علامہ احسان الہی ظہیرشہیدؒ
سعودی فرماں روا شاہ فہد بن عبد العزیز اور عراق کے صدر صدام حسین کی طرف سے علاج کی پیشکشیں ہوئیں
لاہور:
گزرا ہو ا ہر لمحہ ماضی بنتا جاتا ہے اور ماضی بڑا سنگدل ہواکر تا ہے، یہ اگر روئے تورلا تا چلا جاتا ہے اور اگرہنسائے تو ہنساتا چلا جاتا ہے۔ غرض کہ اس کو واپس نہیں آنا ہو تا۔
گزرے ہوئے لمحات کی تاریخ کی جب ورق گردانی کرنے لگتا ہوں، تو آج سے ٹھیک 34سال قبل مینار پاکستان کے سائے تلے ایک خونچکاں واقعہ پیش آیا جس تاریخ کو ہمارے آباو اجداد نے اس مینار کے سایہ تلے جمع ہو کر اسلام اور پاکستان کی عظمت و رفعت کے تحفظ کی قسم کھائی تھی۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ 23مارچ 1987 کو دشمنان اسلام اور نظریہ پاکستان کے مخالفوں نے مینار پاکستان قرب لچھمن سنگھ کے چوک میں جمعیت اہلحدیث کے جلسہ عام میں ٹائم بم کا دھماکہ کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تشدد کی ایک نئی مثال قائم کی جس کے نتیجے میں علامہ احسان الہی ظہیر، علامہ حبیب الر حمن یزدانی، مولانا عبد الخالق قدوسی اور مولانا محمد خان نجیب جسے راسخ العقیدہ علمائے کرام اور دیگر دینی علم کی تڑپ رکھنے والے علما کرام لقمہ اجل بن گئے۔ جمعیت اہل حدیث اور شہدا کے سپہ سالار علامہ احسان الہی ظہیر اس وقت اپنی خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے اور یہ شعر انکی نوک زبان پر تھا۔
کافر ہے تو شمشیر پر کر تا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
گویا اس مرد مومن نے بے تیغ لڑنے کی نہ صرف مثال قائم کی بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا۔ دیو بند عالم دین و محقق مولانا یوسف بنوری (مرحوم) نے شاہی مسجد کے اجتماع میں علامہ مرحوم کی خطابت کی جلوہ سامانیوں اور بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پانے کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں پر آفرین کہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اللہ کا شیر ہے۔ جسے اللہ تعالی نے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے۔
علامہ شہید شیخ برادری کے مشہور سیٹھی خاندان میں 1940 میں پیداہوئے۔ والد بزرگوار حاجی ظہورالہی جو اب بقید حیات نہیں سلفی العقیدہ نیک تہجد گزار بزرگ تھے۔ والد بزرگوار نے اپنے اس ہونہار بر خودار کو کسی اسکول میں تعلیم نہیں دلوائی بلکہ قرآن مجید حفظ کروایا جو کہ علامہ نے 9 سال کی عمر میں مکمل کر لیا تھا۔ اس کے بعد گوجرانوالہ کے مشہور مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں داخل کروایا جہاں انھوں نے جید اور نامور علما کرام سے دینی علوم حاصل کیے۔
علامہ شہید نے ان سے کتب حدیث کی تعلیم حاصل کی، علامہ شہید کو انکی دامادی کا بھی شرف حاصل ہوا۔ مولانا ابو البرکات مدارسی رحمتہ اللہ سے صحیح بخاری پڑھ کر سند فراغت حاصل کرنے کے بعد دینی علوم کی اعلی ترین ڈگری حاصل کرنے کے لیے 1963 میں مدینہ کی بین الا قوامی یونیورسٹی الجامعۃ الاسلامیہ میں داخلہ لیا وہاں چار سال تک الشیخ فنقیطی امام العصر الحافظ محمد المحدث گوندلوی اور دوسرے علما کرام سے حدیث و تفسیر کا کسب کمال حاصل کیا جامعہ سلفیہ اور مدینہ یونیورسٹی کی شہادت العالمیہ کے علاوہ آپ نے ایم اے اردو، ایم اے اسلامیات، ایم اے سیاسیات، ایم اے فلسفہ اور ایم۔ او۔ ایل (قانون) کی تعلیم بھی حاصل کی۔
ان کی ذہانت و فطانت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوتے ہوئے اپنے فاضل شیوخ کو قادیانت پر لیکچر دیتے رہے، پھر جب انکی پہلی کتاب ''القادنیت'' اشاعت کے لیے بھیجی گئی تو ادارہ کے مدیرنے کتاب کا مطالعہ کر کے رائے دی کہ اگر مصنف کے آگے فاضل مدینہ یونیورسٹی لکھ دیا جائے تو انکی کتاب کو چار چاند لگ جائیں گے۔
علامہ نے کہا کہ میں اپنے آپ کو فاضل مدینہ یونیورسٹی کیسے لکھ سکتا ہوں میں تو ابھی زیر تعلیم ہوں، لیکن جب یہ بات وائس چانسلر فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز تک پہنچی تو انھوں نے یونیورسٹی کی گورننگ باڈی سے مشورہ کر کے اسکی اجازت دے دی۔ علامہ مرحوم نے شیخ الجامعہ سے مشورہ کیا کہ اگر میں فیل ہو گیا تو آپکی اس اعلی ڈگری کا کیا بنے گا۔ فضیلۃ الشیخ نے کہا کہ پھر ہم یونیورسٹی بند کر دیں گے۔
1967 کو مدینہ یونیورسٹی سے اعلی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس آئے تو مولانا محمد اسماعیل سلفی نے یکم ستمبر 1967 کو مسجدچنیانوالی کے منبر و محراب کا وارث بنادیا۔ علامہ شہید نے 1968میں سیاست میں قدم رکھا اور بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک ختم نبوت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں اپنے خطاب میں فرماتے ہیں۔'' ہمیں بزدل مائوں نے جنم نہیں دیا، ہمیں ان مائوں نے جنم دیا ہے کہ اگر میں سرور کائنات ختم المرسلین کے لیے پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جاؤں یا سولیوں پر چڑھایا جاؤں تو ہماری مائیں ماتم نہیں کریں گی بلکہ پلٹ کر کہیں گی کہ دیکھو ہمارے بیٹے زندہ کبھی خطیب تھے، مرنے کے بعد بھی منبر پر چڑھے ہوئے ہیں۔''
کلمہ حق کہنے پر آئے تو نہ جنرل ایوب کا رعب داب آڑے آسکا نہ ذوالفقار علی بھٹو اور کھرکی سخت گیری سے دبے اور نہ جنرل ضیاء سے ڈرے، جو کہنا ہوتا تھا بے خوف کہہ دیتے۔ جب مئی 1974میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو جماعت اہلحدیث نے آپ کی قیادت میں دوسری مذہبی جماعتوں کے دوش بہ دوش کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے اپنی تصانیف میں خداداد ذہانت و فطانت سے وہ جوہرو یا قوت کے موتی بکھیرے ہیں کہ جنہیں پڑھ کر علوم دینیہ کے شائقین قلبی اطمینان اختیار کیے ہوئے ہیں۔
علامہ مرحوم کی تمام تصانیف کا موضوع ''فرق'' ہے اور آپ نے اپنی قلیل زندگی میں ہر فرقہ کی تصانیف سے ان کے افکار و عقائد پر بحث کی ہے۔ علامہ شہید کی تصانیف اردو، عربی، انگریزی اور فارسی زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے جماعت اہلحدیث کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ان میں حرکت کی روح پھونکی ۔ قلعہ لچھمن سنگھ کے چوک میں منعقدہ جمعیت اہلحدیث کے جلسہ عام میں جو بزدلانہ کارروائی کی گئی اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اس المناک حادثہ میں علامہ مرحوم کی بائیں ٹانگ اور دایاں بازو شدید زخمی ہوئے تھے مگر علامہ شہید کا صبر و تحمل دیکھ کر یہ امید بندھی تھی کہ آپ انشاء اللہ تعالی صحت یاب ہو جائیں گے۔
علامہ صاحب لاہور کے ایک بڑے اسپتال میں زیر علاج تھے کہ سعودی فرماں روا شاہ فہد بن عبد العزیز اور عراق کے صدر صدام حسین کی طرف سے علاج کی پیشکشیں ہوئیں۔ شاہ فہد بن عبد العزیز نے تو ساتھ ہی خصوصی طیارہ بھی روانہ کردیا اور اس طرح علامہ شہید کو مورخہ 28مارچ 1987کو ریاض کے ملٹری اسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں معالجین کی خصوصی ٹیم نے آپ کا معائنہ کیا لیکن چونکہ آپ کے پورے جسم میں بم کا زہریلا مواد سرایت کر گیا تھا اس لیے آپ 30 مارچ 1987 کو انتقال کر گئے۔ سعودی عرب میں آپ کا سرکاری طور پر سوگ منایا گیا اور آپ کی نماز جنازہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز نے پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
گزرا ہو ا ہر لمحہ ماضی بنتا جاتا ہے اور ماضی بڑا سنگدل ہواکر تا ہے، یہ اگر روئے تورلا تا چلا جاتا ہے اور اگرہنسائے تو ہنساتا چلا جاتا ہے۔ غرض کہ اس کو واپس نہیں آنا ہو تا۔
گزرے ہوئے لمحات کی تاریخ کی جب ورق گردانی کرنے لگتا ہوں، تو آج سے ٹھیک 34سال قبل مینار پاکستان کے سائے تلے ایک خونچکاں واقعہ پیش آیا جس تاریخ کو ہمارے آباو اجداد نے اس مینار کے سایہ تلے جمع ہو کر اسلام اور پاکستان کی عظمت و رفعت کے تحفظ کی قسم کھائی تھی۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ 23مارچ 1987 کو دشمنان اسلام اور نظریہ پاکستان کے مخالفوں نے مینار پاکستان قرب لچھمن سنگھ کے چوک میں جمعیت اہلحدیث کے جلسہ عام میں ٹائم بم کا دھماکہ کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تشدد کی ایک نئی مثال قائم کی جس کے نتیجے میں علامہ احسان الہی ظہیر، علامہ حبیب الر حمن یزدانی، مولانا عبد الخالق قدوسی اور مولانا محمد خان نجیب جسے راسخ العقیدہ علمائے کرام اور دیگر دینی علم کی تڑپ رکھنے والے علما کرام لقمہ اجل بن گئے۔ جمعیت اہل حدیث اور شہدا کے سپہ سالار علامہ احسان الہی ظہیر اس وقت اپنی خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے اور یہ شعر انکی نوک زبان پر تھا۔
کافر ہے تو شمشیر پر کر تا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
گویا اس مرد مومن نے بے تیغ لڑنے کی نہ صرف مثال قائم کی بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا۔ دیو بند عالم دین و محقق مولانا یوسف بنوری (مرحوم) نے شاہی مسجد کے اجتماع میں علامہ مرحوم کی خطابت کی جلوہ سامانیوں اور بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پانے کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں پر آفرین کہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اللہ کا شیر ہے۔ جسے اللہ تعالی نے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے۔
علامہ شہید شیخ برادری کے مشہور سیٹھی خاندان میں 1940 میں پیداہوئے۔ والد بزرگوار حاجی ظہورالہی جو اب بقید حیات نہیں سلفی العقیدہ نیک تہجد گزار بزرگ تھے۔ والد بزرگوار نے اپنے اس ہونہار بر خودار کو کسی اسکول میں تعلیم نہیں دلوائی بلکہ قرآن مجید حفظ کروایا جو کہ علامہ نے 9 سال کی عمر میں مکمل کر لیا تھا۔ اس کے بعد گوجرانوالہ کے مشہور مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں داخل کروایا جہاں انھوں نے جید اور نامور علما کرام سے دینی علوم حاصل کیے۔
علامہ شہید نے ان سے کتب حدیث کی تعلیم حاصل کی، علامہ شہید کو انکی دامادی کا بھی شرف حاصل ہوا۔ مولانا ابو البرکات مدارسی رحمتہ اللہ سے صحیح بخاری پڑھ کر سند فراغت حاصل کرنے کے بعد دینی علوم کی اعلی ترین ڈگری حاصل کرنے کے لیے 1963 میں مدینہ کی بین الا قوامی یونیورسٹی الجامعۃ الاسلامیہ میں داخلہ لیا وہاں چار سال تک الشیخ فنقیطی امام العصر الحافظ محمد المحدث گوندلوی اور دوسرے علما کرام سے حدیث و تفسیر کا کسب کمال حاصل کیا جامعہ سلفیہ اور مدینہ یونیورسٹی کی شہادت العالمیہ کے علاوہ آپ نے ایم اے اردو، ایم اے اسلامیات، ایم اے سیاسیات، ایم اے فلسفہ اور ایم۔ او۔ ایل (قانون) کی تعلیم بھی حاصل کی۔
ان کی ذہانت و فطانت کا یہ عالم تھا کہ مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوتے ہوئے اپنے فاضل شیوخ کو قادیانت پر لیکچر دیتے رہے، پھر جب انکی پہلی کتاب ''القادنیت'' اشاعت کے لیے بھیجی گئی تو ادارہ کے مدیرنے کتاب کا مطالعہ کر کے رائے دی کہ اگر مصنف کے آگے فاضل مدینہ یونیورسٹی لکھ دیا جائے تو انکی کتاب کو چار چاند لگ جائیں گے۔
علامہ نے کہا کہ میں اپنے آپ کو فاضل مدینہ یونیورسٹی کیسے لکھ سکتا ہوں میں تو ابھی زیر تعلیم ہوں، لیکن جب یہ بات وائس چانسلر فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز تک پہنچی تو انھوں نے یونیورسٹی کی گورننگ باڈی سے مشورہ کر کے اسکی اجازت دے دی۔ علامہ مرحوم نے شیخ الجامعہ سے مشورہ کیا کہ اگر میں فیل ہو گیا تو آپکی اس اعلی ڈگری کا کیا بنے گا۔ فضیلۃ الشیخ نے کہا کہ پھر ہم یونیورسٹی بند کر دیں گے۔
1967 کو مدینہ یونیورسٹی سے اعلی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس آئے تو مولانا محمد اسماعیل سلفی نے یکم ستمبر 1967 کو مسجدچنیانوالی کے منبر و محراب کا وارث بنادیا۔ علامہ شہید نے 1968میں سیاست میں قدم رکھا اور بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک ختم نبوت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں اپنے خطاب میں فرماتے ہیں۔'' ہمیں بزدل مائوں نے جنم نہیں دیا، ہمیں ان مائوں نے جنم دیا ہے کہ اگر میں سرور کائنات ختم المرسلین کے لیے پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا جاؤں یا سولیوں پر چڑھایا جاؤں تو ہماری مائیں ماتم نہیں کریں گی بلکہ پلٹ کر کہیں گی کہ دیکھو ہمارے بیٹے زندہ کبھی خطیب تھے، مرنے کے بعد بھی منبر پر چڑھے ہوئے ہیں۔''
کلمہ حق کہنے پر آئے تو نہ جنرل ایوب کا رعب داب آڑے آسکا نہ ذوالفقار علی بھٹو اور کھرکی سخت گیری سے دبے اور نہ جنرل ضیاء سے ڈرے، جو کہنا ہوتا تھا بے خوف کہہ دیتے۔ جب مئی 1974میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو جماعت اہلحدیث نے آپ کی قیادت میں دوسری مذہبی جماعتوں کے دوش بہ دوش کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے اپنی تصانیف میں خداداد ذہانت و فطانت سے وہ جوہرو یا قوت کے موتی بکھیرے ہیں کہ جنہیں پڑھ کر علوم دینیہ کے شائقین قلبی اطمینان اختیار کیے ہوئے ہیں۔
علامہ مرحوم کی تمام تصانیف کا موضوع ''فرق'' ہے اور آپ نے اپنی قلیل زندگی میں ہر فرقہ کی تصانیف سے ان کے افکار و عقائد پر بحث کی ہے۔ علامہ شہید کی تصانیف اردو، عربی، انگریزی اور فارسی زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے جماعت اہلحدیث کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ان میں حرکت کی روح پھونکی ۔ قلعہ لچھمن سنگھ کے چوک میں منعقدہ جمعیت اہلحدیث کے جلسہ عام میں جو بزدلانہ کارروائی کی گئی اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اس المناک حادثہ میں علامہ مرحوم کی بائیں ٹانگ اور دایاں بازو شدید زخمی ہوئے تھے مگر علامہ شہید کا صبر و تحمل دیکھ کر یہ امید بندھی تھی کہ آپ انشاء اللہ تعالی صحت یاب ہو جائیں گے۔
علامہ صاحب لاہور کے ایک بڑے اسپتال میں زیر علاج تھے کہ سعودی فرماں روا شاہ فہد بن عبد العزیز اور عراق کے صدر صدام حسین کی طرف سے علاج کی پیشکشیں ہوئیں۔ شاہ فہد بن عبد العزیز نے تو ساتھ ہی خصوصی طیارہ بھی روانہ کردیا اور اس طرح علامہ شہید کو مورخہ 28مارچ 1987کو ریاض کے ملٹری اسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں معالجین کی خصوصی ٹیم نے آپ کا معائنہ کیا لیکن چونکہ آپ کے پورے جسم میں بم کا زہریلا مواد سرایت کر گیا تھا اس لیے آپ 30 مارچ 1987 کو انتقال کر گئے۔ سعودی عرب میں آپ کا سرکاری طور پر سوگ منایا گیا اور آپ کی نماز جنازہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز نے پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔