سارے رنگ
وہ دنیا جو ہمارے ماحول سے یک سر مختلف ہو تی ہے، جہاں اجنبیت وحشت کو جنم دیتی ہے اور ایک خوف دل میں گھر کر جاتا ہے
ISLAMABAD:
ہماری گنگا جمنی تہذیب میں اُجالے ہوئے انتظار حسین
ر۔ ط۔ م
'ہندوستان بھر سے شور کرتی اور بہتی ہوئی کئی ندیاں آئیں اور یہاں آکر سمندر میں رِل مل گئیں، مگر ہر ندی کو اپنے 'سمندر' ہونے کا زَعم بھی ہے۔ اسی سبب امروہے، بدائیوں اور میرٹھ وغیرہ کے رسم ورواج ، بول چال اور کھانے پینے کے تنوع اتنے گہرے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ ہندوستان چھوڑ نہیں آئے، بلکہ اپنے ساتھ کراچی لے آئے۔۔۔ 1947ء کی بدترین خوں ریزی کے بعد یہاں آتے ہی یہ شکایت ہوتی ہے کہ 'اے ہے، یاں پہ جمنا ندی تو ہے ہی نہیں۔۔۔!'
یہ کراچی اور مہاجروں کے پس منظر میں لکھے گئے ایک ناول ''آگے سمندر ہے'' کا ایک اقتباس ہے، جس کا عنوان 'آمر اول' جنرل ایوب خان کے 1965ء میں اہل کراچی کے لیے دیے گئے ایک متنازع بیان سے ماخوذ ہے۔ قلم انتظار حسین کا ہو اور موضوع بٹوارے سے جُڑا ہو، تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ لفظوں نے پھر قارئین پر کس کس طرح کچو کے لگائے ہوں گے۔۔۔ انتظار حسین کے بہتیرے افسانے بھی اسی 'ناسٹلجیا' کے گرد گھومتے ہیں، جب کہ ان کے چار مشہور ناولوں کی گردش بھی اسی بٹوارے کے ہنگام میں ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُن کی قلم کاری اُسی گردشِ زمانہ کی چاپ سناتی رہی، کہ جس سے ہندوستان کے مسلمان گزرے۔۔۔
انتظار حسین نے مختصر ناول 'چاند گہن' میں شگونی اور بدشگونی میں گھرے ہوئے باسیوں کی بپتا جمع کی ہے، یہی نہیں وہ اپنے اخباری کالموں میں بھی بہت سلیقے سے اپنا نقطۂ نظر کہہ جاتے تھے کہ بات کہی بھی نہیں ہوتی تھی اور بات ہو بھی جاتی تھی۔ اپنے مشہور ومعروف افسانے 'بخت مارے' میں ذرا دیکھیے کہ انھوں نے گھر میں ڈاکوئوں کی واردات کے دوران امّاں کی پان کی طلب کو کس خوب صورتی سے محفوظ کیا ہے، وہ کہتی ہیں 'اے بیٹا! تیرا بڑا احسان ہوگا۔۔۔ یہ میرا پان دان جو ہے، ذرا میری طرف سِرکا دے۔ بس ایک کتر منھ میں رکھ لوں۔''
ایک اور تحریر میں اُن کے یہ الفاظ ہماری توجہ کھینچ کھینچ لیتے ہیں کہ 'کراچی کا خمیر تو جھگیوں سے اٹھا ہے۔ یہ جو ایرا غیرا اپنے آپ کو کراچی والا بتانے لگتا ہے، اُن پر مت جائو۔ اصلی کراچی والا وہ ہے، جس نے جھگی میں بسر کی ہے!'
ہندوستان چھوڑ کر آنے والوں کے حالات زیست اور ان کی جڑوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ رقم ہے کہ 'سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہر کی جڑیں نہیں ہوتیں، وہ تو پانی پر تیرتے ہیں!' بے امنی کے دور کے حوالے سے ذرا یہ مکالمے ملاحظہ کیجیے کہ ''سوچنا چھوڑ دو یا پھر اس شہر کو چھوڑ دو!'' اور ''جس نے سوچا وہ کام سے گیا!''
اردوکا ہجرتی ادب انتظار حسین کے مرکزی کردار کے بغیر نامکمل رہے گا، ہو سکتا ہے کہ بہت سے قارئین بعض مقامات پر ان کے بیانیے سے اختلاف بھی کریں، لیکن وہ اسے بٹوارے کے ہنگام اور مہاجروں کے سیاسی اور سماجی اَلمیوں کے باب میں نظر انداز نہیں کر سکتے، بالخصوص بہت سی جگہوں پر گہرے دلائل قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
'آگے سمندر ہے' میں کہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دانش وَر قوم سے مخاطب ہو۔ اس استدلال کی گہرائی کو محسوس کیجیے کہ 'ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے، اور ایک وقت کشتیاں بنانے کا۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا، جب ہم سے اَگلوں نے ساحل پر اتر کر سمندر کی طرف پشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ اب بپھرتا ہوا سمندر ہمارے سامنے ہے اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے۔'' اس ناول میں یہ باتیں بھی ہوتی ہیں کہ اماں، اب گولی کی بات نہیں کرو، پاکستان آگیا ہے، یاں تمہیں کوئی بندوق نہیں دکھائے گا اور پھر انھی صفحات پر کراچی میں چلنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی ہے اور گھائل ہو کر تڑپنے والے بھی!
وہاں رہ جانے والے مہاجروں کے رشتے دار خط وکتابت کے ذریعے اپنے ہاں کی ویرانی کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ ملک نہیں ان کے خاندان بٹے ہیں، وہاں پھوپھی کراچی میں اپنے ہاتھوں کے پلے ہوئے بھتیجے کو لکھتی ہیں کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ بڑے ہوکر یوں پیٹھ دکھائو گے، خدا جانے پاکستان کے پانی میں کیا ملا ہوا ہے! وہ کہتی ہیں کہ زمین اجاڑنے والوں کو بد دعا دیتی ہے۔ زمین کے کوسے ہوئے آباد نہیں ہوا کرتے! ایک اور جگہ پاکستان سے امریکا جا کر بسنے والے نوجوانوں کے حوالے سے یہ طعنہ بھی ہے کہ 'پاکستان میں بیٹے اپنے باپوں کے ساتھ وہ کر رہے ہیں، جو انہوں نے ہندوستان میں اپنے باپوں کے ساتھ کیا۔'
وہاں رہ جانے والوں کو خوشی کے موقعوں کا سُونا پن اداس کرتا ہے۔۔۔ ساون میں خونی رشتوں کی دوری سسکیاں بھرتی ہے۔۔۔ خاص دسترخوانوں پر تنہائی رُلاتی ہے۔۔۔ اپنوں کے بغیر پکوانوں کی خوش بو کلیجہ چیرتی ہے۔۔۔ ایک بار صورت دیکھنے کے لیے پھوپھی ساتھ بیتے ہوئے وقت کی دُہائیاں دیتی دیتی دنیا سے چلی جاتی ہے، مگر بھتیجے کی تقدیر میں انھیں کاندھا دینا بھی نہیں ہوتا۔
ان کے ہاں روایتی اور کلاسیکی اردو کا مخصوص اسلوب اور روایتی الفاظ کا برتائو الگ ہی جھپ دکھاتا ہے، جیسے پیٹک پیا، ہبڑ دبڑ، مہورت اور پرچھاواں وغیرہ۔ ساتھ ہی اس ناول میں بیسن سے بننے والے دلی کے روایتی پکوان 'کھنڈوی' بھی پڑھا۔ ہاون دستے کو اپنے گھر کے بعد پہلی بار تحریری طور پر اس ناول میں 'امام دستہ' پڑھ کر ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ انتظار حسین نے ہجرت کے بعد ایک مختلف ماحول کی چاہ میں کراچی کے بہ جائے لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور 2 فروری 2016ء کو وہیں ابدی نیند سو گئے۔
۔۔۔
امّاں اس دن سوئی نہیں!
محمد علم اللہ، نئی دلّی
میں نے پہلی بار کب اور کہاں کا سفر کیا تھا، مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ سفر کا وہ منظر جس دن مجھے ہاسٹل جانا تھا، اس رات امّاں بار بارمیرے پاس آتیں اور میرے چہرے سے چادر اٹھا کر نہ جانے کیا دیکھتیں، کبھی میرے گالوں کو چومتیں، تو کبھی میری پیشانی کو، بار بار اماں کے اس عمل سے جب میری آنکھ کھل گئی تواماں نے مجھے گلے لگا لیا تھا اور سرگوشی کے انداز میں بڑبڑا رہی تھیں: ''بھلامیں اس چھوٹے سے بچے کو کیسے اکیلے باہر بھیج سکتی ہوں،نہیں نہیں... میں نہیں جانے دوں گی''
مجھے یادآتا ہے، اماں اس دن سوئی نہیں تھیں، صبح تک اماں کی حالت غیر تھی مگر مجھے سفر کے لیے نکلتا تو تھا، سو میں نے روتے بلکتے گھر کو خیرباد کہہ دیا۔ سفر کا یہ پہلا کرب ناک تجربہ آج بھی مجھے چرکے دیتا ہے ، جس کی داستان طویل اور غم انگیز ہے۔ یہ صرف میرا معاملہ نہیں ہے، ہم میں سے زیادہ تر کو اپنا پہلا سفر یاد ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہمیں سفر سے جذباتی لگاؤ ہو جاتا ہے۔ سفر سے ہماری یہ جذباتی وابستگی ہی ہمیں دنیا کو نئے انداز میں دیکھنے اور غور کرنے پر راغب کرتی ہے۔
وہ دنیا جو ہمارے ماحول سے یک سر مختلف ہو تی ہے، جہاں اجنبیت وحشت کو جنم دیتی ہے اور ایک خوف دل میں گھر کر جاتا ہے، ڈر رہتا ہے کہ ہم جس ذریعے سے سفر کر رہے ہیں، کہیں کسی حادثہ کا شکار نہ ہو جائے، کہیں ریل گاڑی الٹ نہ جائے، کہیں بس ٹکرا نہ جائے، ہوائی جہاز جس پر ہم بیٹھے ہیں، قلابازیاں کھاتے ہوئے زمین پر نہ آگرے۔۔۔! ایسے میں ہم کہاں رکیں گے، کہاں ٹھیریں گے، کیا کھائیں گے، کیسے گزرے گی، رہیں گے یا فنا ہو جائیں گے، جیسے خیالات طبیعت کو بے چین کر دیتے ہیں۔
بارہا اس وحشت کی کوکھ سے تجسس اور اشتیاق بھی جنم لیتے ہیں، جہاں کسی جلو فطرت پر نگاہیں جم کر رہ جاتی ہیں۔ کہاں وہ دن کہ جب یہی روئے زمین بے غازہ تھا اور آج یہ کہ اس کے سب نشیب وفراز جلوہ بداماں ہیں اوربے گیاہی کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ انسان ہے جسے زندگی دنیا میں لا کرموت کی پرکشش راہ پر چھوڑ دیتی ہے اورانسان اپنے مشاغل میں مصروف منتظر خطرہ سے بے خبر بالآخر لقمۂ اَجل بن جاتا ہے۔ موت وحیات دونوں اپنے فرائض کی ادائیگی میں مستعدی سے لگے ہوئے ہیں۔
میرے لیے سفر محض سفر کبھی نہیں رہا، بلکہ میں نے ہمیشہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ میں جس جگہ سفر کر کے پہنچا ہوں، وہاں لوگوں کی زندگی کا رنگ روپ کیا ہے؟ ان کے مشاغل ہمارے ماحول سے کتنے مماثل یا مختلف ہیں؟ ان کی بود و باش کیا ہے؟ یہاں کے مکین کیسے ہیں؟ کس نے بڑا کام کیا، نام کمایا اور کیسے پایا؟ کون سا قافلہ کہاں رکا تھا؟ تاریخ نے کروٹ کیسے بدلی؟ پہلے کیا تھا، اب کیا ہے؟ میں نے اب تک ملک و بیرون ملک کا جتنی بار سفر کیا، مجھے یہ سب سوالات گھیرے رہے، اس لیے سفر میرے لیے سیاحت سے زیادہ سیکھنے سمجھنے کا ذریعہ بنے۔
نئی جہتوں کی تلاش اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں یہاں سے وہاں ، سنگلاخ راستوں سے گزرتے، سرکنڈوں کی جھاڑیوں کو عبور کرتے، سبزہ زاروں اور پگڈنڈیوں پر چلتے، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی پہاڑوں کی پیشانی پر چمکتی ہوئی برف، کئی مرتبہ نیلگوں آسمان کی وسعتوں پر اڑتے پرندوں کے ساتھ ہم بھی مائل پرواز ہو جاتے ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پھر اسی سمت انھی راستوں کی جانب لوٹ آتے، ہم کھو نہیں جاتے، نہ جانے کیوں ہم کھو نہیں جاتے۔ ہم دیکھتے ہیں۔
اس صفحہ ہستی پر کہیں چشمہ آب ِزلال ہے، کہیں صحرائے ناپیدا کنار، کہیں چہروں پر بکھرا ہوا لبوں کا گل رنگ تبسم، کہیں آنکھوں سے ٹپکتا ہوا لہو، کہیں ٹھاٹھیں مارتا سمندر، کہیں باد نسیم کی مست خرامی کے جلوے اور کہیں بادصرصر کی تہلکہ خیزی کے مناظر، کہیں تاریخ کے کھنڈر، کہیں اس کی پرشکوہ عمارتیں، گلیوں کے پرانے تختے، خاردار جھاڑیاں، بدلتے ہوئے موسم، اس کی رتیں اور اس کی پرتیں یہ رواں دریا کی طرح ہوتے ہیں، جس کا پانی سدا تازہ رہتا ہے۔ اس کتاب میں اسی دریا کے چند قطرے ہیں، جو جولانی میں اچھل کر کسی شاداب پتی پر ٹک گئے ہیں اور ان کے انعکاس نور سے ایک قوسِ قزح بنی ہے۔
۔۔۔
صبح سویرے اٹھیے۔۔۔!
مرسلہ: سعد سلیم، دستگیر، کراچی
زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے، مقام دلّی ہے، وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے، سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے۔ 50 سالہ کپتان رابرٹ اور 18 سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کے لیے جاگ گئے ہیں۔ دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں۔ انگریز عورتیں گھُڑ سواری کو نکل گئی ہیں، سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے،
کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے، بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے۔ دن کے ایک بجے سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کے لیے گھر کی طرف چل پڑا ہے، یہ ہے وہ وقت جب لال قلعے کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔
ظلِ الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا، جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔
اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعے میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے 'برطانوی حصے' میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔ دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیر بازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا۔ اب ایک سو سال یا 150 سال پیچھے چلتے ہیں۔
برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں، برسات کا موسم ہے، مچھر ہیں اور پانی ہے، ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں، لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد'' سے واپس نہیں جاتا۔ لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے۔ اب 2020 میں آتے ہیں۔ 95 فی صد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں، آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھے بجے صبح اسپتال میں موجود ہوتا ہے، پورے یورپ امریکا، جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، اسپتال ایسا نہیں، جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے، تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں! آج کل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے، پوری قوم صبح چھے سے سات بجے ناشتا اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے۔
اللہ کی سنت کسی کے لیے نہیں بدلتی، جو محنت کرے گا، وہ کام یاب ہوگا۔۔۔ عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائے گا، تو دن کے ایک بجے تولیا بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ناکام رہے گا۔
'بدر' میں فرشتے نصرت کے لیے اتارے گئے تھے، لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے، جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے محبوب رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا سجدے میں پڑے رہے تھے! جس ملک کے سرکاری دفاتر یا نیم سرکاری ادارے، ہر جگہ 'لال قلعے' کی طرزِ زندگی کا دور دورہ ہے۔
کتنے وزیرِ، سیکرٹری، انجینئر، ڈاکٹر اور افسران آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو سرِ دوپہر یا سہ پہر کو بیدار ہونے کو فخر سے دوسروں کے سامنے بتایا جاتا ہے۔ کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے۔ جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے، وہ زوال ہی کی طرف جائے گا۔ یہ مت سوچا کریں کے میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا، تو اس وقت لوگ سو رہے ہوں گے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا۔ گاہک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتا ہے۔ ہمیں سویرے اٹھنے اور جلد سونے کی عادت کو بہت زیادہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
ہماری گنگا جمنی تہذیب میں اُجالے ہوئے انتظار حسین
ر۔ ط۔ م
'ہندوستان بھر سے شور کرتی اور بہتی ہوئی کئی ندیاں آئیں اور یہاں آکر سمندر میں رِل مل گئیں، مگر ہر ندی کو اپنے 'سمندر' ہونے کا زَعم بھی ہے۔ اسی سبب امروہے، بدائیوں اور میرٹھ وغیرہ کے رسم ورواج ، بول چال اور کھانے پینے کے تنوع اتنے گہرے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ ہندوستان چھوڑ نہیں آئے، بلکہ اپنے ساتھ کراچی لے آئے۔۔۔ 1947ء کی بدترین خوں ریزی کے بعد یہاں آتے ہی یہ شکایت ہوتی ہے کہ 'اے ہے، یاں پہ جمنا ندی تو ہے ہی نہیں۔۔۔!'
یہ کراچی اور مہاجروں کے پس منظر میں لکھے گئے ایک ناول ''آگے سمندر ہے'' کا ایک اقتباس ہے، جس کا عنوان 'آمر اول' جنرل ایوب خان کے 1965ء میں اہل کراچی کے لیے دیے گئے ایک متنازع بیان سے ماخوذ ہے۔ قلم انتظار حسین کا ہو اور موضوع بٹوارے سے جُڑا ہو، تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ لفظوں نے پھر قارئین پر کس کس طرح کچو کے لگائے ہوں گے۔۔۔ انتظار حسین کے بہتیرے افسانے بھی اسی 'ناسٹلجیا' کے گرد گھومتے ہیں، جب کہ ان کے چار مشہور ناولوں کی گردش بھی اسی بٹوارے کے ہنگام میں ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُن کی قلم کاری اُسی گردشِ زمانہ کی چاپ سناتی رہی، کہ جس سے ہندوستان کے مسلمان گزرے۔۔۔
انتظار حسین نے مختصر ناول 'چاند گہن' میں شگونی اور بدشگونی میں گھرے ہوئے باسیوں کی بپتا جمع کی ہے، یہی نہیں وہ اپنے اخباری کالموں میں بھی بہت سلیقے سے اپنا نقطۂ نظر کہہ جاتے تھے کہ بات کہی بھی نہیں ہوتی تھی اور بات ہو بھی جاتی تھی۔ اپنے مشہور ومعروف افسانے 'بخت مارے' میں ذرا دیکھیے کہ انھوں نے گھر میں ڈاکوئوں کی واردات کے دوران امّاں کی پان کی طلب کو کس خوب صورتی سے محفوظ کیا ہے، وہ کہتی ہیں 'اے بیٹا! تیرا بڑا احسان ہوگا۔۔۔ یہ میرا پان دان جو ہے، ذرا میری طرف سِرکا دے۔ بس ایک کتر منھ میں رکھ لوں۔''
ایک اور تحریر میں اُن کے یہ الفاظ ہماری توجہ کھینچ کھینچ لیتے ہیں کہ 'کراچی کا خمیر تو جھگیوں سے اٹھا ہے۔ یہ جو ایرا غیرا اپنے آپ کو کراچی والا بتانے لگتا ہے، اُن پر مت جائو۔ اصلی کراچی والا وہ ہے، جس نے جھگی میں بسر کی ہے!'
ہندوستان چھوڑ کر آنے والوں کے حالات زیست اور ان کی جڑوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ رقم ہے کہ 'سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہر کی جڑیں نہیں ہوتیں، وہ تو پانی پر تیرتے ہیں!' بے امنی کے دور کے حوالے سے ذرا یہ مکالمے ملاحظہ کیجیے کہ ''سوچنا چھوڑ دو یا پھر اس شہر کو چھوڑ دو!'' اور ''جس نے سوچا وہ کام سے گیا!''
اردوکا ہجرتی ادب انتظار حسین کے مرکزی کردار کے بغیر نامکمل رہے گا، ہو سکتا ہے کہ بہت سے قارئین بعض مقامات پر ان کے بیانیے سے اختلاف بھی کریں، لیکن وہ اسے بٹوارے کے ہنگام اور مہاجروں کے سیاسی اور سماجی اَلمیوں کے باب میں نظر انداز نہیں کر سکتے، بالخصوص بہت سی جگہوں پر گہرے دلائل قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
'آگے سمندر ہے' میں کہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دانش وَر قوم سے مخاطب ہو۔ اس استدلال کی گہرائی کو محسوس کیجیے کہ 'ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے، اور ایک وقت کشتیاں بنانے کا۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا، جب ہم سے اَگلوں نے ساحل پر اتر کر سمندر کی طرف پشت کر لی تھی اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ اب بپھرتا ہوا سمندر ہمارے سامنے ہے اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے۔'' اس ناول میں یہ باتیں بھی ہوتی ہیں کہ اماں، اب گولی کی بات نہیں کرو، پاکستان آگیا ہے، یاں تمہیں کوئی بندوق نہیں دکھائے گا اور پھر انھی صفحات پر کراچی میں چلنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی ہے اور گھائل ہو کر تڑپنے والے بھی!
وہاں رہ جانے والے مہاجروں کے رشتے دار خط وکتابت کے ذریعے اپنے ہاں کی ویرانی کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ ملک نہیں ان کے خاندان بٹے ہیں، وہاں پھوپھی کراچی میں اپنے ہاتھوں کے پلے ہوئے بھتیجے کو لکھتی ہیں کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ بڑے ہوکر یوں پیٹھ دکھائو گے، خدا جانے پاکستان کے پانی میں کیا ملا ہوا ہے! وہ کہتی ہیں کہ زمین اجاڑنے والوں کو بد دعا دیتی ہے۔ زمین کے کوسے ہوئے آباد نہیں ہوا کرتے! ایک اور جگہ پاکستان سے امریکا جا کر بسنے والے نوجوانوں کے حوالے سے یہ طعنہ بھی ہے کہ 'پاکستان میں بیٹے اپنے باپوں کے ساتھ وہ کر رہے ہیں، جو انہوں نے ہندوستان میں اپنے باپوں کے ساتھ کیا۔'
وہاں رہ جانے والوں کو خوشی کے موقعوں کا سُونا پن اداس کرتا ہے۔۔۔ ساون میں خونی رشتوں کی دوری سسکیاں بھرتی ہے۔۔۔ خاص دسترخوانوں پر تنہائی رُلاتی ہے۔۔۔ اپنوں کے بغیر پکوانوں کی خوش بو کلیجہ چیرتی ہے۔۔۔ ایک بار صورت دیکھنے کے لیے پھوپھی ساتھ بیتے ہوئے وقت کی دُہائیاں دیتی دیتی دنیا سے چلی جاتی ہے، مگر بھتیجے کی تقدیر میں انھیں کاندھا دینا بھی نہیں ہوتا۔
ان کے ہاں روایتی اور کلاسیکی اردو کا مخصوص اسلوب اور روایتی الفاظ کا برتائو الگ ہی جھپ دکھاتا ہے، جیسے پیٹک پیا، ہبڑ دبڑ، مہورت اور پرچھاواں وغیرہ۔ ساتھ ہی اس ناول میں بیسن سے بننے والے دلی کے روایتی پکوان 'کھنڈوی' بھی پڑھا۔ ہاون دستے کو اپنے گھر کے بعد پہلی بار تحریری طور پر اس ناول میں 'امام دستہ' پڑھ کر ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ انتظار حسین نے ہجرت کے بعد ایک مختلف ماحول کی چاہ میں کراچی کے بہ جائے لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور 2 فروری 2016ء کو وہیں ابدی نیند سو گئے۔
۔۔۔
امّاں اس دن سوئی نہیں!
محمد علم اللہ، نئی دلّی
میں نے پہلی بار کب اور کہاں کا سفر کیا تھا، مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ سفر کا وہ منظر جس دن مجھے ہاسٹل جانا تھا، اس رات امّاں بار بارمیرے پاس آتیں اور میرے چہرے سے چادر اٹھا کر نہ جانے کیا دیکھتیں، کبھی میرے گالوں کو چومتیں، تو کبھی میری پیشانی کو، بار بار اماں کے اس عمل سے جب میری آنکھ کھل گئی تواماں نے مجھے گلے لگا لیا تھا اور سرگوشی کے انداز میں بڑبڑا رہی تھیں: ''بھلامیں اس چھوٹے سے بچے کو کیسے اکیلے باہر بھیج سکتی ہوں،نہیں نہیں... میں نہیں جانے دوں گی''
مجھے یادآتا ہے، اماں اس دن سوئی نہیں تھیں، صبح تک اماں کی حالت غیر تھی مگر مجھے سفر کے لیے نکلتا تو تھا، سو میں نے روتے بلکتے گھر کو خیرباد کہہ دیا۔ سفر کا یہ پہلا کرب ناک تجربہ آج بھی مجھے چرکے دیتا ہے ، جس کی داستان طویل اور غم انگیز ہے۔ یہ صرف میرا معاملہ نہیں ہے، ہم میں سے زیادہ تر کو اپنا پہلا سفر یاد ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہمیں سفر سے جذباتی لگاؤ ہو جاتا ہے۔ سفر سے ہماری یہ جذباتی وابستگی ہی ہمیں دنیا کو نئے انداز میں دیکھنے اور غور کرنے پر راغب کرتی ہے۔
وہ دنیا جو ہمارے ماحول سے یک سر مختلف ہو تی ہے، جہاں اجنبیت وحشت کو جنم دیتی ہے اور ایک خوف دل میں گھر کر جاتا ہے، ڈر رہتا ہے کہ ہم جس ذریعے سے سفر کر رہے ہیں، کہیں کسی حادثہ کا شکار نہ ہو جائے، کہیں ریل گاڑی الٹ نہ جائے، کہیں بس ٹکرا نہ جائے، ہوائی جہاز جس پر ہم بیٹھے ہیں، قلابازیاں کھاتے ہوئے زمین پر نہ آگرے۔۔۔! ایسے میں ہم کہاں رکیں گے، کہاں ٹھیریں گے، کیا کھائیں گے، کیسے گزرے گی، رہیں گے یا فنا ہو جائیں گے، جیسے خیالات طبیعت کو بے چین کر دیتے ہیں۔
بارہا اس وحشت کی کوکھ سے تجسس اور اشتیاق بھی جنم لیتے ہیں، جہاں کسی جلو فطرت پر نگاہیں جم کر رہ جاتی ہیں۔ کہاں وہ دن کہ جب یہی روئے زمین بے غازہ تھا اور آج یہ کہ اس کے سب نشیب وفراز جلوہ بداماں ہیں اوربے گیاہی کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ انسان ہے جسے زندگی دنیا میں لا کرموت کی پرکشش راہ پر چھوڑ دیتی ہے اورانسان اپنے مشاغل میں مصروف منتظر خطرہ سے بے خبر بالآخر لقمۂ اَجل بن جاتا ہے۔ موت وحیات دونوں اپنے فرائض کی ادائیگی میں مستعدی سے لگے ہوئے ہیں۔
میرے لیے سفر محض سفر کبھی نہیں رہا، بلکہ میں نے ہمیشہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ میں جس جگہ سفر کر کے پہنچا ہوں، وہاں لوگوں کی زندگی کا رنگ روپ کیا ہے؟ ان کے مشاغل ہمارے ماحول سے کتنے مماثل یا مختلف ہیں؟ ان کی بود و باش کیا ہے؟ یہاں کے مکین کیسے ہیں؟ کس نے بڑا کام کیا، نام کمایا اور کیسے پایا؟ کون سا قافلہ کہاں رکا تھا؟ تاریخ نے کروٹ کیسے بدلی؟ پہلے کیا تھا، اب کیا ہے؟ میں نے اب تک ملک و بیرون ملک کا جتنی بار سفر کیا، مجھے یہ سب سوالات گھیرے رہے، اس لیے سفر میرے لیے سیاحت سے زیادہ سیکھنے سمجھنے کا ذریعہ بنے۔
نئی جہتوں کی تلاش اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں یہاں سے وہاں ، سنگلاخ راستوں سے گزرتے، سرکنڈوں کی جھاڑیوں کو عبور کرتے، سبزہ زاروں اور پگڈنڈیوں پر چلتے، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی پہاڑوں کی پیشانی پر چمکتی ہوئی برف، کئی مرتبہ نیلگوں آسمان کی وسعتوں پر اڑتے پرندوں کے ساتھ ہم بھی مائل پرواز ہو جاتے ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پھر اسی سمت انھی راستوں کی جانب لوٹ آتے، ہم کھو نہیں جاتے، نہ جانے کیوں ہم کھو نہیں جاتے۔ ہم دیکھتے ہیں۔
اس صفحہ ہستی پر کہیں چشمہ آب ِزلال ہے، کہیں صحرائے ناپیدا کنار، کہیں چہروں پر بکھرا ہوا لبوں کا گل رنگ تبسم، کہیں آنکھوں سے ٹپکتا ہوا لہو، کہیں ٹھاٹھیں مارتا سمندر، کہیں باد نسیم کی مست خرامی کے جلوے اور کہیں بادصرصر کی تہلکہ خیزی کے مناظر، کہیں تاریخ کے کھنڈر، کہیں اس کی پرشکوہ عمارتیں، گلیوں کے پرانے تختے، خاردار جھاڑیاں، بدلتے ہوئے موسم، اس کی رتیں اور اس کی پرتیں یہ رواں دریا کی طرح ہوتے ہیں، جس کا پانی سدا تازہ رہتا ہے۔ اس کتاب میں اسی دریا کے چند قطرے ہیں، جو جولانی میں اچھل کر کسی شاداب پتی پر ٹک گئے ہیں اور ان کے انعکاس نور سے ایک قوسِ قزح بنی ہے۔
۔۔۔
صبح سویرے اٹھیے۔۔۔!
مرسلہ: سعد سلیم، دستگیر، کراچی
زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے، مقام دلّی ہے، وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے، سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے۔ 50 سالہ کپتان رابرٹ اور 18 سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کے لیے جاگ گئے ہیں۔ دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں۔ انگریز عورتیں گھُڑ سواری کو نکل گئی ہیں، سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے،
کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے، بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے۔ دن کے ایک بجے سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کے لیے گھر کی طرف چل پڑا ہے، یہ ہے وہ وقت جب لال قلعے کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔
ظلِ الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا، جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔
اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعے میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے 'برطانوی حصے' میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔ دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیر بازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا۔ اب ایک سو سال یا 150 سال پیچھے چلتے ہیں۔
برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں، برسات کا موسم ہے، مچھر ہیں اور پانی ہے، ملیریا سے اوسط دو انگریز روزانہ مرتے ہیں، لیکن ایک شخص بھی اس ''مرگ آباد'' سے واپس نہیں جاتا۔ لارڈ کلائیو پہرول گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے۔ اب 2020 میں آتے ہیں۔ 95 فی صد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں، آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھے بجے صبح اسپتال میں موجود ہوتا ہے، پورے یورپ امریکا، جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، اسپتال ایسا نہیں، جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے، تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں! آج کل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے، پوری قوم صبح چھے سے سات بجے ناشتا اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے۔
اللہ کی سنت کسی کے لیے نہیں بدلتی، جو محنت کرے گا، وہ کام یاب ہوگا۔۔۔ عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائے گا، تو دن کے ایک بجے تولیا بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ناکام رہے گا۔
'بدر' میں فرشتے نصرت کے لیے اتارے گئے تھے، لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے، جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے محبوب رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا سجدے میں پڑے رہے تھے! جس ملک کے سرکاری دفاتر یا نیم سرکاری ادارے، ہر جگہ 'لال قلعے' کی طرزِ زندگی کا دور دورہ ہے۔
کتنے وزیرِ، سیکرٹری، انجینئر، ڈاکٹر اور افسران آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو سرِ دوپہر یا سہ پہر کو بیدار ہونے کو فخر سے دوسروں کے سامنے بتایا جاتا ہے۔ کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے۔ جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے، وہ زوال ہی کی طرف جائے گا۔ یہ مت سوچا کریں کے میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا، تو اس وقت لوگ سو رہے ہوں گے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا۔ گاہک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتا ہے۔ ہمیں سویرے اٹھنے اور جلد سونے کی عادت کو بہت زیادہ اپنانے کی ضرورت ہے۔