عجائبات نفس
انسان کے باطنی حواس کو چھوڑیے، ظاہری حسوں، دیکھنا، سننا، چکھنا، چھونا، سونگھنا کی طرف آئیے تو عقل دنگ ہوجائے گی۔۔۔
گزشتہ چند کالموں پر قارئین کا فیڈ بیک یہ ہے کہ کالم بہت زیادہ منطقی ہوگیا ہے اور بہت سی باتیں عام فہم نہیں ہیں۔ ہم قارئین کے خیالات سے آگاہ ہیں لیکن آپ کو بھی ہماری مجبوری سمجھنی ہوگی، ہر موضوع پر جب تک مختلف جہتوں سے بحث نہ کی جائے بات واضح نہیں ہوتی، اسی طرح ان کالموں کا مقصد بھی چونکہ آپ کے علم میں اضافہ کرنا ہے اس لیے مابعد النفسیات کی دیگر مشقوں کے ساتھ ان علوم کی دیگر جہتوں پر بحث بھی جاری ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ کالم ماہ بینی پر تحریر کیا تھا۔ انسانی نفس، کائنات کا آئینہ، منظر نما یا ٹیلی اسکوپ ہے، ایک چاند کیا، حقیقت یہ ہے کہ مریخ، عطارد، زہرہ، مشتری، سورج اور سورج کے نظام سے پرے جو لاکھوں کروڑوں، نظام شمسی اور اربوں کہکشانی حلقے موجود ہیں، ان سب کی تصویریں، سب کے عکس، سب کی پرچھائیاں اور سب کے مناظر ہمارے نفس پر ہر لمحہ اپنا پرتو (عکس) ڈالتے رہتے ہیں، باہر جو کچھ نظر آتا ہے، زمین سے سورج اور سورج سے زمین تک وہ سب کا سب ہمارے نفس کے اندر جلوہ گر ہے۔ ذہن اور نفس کو چھوڑیے کہ یہ نہ دکھائی دینے والی چیزیں ہیں، ذرا اپنے پانچ چھ فٹ کے جسم پر نظر ڈالیے اور سوچئے کہ یہ من دو من کا پیکر گوشت اور مجسمہ اعصاب کیسا عجیب و غریب کارخانہ حیات ہے۔ تار، ٹیلی فون، لاسلکی وائرلیس، ٹیلی وژن، کمپیوٹر اور خلابازی کے عہد طلسم میں بھی انسانی جسم (صرف جسم کا ذکر ہے روح اور نفس کا نہیں) دنیا کی ہر مشین سے کروڑوں گنا پیچیدہ ہے۔
انسان کے باطنی حواس کو چھوڑیے، ظاہری حسوں، دیکھنا، سننا، چکھنا، چھونا، سونگھنا کی طرف آئیے تو عقل دنگ ہوجائے گی، مثلاً چکھنے کی حس (حس ذائقہ) ہے، ہماری زبان پر تین ہزار ابھار ہیں، یہ ابھار اعصاب اور خلیات سے بنے ہوئے ہیں اور ان کا تعلق دماغ سے ہے۔ جب ہم اپنی زبان پر کوئی چیز رکھتے ہیں تو ان اعصاب میں خاص قسم کی برقی رو پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ برقی رو خلیاتی نظام ترسیل یا کمیونی کیشن کے ذریعے دماغ کے اس رقبے میں پہنچتی ہے جہاں چکھنے یا ذائقے کا مرکز واقع ہے اور فوراً ہمیں احساس ہوجاتا ہے کہ زبان پر رکھنے والی چیز کڑوی ہے، میٹھی ہے، پھیکی ہے، بے نمک ہے، باسی ہے یا تازہ۔ بظاہر یہ عمل ایک سیکنڈ میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے یعنی زبان پر رکھتے ہی چیز کے ذائقے کا پتہ چل جاتا ہے، لیکن اس ایک سیکنڈ میں کیا کچھ ہوگیا؟ ذرا اس پر تو غور کیجیے۔ کروڑوں خلیے حرکت میں آگئے، بے شمار برقی لہریں زبان سے دماغ اور دماغ سے زبان تک دوڑ گئیں اور ہزاروں اعصاب مصروف عمل ہوگئے۔ اچھا زبان سے کان کی طرف آئیے۔ کان میں، کہا جاتا ہے کہ سننے والے خلیات کی تعداد ایک لاکھ ہوتی ہے، جوں ہی آواز کی کوئی لہر کان کے بیرونی پردے سے ٹکراتی ہے، سماعت سے تعلق رکھنے والے یہ ایک لاکھ خلیے طنبورے کے تاروں کی طرح جھنجھنانے لگتے ہیں اور یہ جھنجھناہٹ دماغ میں پہنچ کر آواز کی لہروں اور پھر الفاظ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
سننے کا عمل بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے، مگر اس ہزارویں حصہ سیکنڈ میں کتنے لاکھ خلیات اور اعصاب نے مل جل کر کتنا بڑا کام انجام دے دیا، فی الحال تو ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ میں نے فی الحال کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ انجام کار تو حواس خمسہ کے ایک ایک عمل کی صحیح صحیح کیفیت معلوم کرہی لی جائے گی۔ کان سے جست لگا کر آنکھوں میں گھس جائیں۔ اندازہ ہے کہ آنکھوں کے اندر کوئی 13 کروڑ خلیے ہیں، جو روشنی کو قبول کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ ذرا پھر روشنی کو محسوس کرلینے والے خلیوں کی تعداد پر ایک نظر ڈالیے، 13 کروڑ یعنی تیرا سو لاکھ... اﷲ اکبر۔ انسانی جسم کی کارگزاری کی کوئی حد ہے۔ انسان کے تمام ظاہری و باطنی حواس کا مرکز دماغ اور صرف دماغ ہے۔ حواس کے ذریعے دماغ جو کارگزاریاں بجا لاتا ہے، وہ ہمارے علم میں آجاتی ہیں کیونکہ انھیں ہم دیکھ، سن، سونگھ، چکھ سکتے ہیں، لیکن انسانی دماغ نفس کی تہوں یا ذہن کی دنیا میں جن نت نئی کارفرمائیوں بلکہ معجز کاریوں کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کا اندازہ اور تخمینہ اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔
انسانی نفس کتنی تہوں اور پرتوں میں تقسیم ہے، اس کی اصل حقیقت سے کوئی واقف نہیں۔ بات سمجھنے اور سمجھانے کے لیے محض آسانی کی غرض سے اتنا کہا جاسکتا ہے کہ شعور کی ایک کیفیت بیداری سے تعلق رکھتی ہے یعنی جب وہ پوری طرح چوکنا اور اس کی رفتار سیدھی، تیز اور ہموار ہوتی ہے مثلاً ان چند سطور کی تحریر کے وقت پوری طرح شعور کے عمل اور اس کی رفتار سے باخبر ہوں۔ مجھے پوری طرح اندازہ ہے کہ کیا لکھ رہا ہوں، قلم کس رفتار سے چل رہا ہے، الفاظ کس ترتیب سے پہلے دماغ میں اور پھر دماغ سے قلم کی نوک پر آتے ہیں۔ شعور کی دوسری کیفیت وہ ہوگی جب ابھی میں تھک کر لیٹ جاؤں گا، آنکھیں بند کرلوں گا، منظم طور پر سوچنا بند ہوجائے گا۔ اس حالت میں شعور کی سطح سے خیالات کی رو قدرے آزادی کے ساتھ خودبخود بہنے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں سوچنے والے کو اندازہ تو ہوتا ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے، تاہم اس کا شعور خیالات کی رو میں پوری طرح دخل انداز نہیں ہوتا۔
آپ چوبیس گھنٹے میں دو مرتبہ اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں، سوتے وقت اور جاگتے وقت۔ جاگنے اور سونے کے درمیان ذہن اسی حالت سے گزر رہا ہوتا ہے، یعنی شعور کی رفتار سست ہوجاتی ہے اور خیالات کی رو آزادی سے بہنے لگتی ہے۔ استغراق (مثلاً البصیر، التجلی، التسخیر، التصویر، شمع بینی، بلور بینی، ماہ بینی اور سورج بینی) کی جتنی مشقیں ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ شعور کی تیز رفتاری کو کم کرکے ذہن کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے نقل و حرکت کرسکے۔ جب انسان پلک جھپکائے بغیر کسی نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کردیتا ہے اور دل و دماغ کی تمام تر طاقت وہیں سمٹ جاتی ہے تو دماغ کے شعوری اعصاب پر تھکن کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے اور ہم خواب و بیداری کے درمیانی وقفے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جوں ہی ذہن خواب و بیداری کی درمیانی منزل میں داخل ہوتا ہے عجائب خانے کا در کھل جاتا ہے لیکن ہر شخص کو یہ عجائبات نفس نظر نہیں آتے۔ عالم استغراق کے باقاعدہ دور رس، خیال انگیز اور اہم مشاہدے اور تجربے صرف ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں جو کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت سے متعلقہ یہ مشقیں کسی رہنما کی نگرانی میں کرتے ہیں۔
انسان کے باطنی حواس کو چھوڑیے، ظاہری حسوں، دیکھنا، سننا، چکھنا، چھونا، سونگھنا کی طرف آئیے تو عقل دنگ ہوجائے گی، مثلاً چکھنے کی حس (حس ذائقہ) ہے، ہماری زبان پر تین ہزار ابھار ہیں، یہ ابھار اعصاب اور خلیات سے بنے ہوئے ہیں اور ان کا تعلق دماغ سے ہے۔ جب ہم اپنی زبان پر کوئی چیز رکھتے ہیں تو ان اعصاب میں خاص قسم کی برقی رو پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ برقی رو خلیاتی نظام ترسیل یا کمیونی کیشن کے ذریعے دماغ کے اس رقبے میں پہنچتی ہے جہاں چکھنے یا ذائقے کا مرکز واقع ہے اور فوراً ہمیں احساس ہوجاتا ہے کہ زبان پر رکھنے والی چیز کڑوی ہے، میٹھی ہے، پھیکی ہے، بے نمک ہے، باسی ہے یا تازہ۔ بظاہر یہ عمل ایک سیکنڈ میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے یعنی زبان پر رکھتے ہی چیز کے ذائقے کا پتہ چل جاتا ہے، لیکن اس ایک سیکنڈ میں کیا کچھ ہوگیا؟ ذرا اس پر تو غور کیجیے۔ کروڑوں خلیے حرکت میں آگئے، بے شمار برقی لہریں زبان سے دماغ اور دماغ سے زبان تک دوڑ گئیں اور ہزاروں اعصاب مصروف عمل ہوگئے۔ اچھا زبان سے کان کی طرف آئیے۔ کان میں، کہا جاتا ہے کہ سننے والے خلیات کی تعداد ایک لاکھ ہوتی ہے، جوں ہی آواز کی کوئی لہر کان کے بیرونی پردے سے ٹکراتی ہے، سماعت سے تعلق رکھنے والے یہ ایک لاکھ خلیے طنبورے کے تاروں کی طرح جھنجھنانے لگتے ہیں اور یہ جھنجھناہٹ دماغ میں پہنچ کر آواز کی لہروں اور پھر الفاظ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
سننے کا عمل بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے، مگر اس ہزارویں حصہ سیکنڈ میں کتنے لاکھ خلیات اور اعصاب نے مل جل کر کتنا بڑا کام انجام دے دیا، فی الحال تو ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ میں نے فی الحال کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ انجام کار تو حواس خمسہ کے ایک ایک عمل کی صحیح صحیح کیفیت معلوم کرہی لی جائے گی۔ کان سے جست لگا کر آنکھوں میں گھس جائیں۔ اندازہ ہے کہ آنکھوں کے اندر کوئی 13 کروڑ خلیے ہیں، جو روشنی کو قبول کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ ذرا پھر روشنی کو محسوس کرلینے والے خلیوں کی تعداد پر ایک نظر ڈالیے، 13 کروڑ یعنی تیرا سو لاکھ... اﷲ اکبر۔ انسانی جسم کی کارگزاری کی کوئی حد ہے۔ انسان کے تمام ظاہری و باطنی حواس کا مرکز دماغ اور صرف دماغ ہے۔ حواس کے ذریعے دماغ جو کارگزاریاں بجا لاتا ہے، وہ ہمارے علم میں آجاتی ہیں کیونکہ انھیں ہم دیکھ، سن، سونگھ، چکھ سکتے ہیں، لیکن انسانی دماغ نفس کی تہوں یا ذہن کی دنیا میں جن نت نئی کارفرمائیوں بلکہ معجز کاریوں کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کا اندازہ اور تخمینہ اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔
انسانی نفس کتنی تہوں اور پرتوں میں تقسیم ہے، اس کی اصل حقیقت سے کوئی واقف نہیں۔ بات سمجھنے اور سمجھانے کے لیے محض آسانی کی غرض سے اتنا کہا جاسکتا ہے کہ شعور کی ایک کیفیت بیداری سے تعلق رکھتی ہے یعنی جب وہ پوری طرح چوکنا اور اس کی رفتار سیدھی، تیز اور ہموار ہوتی ہے مثلاً ان چند سطور کی تحریر کے وقت پوری طرح شعور کے عمل اور اس کی رفتار سے باخبر ہوں۔ مجھے پوری طرح اندازہ ہے کہ کیا لکھ رہا ہوں، قلم کس رفتار سے چل رہا ہے، الفاظ کس ترتیب سے پہلے دماغ میں اور پھر دماغ سے قلم کی نوک پر آتے ہیں۔ شعور کی دوسری کیفیت وہ ہوگی جب ابھی میں تھک کر لیٹ جاؤں گا، آنکھیں بند کرلوں گا، منظم طور پر سوچنا بند ہوجائے گا۔ اس حالت میں شعور کی سطح سے خیالات کی رو قدرے آزادی کے ساتھ خودبخود بہنے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں سوچنے والے کو اندازہ تو ہوتا ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے، تاہم اس کا شعور خیالات کی رو میں پوری طرح دخل انداز نہیں ہوتا۔
آپ چوبیس گھنٹے میں دو مرتبہ اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں، سوتے وقت اور جاگتے وقت۔ جاگنے اور سونے کے درمیان ذہن اسی حالت سے گزر رہا ہوتا ہے، یعنی شعور کی رفتار سست ہوجاتی ہے اور خیالات کی رو آزادی سے بہنے لگتی ہے۔ استغراق (مثلاً البصیر، التجلی، التسخیر، التصویر، شمع بینی، بلور بینی، ماہ بینی اور سورج بینی) کی جتنی مشقیں ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ شعور کی تیز رفتاری کو کم کرکے ذہن کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے نقل و حرکت کرسکے۔ جب انسان پلک جھپکائے بغیر کسی نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کردیتا ہے اور دل و دماغ کی تمام تر طاقت وہیں سمٹ جاتی ہے تو دماغ کے شعوری اعصاب پر تھکن کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے اور ہم خواب و بیداری کے درمیانی وقفے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جوں ہی ذہن خواب و بیداری کی درمیانی منزل میں داخل ہوتا ہے عجائب خانے کا در کھل جاتا ہے لیکن ہر شخص کو یہ عجائبات نفس نظر نہیں آتے۔ عالم استغراق کے باقاعدہ دور رس، خیال انگیز اور اہم مشاہدے اور تجربے صرف ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں جو کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت سے متعلقہ یہ مشقیں کسی رہنما کی نگرانی میں کرتے ہیں۔