لتا منگیشکر تمہیں انڈو پاک یاد کرتا ہے
گائیکی کی تاریخ میں مہدی حسن، محمد رفیع، ملکہ ترنم نورجہاں اور آنجہانی لتا منگیشکر کے نام ہمیشہ لکھے جائیں گے
PESHAWAR:
قارئین کے لیے کئی مرتبہ سوچا کہ کچھ باتیں لتا منگیشکر کے حوالے سے آپ تک پہنچا دوں انڈین ماہانہ میگزین '' فلم انڈسٹری'' میں لتا جی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا۔ کچھ باتیں اس کے حوالے سے ہوں گی کہ اس میں شوکت حسین رضوی مرحوم جو گلوکارہ نور جہاں کے شوہر تھے ماسٹر غلام حیدر مرحوم، دیبو بھٹا چاریا آنجہانی، دلیپ کمار، سرسوتی خواتین موسیقاروں اور ارشاد کھنہ بڑے نام تھے، شوکت حسین رضوی اپنے وقت کے معروف ہدایت کار اور پاکستان کے ایک اسٹوڈیو کے مالک بھی تھے۔
حسن کا یہ عالم تھا کہ انھیں بھارت میں کئی پروڈیوسر نے ہیرو آنے کی دعوت دی مگر انھوں نے اسے قبول نہیں کیا ، لتا جی ان کی بہت بڑی فین تھیں، با ادب اور با اخلاق انسان تھے انڈیا میں ان کا طوطی بولا کرتا تھا اور پاکستان کی محبت میں پاکستان آگئے اور یہاں بہت اچھی پروڈکشن عوام کو دی۔ شروع شروع میں اسٹیج کے لیے بھی انڈیا میں کام کیا اور لتا جی ان کے اسٹیج پروگراموں میں گیت گایا کرتی تھیں، اسٹیج پروگرام ''آپ کی پسند'' میں لتا جی شاعر یگانہ چنگیزی کی غزل ''دل کو پہلے ٹٹول لیتا ہوں'' اکثر اسٹیج پر گایا کرتی تھیں اور ان کا یہ کلام اسٹیج پر لتا جی کی آواز میں لوگ بہت پسند کرتے تھے۔
اس حقیقت کو ہم فراموش نہیں کرسکتے کہ لتا جی بڑی گلوکارہ تھیں اور زندگی کے آخری لمحات تک مہدی حسن مرحوم اور نورجہاں کی مداح رہیں۔ لتا جی زندگی میں بہت نشیب و فراز سے گزریں مگر کبھی کسی سے اپنی مشکلات کا تذکرہ نہیں کیا ان کی مادری زبان مراٹھی تھی ان کا تعلق غریب گھرانے سے تھا، موسیقار ماسٹر غلام حیدر کو لتا جی بہت پسند کرتی تھیں یہی وہ موسیقار تھے جن کی موسیقی میں فلم کے حوالے سے لتا جی نے ''مجبور'' کا گیت گایا اور یہ گیت اپنے وقت کا سپرہٹ گیت گراموفون اور ریڈیو سے ہر وقت آن ایئر ہونے والا گیت تھا۔
ماسٹر غلام حیدر بڑے موسیقار تھے جب وہ انڈیا جاتے تو قیام لتا جی یا دلیپ کمار کے ہاں کرتے تھے نوجوان نسل کے لیے انڈ و پاک کے یہ عظیم موسیقار ماسٹر غلام حیدر مرحوم کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں یہ وہ گلوکار تھے جن کو گلوکار رفیع اپنا استاد کہتے تھے اور لتا جی تو کہتی تھیں کہ انھوں نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا میرے دل میں ان کا بہت احترام ہے ان کا تعلق حیدرآباد سندھ سے تھا وہ انڈیا میں ادارے ہز ماسٹر وائس سے بحیثیت موسیقار کے وابستہ تھے یہ ادارہ بہت منظم ادارہ تھا، سیٹھ دلسکھ نے ایک فلم ''خاندان'' بنانے کا اعلان کیا، اس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر، نور جہاں کی پہلی فلم تھی اور شوکت حسین رضوی کی بحیثیت ہدایت کار پہلی فلم تھی نور جہاں اس فلم کی ہیروئن تھیں یہ سپرہٹ فلم تھی۔
لتا جی کے والد دینا نند بہت اچھے گلوکار تھے اور ان کی ایک ڈرامہ کمپنی ''سر اور گیت'' کے نام سے تھی اس میں وہ نوجوانوں کو گلوکاری کی تربیت دیا کرتے تھے لتا جی جب 12 سال کی تھیں تو وہ اپنے والد کے سامنے بیٹھ کر ریاض کیا کرتی تھیں انھوں نے والد کی زیر تربیت ایک گیت گایا جب کہ وہ اس وقت 13 سال کی تھیں گیت کے بول تھے ''میرا بابو آیا بمبئی سے''۔ اس گیت کو بہت مقبولیت ملی جو ریڈیو سے بھی آن ایئر ہوا اور اس کی وجہ سے 13 سالہ بچی لتا جی سے لوگ ملنے کے خواہش مند ہوتے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ لیں پھر یہ گیت انڈیا کے اسٹیج ڈراموں کی ذہنیت بن گیا۔
اب آتے ہیں ماسٹر غلام حیدر کی طرف۔ وہ انڈیا سے ہجرت کرکے دیگر لوگوں کی طرح پاکستان آئے تھے یہ وہ موسیقار تھے جنھیں لتا جی بہت پسند کرتی تھیں وہ اس زمانے میں پنچولی آرٹ سے وابستہ تھے لتا جی کے احترام کا یہ عالم تھا کہ جب وہ پاکستان آنے والے تھے تو لتا جی نے دکھی دل سے کہا تھا کہ انڈیا سے موسیقی کا تناور درخت جا رہا ہے لتا کی زندگی میں پاکستانی موسیقار ماسٹر غلام حیدر مرحوم بہت اہمیت کے حامل تھے۔ جی یہی وہ موسیقار تھے جنھوں نے 1949 میں ان کی موسیقی میں فلم ''مجبور'' کا گیت گایا تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔
دہلی میں ایک فلم فیسٹیول تھا جو '' آپ کے مہمان '' کے عنوان سے منتخب ہوا تھا ، اس تقریب میں لتا جی ان کے ساتھ دہلی گئی تھیں یہ پہلی تقریب تھی اور آخری بھی جس میں غلام حیدر مرحوم کی موسیقی میں لتا جی نے رقص بھی کیا تھا ، اس کے بعد انھوں نے کبھی کسی فلم میں اس طرح شرکت نہیں کی۔
قادر خان مرحوم (انڈین اداکار) سے جب راقم کی ملاقات دبئی میں ہوئی تو انھوں نے لتا جی کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں جو آج تک پریس کی زینت نہیں بنیں وہ کہتے رہے اور ہم سنتے رہے انھوں نے لتا جی کے بارے میں بتایا 1980 یا 81 کی بات ہے ایک نئی گلوکارہ ہیم لتا نے ایک گیت گایا تھا جو انڈ و پاک کے علاوہ جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی تھی اس گیت نے ادھم مچا دیا تھا۔ گیت کے بول تھے ''انکھیوں کے جھروکوں سے'' واقعی اس گیت نے لوگوں کو بہت متاثر کیا تھا جب یہ گیت آن ایئر ہوا تو لتا جی ہیم لتا کے گھر گئیں اور اسے مبارک باد دی وہ اتنے ظرف والی خاتون تھیں جب کہ ہمارے معاشرے میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔
قادر خان نے مزید بتایا کہ عمر یار خان ہمارے ایک بہت گہرے دوست تھے انھوں نے ایک فلاحی تنظیم ''مدر آپ کی'' کے عنوان سے بنا رکھی تھی لکھنو کا ایک اسپتال جو غریبوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ ایک مسلمان بھائی، عبدالرحمن بھائی نے بنایا تھا جس میں علاج مفت ہوتا تھا۔ اس زمانے میں لکھنو میں بخار کی ایک وبا پھیلی یہ 1974 کی بات ہے اسپتال مریضوں سے بھر گیا اور ایک بڑے فنڈ کی ضرورت تھی جو تقریباً 2 لاکھ روپے تھی میں نے لتا جی سے ملاقات کی اور انھیں ساری بات بتائی اور میں نے بتایا کہ آپ کی مدد کی ضرورت ہے ہم نے بمبئی میں ایک شو کیا دلیپ کمار عرف یوسف خان مرحوم سے ملا ۔
ان کو ساری بات بتائی انھوں نے کہا '' لتا جی نے کیا جواب دیا'' میں نے بتایا کہ '' وہ راضی ہیں کہ اس شو میں مفت پرفارم کریں گی'' اس موقع پر اور کئی حضرات نے بھی ساتھ دیا۔ ہم نے دلیپ کمار سے بھی شرکت کی درخواست کی انھوں نے عظیم انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ٹھیک ہے میں اس پروگرام کی کمپیئرنگ کروں گا اور پھر شو منعقد ہوا۔ لتا جی نے ڈھیر سارے گیت سنائے اور دلیپ کمار (یوسف بھائی) بولتے رہے اس شو سے ہمیں 3 لاکھ ملے جو اسپتال کو پیش کیے گئے یہ اسپتال مسلمانوں کے علاوہ ساری قومیت کی خدمت کر رہا تھا۔ لتا جی تو اپنی مثال آپ تھی میرے ان سے بہت اچھے مراسم تھے۔
لتا جی کے والد آنجہانی دینانند منگیشکر کے پانچ بچے تھے اور ان میں لتا جی سب سے بڑی تھیں جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو لتا جی صرف 14 سال کی تھیں ان کا تعلق موسیقار گھرانے سے تھا اس موقع پر موسیقار ماسٹر غلام حیدر مرحوم نے ان کا بہت ساتھ دیا اور غالباً 1948 میں فلم ''مجبور'' کا پہلا گیت انھوں نے گایا تھا ، انڈیا کے شہر پونا میں پیدا ہوئیں پھر ان کے والد بھی گلوکار تھے انھوں نے ایک ڈرامہ کمپنی ''بولتا ہوں'' کے نام سے بنا رکھی تھی ، اس کے توسط سے انڈیا کے شہروں میں پروگرام کیا کرتے تھے وہ خود بھی بہت اچھے گلوکار تھے۔
یہ فن لتا جی کو ورثے میں ملا تھا۔ لتا جی نے مراٹھی، ہندی، گجراتی غرض ہر زبان میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ پنجابی زبان پر بھی انھیں عبور تھا اور بے شمار گیت پنجابی زبان میں انھوں نے رفیع صاحب کے ساتھ گائے۔ موسیقار دھن چند پرکاش، پروڈیوسر کمال امروہوی (یہ رئیس امروہوی، جون ایلیا) کے عزیزوں میں سے تھے جب انھوں نے فلم '' محل '' میں یہ گیت گایا جو سپرہٹ ہوا گیت کے بول تھے ''آئے گا آئے گا'' اس گیت کے بعد پھر لتا جی نے مڑکر نہیں دیکھا۔ یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ جب بھی موسیقی اور گائیکی کی تاریخ لکھی جائے گی۔ ان میں یہ 4 نام ہمیشہ تاریخ کے سنہری الفاظ میں لکھے جائیں گے ان میں مہدی حسن مرحوم، رفیع مرحوم، نور جہاں مرحومہ اور آنجہانی لتا منگیشکر شامل ہوں گے۔
قارئین کے لیے کئی مرتبہ سوچا کہ کچھ باتیں لتا منگیشکر کے حوالے سے آپ تک پہنچا دوں انڈین ماہانہ میگزین '' فلم انڈسٹری'' میں لتا جی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا۔ کچھ باتیں اس کے حوالے سے ہوں گی کہ اس میں شوکت حسین رضوی مرحوم جو گلوکارہ نور جہاں کے شوہر تھے ماسٹر غلام حیدر مرحوم، دیبو بھٹا چاریا آنجہانی، دلیپ کمار، سرسوتی خواتین موسیقاروں اور ارشاد کھنہ بڑے نام تھے، شوکت حسین رضوی اپنے وقت کے معروف ہدایت کار اور پاکستان کے ایک اسٹوڈیو کے مالک بھی تھے۔
حسن کا یہ عالم تھا کہ انھیں بھارت میں کئی پروڈیوسر نے ہیرو آنے کی دعوت دی مگر انھوں نے اسے قبول نہیں کیا ، لتا جی ان کی بہت بڑی فین تھیں، با ادب اور با اخلاق انسان تھے انڈیا میں ان کا طوطی بولا کرتا تھا اور پاکستان کی محبت میں پاکستان آگئے اور یہاں بہت اچھی پروڈکشن عوام کو دی۔ شروع شروع میں اسٹیج کے لیے بھی انڈیا میں کام کیا اور لتا جی ان کے اسٹیج پروگراموں میں گیت گایا کرتی تھیں، اسٹیج پروگرام ''آپ کی پسند'' میں لتا جی شاعر یگانہ چنگیزی کی غزل ''دل کو پہلے ٹٹول لیتا ہوں'' اکثر اسٹیج پر گایا کرتی تھیں اور ان کا یہ کلام اسٹیج پر لتا جی کی آواز میں لوگ بہت پسند کرتے تھے۔
اس حقیقت کو ہم فراموش نہیں کرسکتے کہ لتا جی بڑی گلوکارہ تھیں اور زندگی کے آخری لمحات تک مہدی حسن مرحوم اور نورجہاں کی مداح رہیں۔ لتا جی زندگی میں بہت نشیب و فراز سے گزریں مگر کبھی کسی سے اپنی مشکلات کا تذکرہ نہیں کیا ان کی مادری زبان مراٹھی تھی ان کا تعلق غریب گھرانے سے تھا، موسیقار ماسٹر غلام حیدر کو لتا جی بہت پسند کرتی تھیں یہی وہ موسیقار تھے جن کی موسیقی میں فلم کے حوالے سے لتا جی نے ''مجبور'' کا گیت گایا اور یہ گیت اپنے وقت کا سپرہٹ گیت گراموفون اور ریڈیو سے ہر وقت آن ایئر ہونے والا گیت تھا۔
ماسٹر غلام حیدر بڑے موسیقار تھے جب وہ انڈیا جاتے تو قیام لتا جی یا دلیپ کمار کے ہاں کرتے تھے نوجوان نسل کے لیے انڈ و پاک کے یہ عظیم موسیقار ماسٹر غلام حیدر مرحوم کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں یہ وہ گلوکار تھے جن کو گلوکار رفیع اپنا استاد کہتے تھے اور لتا جی تو کہتی تھیں کہ انھوں نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا میرے دل میں ان کا بہت احترام ہے ان کا تعلق حیدرآباد سندھ سے تھا وہ انڈیا میں ادارے ہز ماسٹر وائس سے بحیثیت موسیقار کے وابستہ تھے یہ ادارہ بہت منظم ادارہ تھا، سیٹھ دلسکھ نے ایک فلم ''خاندان'' بنانے کا اعلان کیا، اس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر، نور جہاں کی پہلی فلم تھی اور شوکت حسین رضوی کی بحیثیت ہدایت کار پہلی فلم تھی نور جہاں اس فلم کی ہیروئن تھیں یہ سپرہٹ فلم تھی۔
لتا جی کے والد دینا نند بہت اچھے گلوکار تھے اور ان کی ایک ڈرامہ کمپنی ''سر اور گیت'' کے نام سے تھی اس میں وہ نوجوانوں کو گلوکاری کی تربیت دیا کرتے تھے لتا جی جب 12 سال کی تھیں تو وہ اپنے والد کے سامنے بیٹھ کر ریاض کیا کرتی تھیں انھوں نے والد کی زیر تربیت ایک گیت گایا جب کہ وہ اس وقت 13 سال کی تھیں گیت کے بول تھے ''میرا بابو آیا بمبئی سے''۔ اس گیت کو بہت مقبولیت ملی جو ریڈیو سے بھی آن ایئر ہوا اور اس کی وجہ سے 13 سالہ بچی لتا جی سے لوگ ملنے کے خواہش مند ہوتے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ لیں پھر یہ گیت انڈیا کے اسٹیج ڈراموں کی ذہنیت بن گیا۔
اب آتے ہیں ماسٹر غلام حیدر کی طرف۔ وہ انڈیا سے ہجرت کرکے دیگر لوگوں کی طرح پاکستان آئے تھے یہ وہ موسیقار تھے جنھیں لتا جی بہت پسند کرتی تھیں وہ اس زمانے میں پنچولی آرٹ سے وابستہ تھے لتا جی کے احترام کا یہ عالم تھا کہ جب وہ پاکستان آنے والے تھے تو لتا جی نے دکھی دل سے کہا تھا کہ انڈیا سے موسیقی کا تناور درخت جا رہا ہے لتا کی زندگی میں پاکستانی موسیقار ماسٹر غلام حیدر مرحوم بہت اہمیت کے حامل تھے۔ جی یہی وہ موسیقار تھے جنھوں نے 1949 میں ان کی موسیقی میں فلم ''مجبور'' کا گیت گایا تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔
دہلی میں ایک فلم فیسٹیول تھا جو '' آپ کے مہمان '' کے عنوان سے منتخب ہوا تھا ، اس تقریب میں لتا جی ان کے ساتھ دہلی گئی تھیں یہ پہلی تقریب تھی اور آخری بھی جس میں غلام حیدر مرحوم کی موسیقی میں لتا جی نے رقص بھی کیا تھا ، اس کے بعد انھوں نے کبھی کسی فلم میں اس طرح شرکت نہیں کی۔
قادر خان مرحوم (انڈین اداکار) سے جب راقم کی ملاقات دبئی میں ہوئی تو انھوں نے لتا جی کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں جو آج تک پریس کی زینت نہیں بنیں وہ کہتے رہے اور ہم سنتے رہے انھوں نے لتا جی کے بارے میں بتایا 1980 یا 81 کی بات ہے ایک نئی گلوکارہ ہیم لتا نے ایک گیت گایا تھا جو انڈ و پاک کے علاوہ جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی تھی اس گیت نے ادھم مچا دیا تھا۔ گیت کے بول تھے ''انکھیوں کے جھروکوں سے'' واقعی اس گیت نے لوگوں کو بہت متاثر کیا تھا جب یہ گیت آن ایئر ہوا تو لتا جی ہیم لتا کے گھر گئیں اور اسے مبارک باد دی وہ اتنے ظرف والی خاتون تھیں جب کہ ہمارے معاشرے میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔
قادر خان نے مزید بتایا کہ عمر یار خان ہمارے ایک بہت گہرے دوست تھے انھوں نے ایک فلاحی تنظیم ''مدر آپ کی'' کے عنوان سے بنا رکھی تھی لکھنو کا ایک اسپتال جو غریبوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ ایک مسلمان بھائی، عبدالرحمن بھائی نے بنایا تھا جس میں علاج مفت ہوتا تھا۔ اس زمانے میں لکھنو میں بخار کی ایک وبا پھیلی یہ 1974 کی بات ہے اسپتال مریضوں سے بھر گیا اور ایک بڑے فنڈ کی ضرورت تھی جو تقریباً 2 لاکھ روپے تھی میں نے لتا جی سے ملاقات کی اور انھیں ساری بات بتائی اور میں نے بتایا کہ آپ کی مدد کی ضرورت ہے ہم نے بمبئی میں ایک شو کیا دلیپ کمار عرف یوسف خان مرحوم سے ملا ۔
ان کو ساری بات بتائی انھوں نے کہا '' لتا جی نے کیا جواب دیا'' میں نے بتایا کہ '' وہ راضی ہیں کہ اس شو میں مفت پرفارم کریں گی'' اس موقع پر اور کئی حضرات نے بھی ساتھ دیا۔ ہم نے دلیپ کمار سے بھی شرکت کی درخواست کی انھوں نے عظیم انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ٹھیک ہے میں اس پروگرام کی کمپیئرنگ کروں گا اور پھر شو منعقد ہوا۔ لتا جی نے ڈھیر سارے گیت سنائے اور دلیپ کمار (یوسف بھائی) بولتے رہے اس شو سے ہمیں 3 لاکھ ملے جو اسپتال کو پیش کیے گئے یہ اسپتال مسلمانوں کے علاوہ ساری قومیت کی خدمت کر رہا تھا۔ لتا جی تو اپنی مثال آپ تھی میرے ان سے بہت اچھے مراسم تھے۔
لتا جی کے والد آنجہانی دینانند منگیشکر کے پانچ بچے تھے اور ان میں لتا جی سب سے بڑی تھیں جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو لتا جی صرف 14 سال کی تھیں ان کا تعلق موسیقار گھرانے سے تھا اس موقع پر موسیقار ماسٹر غلام حیدر مرحوم نے ان کا بہت ساتھ دیا اور غالباً 1948 میں فلم ''مجبور'' کا پہلا گیت انھوں نے گایا تھا ، انڈیا کے شہر پونا میں پیدا ہوئیں پھر ان کے والد بھی گلوکار تھے انھوں نے ایک ڈرامہ کمپنی ''بولتا ہوں'' کے نام سے بنا رکھی تھی ، اس کے توسط سے انڈیا کے شہروں میں پروگرام کیا کرتے تھے وہ خود بھی بہت اچھے گلوکار تھے۔
یہ فن لتا جی کو ورثے میں ملا تھا۔ لتا جی نے مراٹھی، ہندی، گجراتی غرض ہر زبان میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ پنجابی زبان پر بھی انھیں عبور تھا اور بے شمار گیت پنجابی زبان میں انھوں نے رفیع صاحب کے ساتھ گائے۔ موسیقار دھن چند پرکاش، پروڈیوسر کمال امروہوی (یہ رئیس امروہوی، جون ایلیا) کے عزیزوں میں سے تھے جب انھوں نے فلم '' محل '' میں یہ گیت گایا جو سپرہٹ ہوا گیت کے بول تھے ''آئے گا آئے گا'' اس گیت کے بعد پھر لتا جی نے مڑکر نہیں دیکھا۔ یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ جب بھی موسیقی اور گائیکی کی تاریخ لکھی جائے گی۔ ان میں یہ 4 نام ہمیشہ تاریخ کے سنہری الفاظ میں لکھے جائیں گے ان میں مہدی حسن مرحوم، رفیع مرحوم، نور جہاں مرحومہ اور آنجہانی لتا منگیشکر شامل ہوں گے۔