بُک شیلف
فرقہ بندی کی وجہ سے اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ جدھر نظر دوڑائی جائے ادھر اسی کا جھگڑا دکھائی دیتا ہے۔
آج کاجاپان
مصنف: عامر بن علی ،قیمت:400روپے
ناشر:نستعلیق مطبوعات، F-3 الفیروز سنٹر،غزنی سٹریٹ، اردوبازارلاہور
جاپان ایسا ملک ہے جہاں جاکر تیسری دنیا ہی کے لوگ نہیں بلکہ انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کے باشندے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ عالمی جنگوں میں تباہ ہوجانے کے باوجود چند برسوں میں حیرت انگیز ہمہ جہتی ترقی کے ذریعے دنیا کے ممتاز ترین ممالک میں سرفہرست آچکاہے۔ بہت سے پاکستانی جنھیں براہ راست جاپانی معاشرے سے متعارف ہونے کا موقع میسر نہیں آیا، جاپانی قوم کی اس تیز رفتار ترقی کا راز سمجھ نہیں سکتے۔ بلکہ اس کی ترقی کی بہت سی جہتوں سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔
زیرنظرسفرنامے میں عامر بن علی نے جاپان کو یہاں متعارف کرانے کی ایک قابل قدرکوشش کی ہے۔ وہ ایک طویل عرصہ جاپان میں رہے، انھوں نے اس حیران کردینے والی قوم کو ہرزاویے سے دیکھا، اور اس قوم کے مطالعے سے حاصل شدہ اسباق کو اپنی قوم کے سامنے رکھ دیا۔پروفیسر امیریٹس خواجہ محمدزکریا عامربن علی کی اس تصنیف کو پاکستانی قوم کے لئے ایک تحفہ تصورکرتے ہیں۔ اوساکا یونیورسٹی ، اوساکا جاپان میں اردو کے استاد پروفیسر سویامانے اسے 'سفرنامہ' ماننے کو تیار ہیں نہ ہی 'تحقیقی مقالہ'، وہ اسے 'تجربہ نامہ' قراردیتے ہیں۔
یقینا اس کتاب کی پاکستانی معاشرے کو بہت ضرورت ہے، شاید اس کے مطالعے سے چند افراد کے دلوں میں یہ جذبہ پیداہوجائے کہ ہمیں بھی اپنے ملک اور قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے جاپان سے کچھ سیکھناہے۔
قصہ ایک صدی کا
مولف: علامہ عبدالستار عاصم
صفحات : سات سو تیس،قیمت : تین ہزار روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل
پاکستان کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ بزرگ اور موجودہ نوجوان نسل میں سے تمام پڑھے لکھے ،باشعور اور روزانہ اخبارات پڑھنے والے تمام افراد حمید اختر کے نام سے بخوبی واقف ہیں۔ حمید اختر نہ صرف پاکستان میں معروف تھے بلکہ قیام پاکستان کے وقت بھی اپنی نمایاں سیاسی ، ادبی اور صحافتی خدمات کے باعث ہندوستان اور پاکستان میں جانے پہچانے تھے۔ وہ کئی اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز ، مساوات اور دیگر اخبارات شامل ہیں جبکہ ''آزاد'' کے تو وہ بانیوں میں شامل تھے۔ یوں تو حمید اختر کی زندگی پر بہت سی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور لکھی بھی جائیں گی۔ اس سے پہلے ان پر ایک کتاب ''حمید اختر'' شائع ہوکر پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ اب یہ ایک اور کتاب ہے۔ زیرنظر کتاب میں مولف نے حمید اختر کے اپنے لکھے ہوئے ان کی زندگی کے آخری دوسالوں کے تمام کالم شامل کردیے ہیں جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تین سو کے قریب ہے۔
ان کالموں کے مطالعہ سے قارئین کو محسوس ہوگا کہ مثبت سیاست اور بھرپور صحافت پر مبنی زندگی گزارنے کے بعد بھی حمید اختر مالی حوالوں سے تہی دست تھے لیکن تجربے اور دانش کے حوالے سے حددرجہ دولت مند تھے۔ وہ ترقی پسندی کے خیالی اور زبانی دعوے دار نہ تھے بلکہ انہوں نے عملاً ایک ترقی پسند کی طرح زندگی گذاری۔ وہ حددرجے بے ساختگی اور سادگی کے ساتھ ہر وہ بات اپنے کالموں میں لکھ دیتے تھے جو ان کے دل میں ہوتی تھی۔اسلام کے نام پر ملک میں جاری قتل وغارت پر وہ بہت کڑھتے تھے اور اس سلسلے میں ذمہ دار طبقوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے تھے ۔
ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن اور لاقانونیت پر بھی ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔ وہ علمی، ادبی، تصنیفی ، سیاسی اور تالیفی نزاکتوں کو جس طرح بیان کرتے تھے، یہ ان کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ مذکورہ کتاب ان کے ایسے ہی کالموں کامجموعہ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف حمید اختر کے چاہنے والوں کو پسند آئے گی بلکہ وہ قارئین بھی ان کو پسند کریں گے جو ابھی ان سے متعارف نہیں۔ اس حوالے سے مولف کی کوشش لائق تحسین ہے۔
وحشت ہی سہی(افسانے)
مصنفہ:نیلم احمد بشیر،قیمت:450روپے
ناشر: سنگ میل پبلیکیشنز،25۔ شارع پاکستان(لوئر مال) لاہور
یہ ایک خوبصورت خاندان ہے، مرحوم احمدبشیر سے بھی سب ہی واقف ہیں، ادیب، صحافی ، دانشوراور فلم ڈائریکٹر تھے۔ ان کی بہن بیگم پروین عاطف اور بچوں میں سے ہرایک نے بھی خوب نام کمایا۔ بالخصوص بشریٰ انصاری جو ممتاز ٹیلی ویژن آرٹسٹ ہیں اور نیلم احمد بشیر جو شاعرہ اور افسانہ نگارہیں۔ اور پھر بچوں کے بچے بھی آج معاشرے کے مختلف شعبوں میں اس گھر کا نام روشن کررہے ہیں۔اس گھرانے کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ یہاں ہربڑے ادیب کا آناجانارہا۔ ممتازمفتی نے نیلم احمد بشیر کو دیکھاتوکہنے لگے کہ یہ احمد بشیر کی سب سے ٹیلنٹڈ بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایک دن دنیائے ادب میں اپنی جگہ ضرور بنائے گی۔ خوداحمد بشیر نے ایک بار نیلم کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی نظم دیکھی تو بہت حیران ہوئے اور بقول ان کے پریشان بھی۔ کہاکرتے تھے کہ اللہ اس کی ذہانت کو قابو میں رکھے مگر یہ لڑکی خوفناک معلوم ہوتی ہے۔آج نیلم احمد بشیر نے اپنے باپ کے سارے ''خوف'' اور ''ڈر'' سچ کردکھائے ہیں۔
ان کی تصانیف ''ایک تھی ملکہ''،''گلابوں والی گلی''، ''چار چاند''، '' جگنوؤں کے قافلے '' اور '' ستمگرستمبر'' کے بعد اب 'وحشت ہی سہی' کے سارے افسانے پڑھ کر آپ خود اس حقیقت کو مان لیں گے۔ اس مجموعہ میں موجود سب کہانیاںگہرا تاثرلئے ہوئے ہیں اور ہمارے معاشرے کے بہت سے اہم مسائل کو اجاگرکرتی ہیں۔ اس شاعرہ اور افسانہ نگار کے کام کو دیکھ کر بانو قدسیہ نے کہاتھا کہ اس کی کہانی کا جوانجام ہوتاہے وہ قاری کو حیرت میں ڈال دیتاہے۔
روسی مسلمانوں کے تین سوال
مصنف: محمد سلطان المعصومی
مترجم: مختار احمد ندویؒ،ناشر:طارق اکیڈمی، فیصل آباد
صفحات: ایک سو دو
بلاشبہ دور حاضر میں فرقہ واریت کے فتنہ نے شدت اختیار کر لی ہے، فرقہ بندی کی وجہ سے اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ جدھر نظر دوڑائی جائے ادھر اسی کا جھگڑا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ایک فرقہ کی پیروی کو جائز، واجب بلکہ فرض سمجھتا ہے اور دوسرا سرے سے اس کا انکاری ہے۔ ان حالات کی وجہ سے نہ صرف عام مسلمان بلکہ وہ غیر مسلم جو مشرف بااسلام ہونا چاہتے ہیں، مشکل میں پڑ چکے ہیں۔ بدنصیبی اور کم علمی کا یہ عالم ہے کہ جن لوگوں (امت محمدیہؐ) کو اسلام کی تبلیغ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، وہ ہی اس کی ترویج میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل چند چاپانیوں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو وہاں رہائش پذیر ہندوستانی مسلمانوں نے ان چاپانیوں کو مسلمان ہو کر ''حنفی'' مذہب اختیار کرنے پر اصرار کیا جب کہ دوسری طرف انڈونیشیا اور جاوا کے مسلمان بضد ہوئے کہ انہیں ''شافعی'' مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ یہ جھگڑا دیکھ کر حیرت زدہ چاپانیوں کا فیصلہ ڈگمگا کیا، ایسے میں وہاں قیام پذیر روس کے کچھ مسلمانوں نے فکرمندی کے عالم میں اسلام کے عظیم سکالر محمد سلطان المعصومی کو تین سوالات بھجوائے:۔
(1) دین اسلام کی حقیقت کیا ہے؟(2) مذہب کے معنی کیا ہیں؟(3) اور کیا یہ ضروری ہے کہ جو شخص مسلمان ہونا چاہے، وہ چاروں مذاہب (مسالک) میں سے کسی ایک کا ضرور پابند ہو؟
مصنف نے بڑے درد بھرے انداز میں ان سوالات کا جواب اس کتاب کی صورت میں دیا ہے۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک غیر جانبدار شخص یہ سوچنے اور جاننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اسلام کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ کتاب صرف کوئی روایتی تحریر نہیں بلکہ ایک تحریک کی حیثیت رکھتی ہے، جو اسلام میں بے سود اختلافات کو ختم کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔
فریب آرزو
مصنف:ناصر الدین احمد
قیمت:240روپے،صفحات:120
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ لاہور
حساس انسان اپنے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا سے بہت زیادہ اثر لیتا ہے خاص طور پر ایسے مسائل جو پورے معاشرے کو اپنے نرغے میں لئے ہوں اور سالہا سال گزرنے کے باوجود جوں کے توں موجود ہوں، اسی طرح فکری الجھنیں بھی انھیں گھیرے رہتی ہیں اور ہمہ وقت انھیں حل کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ تاہم یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر حساس فرد ان کے بارے میں مختلف انداز میں سوچتا ہے۔ فریب آرزو بھی ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جن سے ناصر الدین احمد کی حساسیت نمایاں نظر آتی ہے تاہم ان کا انداز صوفیانہ رنگ لئے ہوئے ہے۔ وہ اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں، انھوں نے اپنے ان مضامین کو خود کلامی قرار دیا ہے تو بالکل ٹھیک کہا ہے ، کیونکہ ان کا انداز ایسا ہی ہے ۔
محبت بھیگتا جنگل
شاعر: احمد حماد
قیمت: 350روپے،صفحات: 134
ناشر: جہانگیر بکس، ڈی بلاک، گلبرگ۲،لاہور
شاعری اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا خوبصورت ذریعہ ہے ۔ اس سے قبل بھی احمد حماد کی دو کتابیں شام بے چین ہے اور ترے خیال کا چاند شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا انداز نئے دور کے تقاضوں کا رنگ ڈھنگ لئے ہوئے ہے، جیسے وہ کہتے ہیں
پہلے بارش ہوتی تھی تو یاد آتے تھے
اب جب یاد آؤ تو بارش ہوتی ہے
ان کے انداز میں سادگی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے
میں تیرے دل میں خلش بن کے رہوں
کیا مجھے اتنی اجازت بھی نہیں ؟
ان کی شاعری کا یہی انداز من بھاتا ہے ، مگر ابھی انھیں رچاؤ اور پختگی کی بہت ضرورت ہے جو گزرا زمانہ عطا کرتا ہے۔ مجلد کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے۔
سارے موسم اپنے
شاعرہ: عمرانہ انعم
صفحات: 128،قیمت: 150روپے
اُس کی فطرت ہے موسموں جیسی
اِس لیے اُس پہ اعتبار نہیں
بلاشبہ شاعری جذبات کے اظہار کا خوبصورت ذریعہ ہے، لیکن اس میں لطافت تب ہی پیدا ہوتی ہے، جب لکھنے والا بھی اندر سے خوبصورت اور تخلیقی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ زیرتبصرہ کتاب کی شاعرہ ان دونوں شرائط پر پورا اترتی ہیں۔ ان کی شاعری معیار کی حد تک قاری کے لئے نہایت پُر اثر ہے، اس شاعری میں جذبہ و احساس کے حقیقی وجود کے ساتھ تاثیر کا بہاؤ قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ مذکورہ کتاب میں لفظوں کا انتخاب سادہ لیکن پُروقار انداز میں کیا گیا ہے، جسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ شاعرہ کا فکری اور تخلیقی معیار بلندی پرواز کی طرف مائل ہے۔ شاعرہ نے اپنے اس پہلے شعری مجموعہ میں محبوب کی روایتی بے وفائی سے لے کر ماحول اور معاشرے پر چھائی ہوئی بے حسی تک کے تمام مناظر کی نشاندہی کی ہے۔
آزاد کی تقریریں
مولانا ابو الکلام آزاد
قیمت:300روپے
ناشر:مکتبہ جمال ، حسن مارکیٹ ، اردو بازار، لاہور
مولانا ابو الکلام آزاد ممتاز عالم ، ادیب، دانشور اور سیاستدان تھے ۔ ان کی نظر سے معاشرہ کا کوئی پہلو چھپا ہوا نہیں تھا۔ تحریر و تقریر میں انھیں خاص ملکہ حاصل تھا ۔ دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کرتے تو یوں لگتا جیسے انھیں اس موضوع پر ید طولیٰ حاصل ہے ، سننے والا جب کسی اور موضوع پر ان کی بات سنتا تو وہ حیران ہو جاتا اور سوچ میں پڑجاتا کہ مولانا کے علم کے حد کہاں تک ہے ۔ زیر تبصرہ کتا ب میں مولانا ابواکلام آزاد کی تقریریں یکجا کی گئی ہیں جس کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے میںوہ تقریریں شامل ہیں جو انھوں نے 1934ء کے آخر میں بالی گنج کلکتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے خطبہ میں کیں ، جبکہ دوسرے حصے میں چند تقریریں حکومت ہند کی شائع کردہ کتاب سپیچز آف مولانا آزاد سے لی گئی ہیں ۔ یہ وہ تقریریں ہیں جو مولانا نے قیام پاکستان کے بعد اسلام ، تعلیم اور فلسفہ کے موضوعات پر کیں۔
تقریروں میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی، مسلمانوں کے مصائب کا علاج، مساوات کی حقیقت، ایمان کی حقیقت اور اس کی شناخت ، خداکے وفادار بن جائو، تعلیم کے زاویے، مغربی تعلیم کے اثرات ، تعلیم اور مذہب، ادب اور زندگی ، زبان کا مسئلہ اور فلسفہ تعلیم جیسے اہم موضوعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ موضوع کے حوالے سے مولانا کے دلائل قاری کے دل میں اترتے جاتے ہیں ۔ مرتبہ انور عارف نے مولانا کی یہ تقریریں یکجا کرکے علم کے متوالوں پر احسان کیا ہے۔
رومیں ہے رخشِ عمر(آپ بیتی)
مصنف:عبدالسلام خورشید
قیمت:500روپے
ناشر:آتش فشاں، 78ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹائون لاہور
ڈاکٹرعبدالسلام خورشید صحافی بھی بڑے تھے اور استاد بھی اور بڑی بات یہ بھی کہ وہ ایک بڑے اور بلندپایہ صحافی عبدالمجیدسالک کے فرزندتھے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مفکرپاکستان علامہ محمد اقبال کی صحبتوں سے فیض پانے والے ڈاکٹرصاحب نے ایک عرصہ صحافت میں گزارا، روزنامہ انقلاب سے روزنامہ مشرق تک کا سفر طے کیا اور پھر آخری عمر تک صحافی تیارکرتے رہے، 28برس اس شعبے میں گزارے۔ متعدد کتابیں لکھیں جو ایم اے صحافت کے طلبہ وطالبات کے لئے تحصیل علم کا سامان قرارپائیں۔ علامہ اقبال ؒ نے ڈاکٹرصاحب سے کہاتھا کہ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہ بنو، مکمل طورپر آزاد رہو، جو فیصلہ کرناہوخود سوچ سمجھ کر کرو''۔ ڈاکٹرصاحب نے بڑے ڈاکٹرصاحب کی اس نصیحت کو ہمیشہ رہنما سمجھا۔
' رومیں ہے رخشِ عمر' صرف ڈاکٹرصاحب کی آپ بیتی نہیں بلکہ پاکستان کی ایک تاریخ بھی ہے۔اس میں بہت سے آنکھیں کھول دینے والے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کے بھی ہیں اور بعد کے بھی جب یہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہوا، انھوں نے احوال بتایاہے کہ کیسے بڑے بڑے لوگوں کے منہ میںپانی بھرآیا اور تقویٰ اوندھے منہ گرا۔کچھ ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہوا جو پابند صوم وصلوۃ بھی ہوتے تھے اور بازارحسن بھی مسلسل جاتے، وہیں نماز کے لئے جائے نماز بچھ جاتا۔ اپنی دل پسند طوائفوں کے لئے انھوں نے بسم اللہ، ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کے نام گھڑ رکھے تھے۔ اسی طرح ترقی پسندادب کی تحریک کے بعض ایسے پہلو بیان کئے جنھیں پڑھ کر بہت سے لوگوںکے آنکھیں شعلے برسانے لگیں گی۔اس آپ بیتی میں مختلف سیاسی اور ادبی تحریکوں کی تفصیل ہی نہیں سو سال قبل کا لاہور بھی پوری طرح ٹھاٹھیں مارتا نظرآتاہے۔ اس دور کی سماجی ، ادبی اور علمی شخصیات اور محافل کا احوال ، ثقافتی مراکز ، ریستورانوں اور قہوہ خانوں کی چہل پہل۔ عرب ہوٹل، نگینہ بیکری ، کافی ہائوس اور انڈیا ٹی ہائوس میں آمدورفت رکھنے والی شخصیتوں اور جمنے والی حفلوں کی تفصیلات نے لاہور کے ماضی کا ثقافتی سراپا زندہ جاوید کردیاہے۔
جاپان ، سنگاپور، سری لنکا ، ہالینڈ ، فرانس اور انڈونیشیا وغیرہ کے علاوہ جب 1967ء میں شاہ ایران کی رسم تاجپوشی ہوئی اور ایران نوروسرور میں غرق تھا، اس کا آنکھوں دیکھا حال مصنف نے اس قدر دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے کہ قاری خود کو وہاں موجود محسوس کرتاہے۔
مصنف: عامر بن علی ،قیمت:400روپے
ناشر:نستعلیق مطبوعات، F-3 الفیروز سنٹر،غزنی سٹریٹ، اردوبازارلاہور
جاپان ایسا ملک ہے جہاں جاکر تیسری دنیا ہی کے لوگ نہیں بلکہ انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کے باشندے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ عالمی جنگوں میں تباہ ہوجانے کے باوجود چند برسوں میں حیرت انگیز ہمہ جہتی ترقی کے ذریعے دنیا کے ممتاز ترین ممالک میں سرفہرست آچکاہے۔ بہت سے پاکستانی جنھیں براہ راست جاپانی معاشرے سے متعارف ہونے کا موقع میسر نہیں آیا، جاپانی قوم کی اس تیز رفتار ترقی کا راز سمجھ نہیں سکتے۔ بلکہ اس کی ترقی کی بہت سی جہتوں سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔
زیرنظرسفرنامے میں عامر بن علی نے جاپان کو یہاں متعارف کرانے کی ایک قابل قدرکوشش کی ہے۔ وہ ایک طویل عرصہ جاپان میں رہے، انھوں نے اس حیران کردینے والی قوم کو ہرزاویے سے دیکھا، اور اس قوم کے مطالعے سے حاصل شدہ اسباق کو اپنی قوم کے سامنے رکھ دیا۔پروفیسر امیریٹس خواجہ محمدزکریا عامربن علی کی اس تصنیف کو پاکستانی قوم کے لئے ایک تحفہ تصورکرتے ہیں۔ اوساکا یونیورسٹی ، اوساکا جاپان میں اردو کے استاد پروفیسر سویامانے اسے 'سفرنامہ' ماننے کو تیار ہیں نہ ہی 'تحقیقی مقالہ'، وہ اسے 'تجربہ نامہ' قراردیتے ہیں۔
یقینا اس کتاب کی پاکستانی معاشرے کو بہت ضرورت ہے، شاید اس کے مطالعے سے چند افراد کے دلوں میں یہ جذبہ پیداہوجائے کہ ہمیں بھی اپنے ملک اور قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے جاپان سے کچھ سیکھناہے۔
قصہ ایک صدی کا
مولف: علامہ عبدالستار عاصم
صفحات : سات سو تیس،قیمت : تین ہزار روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل
پاکستان کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ بزرگ اور موجودہ نوجوان نسل میں سے تمام پڑھے لکھے ،باشعور اور روزانہ اخبارات پڑھنے والے تمام افراد حمید اختر کے نام سے بخوبی واقف ہیں۔ حمید اختر نہ صرف پاکستان میں معروف تھے بلکہ قیام پاکستان کے وقت بھی اپنی نمایاں سیاسی ، ادبی اور صحافتی خدمات کے باعث ہندوستان اور پاکستان میں جانے پہچانے تھے۔ وہ کئی اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز ، مساوات اور دیگر اخبارات شامل ہیں جبکہ ''آزاد'' کے تو وہ بانیوں میں شامل تھے۔ یوں تو حمید اختر کی زندگی پر بہت سی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور لکھی بھی جائیں گی۔ اس سے پہلے ان پر ایک کتاب ''حمید اختر'' شائع ہوکر پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ اب یہ ایک اور کتاب ہے۔ زیرنظر کتاب میں مولف نے حمید اختر کے اپنے لکھے ہوئے ان کی زندگی کے آخری دوسالوں کے تمام کالم شامل کردیے ہیں جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تین سو کے قریب ہے۔
ان کالموں کے مطالعہ سے قارئین کو محسوس ہوگا کہ مثبت سیاست اور بھرپور صحافت پر مبنی زندگی گزارنے کے بعد بھی حمید اختر مالی حوالوں سے تہی دست تھے لیکن تجربے اور دانش کے حوالے سے حددرجہ دولت مند تھے۔ وہ ترقی پسندی کے خیالی اور زبانی دعوے دار نہ تھے بلکہ انہوں نے عملاً ایک ترقی پسند کی طرح زندگی گذاری۔ وہ حددرجے بے ساختگی اور سادگی کے ساتھ ہر وہ بات اپنے کالموں میں لکھ دیتے تھے جو ان کے دل میں ہوتی تھی۔اسلام کے نام پر ملک میں جاری قتل وغارت پر وہ بہت کڑھتے تھے اور اس سلسلے میں ذمہ دار طبقوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے تھے ۔
ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن اور لاقانونیت پر بھی ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔ وہ علمی، ادبی، تصنیفی ، سیاسی اور تالیفی نزاکتوں کو جس طرح بیان کرتے تھے، یہ ان کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ مذکورہ کتاب ان کے ایسے ہی کالموں کامجموعہ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف حمید اختر کے چاہنے والوں کو پسند آئے گی بلکہ وہ قارئین بھی ان کو پسند کریں گے جو ابھی ان سے متعارف نہیں۔ اس حوالے سے مولف کی کوشش لائق تحسین ہے۔
وحشت ہی سہی(افسانے)
مصنفہ:نیلم احمد بشیر،قیمت:450روپے
ناشر: سنگ میل پبلیکیشنز،25۔ شارع پاکستان(لوئر مال) لاہور
یہ ایک خوبصورت خاندان ہے، مرحوم احمدبشیر سے بھی سب ہی واقف ہیں، ادیب، صحافی ، دانشوراور فلم ڈائریکٹر تھے۔ ان کی بہن بیگم پروین عاطف اور بچوں میں سے ہرایک نے بھی خوب نام کمایا۔ بالخصوص بشریٰ انصاری جو ممتاز ٹیلی ویژن آرٹسٹ ہیں اور نیلم احمد بشیر جو شاعرہ اور افسانہ نگارہیں۔ اور پھر بچوں کے بچے بھی آج معاشرے کے مختلف شعبوں میں اس گھر کا نام روشن کررہے ہیں۔اس گھرانے کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ یہاں ہربڑے ادیب کا آناجانارہا۔ ممتازمفتی نے نیلم احمد بشیر کو دیکھاتوکہنے لگے کہ یہ احمد بشیر کی سب سے ٹیلنٹڈ بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ ایک دن دنیائے ادب میں اپنی جگہ ضرور بنائے گی۔ خوداحمد بشیر نے ایک بار نیلم کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی نظم دیکھی تو بہت حیران ہوئے اور بقول ان کے پریشان بھی۔ کہاکرتے تھے کہ اللہ اس کی ذہانت کو قابو میں رکھے مگر یہ لڑکی خوفناک معلوم ہوتی ہے۔آج نیلم احمد بشیر نے اپنے باپ کے سارے ''خوف'' اور ''ڈر'' سچ کردکھائے ہیں۔
ان کی تصانیف ''ایک تھی ملکہ''،''گلابوں والی گلی''، ''چار چاند''، '' جگنوؤں کے قافلے '' اور '' ستمگرستمبر'' کے بعد اب 'وحشت ہی سہی' کے سارے افسانے پڑھ کر آپ خود اس حقیقت کو مان لیں گے۔ اس مجموعہ میں موجود سب کہانیاںگہرا تاثرلئے ہوئے ہیں اور ہمارے معاشرے کے بہت سے اہم مسائل کو اجاگرکرتی ہیں۔ اس شاعرہ اور افسانہ نگار کے کام کو دیکھ کر بانو قدسیہ نے کہاتھا کہ اس کی کہانی کا جوانجام ہوتاہے وہ قاری کو حیرت میں ڈال دیتاہے۔
روسی مسلمانوں کے تین سوال
مصنف: محمد سلطان المعصومی
مترجم: مختار احمد ندویؒ،ناشر:طارق اکیڈمی، فیصل آباد
صفحات: ایک سو دو
بلاشبہ دور حاضر میں فرقہ واریت کے فتنہ نے شدت اختیار کر لی ہے، فرقہ بندی کی وجہ سے اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ جدھر نظر دوڑائی جائے ادھر اسی کا جھگڑا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ایک فرقہ کی پیروی کو جائز، واجب بلکہ فرض سمجھتا ہے اور دوسرا سرے سے اس کا انکاری ہے۔ ان حالات کی وجہ سے نہ صرف عام مسلمان بلکہ وہ غیر مسلم جو مشرف بااسلام ہونا چاہتے ہیں، مشکل میں پڑ چکے ہیں۔ بدنصیبی اور کم علمی کا یہ عالم ہے کہ جن لوگوں (امت محمدیہؐ) کو اسلام کی تبلیغ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، وہ ہی اس کی ترویج میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل چند چاپانیوں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو وہاں رہائش پذیر ہندوستانی مسلمانوں نے ان چاپانیوں کو مسلمان ہو کر ''حنفی'' مذہب اختیار کرنے پر اصرار کیا جب کہ دوسری طرف انڈونیشیا اور جاوا کے مسلمان بضد ہوئے کہ انہیں ''شافعی'' مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ یہ جھگڑا دیکھ کر حیرت زدہ چاپانیوں کا فیصلہ ڈگمگا کیا، ایسے میں وہاں قیام پذیر روس کے کچھ مسلمانوں نے فکرمندی کے عالم میں اسلام کے عظیم سکالر محمد سلطان المعصومی کو تین سوالات بھجوائے:۔
(1) دین اسلام کی حقیقت کیا ہے؟(2) مذہب کے معنی کیا ہیں؟(3) اور کیا یہ ضروری ہے کہ جو شخص مسلمان ہونا چاہے، وہ چاروں مذاہب (مسالک) میں سے کسی ایک کا ضرور پابند ہو؟
مصنف نے بڑے درد بھرے انداز میں ان سوالات کا جواب اس کتاب کی صورت میں دیا ہے۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک غیر جانبدار شخص یہ سوچنے اور جاننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اسلام کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ کتاب صرف کوئی روایتی تحریر نہیں بلکہ ایک تحریک کی حیثیت رکھتی ہے، جو اسلام میں بے سود اختلافات کو ختم کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔
فریب آرزو
مصنف:ناصر الدین احمد
قیمت:240روپے،صفحات:120
ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ لاہور
حساس انسان اپنے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا سے بہت زیادہ اثر لیتا ہے خاص طور پر ایسے مسائل جو پورے معاشرے کو اپنے نرغے میں لئے ہوں اور سالہا سال گزرنے کے باوجود جوں کے توں موجود ہوں، اسی طرح فکری الجھنیں بھی انھیں گھیرے رہتی ہیں اور ہمہ وقت انھیں حل کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ تاہم یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر حساس فرد ان کے بارے میں مختلف انداز میں سوچتا ہے۔ فریب آرزو بھی ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جن سے ناصر الدین احمد کی حساسیت نمایاں نظر آتی ہے تاہم ان کا انداز صوفیانہ رنگ لئے ہوئے ہے۔ وہ اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں، انھوں نے اپنے ان مضامین کو خود کلامی قرار دیا ہے تو بالکل ٹھیک کہا ہے ، کیونکہ ان کا انداز ایسا ہی ہے ۔
محبت بھیگتا جنگل
شاعر: احمد حماد
قیمت: 350روپے،صفحات: 134
ناشر: جہانگیر بکس، ڈی بلاک، گلبرگ۲،لاہور
شاعری اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا خوبصورت ذریعہ ہے ۔ اس سے قبل بھی احمد حماد کی دو کتابیں شام بے چین ہے اور ترے خیال کا چاند شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا انداز نئے دور کے تقاضوں کا رنگ ڈھنگ لئے ہوئے ہے، جیسے وہ کہتے ہیں
پہلے بارش ہوتی تھی تو یاد آتے تھے
اب جب یاد آؤ تو بارش ہوتی ہے
ان کے انداز میں سادگی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے
میں تیرے دل میں خلش بن کے رہوں
کیا مجھے اتنی اجازت بھی نہیں ؟
ان کی شاعری کا یہی انداز من بھاتا ہے ، مگر ابھی انھیں رچاؤ اور پختگی کی بہت ضرورت ہے جو گزرا زمانہ عطا کرتا ہے۔ مجلد کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے۔
سارے موسم اپنے
شاعرہ: عمرانہ انعم
صفحات: 128،قیمت: 150روپے
اُس کی فطرت ہے موسموں جیسی
اِس لیے اُس پہ اعتبار نہیں
بلاشبہ شاعری جذبات کے اظہار کا خوبصورت ذریعہ ہے، لیکن اس میں لطافت تب ہی پیدا ہوتی ہے، جب لکھنے والا بھی اندر سے خوبصورت اور تخلیقی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ زیرتبصرہ کتاب کی شاعرہ ان دونوں شرائط پر پورا اترتی ہیں۔ ان کی شاعری معیار کی حد تک قاری کے لئے نہایت پُر اثر ہے، اس شاعری میں جذبہ و احساس کے حقیقی وجود کے ساتھ تاثیر کا بہاؤ قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ مذکورہ کتاب میں لفظوں کا انتخاب سادہ لیکن پُروقار انداز میں کیا گیا ہے، جسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ شاعرہ کا فکری اور تخلیقی معیار بلندی پرواز کی طرف مائل ہے۔ شاعرہ نے اپنے اس پہلے شعری مجموعہ میں محبوب کی روایتی بے وفائی سے لے کر ماحول اور معاشرے پر چھائی ہوئی بے حسی تک کے تمام مناظر کی نشاندہی کی ہے۔
آزاد کی تقریریں
مولانا ابو الکلام آزاد
قیمت:300روپے
ناشر:مکتبہ جمال ، حسن مارکیٹ ، اردو بازار، لاہور
مولانا ابو الکلام آزاد ممتاز عالم ، ادیب، دانشور اور سیاستدان تھے ۔ ان کی نظر سے معاشرہ کا کوئی پہلو چھپا ہوا نہیں تھا۔ تحریر و تقریر میں انھیں خاص ملکہ حاصل تھا ۔ دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کرتے تو یوں لگتا جیسے انھیں اس موضوع پر ید طولیٰ حاصل ہے ، سننے والا جب کسی اور موضوع پر ان کی بات سنتا تو وہ حیران ہو جاتا اور سوچ میں پڑجاتا کہ مولانا کے علم کے حد کہاں تک ہے ۔ زیر تبصرہ کتا ب میں مولانا ابواکلام آزاد کی تقریریں یکجا کی گئی ہیں جس کے دو حصے ہیں ۔ پہلے حصے میںوہ تقریریں شامل ہیں جو انھوں نے 1934ء کے آخر میں بالی گنج کلکتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے خطبہ میں کیں ، جبکہ دوسرے حصے میں چند تقریریں حکومت ہند کی شائع کردہ کتاب سپیچز آف مولانا آزاد سے لی گئی ہیں ۔ یہ وہ تقریریں ہیں جو مولانا نے قیام پاکستان کے بعد اسلام ، تعلیم اور فلسفہ کے موضوعات پر کیں۔
تقریروں میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی، مسلمانوں کے مصائب کا علاج، مساوات کی حقیقت، ایمان کی حقیقت اور اس کی شناخت ، خداکے وفادار بن جائو، تعلیم کے زاویے، مغربی تعلیم کے اثرات ، تعلیم اور مذہب، ادب اور زندگی ، زبان کا مسئلہ اور فلسفہ تعلیم جیسے اہم موضوعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ موضوع کے حوالے سے مولانا کے دلائل قاری کے دل میں اترتے جاتے ہیں ۔ مرتبہ انور عارف نے مولانا کی یہ تقریریں یکجا کرکے علم کے متوالوں پر احسان کیا ہے۔
رومیں ہے رخشِ عمر(آپ بیتی)
مصنف:عبدالسلام خورشید
قیمت:500روپے
ناشر:آتش فشاں، 78ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹائون لاہور
ڈاکٹرعبدالسلام خورشید صحافی بھی بڑے تھے اور استاد بھی اور بڑی بات یہ بھی کہ وہ ایک بڑے اور بلندپایہ صحافی عبدالمجیدسالک کے فرزندتھے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مفکرپاکستان علامہ محمد اقبال کی صحبتوں سے فیض پانے والے ڈاکٹرصاحب نے ایک عرصہ صحافت میں گزارا، روزنامہ انقلاب سے روزنامہ مشرق تک کا سفر طے کیا اور پھر آخری عمر تک صحافی تیارکرتے رہے، 28برس اس شعبے میں گزارے۔ متعدد کتابیں لکھیں جو ایم اے صحافت کے طلبہ وطالبات کے لئے تحصیل علم کا سامان قرارپائیں۔ علامہ اقبال ؒ نے ڈاکٹرصاحب سے کہاتھا کہ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہ بنو، مکمل طورپر آزاد رہو، جو فیصلہ کرناہوخود سوچ سمجھ کر کرو''۔ ڈاکٹرصاحب نے بڑے ڈاکٹرصاحب کی اس نصیحت کو ہمیشہ رہنما سمجھا۔
' رومیں ہے رخشِ عمر' صرف ڈاکٹرصاحب کی آپ بیتی نہیں بلکہ پاکستان کی ایک تاریخ بھی ہے۔اس میں بہت سے آنکھیں کھول دینے والے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کے بھی ہیں اور بعد کے بھی جب یہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہوا، انھوں نے احوال بتایاہے کہ کیسے بڑے بڑے لوگوں کے منہ میںپانی بھرآیا اور تقویٰ اوندھے منہ گرا۔کچھ ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہوا جو پابند صوم وصلوۃ بھی ہوتے تھے اور بازارحسن بھی مسلسل جاتے، وہیں نماز کے لئے جائے نماز بچھ جاتا۔ اپنی دل پسند طوائفوں کے لئے انھوں نے بسم اللہ، ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کے نام گھڑ رکھے تھے۔ اسی طرح ترقی پسندادب کی تحریک کے بعض ایسے پہلو بیان کئے جنھیں پڑھ کر بہت سے لوگوںکے آنکھیں شعلے برسانے لگیں گی۔اس آپ بیتی میں مختلف سیاسی اور ادبی تحریکوں کی تفصیل ہی نہیں سو سال قبل کا لاہور بھی پوری طرح ٹھاٹھیں مارتا نظرآتاہے۔ اس دور کی سماجی ، ادبی اور علمی شخصیات اور محافل کا احوال ، ثقافتی مراکز ، ریستورانوں اور قہوہ خانوں کی چہل پہل۔ عرب ہوٹل، نگینہ بیکری ، کافی ہائوس اور انڈیا ٹی ہائوس میں آمدورفت رکھنے والی شخصیتوں اور جمنے والی حفلوں کی تفصیلات نے لاہور کے ماضی کا ثقافتی سراپا زندہ جاوید کردیاہے۔
جاپان ، سنگاپور، سری لنکا ، ہالینڈ ، فرانس اور انڈونیشیا وغیرہ کے علاوہ جب 1967ء میں شاہ ایران کی رسم تاجپوشی ہوئی اور ایران نوروسرور میں غرق تھا، اس کا آنکھوں دیکھا حال مصنف نے اس قدر دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے کہ قاری خود کو وہاں موجود محسوس کرتاہے۔