اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑیں
سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو چاہیے کہ سب مل کر سیاسی ضابطہ اخلاق مرتب کریں
MILAN:
ان دنوں ملک سیاسی عدم استحکام اور عدم برداشت کا شکار ہے ۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے پر دل کھول کر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ سیاسی اختلافات گویا ذاتی اختلافات میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اخلاقیات سے عاری اور غیرشائستہ انداز تخاطب اپنایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست کے کوچے میں نہ توکوئی اصول و ضوابط ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کا گزر ہے۔
سیاسی مخالفت میں نفرت اور رویے میں شدت پسندی نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچرکو فروغ دیا ہے اور عدم برداشت کا بڑھتا ہوا یہ رجحان انتہائی افسوسناک اور بہت ہی نقصان دہ ہے۔ اگر اس رجحان کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو معاملہ بڑھتے بڑھتے اس نہج پر پہنچ سکتا ہے، جہاں اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
سیاست میں حکمران جماعت اور حزب مخالف میں نظریاتی اختلافات کا ہونا معمول کی بات ہے۔ یہ جمہوری سیاست کا حسن ہے، لیکن جب منطق،دلیل اور اصول کی جگہ الزام تراشی اور گالی لے لیتی ہے تو معاملات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی اور اگر سیاست دان اپنے جلسوں ، اپنی تقاریر ، بیانات اور گفتگو میں عامیانہ زبان استعمال کریں، دھمکی آمیز لہجہ اختیار کریں اور اپنے مخالف رہنماؤں کو الٹے القابات سے نوازیں تو اس رویے کو کسی طور بھی سراہا نہیں جا سکتا، بلکہ یہ انتہائی قابل مذمت رویہ ہے۔
اس طرز تخاطب کا تدارک ضروری اور اس طرز عمل کی اصلاح لازم ہے، لیکن افسوس ہمارے سیاسی رہنما اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے شائستگی، تہذیب اور اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور قائدین کی دیکھا دیکھی کارکنوں کا مزاج بھی ایسا ہی بن جاتا ہے۔ اپنے قائدین کی طرح وہ بھی ہمیشہ نفرت پھیلاتے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال معاشرے میں انارکی کو جنم دیتی ہے۔
جو لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، جن کی ذمے داری معاشرے کو مضبوط اور خوبصورت بنانا ہے، اگر وہی لوگ معاشرے سے اخلاقیات کی عمارت منہدم کرنے میں مصروف ہوجائیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سیاست کی سطحی لڑائی میں ہم نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا عوامی جلسے، ہر محاذ پر سیاسی جماعتوں کے مخالفین اور حامیوں میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے کارکن دن رات ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور دشنام طرازیوں سے بھری پوسٹیں اپ لوڈ کرنے میں مصروف ہیں۔
سیاست میںعدم برداشت اور بدزبانی کا کلچر سیاست دانوں کی وجہ سے ان کی پارٹیوں میں نیچے تک سرایت کرچکا ہے۔ سیاسی رہنماؤں سے ان کے کارکنان بہت کچھ سیکھتے ہیں، اس لیے انھیں جلسے جلوسوں اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی مخالفت میں منفی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، جس سے عوام میں اشتعال اور عدم برداشت کی سوچ جنم لے۔ اپنی گفتگو میں گالی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے بجائے بہتر الفاظ کا چناؤ کر کے بھی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیرشائستہ عمل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
معاشرے کے بدلتے ہوئے سیاسی رویوں اور اس اخلاقی گراوٹ کا کیا علاج تجویز کیا جانا چاہیے؟ اس پر سوچنا چاہیے اور اس رجحان پر بند باندھنا چاہیے۔ سیاسی قیادت پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے فالورز کی سیاسی تربیت اس انداز میں کریں کہ مخالفت میں حد سے نہ گزریں۔ پارٹی ورکرز اپنے خیالات اور سیاسی وابستگی کا اظہار ضرور کریں ، یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن اخلاق کے دائرے سے باہر نہ نکلیں۔
ہر آدمی کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ جسے آپ پسند کرتے ہیں دوسرا بھی اسی کو پسند کرے۔ اگر آپ کسی کی عزت کا خیال رکھیں گے تو دوسرا بھی آپ پر اخلاق کے دائرے میں رہ کر تنقید کرے گا اور اگر آپ غلط زبان استعمال کریں گے تو دوسرا بھی آپ سے دو ہاتھ آگے ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو ہی نہیں، بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔ قوم کے رہنما ہونے کے ناتے سیاستدانوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو اس امرکا شعور دیں کہ جمہوریت میں اختلاف ہر جماعت کا بنیادی حق ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اختلافات کی آڑ میں شائستگی کی حد سے نکل کر غیراخلاقی رویہ اختیار کیا جائے۔
سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ سیاسی قائدین کی ذہنی اور تہذیبی تربیت کون کرے گا؟ تعصب، نفرت اور عدم برداشت پر مبنی رویے تو خود قائدین پروان چڑھاتے ہیں۔ سیاسی قائدین کو بہرحال اپنی اپنی اداؤں پر غور کرنا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت میں اس حد تک آگے نہ جائیں کہ اختلافات دشمنی میں بدل جائیں۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں حالات کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور اپنے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھیں۔
ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور شائستگی و تہذیب سے اپنا مافی الضمیر بیان کریں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو چاہیے کہ سب مل کر سیاسی ضابطہ اخلاق مرتب کریں، خود بھی اس پر عمل کریں اور کارکنوں سے بھی عمل کروائیں۔ اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔سول سوسائٹی کا یہ کام بھی ہونا چاہیے کہ وہ ٹی وی چینلوں کے منتظمین اور سوشل میڈیا سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کرانے والے اداروں کومجبور کریں کہ وہ بداخلاقی کو عام ہونے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔یہ ایک بڑا اور مشکل کام ہے، لیکن یہ کام کیے بغیر ہم اپنے سیاسی اخلاق کے زوال کے عمل کو روک نہیں سکتے۔
آج ہم کسی کی عزت کی طرف انگلی اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ بغیر تحقیق کیے ہر بات فوراً کہہ ڈالتے ہیں۔ سیا ست اپنی جگہ لیکن سیاست کے ساتھ ساتھ ہمارا تعلق ایک ایسے مذہب سے ہے جو اخلاقیات کا درس دیتا ہے۔ دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات مسلمانوں کواخلاقِ حسنہ کا درس دیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اخلاق کا اتمام بھی ہے۔آپ کامل اخلاق کی تکمیل کے لیے اس جہاں میں تشریف لائے۔
اخلاق کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کا معاملہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ دین اسلام جس کی اصل پہچان اخلاقیات کا عظیم باب ہے اور جس کی تکمیل کے لیے نبی کریم ﷺ مبعوث کیے گئے تھے۔
آج اسی دین اسلام اور آخری نبی کے اخلاق حسنہ کو ماننے والے اخلاقیات میں پستی تک گر چکے ہیں۔ فکری و عملی طور پر بہترین اخلاقیات کا تعین کرنا ہی اشرف المخلوقات ہونے کی اصل پہچان ہے۔اخلاقیات کو اپنانے والا انسان نہ صرف خود کے لیے، بلکہ پورے معاشرے کے لیے خیر و برکت کا باعث بن جاتا ہے۔اخلاقیات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ہر شعبہ زندگی کے اعمال سے لے کر امور تک اخلاقیات کی پاسداری لازم ہے۔
ان دنوں ملک سیاسی عدم استحکام اور عدم برداشت کا شکار ہے ۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے پر دل کھول کر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ سیاسی اختلافات گویا ذاتی اختلافات میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اخلاقیات سے عاری اور غیرشائستہ انداز تخاطب اپنایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست کے کوچے میں نہ توکوئی اصول و ضوابط ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کا گزر ہے۔
سیاسی مخالفت میں نفرت اور رویے میں شدت پسندی نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچرکو فروغ دیا ہے اور عدم برداشت کا بڑھتا ہوا یہ رجحان انتہائی افسوسناک اور بہت ہی نقصان دہ ہے۔ اگر اس رجحان کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو معاملہ بڑھتے بڑھتے اس نہج پر پہنچ سکتا ہے، جہاں اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
سیاست میں حکمران جماعت اور حزب مخالف میں نظریاتی اختلافات کا ہونا معمول کی بات ہے۔ یہ جمہوری سیاست کا حسن ہے، لیکن جب منطق،دلیل اور اصول کی جگہ الزام تراشی اور گالی لے لیتی ہے تو معاملات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی اور اگر سیاست دان اپنے جلسوں ، اپنی تقاریر ، بیانات اور گفتگو میں عامیانہ زبان استعمال کریں، دھمکی آمیز لہجہ اختیار کریں اور اپنے مخالف رہنماؤں کو الٹے القابات سے نوازیں تو اس رویے کو کسی طور بھی سراہا نہیں جا سکتا، بلکہ یہ انتہائی قابل مذمت رویہ ہے۔
اس طرز تخاطب کا تدارک ضروری اور اس طرز عمل کی اصلاح لازم ہے، لیکن افسوس ہمارے سیاسی رہنما اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے شائستگی، تہذیب اور اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور قائدین کی دیکھا دیکھی کارکنوں کا مزاج بھی ایسا ہی بن جاتا ہے۔ اپنے قائدین کی طرح وہ بھی ہمیشہ نفرت پھیلاتے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال معاشرے میں انارکی کو جنم دیتی ہے۔
جو لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، جن کی ذمے داری معاشرے کو مضبوط اور خوبصورت بنانا ہے، اگر وہی لوگ معاشرے سے اخلاقیات کی عمارت منہدم کرنے میں مصروف ہوجائیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سیاست کی سطحی لڑائی میں ہم نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا عوامی جلسے، ہر محاذ پر سیاسی جماعتوں کے مخالفین اور حامیوں میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے کارکن دن رات ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور دشنام طرازیوں سے بھری پوسٹیں اپ لوڈ کرنے میں مصروف ہیں۔
سیاست میںعدم برداشت اور بدزبانی کا کلچر سیاست دانوں کی وجہ سے ان کی پارٹیوں میں نیچے تک سرایت کرچکا ہے۔ سیاسی رہنماؤں سے ان کے کارکنان بہت کچھ سیکھتے ہیں، اس لیے انھیں جلسے جلوسوں اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی مخالفت میں منفی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، جس سے عوام میں اشتعال اور عدم برداشت کی سوچ جنم لے۔ اپنی گفتگو میں گالی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے بجائے بہتر الفاظ کا چناؤ کر کے بھی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیرشائستہ عمل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
معاشرے کے بدلتے ہوئے سیاسی رویوں اور اس اخلاقی گراوٹ کا کیا علاج تجویز کیا جانا چاہیے؟ اس پر سوچنا چاہیے اور اس رجحان پر بند باندھنا چاہیے۔ سیاسی قیادت پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے فالورز کی سیاسی تربیت اس انداز میں کریں کہ مخالفت میں حد سے نہ گزریں۔ پارٹی ورکرز اپنے خیالات اور سیاسی وابستگی کا اظہار ضرور کریں ، یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن اخلاق کے دائرے سے باہر نہ نکلیں۔
ہر آدمی کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ جسے آپ پسند کرتے ہیں دوسرا بھی اسی کو پسند کرے۔ اگر آپ کسی کی عزت کا خیال رکھیں گے تو دوسرا بھی آپ پر اخلاق کے دائرے میں رہ کر تنقید کرے گا اور اگر آپ غلط زبان استعمال کریں گے تو دوسرا بھی آپ سے دو ہاتھ آگے ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو ہی نہیں، بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔ قوم کے رہنما ہونے کے ناتے سیاستدانوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو اس امرکا شعور دیں کہ جمہوریت میں اختلاف ہر جماعت کا بنیادی حق ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اختلافات کی آڑ میں شائستگی کی حد سے نکل کر غیراخلاقی رویہ اختیار کیا جائے۔
سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ سیاسی قائدین کی ذہنی اور تہذیبی تربیت کون کرے گا؟ تعصب، نفرت اور عدم برداشت پر مبنی رویے تو خود قائدین پروان چڑھاتے ہیں۔ سیاسی قائدین کو بہرحال اپنی اپنی اداؤں پر غور کرنا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت میں اس حد تک آگے نہ جائیں کہ اختلافات دشمنی میں بدل جائیں۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں حالات کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور اپنے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھیں۔
ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور شائستگی و تہذیب سے اپنا مافی الضمیر بیان کریں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو چاہیے کہ سب مل کر سیاسی ضابطہ اخلاق مرتب کریں، خود بھی اس پر عمل کریں اور کارکنوں سے بھی عمل کروائیں۔ اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔سول سوسائٹی کا یہ کام بھی ہونا چاہیے کہ وہ ٹی وی چینلوں کے منتظمین اور سوشل میڈیا سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کرانے والے اداروں کومجبور کریں کہ وہ بداخلاقی کو عام ہونے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔یہ ایک بڑا اور مشکل کام ہے، لیکن یہ کام کیے بغیر ہم اپنے سیاسی اخلاق کے زوال کے عمل کو روک نہیں سکتے۔
آج ہم کسی کی عزت کی طرف انگلی اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ بغیر تحقیق کیے ہر بات فوراً کہہ ڈالتے ہیں۔ سیا ست اپنی جگہ لیکن سیاست کے ساتھ ساتھ ہمارا تعلق ایک ایسے مذہب سے ہے جو اخلاقیات کا درس دیتا ہے۔ دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات مسلمانوں کواخلاقِ حسنہ کا درس دیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اخلاق کا اتمام بھی ہے۔آپ کامل اخلاق کی تکمیل کے لیے اس جہاں میں تشریف لائے۔
اخلاق کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کا معاملہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ دین اسلام جس کی اصل پہچان اخلاقیات کا عظیم باب ہے اور جس کی تکمیل کے لیے نبی کریم ﷺ مبعوث کیے گئے تھے۔
آج اسی دین اسلام اور آخری نبی کے اخلاق حسنہ کو ماننے والے اخلاقیات میں پستی تک گر چکے ہیں۔ فکری و عملی طور پر بہترین اخلاقیات کا تعین کرنا ہی اشرف المخلوقات ہونے کی اصل پہچان ہے۔اخلاقیات کو اپنانے والا انسان نہ صرف خود کے لیے، بلکہ پورے معاشرے کے لیے خیر و برکت کا باعث بن جاتا ہے۔اخلاقیات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ہر شعبہ زندگی کے اعمال سے لے کر امور تک اخلاقیات کی پاسداری لازم ہے۔