے طلبا کو کسی بھی قسم کی رعایت سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہ طلبا اپنی قابلیت کا سکہ بٹھانے کے لیے اصل امیدوارکی جگہ پرچہ دینے آئے تھے لیکن ممتحن کی اپنے پیشے سے مخلصانہ کوشش کے نتیجے میں انھیں رنگے ہاتھوں نہ کہ پکڑا بلکہ انھیں انضباطی کارروائی کے لیے کیمپس سیکیورٹی آفس کے حوالے کردیا گیا۔ ناظم امتحانات اعلامیے کے مطابق طلبا کو تین سال کے لیے جامعہ کراچی کے امتحانی عمل سے خارج کردیا جائے گا اور ان طلبا کے لیے جاری کیا جانے والا خارجی خط پاکستان کی تمام نجی و سرکاری جامعات کو بھیج دیا جائے گا، پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی کے مطابق شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر کی ہدایت پر تعلیمی نظم و ضبط اور امتحانات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کسی کی مداخلت برداشت کی جائے گی۔
یقیناً یہ تعلیم کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہے ورنہ تو بارہا نقل کرنے والے طالب علم خبروں کے ذریعے منظر عام پر آئے، لیکن ان کا کسی نے بال بیکا نہ کیا ایک معمولی سی غلطی سمجھ کر نظرانداز کردیا گیا اس طرح طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور نتیجہ سامنے ہے کہ امتحانات کے زمانے میں بے شمار طلبا نقل کرکے پاس ہوتے ہیں اور تعلیم مکمل کرنے یا نہ کرنے کے بعد سفارش اور رشوت کی بنا پر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ معاشرتی برائیوں، ناانصافیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج جو پورے ملک میں جہالت کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا ہے، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ لوگ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہے جو دینی و دنیاوی علوم سے ناواقف تھے کتابوں کی جگہ دولت سے محبت کرنیوالوں نے ہر ادارے کو زوال کی صورت میں مبتلا کر دیا ہے۔ لیکن دوسرے تمام اداروں میں سب سے اہم ادارہ تعلیم کا ہی ہے کہ یہاں سے ہی عقل و شعور، دیانت و ذہانت کے دریا بہتے ہیں ، علم کے طالب مسافر ان ہی دریاؤں سے سیراب ہوتے ہیں اور اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں اور ان سے کچھ سیکھتے اور عمل کرتے ہیں (اس قدردانی کی وجہ اساتذہ کا کردار ہے)۔
پچھلے وقتوں میں شاگرد علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر طے کیا کرتے تھے، اس وقت کے معلمین حقیقتاً علم کے فروغ کے لیے صبح وشام سیکھنے اور سکھانے کے عمل سے گزرتے تھے، آج کے دور میں اساتذہ بھی طلبا کو نقل کرنے کا مفید مشورہ دیتے ہیں اور اپنی تدریسی ذمے داریوں سے چشم پوشی کرتے ہیں، ان کے اسی عمل سے طلبا پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں تو پھر علمیت و قابلیت کیونکر بڑھ سکتی ہے، ترقی کی راہیں کھلتی نہیں بلکہ مسدود ہوجاتی ہیں، آج چند گنتی کے طالب علموں کے علاوہ نقل کرنیوالے طلبا اگر عالموں کی محفل میں بیٹھ جائیں تو کسی بھی مسئلے کا حل بتانے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے ایسے طالب علموں کے بارے میں ابن خلدون فرماتے ہیں کہ زیادہ تر طالب علم اسباق کو رٹتے ہیں اور علم میں تصرفات کا ملکہ پیدا نہیں کرتے یہ بہت بڑی کمی ہے، اگر خوش قسمتی سے کوئی طالب علم تعلیمی اعتبار سے بہتر ہو اور تعلیم سے فارغ ہوکر بظاہر کام بھی کرنے کے قابل معلوم ہوتا ہے لیکن ملکہ علم سے وہ پھر بھی محروم رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ نہ علمی مذاکروں میں مدلل گفتگو کر پاتا ہے اور نہ ہی مناظرہ کرسکتا ہے اور بحیثیت استاد کے اپنے فرائض بھی انجام نہیں دے پاتا ہے۔ یہ کمی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ان طالب علموں نے ماہرین تعلیم اور شیوخ فن سے استفادہ نہ کیا اور نہ ہی انھیں ایسے جید عالموں سے واسطہ پڑا۔
کسی زمانے میں اندلس اور مغرب کے پایہ تخت قیروان و قرطبہ تھے وہاں علوم و فنون کے بازار گرم رہا کرتے تھے، امتداد زمانہ اور طویل تمدن کی وجہ سے تعلیم نے یہاں خوب جڑیں پھیلا لی تھیں لیکن بدقسمتی سے جب یہ شہر اجڑا تو مغرب سے تعلیم بھی ختم ہوگئی، اسی طرح مراکش کی حکومت ختم ہونے کے بعد افریقہ سے ابوالقاسم بن زیتون ساتویں صدی کے وسط میں مشرق پہنچے اور امام ابن خطیب کے شاگردوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان سے تمام مروجہ علوم و فنون سیکھے جب تعلیم کا بہترین طریقہ سیکھ لیا تب تیونس واپس آگئے، اسی طرح ساتویں صدی کے آخر میں ابو علی ناصرالدین مشدالی زوادہ سے اٹھے اور ابو عمرو بن حاجب کے شاگردوں سے علوم حاصل کیے اور اسی مقام پر شہاب الدین قیرون کے علوم سے مستفید ہوئے۔ اس طرح عقلی و نقلی علوم میں مہارت حاصل کرلی تب واپسی کا قصد کیا، مغرب میں آکر سبجایہ میں سکونت اختیار کی اور استادوں شاگردوں کا سلسلہ چلتا رہا اور مختلف علوم سے انھوں نے اپنا سینہ منور کیا۔ خود بھی اجالوں کی راہوں پر گامزن رہے اور فرمانبردار طلبا علم کے متوالے بھی راہ حق کی جستجو میں مصروف عمل رہے۔
دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تعلیم اس قدرمہنگی کردی گئی ہے کہ غریب طالب علم کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بن گیا ہے، وہ خواب تو دیکھ سکتا ہے لیکن تعبیر حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ہمارے ملک میں تعلیمی درسگاہوں کی کمی نہیں تعلیم کے حصول کے لیے نئے نئے تعلیمی ادارے بھی کھل رہے ہیں اور عمارات کی تعمیر بھی ہو رہی ہے۔ لیکن تعلیمی ڈھانچہ جوں کا توں ہے سب سے پہلے اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جماعت اول اور مونٹیسوری کی تعلیم ہی ایک طالب علم کے لیے بنیاد کی اہمیت رکھتی ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ ایک معصوم بچے کی تعلیم و تربیت کس طرح کی جانی چاہیے، اس کے دماغ کی خالی سلیٹ پر حروف ابجد کی شکل میں سب سے پہلے کس قسم کی تحریر لکھی جائے، کون سا درس دیا جائے، کس تہذیب و تمدن سے آشنا کیا جائے، مشرق و مغرب اور ساتھ میں اسلامی تعلیمات کے کن اوراق کا سبق دینا ناگزیر ہے؟ ان سب باتوں پر غور کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ درست سمت کا تعین ہوسکے کسی بھی عمارت کی بنیاد کی مضبوطی عمارت کی دیواروں کو منہدم ہونے سے بچاتی ہے۔
آج مغربی تعلیمات اور مغربی تہذیب کو اپنانے کے ثمرات نظر آرہے ہیں، اسلامی تعلیمات و اقدار سے دوری کا نتیجہ علمی بددیانتی کی شکل میں موجودہ منظرنامے پر عیاں ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر محمد قیصر کا نقل کی حوصلہ شکنی کے لیے یہ کارنامہ ایسا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے، نقل کرنا زہر ہلاہل سے کم نہیں، یہ وہ زہر ہے جو ناہموار معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نقل کرنے والے طالب علموں کے ہوگئے نا، تین سال برباد۔۔۔یہ وہ سبق ہے جس سے دوسرے طالب علم فائدہ اٹھاسکیں گے اور ایسی مذموم حرکت نہیں کریں گے۔ ایسے طلبا کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نقل سے پاس ہونیوالے کبھی اعلیٰ مرتبے پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں اگر بدقسمتی سے ہوگئے تو پورے ملک کے امن و امان کو غارت کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ بے شک محنت اور ایمانداری انسان کو عزت و مرتبہ عطا کرتی ہے۔
یقیناً یہ تعلیم کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہے ورنہ تو بارہا نقل کرنے والے طالب علم خبروں کے ذریعے منظر عام پر آئے، لیکن ان کا کسی نے بال بیکا نہ کیا ایک معمولی سی غلطی سمجھ کر نظرانداز کردیا گیا اس طرح طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور نتیجہ سامنے ہے کہ امتحانات کے زمانے میں بے شمار طلبا نقل کرکے پاس ہوتے ہیں اور تعلیم مکمل کرنے یا نہ کرنے کے بعد سفارش اور رشوت کی بنا پر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ معاشرتی برائیوں، ناانصافیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج جو پورے ملک میں جہالت کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا ہے، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ لوگ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہے جو دینی و دنیاوی علوم سے ناواقف تھے کتابوں کی جگہ دولت سے محبت کرنیوالوں نے ہر ادارے کو زوال کی صورت میں مبتلا کر دیا ہے۔ لیکن دوسرے تمام اداروں میں سب سے اہم ادارہ تعلیم کا ہی ہے کہ یہاں سے ہی عقل و شعور، دیانت و ذہانت کے دریا بہتے ہیں ، علم کے طالب مسافر ان ہی دریاؤں سے سیراب ہوتے ہیں اور اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں اور ان سے کچھ سیکھتے اور عمل کرتے ہیں (اس قدردانی کی وجہ اساتذہ کا کردار ہے)۔
پچھلے وقتوں میں شاگرد علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر طے کیا کرتے تھے، اس وقت کے معلمین حقیقتاً علم کے فروغ کے لیے صبح وشام سیکھنے اور سکھانے کے عمل سے گزرتے تھے، آج کے دور میں اساتذہ بھی طلبا کو نقل کرنے کا مفید مشورہ دیتے ہیں اور اپنی تدریسی ذمے داریوں سے چشم پوشی کرتے ہیں، ان کے اسی عمل سے طلبا پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں تو پھر علمیت و قابلیت کیونکر بڑھ سکتی ہے، ترقی کی راہیں کھلتی نہیں بلکہ مسدود ہوجاتی ہیں، آج چند گنتی کے طالب علموں کے علاوہ نقل کرنیوالے طلبا اگر عالموں کی محفل میں بیٹھ جائیں تو کسی بھی مسئلے کا حل بتانے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے ایسے طالب علموں کے بارے میں ابن خلدون فرماتے ہیں کہ زیادہ تر طالب علم اسباق کو رٹتے ہیں اور علم میں تصرفات کا ملکہ پیدا نہیں کرتے یہ بہت بڑی کمی ہے، اگر خوش قسمتی سے کوئی طالب علم تعلیمی اعتبار سے بہتر ہو اور تعلیم سے فارغ ہوکر بظاہر کام بھی کرنے کے قابل معلوم ہوتا ہے لیکن ملکہ علم سے وہ پھر بھی محروم رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ نہ علمی مذاکروں میں مدلل گفتگو کر پاتا ہے اور نہ ہی مناظرہ کرسکتا ہے اور بحیثیت استاد کے اپنے فرائض بھی انجام نہیں دے پاتا ہے۔ یہ کمی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ان طالب علموں نے ماہرین تعلیم اور شیوخ فن سے استفادہ نہ کیا اور نہ ہی انھیں ایسے جید عالموں سے واسطہ پڑا۔
کسی زمانے میں اندلس اور مغرب کے پایہ تخت قیروان و قرطبہ تھے وہاں علوم و فنون کے بازار گرم رہا کرتے تھے، امتداد زمانہ اور طویل تمدن کی وجہ سے تعلیم نے یہاں خوب جڑیں پھیلا لی تھیں لیکن بدقسمتی سے جب یہ شہر اجڑا تو مغرب سے تعلیم بھی ختم ہوگئی، اسی طرح مراکش کی حکومت ختم ہونے کے بعد افریقہ سے ابوالقاسم بن زیتون ساتویں صدی کے وسط میں مشرق پہنچے اور امام ابن خطیب کے شاگردوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان سے تمام مروجہ علوم و فنون سیکھے جب تعلیم کا بہترین طریقہ سیکھ لیا تب تیونس واپس آگئے، اسی طرح ساتویں صدی کے آخر میں ابو علی ناصرالدین مشدالی زوادہ سے اٹھے اور ابو عمرو بن حاجب کے شاگردوں سے علوم حاصل کیے اور اسی مقام پر شہاب الدین قیرون کے علوم سے مستفید ہوئے۔ اس طرح عقلی و نقلی علوم میں مہارت حاصل کرلی تب واپسی کا قصد کیا، مغرب میں آکر سبجایہ میں سکونت اختیار کی اور استادوں شاگردوں کا سلسلہ چلتا رہا اور مختلف علوم سے انھوں نے اپنا سینہ منور کیا۔ خود بھی اجالوں کی راہوں پر گامزن رہے اور فرمانبردار طلبا علم کے متوالے بھی راہ حق کی جستجو میں مصروف عمل رہے۔
دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تعلیم اس قدرمہنگی کردی گئی ہے کہ غریب طالب علم کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بن گیا ہے، وہ خواب تو دیکھ سکتا ہے لیکن تعبیر حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ہمارے ملک میں تعلیمی درسگاہوں کی کمی نہیں تعلیم کے حصول کے لیے نئے نئے تعلیمی ادارے بھی کھل رہے ہیں اور عمارات کی تعمیر بھی ہو رہی ہے۔ لیکن تعلیمی ڈھانچہ جوں کا توں ہے سب سے پہلے اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جماعت اول اور مونٹیسوری کی تعلیم ہی ایک طالب علم کے لیے بنیاد کی اہمیت رکھتی ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ ایک معصوم بچے کی تعلیم و تربیت کس طرح کی جانی چاہیے، اس کے دماغ کی خالی سلیٹ پر حروف ابجد کی شکل میں سب سے پہلے کس قسم کی تحریر لکھی جائے، کون سا درس دیا جائے، کس تہذیب و تمدن سے آشنا کیا جائے، مشرق و مغرب اور ساتھ میں اسلامی تعلیمات کے کن اوراق کا سبق دینا ناگزیر ہے؟ ان سب باتوں پر غور کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ درست سمت کا تعین ہوسکے کسی بھی عمارت کی بنیاد کی مضبوطی عمارت کی دیواروں کو منہدم ہونے سے بچاتی ہے۔
آج مغربی تعلیمات اور مغربی تہذیب کو اپنانے کے ثمرات نظر آرہے ہیں، اسلامی تعلیمات و اقدار سے دوری کا نتیجہ علمی بددیانتی کی شکل میں موجودہ منظرنامے پر عیاں ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر محمد قیصر کا نقل کی حوصلہ شکنی کے لیے یہ کارنامہ ایسا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے، نقل کرنا زہر ہلاہل سے کم نہیں، یہ وہ زہر ہے جو ناہموار معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نقل کرنے والے طالب علموں کے ہوگئے نا، تین سال برباد۔۔۔یہ وہ سبق ہے جس سے دوسرے طالب علم فائدہ اٹھاسکیں گے اور ایسی مذموم حرکت نہیں کریں گے۔ ایسے طلبا کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نقل سے پاس ہونیوالے کبھی اعلیٰ مرتبے پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں اگر بدقسمتی سے ہوگئے تو پورے ملک کے امن و امان کو غارت کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ بے شک محنت اور ایمانداری انسان کو عزت و مرتبہ عطا کرتی ہے۔